ہر صنف (علاقے) کے مختلف موسم قدرت نے تشکیل فرمائے ہیں۔
انسان کا جسم اس طرح بنایا کہ جس علاقے میں وہ زیادہ عرصے گزارتا ہے، وہاں کی آب و ہوا کا عادی بن جاتا ہے، اب اگر وہ کسی دوسرے علاقے جاتا ہے تو کچھ کی طبیعت بگڑ جاتی ہے۔
کبھی رستے ہی میں تو کبھی دور کے علاقے میں پہنچ کر ۔ اب اس پر بھی انحصار ہوتا ہے کہ فلاں شخص کا جسم کس قدر ماحولیاتی تبدیلی برداشت کرسکتا ہے مثلاً بعض حضرات کو ’حرکتی علالت‘ (موشن سکنیس) عارض ہو جاتی ہے، یعنی وہ ابھی راستے ہی میں ہو تے ہیںکہ چکر، متلی یا قے آ لگتی ہے۔
بعض اشخاص مخصوص علاقے میں پہنچنے کے بعد ایسے عوارض کا شکار ہوتے ہیں، ثابت ہوتا ہے کہ جیسے ہی علاقہ بدلا ، جسم میں کیمیاوی پیچ و خم کا ارتقا شروع ہو جاتا ہے۔آب وہوا کا انسانی مزاج ، طبیعت اور جسمانی ساخت پر اثر انداز ہونا ایک واضع امر ہے۔
بعض اشخاص کو انڈے سے ضرر ہوتا ہے تو بعض کو بڑے یا چھوٹے جانور کے گوشت سے۔ اسی طرح موسمِ بہار میں لاغر الاعصاب (کمزور اور حسیّت کا احساس کرنے والے) اشخاص کو آب و ہوا سے ضرر پہنچتا ہے، کسی کو اس علاقے کا پانی ہی ضرر رسانی کے لیے کافی ہوتا ہے تو کسی کو ہوا۔
ہوا میں دراصل بے تحاشا ذرات پائے جاتے ہیں جنہیں ’سسپینڈڈ ذرات‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، یہ ذرات سانس لینے کے دوران ہوائی نالی میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اب اگر ان میں کوئی جراثیم بھی شامل ہو تو اسے ہوائی نالی میں موجود چھوٹے چھوٹے بال ’سیلیا‘ میں ٹھہرنے کا موقع مل جاتا ہے، یہیں وہ اپنی افزائش کا اغاز کردیتے ہیں۔
ڈسٹ الرجی بھی اسی قسم کی ایک الرجی ہے، اگر ناک کا اندرونی معائنہ کیا جائے توکسی کی ناک میںباریک باریک بال پائے جاتے ہیں تو کسی کی ناک میں موٹے اور قدرے لمبے بال موجود ہوتے ہیں۔ اسی طرح کا حال ہوائی نالیوں کا ہے۔کسی کی ہوائی نالی میں موٹے تو کسی کے باریک سیلیا موجود ہیں۔ انہی کی حرکت سے کھانسی اور چھینک کی راہ ضرر رساں مواد باہر کو نکلتا ہے۔آج کل اکثریت کو سونگھنے کی الرجی کا عارضہ لاحق ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ خوشبو میں کیمیاوی اجزاء ہوتے ہیں۔
مثلاً گل سرخ (روز) کی خوشبو میں ٹینن، نیکٹر(اس اجزاء کو شہد کی مکھی بھی استعمال کرتی ہے) ، سیال چیز، چپکنے والا مواد اور روغن فراری (وولاٹائیل آئل) پائے جاتے ہیں۔ جونہی کوئی شے انسانی جسم میں داخل ہوتی ہے، انسانی جسم میں موجود انزائم (خامرات) اسے اس کے اجزاء میں توڑ دیتی ہیں، اس امر کو توڑنے والا عمل (کیٹالائی سس)کہتے ہیں۔
