افواہ اور حقیقت
مصنف: ذوالفقار علی بھٹو، ترجمہ: الطاف احمد قریشی
قیمت:1000 روپے، صفحات؛256
ناشر: بھٹو لیگیسی فاؤنڈیشن، 158cماڈل ٹاؤن ، لاہور
اس نے عوام کو زبان دی ،اس نے عوام کو اپنے حقوق کے لئے لڑنا سکھایا ، ملک کو بحرانوں سے نکال کر معاشی ترقی کی راہ پر ڈالا، ایسے کتنے ہی کارنامے ہیں جو اس شخصیت سے منسوب ہیں، خاص طور پر جب یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے عوام کو زبان دی تو ذوالفقار علی بھٹو کا نام لینے کی ضرورت نہیں پڑتی ، ہر ذی شعور فوراً سمجھ جاتا ہے کہ یہ کس شخصیت کا ذکر خیر ہو رہا ہے۔ ان کی ذہانت، فطانت اور سیاسی بصیرت کے عالمی مشاہیر بھی معترف تھے ۔
عالمی سطح پر آنے والی تبدیلیوں کا جائزہ لے کر حکمت عملی طے کرنا ان کا خاصہ تھا ۔ زیر تبصرہ کتاب کے بارے میں چیرمین بھٹو لیگیسی فاؤنڈیشن بشیر ریاض کہتے ہیں ’’ افواہ اور حقیقت ‘‘ ذوالفقار علی بھٹو شہید کی جیل میں تحریر کردہ دوسری کتاب ہے ۔ یہ نادر تحریر ان افواہوں اور جھوٹ فروشی کا موثر جواب ہے جو ان کے خلاف جیل میں ہونے کی وجہ سے بے سروپا جھوٹ ، دروغ گوئی اور الزام تراشی پر مبنی بے بنیاد افواہوں پر مشتمل تھیں ۔
یہ کتاب عظیم لیڈر جناب ذوالفقار علی بھٹو شہید کی بے مثال تحریر ہے جس میں سچ اور جھوٹ کا احاطہ کیا گیا ہے ۔‘‘ ادیب و دانشور الطاف احمد قریشی کہتے ہیں ’’ افواہ اور حقیقت ۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی آخری تحریر ہے جس میں انھوں نے ہر اس افواہ کا حقائق کے ذریعے منہ توڑ جواب دیا جو ضیاء الحق اور اس کی آمریت کے حصہ داروں نے اس لیے پھیلائی تاکہ شہید بھٹو کے ساتھ عوام کی بے پناہ محبت اور وابستگی کے طلسم کو توڑا جا سکے۔
اس کتاب کے تیس ابواب شہید ذوالفقار علی بھٹو نے راولپنڈی ڈسٹرکٹ جیل کی کوٹھڑی میں اس وقت تحریر کیے جب لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف ان کی اپیل کی سماعت سپریم کورٹ میں ہو رہی تھی ۔‘‘ انتہائی شاندار کتاب ہے ۔ پاکستانی تاریخ سے آگاہی کے لئے ضرور پڑھنی چاہیے تاکہ حقیقت سے روشناس ہوا جا سکے ۔ کتاب حاصل کرنے لئے بک ہوم مزنگ سٹریٹ ، لاہور (03014568820)سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
قائد اعظم اور افواج پاکستان
مصنف : جبار مرزا، صفحات:224
ناشر: قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل، والٹن روڈ ، لاہور کینٹ (03000515101)
کسی بھی ملک کے دفاع کے لئے اچھی تربیت یافتہ فوج کا وجود لازمی ہے تاکہ کوئی دشمن ملک شب خون مارنے کی جرات نہ کر سکے ۔ ویسے ایسے دانشور بھی موجود ہیں جن کی رائے ہے کہ فوج بس ایک حد تک ہونی چاہیے، معاشی ترقی ، استحکام اورکامیاب خارجہ پالیسی کی موجودگی میں فوج کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ ان کا خیال ہے کہ جب آپ کا دشمن ہی نہیں ہوگا تو اتنی بڑی فوج رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔
ان کی رائے اپنی جگہ مگر فوج نہ ہونے کی صورت میں کوئی بھی ملک سر اٹھا کر نہیں چل سکتا ، اور معاشی استحکام اور خارجہ پالیسی بھی اسی سے جڑی ہوئی ہے ۔ اس لئے ایک ملک کی ترقی کیلئے ایک مضبوط فوجی ادارے کا وجود بہت ضروری ہے ۔
