(آخری قسط)
ان لطائف میں سے جو سب سے مزیدار لطیفہ انہوں نے تخلیق کیا ہے وہ یہ ہے کہ مرد قدیم جنسی عمل سے تو واقف تھا لیکن وہ اس چیز سے واقف نہ تھا کہ بچہ اس جنسی عمل کی ہی پیداوار ہے۔ چناںچہ وہ عورت کو ہی تخلیق کے عمل پر قادر سمجھتا تھا۔ اپنے دلائل میں وہ آسٹریلیا اور کچھ اور جگہوں کے موجودہ قبائل کو بھی گھسیٹ لاتے ہیں جو آج بھی کچھ ایسا یقین رکھتے ہیں! اب ان کا تختۂ مشق نہ صرف انسانِ قدیم ہے بلکہ موجودہ دور بھی بن چکا ہے۔
حالاںکہ نہ عہد قدیم میں نہ جدید میں کوئی بھی ایسا مظہر پایا جاتا ہے کہ مرد جنسی عمل سے تو واقف ہو لیکن اس بات سے واقف نہ ہو کہ بچہ اسی عمل کا نتیجہ ہے۔ اس بات کا تو امکان موجود ہے کہ ماں کے پیٹ میں نطفہ ٹھہرنے کے سائنسی عمل سے وہ ناواقف ہو لیکن اس کو یہ علم ہی نہ ہو کہ جب تک مباشرت نہ کی جائے حمل قرار نہیں پاتا، ایک حیران کن تاریخی غلطی ہے۔
اس درفطنی کی ابتدا دراصل 1903 ء میں ڈبلیو –ای-روتھ نامی شخص نے کی۔ اس نے دعویٰ کیا کہ آسڑیلیا میں شمالی کوئنز لینڈ میں رہنے والے “دِیربال” نامی قبیلے کے افراد اس بات سے واقف نہیں کہ بچہ مرد و عورت کے جنسی عمل کی پیداوار ہے بلکہ ان کا ماننا ہے کہ عورت تب حاملہ ہوتی ہے جب وہ ایک پکڑے گئے مینڈک کو ایک چھڑی پر پروئے آگ پر بھونتی ہے اور اسی دوران ایک مرد تحکمانہ لہجے میں اسے ہدایت دے رہا ہوتا ہے کہ “حاملہ ہوجاؤ” یا وہ ایک خواب دیکھتی ہے جس کے مطابق بچہ اس کی رحم دانی میں ڈال دیا گیا ہے۔
چند ہی سالوں بعد 1927ء میں ” برانیسلاف مالینوفسکی” نامی ایک ماہربشریات نے پاپوا نیو گنی کے جزائر ٹروبریانڈ کے مقامیوں کے متعلق یہ دعویٰ بھی کردیا کہ یہ مقامی لوگ پیدائش کے متعلق جو نظریہ رکھتے ہیں وہ اس بات کا ناقابل تردید ثبوت ہے کہ یہ بچے کو عورت کا ایک جزو ہی سمجھتے ہیں اور باپ اور بچے کے درمیان کسی بھی تعلق کو نہیں جانتے۔ یہ بات اس قدر مضحکہ خیز تھی کہ کئی دوسرے علمائے بشریات اس بات کی تحقیق کے لیے روانہ ہوئے اور جب وہ واپس آئے تو ان کی تحقیقات کا نتیجہ مالینو فسکی کی تحقیق سے یکسر جدا تھا۔ ٹروبینڈ جزائر کے لوگوں کا نظریہ یہ تھا کہ حمل مرد کے نطفے اور عورتوں کے حیض کے خون کے مل جانے سے ٹھہرتا ہے۔
یہ بات اس چیز کا مکمل اظہار تھی کہ ان جزائر کا ایسا کچھ ماننا نہیں کہ وہ پیدائش کے عمل میں مرد کے کردار سے ناواقف ہیں! ان علماء کا کہنا تھا کہ مالینو فسکی نے غالباً محض مردوں کی گفتگو سنی جو استعاراتی انداز میں بچے کی پیدائش کو بیان کررہے تھے۔ اس کا اس نظریے سے کچھ لینا دینا نہیں کہ وہ پیدائش کے عمل میں مرد کے کردار سے ناواقف ہوں۔
آسڑیلیا کے جس قبیلے کے متعلق دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ اس حقیقت سے واقف نہیں اس کے متعلق تحقیق مزید پر علم ہوا کہ روتھ نے اس قبیلے میں زیادہ سے زیادہ ایک ماہ گزارا تھا اور اس نے اس قیام کے دوران ان کے ایک لفظ کو پوری طرح نظرانداز کردیا جس کا مطلب تھا “مردانہ تخلیق کار ہونا ” جو مباشرت کے وقت سے لے کر پیدائش کے عمل تک محیط ہے۔ ایک اور حیرت انگیز انکشاف یہ ہوا کہ جتنے بھی معاشروں یا قبائل کے متعلق یہ دعویٰ کیا گیا کہ وہ مباشرت اور پیدائش کے درمیان جو تعلق ہے اس کو نہیں جانتے تھے۔
ان میں سے کسی ایک میں بھی اس لاعلمی کی بنیاد پر یہ احساس سرے سے ہی نہیں پایا گیا کہ “عورت مرد سے افضل یا سردار یا پوجے جانے کے قابل ہے” بلکہ اس کے برعکس ان قبائل کے مرد اپنے آپ کو عورتوں اور بچوں سے افضل خیال کرتے ہیں ۔
یہ نظریہ اپنی اصل میں اس قدر مضحکہ خیز ہے کہ اس کی زیادہ تردید کرنے کی ضرورت نہیں جب کہ نہ تاریخ قدیم میں نہ جدید میں ایسا کوئی تصور یا خیال پایا جاتا ہو۔ اس کے ساتھ یہ بات مکمل طور پر ثابت ہے کہ “انسان قدیم” نے شاید ہر زاویے پر سوچا ہوگا لیکن ان زاویوں پر ہرگز نہیں سوچا ہوگا جس پر فیمنسٹ ماہرین ان کا قیاس کرتے ہیں۔ انسان قدیم کی فکر کا تجزیہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان کو انہی کے عہد میں رکھ کر سوچیں۔ نہ کے ان کے عہد کے متعلق جو کچھ ہم سوچ رہے ہیں اس پر رکھ کر ان کا تجزیہ کیا جائے۔
