’’بھائی شیر توبہت زخمی ہو چکا،کوئی ایک انجری تو نہیں ہے، کمر، گھٹنے،پاؤں کی انگلیوں کا الگ مسئلہ، بس دعاؤں میں یاد رکھیے گا کہ خیریت سے ٹورنامنٹ نکل جائے‘‘
شاہدآفریدی کی یہ باتیں سن کر مجھے ایک خیال آیا اور میں نے پوچھ بھی لیا کہ پھر تم نے پی ایس ایل کھیلنے پر حامی کیوں بھری، ویسے تو میں جواب جانتا تھا لیکن ان کے منہ سے سننا چاہتا تھا، آفریدی نے جواب میں کہا کہ ’’اپنے پرستاروں کیلیے، جو پورا سال اس لیگ کا انتظار کرتے ہیں کہ مجھے کھیلتے ہوئے دیکھ سکیں،فٹنس کی وجہ سے مجھے مشکل ہوتی ہے لیکن میں لوگوں کو مایوس نہیں کرنا چاہتا تھا،پھر ٹورنامنٹ اپنے ملک میں ہو رہا ہے۔
ندیم بھائی (ندیم عمر) کی بھی خواہش تھی کہ میں ایک بار تو کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی نمائندگی کرؤں،اس لیے حصہ لیا لیکن اب لگتا ہے کہ یہ سفر ختم کرنا پڑے گا‘‘ رات کو آفریدی سے میری یہ بات ہوئی اور صبح ان کی ویڈیو سامنے آ گئی جس میں انھوں نے پی ایس ایل کے بقیہ میچز سے دستبرداری کا اعلان کر دیا تھا،یقیناً اس سے پرستاروں کو مایوسی تو ہوئی ہو گی لیکن لوگوں کو اپنے اسٹار کی تکلیف کا بھی اندازہ لگانا چاہیے جو انھیں کرکٹ فیلڈ اور پھر میچ کے بعد برداشت کرنا پڑ رہی ہوگی۔
ارے میں یہ بتانا تو بھول گیا کہ آفریدی کے ساتھ میری یہ بات کیسے شروع ہوئی دراصل میں نے ٹویٹ کی تھی کہ ’’شیر ہمیشہ شیر ہی رہتا ہے‘‘ اور یہ حقیقت بھی ہے، جتنے فٹنس مسائل کا شاہد آفریدی کو سامنا ہے اس کے باوجود وہ اگر پی ایس ایل میں ایکشن میں نظر آئے تو یہی بہت بڑی بات ہے، پھر اسلام آباد یونائیٹڈ کیخلاف دوسرے میچ میں جس طرح انھوں نے میچ وننگ بولنگ اور رن آؤٹ کیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کھیل کیلیے جذبہ بھی جوان ہے،البتہ اگر آپ فٹ نہ ہوں تو کارکردگی پر اثر تو پڑتا ہی ہے۔
اسی لیے آفریدی نے درمیان میں ہی لیگ کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا، میری چند دن قبل ندیم عمر سے بات ہو رہی تھی ان کا یہ کہنا تھا کہ ’’شاہد آفریدی جیسا اسٹار پاکستان کرکٹ میں کبھی سامنے نہیں آیا‘‘ میں بھی ان سے متفق ہوں، جتنی عوامی مقبولیت ان کی ہے عمران خان صاحب کے علاوہ شاید ہی کسی کے حصے میں آئی ہو۔
اب آفریدی کو کسی چیز کی ضرورت نہیں،ان کا زیادہ تر وقت فلاحی کاموں میں ہی گذرتا ہے لیکن پھر بھی وہ اپنے پرستاروں کیلیے جہاں موقع ملے فیلڈ میں اتر جاتے ہیں، پی ایس ایل کا معیار کسی انٹرنیشنل میچ سے کم نہیں ہوتا، اس میں کھیلتے ہوئے آپ کا سو فیصد فٹ ہونا ضروری ہے، ورنہ ٹیم کو بھی نقصان ہو سکتا ہے، شاید یہی سوچ کرلالا نے یہ فیصلہ کیا،وہ انٹرنیشنل کرکٹ تو کئی برس پہلے چھوڑ چکے تھے اب پی ایس ایل سے بھی ناطہ توڑ دیا، اب کبھی کبھی کسی چھوٹی لیگ میں حصہ لے لیا کریں گے۔
یوں مداحوں کو انھیں ایکشن میں دیکھنے کا موقع مل جائے گا، انھوں نے برسوں پاکستانی شائقین کو اپنے کھیل سے لطف اندوز کیا جس کے لیے شائقین کرکٹ ان کے ہمیشہ شکر گذار رہیں گے، آفریدی کے جانے سے کوئٹہ گلیڈی ایٹرزکو سب سے زیادہ نقصان ہوا، محمد نواز پہلے ہی انجری کی وجہ سے ٹورنامنٹ سے باہر ہو چکے،اب اسپن کا شعبہ خاصا کمزور ہو گیا اور اس کے اثرات ٹیم کی کارکردگی سے نمایاں ہیں ،البتہ امید ہے کہ فائٹر سرفراز ٹیم کو اس مشکل سے نکال لیں گے۔