گل سرخ میں کیوں کہ چپکنے والا جو جزو موجود ہے (اسی کا استسال عطر اور دیگر بخورات میں کیے جانے کا ذمہ دار ہے) ہوائی نالیوں کے سیلیا میں چپک جاتا ہے، اور روغن ِ فراری (کیوں کہ تیل ہے گو کہ بہت رقیق ہے مگر چپکانے کے عمل میں بہت معاون ہے) بھی ہے لہذا سیلیا میں چپک جاتے ہیں۔
اس کے ردِ عمل میں ہوائی نالی اسے دھونے کی غرض سے مواد کا افراز کرتی ہیں، مگر کیوں کہ روغنِ فراری سیلیا کی حرکت کو کم کردیتے ہیں، یہ مواد بھی جمع ہو جاتا ہے، اب ہوائی نالی کا جوف (سوراخ) تنگ ہو نے لگتا ہے اور سانس میں تنگی ، کھانسی، چھینک، نزلہ ، زکام ، غرض کہ جتنی مقدار میں ہوائی نالی مواد کا افراز کرے گی ، پیچیدگی بڑھتی چلے جائے گی وجہ بنتے ہیں۔
اس مواد کو اصطلاح میں ہسٹامین یا رطوبتِ غریبہ کا نام دیا جاتا ہے، اس لیے معالج اس امر سے نپٹنے کے لیے اینٹی ہسٹامین یا مبضح بلغم ( ریشہ رقیق کرنے والی ادویہ) کی ہدایت کرتے ہیں۔
ریشہ رقیق ہونے سے ہسٹامین بہ آسانی ناک یا تھوک کی راہ خارج ہو جاتا ہے۔ نم موسم میں الرجی کا مرض بڑھتا اس لیے نظر آتا ہے کہ بیرونی مواد سیلیا پر اچھی طر ح چپک جاتا ہے، بعض اشخاص کو خاص خوشبوؤں سے یہ عوارض لاحق ہو جاتے ہیں۔ وجہ یہی ہے کہ خوشبو جس شے میں ہو ، دراصل اس شے میں روغن فراری کی موجودگی کا پتہ دیتی ہے، اور تقریباً ہر پھول میںچپکنے والا مواد کی کوئی نہ کوئی مقدار ہوتی ہے، لہذا جسم میں داخل ہو کر ایک ہی کام انجام دیتے ہیں۔
خوشبو ہر پھول کی الگ کیوں ہے، یہ انحصار کرتا ہے، اس میں الکلائیڈ ، سپیونن یز کس قسم کے ہیں، مگر یہ اس قدر وسیع علم ہے کہ مختصراً کہتے ہیں کہ اس پھول کی خصوصیت اور پہچان ہے۔
اگر ہوائی نالی سے افراز کیے جانے والی رطوبت ترش ہے تو خلیات میں کھرانچ (چوٹ) کی موجب بنتی ہے، اگریہ رطوبت قلوی (الکلائین) ہے تو لیس کی موجب بنتی ہے، دوا جو اکثر استعمال کرائی جاتی ہے وہ ہوائی نالی کو چوٹ کرنے اور کھانسی (عوارض) کو ختم کرنے کی دی جاتی ہے، مگر بالغرض چوٹ بھی موجود ہو تو کچھ وقت سکون ضرور ملتا ہے مگر ٹھہر کر دوبارہ پرانے عوارض لوٹ آتے ہیں۔
افسوس کہ اکثر معالج دافع ورم ادویہ کی طرف دھیان نہیں دیتے۔ سیلیا کیونکہ نیچے سے اوپر کی طرف حرکت کرتے ہیں، لہذا موادِ غریبہ کو بذریعہ ناک اور بذریعہ تھوک خارج کرنا طبیعت کو آسان معلوم ہوتا ہے۔ اس وجہ سے الرجی کے مریض ناک پر کپڑا رکھتے ہیں کہ جونہی ناک میں خوشبو پہنچی ناک بند ہونے کی شکایت ہوتی ہے، اگر جلن بھی محسوس ہو تو سٹیم بہتر حل ہے (کلونجی کی بھاپ) اگر جلن نہ ہو تو اینٹی ہیٹامین دواء بھی موثر ہے۔
The post ڈسٹ الرجی کیوں ہوتی ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.