“مادر ارض ” کے غیرحقیقی اور غیرتاریخی تصور کی ایک تاریخ کو مختصر طور پر جاننے کے بعد ہم دنیا کی قدیم ترین تحریری سرمائے والی سومیری تاریخ پر واپس آتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا ان کے اندر کسی مادر ارض کا تصور موجود تھا۔ عورت کو مادر ارض کے روپ میں دیکھے جانے سے پہلے ہمیں یہ اندازہ لگانا ہوگا کہ سومیریوں کے ہاں ایک “عام عورت” کا تصور کیا تھا اور ایک “دیوی” کا تصور کیا تھا۔
خوش قسمتی سے ہمارے پاس سومیری ادب سے ایک ایسا شہ پارہ موجود ہے جس کی تحریری قدامت کا اندازہ “شارٹ کرونولوجی” کے مطابق بھی 2600 سے 2700 ق۔م کا ہے اور اگر ہم “لانگ کرونولوجی”پر جائیں تو اس کا عرصہ قدامت بعض محققین کے نزدیک تین ہزار ق۔م سے بھی پہلے کا ہے، یعنی آج سے کم و بیش پانچ ہزار سال پہلے ، اور یہ اس کی تحریری قدامت ہے اس کی تخلیقی قدامت کا اندازہ چارہزار ق۔م سے بھی پہلے کا لگایا جاتا ہے یعنی کم و بیش آج سے چھ ہزار سال پہلے۔ یہ نصحتیوں کا وہ مجموعہ ہے جس کو “شروپوک کی نصحیتوں” کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس کے انگلش ترجمے میں سے فالحال ہم ان اقتباسات کا انتخاب کریں گے جو عورت سے متعلق ہیں کہ سومیریوں کی نظر میں عورت کیا تھی:
میرے بیٹے کبھی بھی شادی شدہ عورت کے ساتھ تنہائی مت اختیار کرنا۔
لونڈی کے ساتھ مباشرت مت کرنا وہ تمہیں نچوڑ جائے گی۔
کسی متکبر شخص کے ساتھ گھر کی بنیاد نہ رکھنا، وہ تمہاری زندگی کو ایک لونڈی کی زندگی کی مانند بنا دے گا۔
کسی کی بیٹی کی عزت کی بے حرمتی مت کرنا وگرنہ آنگن اسے جان لے گا۔
کٹائی کے زمانے میں اے میرے بیٹے! کسی لونڈی کی مانند محنت کرو، ملکہ کی طرح کھاؤ، دیکھو ایسا ہی کرنا ۔
طوائف کو مت خریدنا وہ تیز دانتوں والے منہ کی مانند ہے۔
اپنی بڑی بہن کے یوں تابع دار رہو جیسے اپنی ماں کے۔
جب تم کسی لونڈی کو پہاڑ سے خرید کر لاتے ہو تو وہ اچھائی اور برائی اپنے ساتھ لیے آتی ہے۔ اس کی اچھائی اس کے ہاتھوں میں ہوتی ہے اور اس کی برائی اس کے دل میں (پوشیدہ)۔ دل سمندر کی مانند ہے (جس میں ہر طرح کا جان دار ہوتا ہے ) دل سے نہ کبھی اچھائی ختم ہوتی ہے اور نہ ہی وہ کبھی بدی سے پاک ہوتا ہے۔
کسی میلے ٹھیلے کے دوران کسی عورت کا بطور بیوی انتخاب مت کرنا (کیوںکہ) اس کا ظاہر مصنوعی ہے اس کا باطن مصنوعی ہے۔
مرد ایک زرخیز کھیت کی مانند اچھی عورت کا انتخاب کرتا ہے، جس عورت کی اپنی جائیداد ہو وہ گھر کو تباہ کردیتی ہے۔
اپنی بیوی کو قید میں مت ڈالو، اسے مت رلانا۔
اپنی ماں سے گستاخانہ لہجے میں بات مت کرنا، یہ تم سے نفرت کا سبب بن جائے گا۔ اپنی ماں اور خدا کی باتوں پر سوال مت اٹھانا۔ ماں “اتوو” کی مانند مرد کو جنم دیتی ہے۔
ان اقتباسات سے صاف اندازہ ہوجاتا ہے کہ سومیریوں کی نظر میں عورت کا تصور کافی حد تک انسانی تھا۔ بری عورت ان کے نزدیک نظرانداز کردیے جانے کے قابل تھی اور اچھی عورت قابل احترام۔ دنیا کی تمام متمدن تہذیبوں نے عورت کو انہی دو اصولوں پر پرکھ کر اس کا معاشرتی مقام طے کیا ہے۔
اس میں کہیں بھی ایسا کوئی رنگ نہیں جھلکتا کہ معاشرے میں عورت کی، ماسوا نیکی کے یا وہ درجہ جو اس کو رشتے عطا کرتے ہیں، اس کی فضلیت کی کوئی دوسری وجہ ہو یا سومیری معاشرہ ایک مادری معاشرہ ہو یا وہاں پر عورتوں نے کھیتی باڑی کو ایجاد کیا ہو۔ کم از کم سومیریوں کے ہاں محققین کے مطابق ہریالی و فصلوں کا دیوتا مقرر تھا۔