زیر تبصرہ کتاب میں ایسے مضامین شامل ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ قائد اعظمؒ کی نظر میں فوج ملک کے لئے کتنی اہم ہے ۔ محمد رشید قمر ایڈووکیٹ کہتے ہیں ’’اس کتاب میں کل اکیس مضامین ہیں ہر ایک کا مرکزی خیال پاکستانیت ہی ہے ۔
افواج پاکستان جو ہمارا سانجھا اثاثہ ہیں اور جن کا ماٹو ہے ’’ جھنڈے گاڑ کے آنا یا جھنڈے میں لپٹے آنا ‘‘ اس کے بارے میں اس کتاب میں انتہائی تحسین آفرین الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے ، بالخصوص ’’ قیام پاکستان کے ابتدائی ایام اور پاک فوج کا ایثار ‘‘ ایک عقیدت آمیز تاریخ اور حاصل کتاب مضمون ہے ۔ جبار مرزا کی شخصیت نگاری کے شاہکار بھی اس کتاب کا خاصہ ہیں خاص طور سے پروفیسر خاطر غزنوی ، ڈاکٹر شاہد صدیقی اور اسلام غازی ان تینوں ماہرین تعلیم کا تعلق اس کتاب سے یوں بنتا ہے کہ قائد اعظم کی پہلی اور آخری ترجیح تعلیم ہی تھی ۔ ‘‘ ڈاکٹر یوسف عالمگیرین کہتے ہیں ’’ جبار مرزا کا دل وطن اور دھرتی کی سچی محبت میں گوندھا ہوا ہے ۔ ان کے لکھے ہوئے لفظ وطن کی محبت میں رقص کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور ان سے اپنی مٹی کی خوشبو آتی ہے ۔
ان کی کتابیں ان کے مضامین انمول ہیں ۔ انھوں نے ماہنامہ ’ ہلال‘ میں شائع ہونے والے مضامین کو جو کتابی شکل دی ہے تو یہ مضامین بلاشبہ مختلف موضوعات پر لکھے گئے ہیں لیکن ان میں سے اکثر مضامین قومی و ملی موضوعات پر لکھے ہوئے ہیں‘‘ ۔ قائد فوج کے بارے میں کیا سوچتے تھے یہ جاننے کیلئے اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
صدیق سالک ، شخصیت اور فن
مصنف: ڈاکٹر صائمہ علی، قیمت:800 روپے، صفحات:288
ناشر: بک ہوم ، مزنگ روڈ ، لاہور (03014568820)
فوج اور ادب دو بالکل جدا بلکہ یوں کہا جائے کہ متضاد راستے ہیں تو غلط نہ ہو گا ، کیونکہ ایک میں بندوق سے بات کی جاتی ہے تو دوسرے میں قلم سے، ایک طاقت کا مظہر ہے تو دوسرا محبت کا ، یوں اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ وہ فوجی بھی ہے اور ادیب بھی تو بڑا عجب سا لگے گا ، مگر ایسی نادر شخصیات تاریخ کا حصہ ہیں جو فوجی بھی تھے اور ان کا تعلق ادب سے بھی تھا۔
صدیق سالک کی شخصیت میں دونوں عناصر اعلٰی درجے کے پائے جاتے ہیں فوج میں اعلیٰ خدمات انجام دیں، ادب کے میدان میں قدم رکھا تو اعلٰی پائے کا ادب تخلیق کیا ، میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا، پریشر ککر، ہمہ یاراں دوزخ اور سلیوٹ جیسی مقبول تصانیف کے لکھاری کی فوج سے وابستگی سب کے لئے حیران کر دینے والی ہے ، جن کے دل و دماغ میں ان کی شخصیت کے یہ دونوں پہلو نہیں سماتے وہ تنقید کے تیر چلاتے رہتے ہیں ۔
زیر تبصرہ کتاب ڈاکٹر صائمہ علی کا تحقیقی مقالہ ہے ، انھوں نے تحقیق کا حق ادا کر دیا ہے، صدیق سالک کی شخصیت کے کسی پہلو کو تشنٰی نہیں چھوڑا ۔ معروف ادیب عطاء الحق قاسمی کہتے ہیں ’’ صائمہ نے تحقیق کا حق ادا کر دیا ہے ، ان کی نثر بھی اتنی رواں دواں ہے کہ مجھے اس تحقیق میں تخلیق کی خوشبو محسوس ہوئی ہے ۔ میں ان کی غیر جانبداری سے بھی متاثر ہوا ۔