گلیڈی ایٹرز بالکل ڈاؤن نظر آ رہے تھے لیکن جیسن روئے کی آمد سے ٹیم میں جان پڑ گئی، مسلسل2میچز میں 200 سے زائد رنز کا ہدف عبور کرنا آسان نہیں ہوتا، اسلام آباد یونائیٹڈ کیخلاف جس طرح سرفراز نے میچ فنش کیا وہ قابل تعریف تھا،البتہ لاہور قلندرز اور پشاور زلمی نے گلیڈی ایٹرز کو آؤٹ کلاس کردیا۔
اب اگلے مرحلے میں پہنچنے کے لیے جان لڑانا ہوگی، ویسے مجھے اس بات پر افسوس ہوتا ہے کہ ملکی تاریخ کے کامیاب کپتانوں میں شامل ہونے کے باوجود سرفراز کو وہ مقام نہیں دیا گیا جس کے وہ مستحق ہیں،ایسا لگتا ہے کہ بعض حلقے تو ان کی ناکامیوں کے منتظر رہتے ہیں کہ پھر دل کا غبار نکالیں،وہ غصہ کریں تو بدمزاج کہنے لگتے ہیں۔
کچھ نہ بولیں تو بھی تنقید ہوتی ہے،ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کسی ایک کے اچھا ہونے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ دوسرا بْرا ہوگیا، رضوان ہوں یا سرفراز دونوں ہی ہمارے ملک کے اسٹارز ہیں، ایک زمانہ تھا جب سرفراز کھیلتے رہے اور رضوان کو باہر بیٹھنا پڑا۔
اب معاملہ الٹ ہے، رضوان نے اتنا زبردست پرفارم کیاکہ سرفراز کی پلئینگ الیون میں جگہ نہیں بن رہی، کرکٹ میں ایسا ہوتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اپنے ہی اسٹار کو نیچے گرانا شروع کر دیں،ہمیں سب کو یکساں عزت دینی چاہیے،امید ہے لوگ یہ بات سمجھیں گے،سرفراز پر تو یہ شعر فٹ بیٹھتا ہے کہ
منتظر سب میرے زوال کے ہیں
میرے احباب بھی کمال کے ہیں
آپ حیران نہ ہوں کہ اسے شاعری کہاں سے آ گئی، بس یہ شعرتھوڑا سا یاد تھا باقی گوگل سے دیکھ لیا۔ خیر ابھی تو آپ سب پی ایس ایل کے دلچسپ میچز سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے، ویسے واقعی کرکٹ کا معیار اتنا زبردست ہے کہ ٹی وی اسکرین سے نظریں ہٹانے کا دل ہی نہیں چاہتا، لاہور میں قلندرز نے سماں باندھ دیا، ان کے مداحوں کی تعداد ویسے ہی تمام فرنچائزز سے زیادہ ہے، جب ٹیم ہار رہی ہوتی تھی تب فین فولوئنگ میں کوئی کمی نہیں آتی تھی، اب تو جیتنا شروع کر دیا ہے۔
آپ سوچ سکتے ہیں کہ مداحوں کا جوش و خروش کہاں پہنچ چکا ہوگا،لاہور میں اسی لیے قلندرز کے میچ میں تو اسٹیڈیم میں 50 فیصد سے زائد شائق ہی موجود ہوتے ہیں، اب 100 فیصد کی اجازت مل گئی ہے تو آپ اندازہ لگا لیں کہ کیا حال ہوگا، تالیوں کی گونج، نعروں کی آوازیں، ڈھول باجوں کا شور،یہی چیز ہم مس کر رہے تھے لیکن شکر ہے کہ ملکی حالات ٹھیک ہو گئے اور کورونا کا زور بھی کچھ کم ہوا،اس سے میدانوں کی رونقیں بحال ہو رہی ہیں، ان دنوں پی ایس ایل کی وجہ سے ملک میں میلے کا سا سماں ہے۔
اس ایونٹ کی خاص بات یہی ہے کہ ہر ٹیم ہماری ہے، لاہور کی جیت پر بھی ویسی ہی خوشی ہوتی ہے جس کا احساس کوئٹہ کے جیتنے پر ہوتا ہے، اسلام آباد، کراچی، ملتان اور پشاور اچھا پرفارم کریں تو بھی شائقین جھوم اٹھتے ہیں، ایسے ٹورنامنٹس قومی یکجہتی کو بھی فروغ دیتے ہیں، یہی دعا ہے کہ یہ رونقیں ہمیشہ قائم رہیں۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
The post زخمی شیر اور فائٹر سیفی appeared first on ایکسپریس اردو.