“دوموزی” نام کا یہ دیوتا بھی “نر” تھا اور سومیریوں کی انتہائی قدیم تاریخ میں بھی اس کے سراغ ملتے ہیں۔ اس دیوتا کا دوسرا نام تموز تھا اور اسی نام سے بائبل میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔ سومیری معاشرہ بنیادی طور پر کسان معاشرہ تھا۔ ان کی مذہبی روایات کے مطابق وہ صدیوں سے “ہل چلانے” کے تصور سے واقف تھے جس کے مطابق فیمنسٹ نظریے کے مطابق بھی یہ لازم آتا ہے کہ ان کے ہاں مرد تاریخ کے نامعلوم دور سے ہی معاشروں کے سردار رہے ہوں۔ سومیری معاشرے کو کسی جدید تخیل و درجہ بندی کے حساب سے “مرد و عورت کے مساوی درجات”پر مبنی معاشرہ بھی ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ وہ ایسی کسی درجہ بندی یا اصطلاح سے یکسر ناواقف تھے۔
وہ قدرتی طرز پر زندگی گزار رہے تھے جہاں پر مرد گھر کا سربراہ ہوتا ہے اور فیصلوں کا حق دار۔ عورتوں کا کردار گھر تک محدود تھا اور وہ اس کو ہرگز کوئی ظلم یا جبر نہ سمجھتی تھیں۔ سومیری ادب کی قدیم ترین روایات کے مطابق عورتوں کو پردہ کروایا جاتا تھا اور گھر کی عورت اور لونڈی میں تمیز روا رکھی جاتی تھی۔
مذہب کے نام پر مرد و عورت کا یکساں استحصال کیا جاتا۔ عکادی دور میں تو باقاعدہ جسم فروشی کے پیشے کو “مقدس پیشہ” قرار دے کر مندروں کو ان کے اڈے بنا دیا گیا۔ گوکہ اس کی بنیاد ان کے اصل دین میں ہونے کے بجائے اس وقت کے سیاسی حالات اور اس ان مذہب فروش پروہتوں میں پنہاں تھی جو عکادیوں کے غلبہ پانے کے بعد ان کے تقدیس کے لیے نت نئے طریق کار ایجاد کررہے تھے۔ سومیری اپنی اخلاقی روایات کو مذہب کا جامہ پہنا کر پیش کرتے۔ اس قدیم ترین دور میں “خدا” وہ سب سے بڑا محرک تھا جو معاشروں کو نظم و ضبط کا پابند بناتا۔ ہمارے پاس وہ کہانیاں پہنچی ہیں جس میں انہوں نے اپنی دیویوں کو وہ روپ دیا ہے جیسا کہ وہ ایک مثالی عورت کو دینا چاہتے ہیں۔ یہ کہانیاں صرف ان کے مذہب کا عکس نہیں بلکہ اس تخیل کا بھی عکس ہیں جس کو وہ اپنے معاشرے میں کارفرما دیکھنا چاہتے تھے۔
اس تخیل کو بھی نیکی و برائی کے موجودہ معیار پر نہیں پرکھا جاسکتا، بلکہ سومیری زمانے کے نیکی و برائی کے معیارات پر پرکھا جانا چاہیے۔ اس کے باوجود ان میں عورت کا کردار چاہے عوامی بنیادوں پر ہو یا کوئی دیوی ہو، اس میں ان اخلاقی بنیادوں کی جھلک واضح نظر آتی ہے جس کو آج یورپی معاشرہ یا تخیلات “مشرقی” کہہ کر پکارتا ہے۔
اس معاشرے کی ایک جھلک ہمیں “دوموزی و انانا” کی شادی سے منسوب گیتوں میں ملتی ہے۔ دوموزی ان کے ہاں ہریالی و کاشت کا دیوتا ہے اور یہ بھی وہ کردار ہے جو “محققین جدید” نے اسے دیا ہے۔ اصل تصور سے ہم آج بھی اسی طرح ناآشنا ہوسکتے ہیں جتنا سومیری تہذیب کے دریافت ہونے سے پہلے۔ انانا ان کی سب سے مشہور معروف دیوی ہے۔ بلاشبہ اس کو اگر سومیریوں کی نہیں تو عکادیوں اور اس سے بعد والی تہذیبوں کی “دیوی ماں” اس معنی میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ سب سے زیادہ پوجی گئی، اس کے باوجود کسی بھی روایت میں اس کی نسبت تخلیق یا پیدائش کی جانب نہیں کی گئی۔ یہ ایک عورت کے مختلف پہلوؤں کی عکاس ہے۔
وفاداری، ہرجائی پن، پاک دامنی، جنس پرستی، شہوت و غیرت، خوب صورتی و بدصورتی سب اس میں جمع ہے، لیکن “مادر” کہیں بھی نہیں ہے۔ اس شادی کا تصویری مظہر “اروک کی صراحی” پر کندہ ہے۔ یہ صراحی نما برتن اروک کی کھدائی کے دوران برآمد ہوا اور اس کا درجۂ قدامت ساڑھے تین ہزار ق۔م کا مقرر کیا جاتا ہے۔ اگر محققین کا نظریہ “مقدس شادی” اور اس پر پڑھے جانے والوں گیتوں کے متعلق درست ہے جو کم و بیش اس صراحی پر پیش کردہ منظرنامے سے مطابقت رکھتے ہیں، لیکن یہ اس صراحی کی تخلیق کے کم و بیش آٹھ سے نو صدیوں بعد احاطہ تحریر میں لائے گے یا ابھی تک محض اسی دور تک کا تحریری سرمایہ دریافت ہوسکا ہے، تو پھر یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ جاتی ہے کہ ان گیتوں میں اس معاشرے کی بھی اگر مکمل نہیں تو کچھ جھلک ضرور موجود ہوگی جو آج سے ساڑھے پانچ ہزار سال قبل سومیر میں پایا جاتا تھا۔ ان گیتوں سے جو تاثر ابھرتا ہے وہ یہ ہے کہ دوموزی ایک انسان تھا جو انانا نامی کسی لڑکی کو پسند کرتا تھا۔