میری طرح صدیق سالک ان کا بھی محبوب ادیب ہے لیکن انھوں نے اس کی سوانح اور ادبی مقام کے حوالے سے گفتگو کرتے وقت کہیں ڈنڈی نہیں ماری ورنہ ہمارے ہاں یہ سمجھایا گیا ہے کہ جس شخصیت کو آپ نے مقالے کے لیے منتخب کیا ہے اس کی زیادہ سے زیادہ مداحی اب آپ کے ذمے ہے ۔‘‘ اسی طرح پروفیسر فتح محمد ملک کہتے ہیں ’’ صدیق سالک شہید کی ذات اور صفات کی پہچان اور تحسین اردو تنقید پر ہنوز ایک قرض ہے ۔
صائمہ علی کی زیر نظر تصنیف اس قرض کو چکانے کی ایک قابل قدر کاوش ہے ۔ انھوں نے اپنے تحقیقی مقالے میں صدیق سالک کی شخصیت اور فن کو عصری تعصبات سے آزاد ہو کر سمجھنے سمجھانے کی کوشش کی ہے ۔ انھوں نے صدیق سالک کے ذہن و ذوق اور کارنامہ فن کا مطالعہ مروجہ تعصبات سے آزاد ہو کر پیش کیا ہے ۔ ‘‘ صدیق سالک کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو جاننے کے لئے اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
لڑکھڑایا مگر چلتا رہا
مصنف: عبدالمجید خاں، قیمت: 600 روپے، صفحات: 152
ناشر: بک ہوم، مزنگ سٹریٹ، لاہور (03014568820)
نگر نگر گھومنا ، نئے نئے مقامات دیکھنا، لوگوں سے ملنا اور مختلف ثقافتوں کا جائزہ لینا اس کا بھی اپنا ہی مزہ ہے ۔ سیلانی طبیعت کے افراد ہر وقت اور ہر حال میں کوئی نہ کوئی ایسی تدبیر کرتے رہتے ہیں کہ انھیں سیاحت کا موقع ملے اس کی وجہ وہ لطف اور مزہ ہے جو ایسے افراد کو سیاحت سے حاصل ہوتا ہے ، اسی وجہ سے انھیں سیاحت میں پیش آ نے والی مشکلات کی بھی پرواہ نہیں ہوتی ۔
سیاحت سے جو مشاہدہ اور تجربات حاصل ہوتے ہیں اس کا کوئی نعم البدل نہیں ۔ اگر کوئی یہ سمجھے کہ وہ گھر بیٹھ کر کتابوں یا دیگر ذرائع کے ذریعے دنیا کے بارے میں آگاہی حاصل کر لے گا تو اسے معلومات تو حاصل ہو جائیں مگر جو عین الیقین سیاح کو حاصل ہوتا ہے اس سے وہ محروم رہے گا ۔ زیرتبصرہ کتاب بھی عین الیقین کی داستان ہے، کینیڈا اور انگلینڈ کے بارے میں انٹرنیٹ سے جتنی چاہیں معلومات حاصل کر لیں مگر مصنف چونکہ عین الیقین چاہتے تھے۔
اس لئے وہ حادثے کا شکار ہونے کے باوجود گھر سے نکل پڑے، اسی لئے سفرنامے کا عنوان لڑکھڑایا مگر چلتا رہا رکھا گیا ہے ۔ پروفیسر حسن عسکری کاظمی کہتے ہیں ’’ یہ سفرنامہ سادہ ، عام فہم اور سلیس زبان میں قاری کے لیے آسانی فراہم کرتا ہے ۔
ابتدا سے انجام تک عبدالمجید خاں اپنے قاری کو اپنا ہم سفر بنا کر ہر مقام کے بارے میں بتاتے چلے جاتے ہیں البتہ کسی مقام کی تاریخ یا ماضی بتانے سے پہلے وہ خود یہ معلومات مختلف ذرائع سے حاصل کرتے ہیں ۔’’ لڑکھڑایا مگر چلتا رہا‘‘عہد موجود کے سفرناموں میں ایک قابل قدر اضافہ ہے۔ ‘‘ فرخ سہیل گوئندی کہتے ہیں ’’کینیڈا اور برطانیہ کی اس سیاحت گردی کو انھوں نے جس کمال انداز میں اوراق میں محفوظ کر لیا وہ نہایت دلچسپی کا باعث ہے ۔