ان کی مثال یوں سمجھی جاسکتی ہے کہ آج سے کچھ عرصہ قبل تک بلکہ آج بھی ہمارے ہاں کٹائی کے موسم سے وابستہ میلوں ٹھیلوں پر ہیر رانجھا، سسی پنوں، سوہنی مہیوال وغیرہ کی داستانیں بڑے ذوق و شوق سے پڑھی و سنی جاتی ہیں۔ یہ محض حسن و عشق کی داستانیں نہیں ہیں بلکہ ان میں اخلاقیات کا ایک سبق بھی موجود ہے اور ان میں وہ جنسی لطف بھی موجود ہے جو آج سے محض چند سو سال پہلے کے انسان کے جذبے کی تسکین کردیتا تھا۔ ان داستانوں کو تخلیق ہوئے دو سے تین سو سال سے زیادہ کا عرصہ نہیں گزرا ہوگا۔ مذہب نے خاص طور پر اسلام کی آمد کے بعد جو ترقی کی ہے اور سائنس نے عقل کو جو شعور بخشا ہے اس میں اب یہ ممکن نہیں رہا کہ یہ کردار آنے والے وقت میں “دیوتا یا خدا” کا روپ دھار جائیں۔ کہانی، کہانی ہی رہے گی، لیکن سومیریوں کے ہاں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ خاص طور پر تحریر کی عدم موجودگی کی وجہ سے اس بات کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ یہ کہانیاں اپنی اصل صورت میں موجود رہی ہوں۔
یہ وہی لوک کہانیاں یا گیت تھے جو وہ اپنی مختلف تقریبات و میلوں ٹھیلوں میں پڑھتے اور پھر نہ جانے کتنی صدیاں گزرنے کے بعد اصل کہانی کہیں گم ہوگئی۔ درمیان کی نسلوں نے اپنے واقعات کی بھی آمیزش کردی، کردار دیوی، دیوتاؤں کا روپ دھار گئے اور روایات نے مذہب کی صورت اختیار کرلی۔ لیکن کہانی کی اصل روح آج بھی کہیں کہیں رنگ دکھا دیتی ہے۔
آج سے ہزاروں برس بعد کا انسان جو اس موجودہ تہذیب کے منوں مٹی کے دب جانے کے بعد اگر اسے دریافت کرے اور اس کی کدالیں محض اسی زمانے تک پہنچیں جب ہیررانجھا، سسی پنوں، سوہنی مہیوال ہماری زرعی تہذیب کا ایک لازمی جزو تھے تو عین ممکن ہے کہ وہ یہی سمجھے کہ جس زمانے کو اس نے دریافت کیا ہے اس میں ہیررانجھا کی پوجا کی جاتی تھی اور رانجھا کو ہریالی کا دیوتا بھی خیال کیا جاتا تھا۔ اس لیے ہمیں یہ علم نہیں ہے کہ دوموزی کہ جس نام کا بادشاہ فہرست شاہاں میں طوفان سے پہلے بھی پایا جاتا ہے اور اس کے بارے میں یہ صراحت بھی موجود ہے کہ وہ ایک کسان تھا اور طوفان کے بعد بھی دوموزی نام کا ایک بادشاہ پایا جاتا ہے جو کسان نہیں تھا اور جس کے متعلق یہ قیاس بھی پایا جاتا ہے کہ اس نے پہلی بار مقدس شادی کی رسم سرانجام دی، کب ایک رومانوی کردار سے دیوتا کا روپ دھار گیا اور انانا نام کی عورت کب دیوی کی مسند پر براجمان ہوئی۔
جو بات ہمارے لیے اہم ہے کہ ہم اس اساطیری کہانی سے اساطیر کو الگ کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں اور اصل کہانی اور اس کی روح تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ اسی اصل کہانی، جس کے اجزاء ان اساطیر میں بکھرے پڑے ہیں، کی روشنی میں یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ سومیری معاشرے کی ان کہانیوں میں جن کی نسبت دیوی، دیوتاؤں کی جانب ہے عورت کا کیسا کردار متعین کیا گیا ہے۔
مختلف تہذبیں اپنے تہواروں اور رسوم و رواج اور موسموں کے درمیان ایک مطابقت پیدا کرلیتی ہیں۔ دنیا کی مختلف تہذیبوں میں مختلف موسم “شادی” کے ساتھ منسوب ہیں۔ مثلاً ہمارے ہاں موسم سرما کو عموماً شادیوں کے شروع ہوجانے کا موسم تصور کیا جاتا ہے اور اس موسم کے آغاز کے ساتھ ہی مختلف تقریبات کا انعقاد بھی شروع ہوجاتا ہے۔
شادی کی تاریخ مقرر کرنے کا مرحلہ درپیش ہو تو عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ اچھا سردیوں میں کوئی تاریخ رکھتے ہیں۔ ہماری عیدیں تو چاند کے ساتھ مخصوص ہیں اس لیے موسم بدلتے رہتے ہیں لیکن کرسمس کا دن 25 دسمبر مقرر ہے اور عموماً اس کو برف باری کا آغاز بھی تصور کیا جاتا ہے۔
یہ تصور کرنا محال ہے کہ کرسمس اس لیے منائی جاتی ہے تاکہ برف باری شروع ہو یا برف باری اس لیے شروع ہوتی ہے کہ کرسمس منائی گئی ہے! ان تہواروں پر انسانیت اپنے عقائد کے مطابق خدا کو پکارتی ہے مناجات کرتی ہے ، یہاں تک کے انہی کے نام پر وہ تقریبات بھی منائی جاتی ہیں جن کا ان کے مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ انسان کا مزاج ہزاروں سال گزر جانے کے باوجود نہیں بدلا۔ سومیری یا عکادی بھی آج سے ہزاروں سال پہلے کچھ میلے ٹھیلے تزک و احتشام سے منایا کرتے تھے جن کا تعلق ان کی کٹائی کے موسم سے ہوتا جو کے ہر دیہاتی طبقے خاص طور پر کسان طبقے کی آج تک پہچان ہیں۔ انہوں نے ان کے دن بھی اسی مناسبت سے مقرر کررکھے تھے۔ ان میلوں میں وہ اپنے دیوتا کو بھی لاتے اور ان کی تقدیس پڑھتے۔
یہی تہوار ان کے ہاں مختلف دوسری تمدنی رسوم کی ادائی کا بھی شان دار موقع بن جاتے ہوں گے۔ عین ممکن ہے کہ وہ انہی موسموں کو شادی کے لیے، کچھ معاملات کا فیصلہ کرنے کے لیے، خاندانوں کے مل بیٹھنے کے لیے ایک مناسب موقع محسوس کرتے ہوں جیسے کہ ان کی تقریبات سے ظاہر ہے۔ انہی موسموں میں “مقدس شادی” کا تہوار بھی منایا جاتا جس میں وقت کا بادشاہ یا سردار دیوتا دوموزی کے نقش قدم پر مندر کی کسی پروہت سے بیاہ رچاتا یا ایک رات گزارتا جو انانا کا کردار ادا کرتی۔
محققین کا اندازہ ہے کہ یہ گیت نما کہانیاں انہی تہواروں پر پڑھی جاتیں گوکہ اس بات کا امکان غالب ہے کہ یہ ان کی شادی و بیاہ کی رسومات کا لازم جزو رہی ہوں گی چاہے کوئی بھی موسم ہو۔ ان گیتوں کا بنیادی جزو وہی رومانوی ہے جو عشق سے شروع ہو کر شادی تک اور پھر ایک دردناک انجام تک جا پہنچتا ہے۔ ان گیتوں میں ان کے معاشرے کی جھلک بھی پنہاں ہے اور وہ اخلاقی اسباق بھی جو وہ اپنے عوام کو پڑھانا چاہتے ہیں۔ ثورکلیڈ جیکب سن ان گیتوں کی بہت اچھی وضاحت کرتے ہیں:
“ان تحاریر کے حوالے سے جو دوموزی کے شادی کے پیغام اور انانا کی چاہت سے متعلق ہیں، ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ان کا ظاہر خالصتاً ادبی رنگ لیے ہوئے ہے جو کسی خاص رسم سے متعلق نہ ہو بلکہ ان کا واحد مقصد محض تفریح ہو۔ یہ نازک مزاج کا حامل ادب ہے، جو کے مقبول دیوتاؤں کے لیے ناچ یا کپڑا بننے کے دوران گایا جاتا تھا، یا گانوں پر ناچ کا سماں پیدا کرنے کے لیے۔ ”
یہ گیت متفرق ہیں، جو ایک ہی کہانی یا ایک ہی جذبے سے منسلک نظر آتے ہیں۔ کون سا پہلا ہے کون سا آخری اس کی حتمی شکل ترتیب نہیں دی جاسکتی۔ ایک گیت میں دوموزی کی بہن گشتیانا اپنے بھائی کو انانا کے اشتیاق کے متعلق بتلاتی ہے کہ وہ انانا کے ساتھ کچھ وقت گزار کر آئی ہے اور انانا، دوموزی کے عشق میں پاگل ہورہی ہے۔
میں گھر میں گھو م رہی تھی ، میں گھر میں گھوم رہی تھی
کہ انانا کی نظر مجھ پر پڑ گئی
میرے بھائی ، کیا بتاؤں کہ اس نے مجھے کیا کہا ! کیا بتاؤں!
اے میرے محبتوں و چاہتوں کے رکھوالے بھائی، اے میرے دلبر بھائی
انانا، سوہنی، من موہنی انانا
اس نے اپنے دل کا راز مجھے بتایا ہے (کہ)
جب میں کسی کام میں مصروف تھی ، تو اس کی نظر (تجھ) پر پڑ گئی
نظر کیا پڑی کہ وہ تجھ میں محو ہوگئی، پہلی ہی نظر میں گھائل ہوئی
اے میرے بھائی وہ مجھے اپنے گھر لے گئی، مجھے اپنے آرام دہ بستر پر لٹایا
اور جب میری پیاری انانا خود بھی میرے ساتھ لیٹ گئی ، تو ہم ایک دوسرے سے محو گفتگو ہوئیں
اے میرے دل ربا و دل کش بھائی، اس نے اپنے دل کا راز سرگوشیوں میں مجھ پر کھول دیا
میں جب اس (انانا) کو کچھ چیزیں دے رہی تھی ، تو یوں ظاہر کر رہی تھی
جیسے میں بہت کم زور ہوں، اور ایک بناوٹی لڑکھڑاہٹ کے ساتھ ، اونچی جگہ سے
اس پر گر گئی۔ اے میرے بھائی! اپنے ہونٹ غصے سے چباتے ہوئے (اس نے پوچھا)
میرا پیارا دن کیسے گزارتا ہے۔
دوموزی جو بہن کا اشارہ اچھی طرح سمجھ گیا ہے لیکن اپنے دل کے حال کو آشکار نہیں کرنا چاہتا یوں ظاہر کرتا ہے کہ جیسے وہ محل کو جانا چاہتا ہے لیکن دراصل شوق اشتیاق اس کو انانا تک پہنچنے پر مجبور کررہا ہے وہ کہتا ہے کہ:
مجھے جانے دو، مجھے جانے دو میری پیاری بہن، مجھے محل کو جانے دو۔