وہ تحریر میں لفاظی اور سفر نامے میں حسیناؤں کے تذکرے کے بغیر اپنے قاری کو متوجہ کرتے اور اس کو کتاب پڑھتے چلے جانے پر مجبور کر دیتے ہیں ۔ اسی لئے زیر نظر سفر نامہ میں سیاحت کیے گئے خطوں، علاقوں ، لوگوں ، سماج اور نظام کو جس طرح انھوں نے بیان کیا ہے وہ پڑھنے والوں کے لیے باعث دلچسپی اور معلومات کا سرچشمہ ہے جو بحیثیت سیاح انھوں نے دیکھا اور کیا ، اس کو باکمال طریقے سے اوراق پر ثبت کر دیا ۔‘‘ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
٭٭٭
وولگا سے گنگا
مصنف: راہل سانکر تیاین، مترجم: عاصم علی شاہ، طفیل احمد خاں
قیمت:1000روپے، صفحات:456
ناشر:نگارشات، میاں چیمبرز، ٹمپل روڈ، لاہور (042-36303438)
انسانی معاشرے کو فکر اور سوچ کے خزانوں سے مالا مال کرنا بہت عظیم کام ہے راہل سانکر تیاین بھی اسی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ وہ متعدد زبانوں کے ماہر، غیر جانبدار محقق ہونے کے ساتھ ساتھ آزادی ہند کی جدوجہد کے متحرک رہنما بھی تھے۔
انھوں نے ہندی میں سفر ناموں کی طرح ڈالی ۔ شعبہ تاریخ ، علم لسانیات ، فلسفہ ، یادداشت نگاری ، الٰہیات ، سوانح نگاری ، ڈرامہ نگاری ، قواعد لسان اور تنقید نگاری پر قابل قدر کام کیا ، نیز تبت سے دریافت ہونے والے بدھ مت کے نامور فلسفیانہ مسودات کی تدوین و تصحیح جیسے کارہائے نمایاں انجام دیئے ۔
انھوں نے 1937– 38 اور بعد ازاں 1947–48 کے دوران لینن گراڈ یونیورسٹی میں علوم الہند کے پروفیسر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں ۔ وہ 1959ء سے تادم مرگ سری لنکا کی ودیا لنکا یونیورسٹی میں فلسفہ بدھ مت کے پروفیسر بھی رہے ۔
زیر تبصرہ کتاب ایک شاہکار ہے جس میں نسل انسانی کے مختلف اداور کو کہانیوں کی شکل میں بیان کیا گیا ہے ، انداز بیان رواں اور شستہ ہے، قاری کو اپنی قید میں لے لیتا ہے اور کوئی بھی کہانی شروع کرنے کے بعد ختم کرنے سے پہلے کتاب بند نہیں کرنے دیتا ۔ نامور مفکر و تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی کہتے ہیں ’’ تاریخی واقعات کو کئی طریقوں سے بیان کیا جاتا ہے ۔
ابتدائی دور میں انھیں شاعری میں بیان کیا جاتا تھا ۔ پھر جب داستان گوئی کا آغاز ہوا تو واقعات کو افسانوی رنگ دے دیا گیا ۔ موجودہ دور میں اب انھیں دستاویزات کی روشنی میں لکھا جاتا ہے ۔
تاریخ کو افسانوی رنگ میں لکھنے والے مورخوں کے مقابلے میں آزاد ہوتے ہیں کہ وہ واقعات کے پس منظر میں اپنے کردار خود تشکیل کرتے ہیں اور ان کے ذریعے تاریخ کے ابتدائی مراحل کی عکاسی کرتے ہیں ۔ راہل سانکر تیاین نے اپنی کتاب ’’ وولگا سے گنگا ‘‘ میں دریائے وولگا سے لے کر دریائے گنگا کے اطراف میں موجود تہذیب کے تاریخی سفر پر انتہائی شاندار انداز میں افسانوں کی صورت میں روشنی ڈالی ہے ۔ ’’ وولگا سے گنگا ‘‘ تاریخ کے ساتھ ساتھ ادبی دلچسپی رکھنے والوں کے لئے ایک بہترین کتاب ہے ۔