گشتیانا بھائی کے ارادے کو اچھی طرح سمجھتی ہے لیکن وہ اس کو جانے دیتی ہے۔ ایک اور نغمہ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انانا اور دوموزی محبت میں گرفتار ہوچکے ہیں۔ انانا کسی جگہ سے ناچنے اور کھیلنے کے بعد واپس آرہی ہے ، دوموزی اپنے کھیتوں میں کام کررہا تھا کہ اس کی نظر واپس آتی انانا پر پڑی اور اس نے مٹیار کا راستہ روک لیا۔ انانا خود بھی چاہتی تھی کہ دوموزی کہیں دکھائی دے لیکن دوموزی کی گستاخیاں بڑھتی جارہی ہیں، انانا گھبرا رہی ہے، شاید اپنی عزت کے خیال سے۔ گیت کے بول انانا کے منہ سے کہلوائے جارہے ہیں:
میں، ایک الہڑ لڑکی، کل سے لہک رہی تھی
میں انانا، کل سے لہک رہی تھی
لہک رہی تھی، دمک رہی تھی، دیوتاؤں کی عظمت کے گیت گا رہی تھی
(تب) وہ مجھے ملا، ہاں وہ مجھے ملا
سردار، اَن کا پیارا مجھے ملا۔ سرتاج نے میرا ہاتھ تھام لیا
کْلی انّا نے اپنے بازو میرے کندھوں کے گرد حمائل کردیے
مجھے کہاں لیے جارہے ہو؟ اے میرے جنگلی سانڈ
مجھے جانے دو، مجھے جانے دو، مجھے گھر جانا ہے
اے ان لل کے پیارے مجھے جانے دو، مجھے گھر جانا ہے
(دیکھو) میں ماں کو کیا بتاؤں گی؟ دیکھو میں نن گل کو کیا بتاؤں گی؟
دوموزی جو انانا کے قرب و تنہائی سے پاگل ہورہا ہے وہ انانا کے اس خوف کو کچھ اہمیت نہیں دیتا۔ اس کی آنکھوں میں قرب کی چمک ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ شاید انانا یہی پوچھنا چاہ رہی ہے کہ ماں کے سامنے دیر سے گھر لوٹنے پر کیا بہانہ کرے گی۔ اس کے علاوہ اسے کوئی مسئلہ نہیں چناںچہ وہ فوراً ایک بہانہ تراش کر انانا کو بتاتا ہے:
میں بتاتا ہوں، میں تمہیں بتاتا ہوں
اے انانا میں تجھے چالاک عورتوں کے بہانے بتاتا ہوں
(کہنا) میری سہیلی میرے ساتھ چوک پر کھیل رہی تھی
اس نے رقص و موسیقی سے میرا دل بہلایا
غم گین نغمے دل نشیں تھے، دل کش نغمے دل نشیں تھے
وقت اتنا دل نشیں تھا کہ گزر گیا!
اس بہانے کے ساتھ اپنی ماں کو مطمئن کرلینا
جب ہم چاندنی رات میں محبت کریں گے تو میں ترے لیے شہزادیوں والا بستر بچھاؤں گا
مجھے اپنی معیت میں محبت بھرا وقت گزارنے دے
اس کے بعد کیا ہوا، لوح کے مکمل ہونے کی وجہ سے اس کا علم نہیں ہوتا لیکن جب لوح پر منقطع سطور کے بعد قصہ آگے بڑھتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ دوموزی اس وقت کے رواج کے مطابق اس کا ہاتھ مانگنے اس کے ساتھ اس کے گھر جارہا ہے۔ محققین اس بات پر مختلف الخیال ہیں کہ ضائع شدہ سطور میں دوموزی اور انانا کے درمیان شادی سے پہلے جنسی رشتہ استوار ہوگیا تھا کہ نہیں۔ میرا اندازہ ہے کہ نہیں وگرنہ کہانی کے تسلسل میں دوموزی فوراً رشتہ مانگنے نہ چل پڑتا۔ شاید انانا نے بس یہ کہہ دیا ہو کہ “بس باقی شادی کے بعد۔”بہرحال انانا کا خوشی کے مارے برا حال ہے اور ایک الہڑ دوشیزہ کی مانند اس کا بس نہیں چل رہا کہ وہ اُڑ کر گھر جا پہنچے اور اپنے محبوب کی آمد سے پہلے اس کو اچھی طرح سنوار لے۔
اس نے میری ماں کے گھر آنے کا فیصلہ کرلیا
میں خوشی میں جھومتی چلی، اپنی ماں کے دروازے پر آگئی ہوں
اس نے میری ماں کے دروازے پر آنے کا فیصلہ کرلیا
میں خوشی سے دوڑتی جارہی ہوں
کوئی میری ماں کو خبر کرے، کہ وہ درودیوار کو معطر کردے
کوئی میری ماں نن گل کو خبر کرے، کہ وہ فرش پر خوشبوئے صنوبر بکھیر دے
اس کا گھر معطر ہے، اس کے الفاظ دل کش
انانا کو یقین ہے کہ دوموزی اس کی ماں کو ضرور پسند آئے گا کیوںکہ وہ اچھے گھرانے سے ہے، مال و اسباب کی کمی نہیں، خوش رو ہے غرض یہ کہ کوئی کمی نہیں۔ چناںچہ وہ اپنے تصور میں ہی سوچ رہی ہے کہ اس کی ماں کیسے دوموزی کا استقبال کرے گی اور اس سے کیا کہے گی۔
اے معزز انسان، بے شک تو پاک دامن وصل کے قابل ہے
اے دوموزی، سوین کا داماد، بلاشبہہ تو پاک دامن وصل کے قابل ہے
اے معزز انسان، ترے تحائف عمدہ ہیں
تری جڑی بوٹیاں جو صحرائی ہیں تمام عمدہ ہیں۔
یہ گیت یہاں پر ختم ہوجاتا ہے۔ ایک اور گیت سے ہمیں علم ہوتا ہے کہ شادی کا دن آپہنچا ہے اور دوموزی روایت کے مطابق اپنے تین دوستوں جن میں سے ایک مچھیرا ہے، ایک کسان ہے اور ایک چڑیوں کو پکڑنے والا ہے، جو اس وقت کے اہم ترین شعبے تھے، کو ساتھ لیے تحائف کے ساتھ انانا کی ڈولی لینے پہنچ گیا ہے۔
اس کو شادی کی تیاریاں مکمل ہوجانے کے بعد انانا نے پیغام بھیجا تھا کہ اب تم اپنے دوستوں و تحائف سمیت آسکتے ہو۔ دوموزی دودھ اور پنیر لایا ہے، کسان دوست گندم کے ڈھیر لایا ہے، چڑیوں کے شکاری کے پاس منتخب پرندے ہیں اور مچھیرا جھینگے یا کیکڑے لے کر آیا ہے۔ جب باراتی انانا کے دروازے پر پہنچتے ہیں تو دوموزی پکار کر انانا کو دروازہ کھولنے کے لیے کہتا ہے۔ انانا کو اشتیاق بہت ہے لیکن وہ مذہبی و خاندانی رسوم و رواج کی پابندی کو لازم سمجھتی ہے۔ اس لیے وہ پہلے ماں سے پوچھنے جاتی ہے کہ کیا وہ دوموزی کے لیے دروازہ کھول دے۔ ماں اس کو وہی ہدایات دیتی ہے جو آج تک مشرقی معاشرے کسی عورت کو رخصت کرتے وقت دیتے ہیں:
میری بیٹی سن! اب وہی ترا باپ ہے، میری بیٹی سن! اب وہی تری ماں ہے
اس کے باپ کی ویسی ہی عزت کرنا جیسے اپنے باپ کی
اس کی ماں کا ویسے ہی خیال رکھنا جیسے اپنی ماں کا
دروازہ کھول دے، دروازہ کھول دے
انانا کو اجازت مل گئی ہے کہ وہ اپنے پیا گھر سدھار جائے لیکن ماں کی ہدایت ہے کہ پہلے وہ اپنے آپ کو ایک دلہن کی مانند سنوار لے۔ دوموزی دروازے پر کھڑا پکار رہا ہے، عشق بے تاب ہے لیکن حسن کو سنورنے کی فکر ہے۔ اور جب حسن سنور چکا ہوتا ہے تو شاید سومیر کی رومانوی شاعری کا سب سے خوب صورت استعارہ وجود میں آتا ہے “چاند کی چاندنی”
انانا نے ماں کی ہدایت کے مطابق
اچھی طرح غسل کیا، خوشبودار تیل میں معطر ہوئی
اپنے بدن کو عروسی جوڑے میں ملبوس کیا
اپنا جہیز کا سامان پاس رکھا
گردن کو لاجورد کے زیورات سے آراستہ کیا
اپنے ہاتھوں میں مہر پکڑی، اور حسینہ انتظار کرنے لگی
دوموزی نے دروازہ کھولا
(اس کے سامنے ) چاند کی چاندنی بکھری ہوئی تھی
یہ گیت جو کے ہماری زبان میں وہ “ٹپے” کہلائے جانے کے زیادہ قابل ہیں جن کو آج بھی شادی بیاہ کی رسومات پر عورتیں ڈھولک کی تھاپ پر گاتی ہیں، کافی تعداد میں ہیں اور غالباً مختلف اوقات کی کسی رسم سے ان کا تعلق ہوگا۔ ان میں بے باکانہ جنسیات بھی ہے، وصل بھی ہے اور فراق بھی۔ یہ مکمل طور پر عورت کے ایک مشرقی تاثر کی نشان دہی کرتے ہیں۔
اور ان سے صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ عورت چاہے عام ہو یا دیوی سومیریوں کے نزدیک اس کا کوئی ایسا کردار نہیں تھا جس کو وہ مادر ارض سے مشابہت دیتے ہوں۔ ہاں عورت کی عزت اور اس کے ایک جائز مقام کا علم ہمیں ان نغمات میں سے ایک نغمے سے ہوتا ہے، جو جب شادی کے بعد جب دوموزی انانا کو گھر لے کر آتا ہے تو دوموزی کے منہ سے گواہا جاتا ہے اور جس کا مقصد ایک نئی دلہن کے دل سے ان خدشات کو دور کرنا ہے جو ہر عورت کے دل میں نئے گھر اور خاوند کے متعلق ہوتے ہیں
چرواہے نے حسینہ کو آغوش میں لیا
(دیکھ) میں تجھے غلام بنا کر نہیں لایا
تیری میز بہترین میز ہوگی، وہی میز جس پر میں خود کھانا کھاتا ہوں
ہم دونوں ایک ہی شان دار میز پر کھانا کھائیں گے
میری ماں آب جو کے حوض کے پاس کھانا کھاتی ہے
میرا بھائی بھی اس (یعنی میرے میز) پر کھانا نہیں کھاتا
میری بہن گشتیانا اس پر کھانا نہیں کھاتی
لیکن تم اپنے ہاتھوں سے اسی میز پر کھانا کھاؤ گی
اے میری دلہن، تجھے میرے لیے کپڑا نہ بننا ہوگا
اے انانا، تجھے میرے لیے دھاگہ نہ لپیٹنا ہوگا
اے میری دلہن تجھے میری خاطر کسی الجھن میں پڑنا نہ ہوگا
اے انانا، تجھے میری خاطر پہاڑی کا موڑ مڑنا نہ ہوگا
یہ ایک عورت کو دیے گئے وہ حسین ترین وعدے ہیں جن کی توقع وہ ایک مشرقی مرد سے کرتی ہے۔ ایک یورپ پروردہ ذہن اس کی نزاکت کو کم ہی سمجھ سکتا ہے۔ ان گیتوں میں وہ گیت بھی شامل ہیں جن میں انانا، دوموزی سے وعدہ لیتی ہے کہ وہ کسی اور کی طرف نہ دیکھے گا، اپنے باپ سے شادی سے پہلے اجازت لیتی ہے، دوموزی سے مختلف چیزوں کا مطالبہ بھی کرتی ہے بلکہ وہ جھگڑا بھی شامل ہے جس میں دونوں اپنے خاندان کی برتری کو ثابت کرتے ہیں کہ میرا خاندان اعلٰی ہے! یہ غالباً دنیا کے قدیم ترین شادی کے ٹپے ہیں جو کے دریافت ہوئے ہیں۔ مختلف محققین نے اپنی طبع خاطر کے مطابق ان کو مختلف ترتیب میں جوڑا ہے جس سے متصل کہانی کا ایک تاثر پیدا ہوتا ہو۔