خاص طور پر نوجوانوں کو یہ کتاب پڑھنی چاہئے ۔ اس سے انھیں یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ کس طرح ہمارے خطے اور اس کے ارد گرد کی تہذیبیں کن مراحل سے ہو کر پروان چڑھیں ۔‘‘ انسانیت کے تہذیبی سفر کی ان کہانیوں کے مطالعہ سے قاری پر غور وفکر کے نئے در وا ہوتے ہیں اور اسے احساس ہوتا ہے کہ آباؤ اجداد نے اپنی زندگی اور انسانیت کی بقاء کے لئے کس طرح جدوجہد کی اور قدرت نے کیسے رہنما کردار ادا کیا ۔
بدلتے دور کے ساتھ اصول و ضوابط بدلتے جاتے ہیں وہ ان کہانیوں کے ارتقائی بیان میں پڑھنے سے بخوبی سمجھ میں آتا ہے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔ ہماری نوجوان نسل کو معروف دانشور ڈاکٹر مبارک کے مشورے پر ضرور عمل کرنا چاہیئے۔
صلیب سخن
شاعر: بابا پرویز چشتی، قیمت: 800روپے، صفحات368:
ناشر:ملٹی میڈیا افیئرز، شام نگر ، چوبرجی لاہور،(03334222998)
کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں کہ ان کے جاننے اور ملنے والے انھیں دنیا سے جانے کے بعد بھی یاد کرتے رہتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں بنایا ہی ایسا ہوتا ہے ، وہ زندگی کے ہر شعبے پر اپنا اثر چھوڑ جاتے ہیں ۔ بابا پرویز چشتی بھی ایسی ہی شخصیت تھے۔
ادبہ گھرانے سے تعلق کے باعث ان کا ادب سے خاص لگاؤ تھا ۔ نوجوانی میں کئی فلموں کے گیت لکھے اور کہانیاں بھی تحریر کیں ۔ بعد ازاں صحافت میں آ گئے جہاں کرائم رپورٹنگ میں اتنا شاندار کام کیا کہ صحافت کی دنیا کے بابا کہلانے لگے ۔ انقلابی شعراء میں ان کا کوئی ثانی نہیں ۔
انھیں ’شاعر مساوات ‘کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ بچوں کے لئے اصلاحی نظموں پر مشتمل کتاب ’’ کونپل شہزادی ‘‘ بھی لکھی جو موجودہ دور کے بچوں کے لئے کسی تحقے سے کم نہیں ۔ نامور صحافی شہباز انور خان کہتے ہیں ’’ اردو صحافت میں ایسی شخصیات کو محض انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے جنھوں نے نہ صرف بطور صحافی اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے بلکہ اس کے ادبی ( نثر و نظم کے) میدان بھی اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔
جیسے مولانا محمد علی جوہر ، مولانا ظفر علی خان، شورش کاشمیری وغیرہ ۔ بابا پرویز چشتی درحقیقت انھی سینئر صحافیوں اور شاعروں ہی کی ایک لڑی کا حصہ تھے جنھوں نے اس اعلٰی روایت کی پاسداری کی اور اسے زندہ رکھا ۔
سچی بات یہ کہ ان کی شاعری پڑھ کر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ صحافی بڑے تھے یا شاعر ؟ کیونکہ وہ آج کے دور میں مولانا ظفر علی خان کی روایت کے امین تھے ۔
تجھ سے پہلے بھی یہاں پیدا ہوئے تھے نامور
آج دنیا میں مگر ان کا نشاں کوئی نہیں
تاج جس سر پر سحر آپ سجائے دنیا
دار پر شام اسے خود ہی چڑھائے دنیا ‘‘
معروف صحافی اسلم ملک کہتے ہیں ’’ صحافت کے شعبے میں میرا مشاہدہ ہے کہ کرائم رپورٹروں کا شعر و ادب وغیرہ سے کم ہی تعلق ہوتا ہے ۔ بس کراچی میں عارف شفیق تھے اور لاہور میں بابا چشتی ۔
جنھوں نے مشق سخن اور چکی کی مشقت ساتھ ساتھ جاری رکھی ۔ وہ صحافت اور ادب دونوں میں اعلیٰ مقام رکھتے تھے‘‘۔ صحافت اور ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیئے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.