یہاں پر ثورکلید جیکب سن کی ترتیب و کہانی کے بیانیے کو مد نظر رکھا گیا ہے۔ آج تک ایسے ٹپوں کا مقصد محض تفریح نہیں ہوتا۔ ہمیں آج کے ٹپوں کا بھی علم نہیں کہ وہ کس نے تخلیق کیے ہیں علم ہے تو بس اتنا کہ ان میں رومانس، محبت، شکوہ، جنسیات وغیرہ سب شامل ہیں اور یہ آج بھی بعض معاشروں میں جذبات کی ایسی تسکین کرتے ہیں کہ ان کے بغیر شادی بیاہ کی رسومات کا تصور بھی نہیں ہے۔
ان گیتوں کی مدد سے سومیریوں کے ہاں عورت کا جو روپ ابھرتا ہے وہ بالکل روایتی ہے۔ ان میں عورت کی عزت و عظمت و کردار کا پیغام پوشیدہ ہے، جن نغمات میں بے باکانہ جنسی اعضا یا افعال کا ذکر ہے وہاں بھی دراصل یہ سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ عورت بستر پر اپنے مرد کو ہر طرح مطمئن کرنے کی کوشش کرے۔ جہاں تک رہ گئی یہ بات کہ کیا سومیری بھی اس بات سے ناواقف تھے کہ جنسی عمل کا عمل پیدائش میں کوئی حصہ نہیں ہوتا تو اس کتاب میں کسی اور جگہ تخلیق کی کہانی میں ہم جان جائیں گے کہ ان کا اس اثر سے دور دور تک کوئی تعلق نہ تھا۔
وہ نقش جس میں عورتوں کے جسم سے پودا اگتے دکھایا گیا ہے اس کا کوئی بھی تعلق اس نظریے سے نہیں ہے کہ وہ پیدائش کے عمل کو پودوں کے اگنے جیسا عمل جان کر محض عورتوں کو اس کے قابل سمجھتے تھے۔ قدیم انسان کے نزدیک “دھرتی ماں” یعنی زمین ایک “مادہ” ہے جو پھل و پھول و اناج پیدا کرتی ہے۔ ان نقوش کے متعلق زیادہ سے زیادہ جو بات کہی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ “زمین” کو ایک عورت کے روپ میں پیش کیا گیا ہے کہ جیسے عورتیں بچے کو پیدائش دیتی ہیں ویسے ہی زمین کی کوکھ سے پھل و پھول و پودے اگتے ہیں۔
دنیا کی معلوم ترین تاریخ میں جس کا درجہ قدامت اب پانچ ہزار سال سے بھی آگے بڑھ چکا ہے یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ چکی ہے کہ قدیم تہذیبیں زمین کو مادہ تصور کرتیں اور اس کو عورت سے تشبیہ دیتیں۔ نہ یہ کہ عورت دھرتی ماں کی مانند ہے جو کسی ظاہر جنسی عمل کے بغیر ہی بچہ جنم دیتی ہے۔ اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ ایسا کوئی فہم پایا جاتا تھا کہ عورتوں کے کھیتوں میں کام کرنے سے فصل زیادہ پیدا ہوتی ہے، بلکہ اس کے برعکس ایک اثر ملتا ہے کہ غالباً سومیریوں کے ہاں عورتوں کا کھیتوں یا کاشت کے عمل میں حصہ لینا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ ان گیتوں سے بھی زیادہ پرانی ایک مذہبی روایت کہتی ہے کہ یہ تو اچھی بات ہے کہ تیرے کھیت میں کٹائی کے موسم میں ترا باپ بھی کام کرے لیکن یہ اچھی بات نہیں ہے کہ تیری ماں بھی کام کرے۔
یہ امر تو بہرحال معلوم انسانی تاریخ سے بھی ثابت ہے کہ عورتوں کو قابل احترام دیویاں جان کر ان کی پوجا کی گئی ہے، قرآن میں بھی مشرکین کی ایک صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ خدا کی بیٹیاں مقرر کرتے تھے اور مشرکین مکہ کی ایک ایسی ہی مقرر کردہ بیٹی کا تانا بانا “انانا یا عشتار”تک بھی جا پہنچتا ہے لیکن یہ امر کسی بھی تاریخ سے ثابت نہیں کہ عورتیں تاریخ کے کسی بھی دور میں معاشروں کی سربراہ رہی ہیں اور ان کے افزائش نسل کے عمل کو حیرت یا اسرار کی نظر سے دیکھا جاتا تھا! دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں کی تاریخ میں بھی یہ بات حیران کن ہے کہ سب سے بڑے دیوتا یا خدا کا درجہ کبھی بھی عورت کو نہیں دیا گیا۔ مادر سری معاشرے کا تصور صرف نسوانی تحریک کے تخیل میں پایا جاتا ہے نہ کہ تاریخ یا آثارقدیمہ میں۔
The post مادر ارض کا بت appeared first on ایکسپریس اردو.