یہ 1960ء کی بات ہے، ترک کسانوں نے ایک ٹیلے پر کھدائی کا آغاز کیا۔وہ وہاں کھیت بنا کر گندم بونا چاہتے تھے۔
دوران کھدائی نیچے سے پتھر کے بنے آلات برآمد ہوئے تو انھیں خاصی حیرانی ہوئی۔ٹیلے سے دس بارہ کلومیٹر دور آباد اورفہ(Sanliurfa) شہر میں ترک محکمہ آثار قدیمہ کا دفتر واقع تھا۔ کسان آلات لیے وہاں پہنچ گئے۔دفتر میں کام کرتے ماہرین اثریات نے آلات دیکھے تو چونک اٹھے۔
تجربے نے انھیں بتایا کہ وہ کافی پرانے ہیں۔آلات کو استنبول یونیورسٹی بھجوا دیا گیا۔ مقصد یہ جاننا تھا کہ آلات کتنے قدیم ہیں۔ جب سائنسی رپورٹ آئی تو افشا ہوا کہ وہ کم از کم گیارہ ہزار چھ سو قبل مسیح میں بنائے گئے تھے۔اب ترک ماہرین کو محسوس ہو گیا کہ ماضی میں ٹیلے پہ کوئی انسانی بستی آباد تھی۔
1963ء میں استنبول یونیورسٹی اور امریکا کی شگاگو یونیورسٹی کے ماہرین نے ٹیلے کا دورہ کیا اور وہاں کچھ کھدائی بھی کرائی۔نیچے سے کچھ ستون برآمد ہوئے۔ ان میں سے بیشتر انگریزی لفظ’’ٹی‘‘(T) سے مشابہہ تھے۔ چونکہ ترکی مسلمان ملک ہے لہذا امریکی ماہرین ان کو قبروں کا کتبہ سمجھے۔ انھوں نے یہ سوچ کر کھدائی بند کرا دی کہ ٹیلے پہ چند سو سال قبل کوئی گاؤں آباد تھا جو اجڑ چکا۔اور یہ کہ پتھر کے آلات کسی رہائشی کی ملکیت ہوں گے جو اب کسانوں کو مل گئے۔
شہر َپیغمبراں
کئی سال گزر گئے۔ 1994ء میں جرمنی کا ممتاز ماہر ِآثار قدیمہ ، کارلس شمیت(Klaus Schmidt)وہاں آ پہنچا۔علاقے کی اثریاتی تاریخ کی کشش اسے وہاں کھینچ لائی تھی۔دراصل یہ علاقہ طوروس پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے جہاں سے دجلہ وفرات اور ان کے کئی معاون دریا نکلتے ہیں۔انہی لیجنڈری دریاؤں کی وادیوں میں قدیم ترین انسانی تہذیبوں نے جنم لیاجنھیں مجموعی طور پہ ’’ وادی دجلہ وفرات(Mesopotamia)اور ’’زرخیز ہلال‘‘(Fertile Crescent)کہا جاتا ہے۔اورفہ کا علاقہ وادی کی شمال مغرب سرحد پہ واقع ہے۔
اورفہ خود نہایت تاریخی مقام ہے۔شہر میں مسجد خلیل الرحمن واقع ہے۔ یہود،نصاری اور مسلمانوں میں بھی روایت ہے کہ اسی مسجد میں وہ گڑھا واقع ہے جس میں آگ بھڑکاکر نمرود نے حضرت ابراہیم ؑ خلیل اللہ کو اندر پھینکا تھا مگر رب تعالی کے حکم سے وہ سرد پڑ گئی۔ وہ گڑھا اب تالاب بن چکا۔چونکہ حضرت ابراہیم ؑ یہود ونصاری اور مسلمانوں کے جد امجد ہیں اسی لیے اورفہ ’’شہر َپیغمبراں‘‘کہلاتا ہے۔
نیا نظریہ
کارلس شمیت قدرتاً اس ٹیلے پر بھی گیا جہاں تیس سال قبل پتھر کے آلات ملے تھے۔وہ ایک تجربے کار ماہرتھا۔اسے ٹیلہ دیکھتے ہی محسوس ہو گیا کہ یہ قدرتی نہیں انسان ساختہ ہے۔وہ اورفہ صوبے کے ایک اور اثریاتی مقام ،نیوا کوری(Nevali Cori )میں کام کر چکا تھا۔وہاں سے بھی دوران کھدائی ٹی شکل والے ستون نکلے تھے، تاہم وہ کافی بلند تھے۔ایسے ستون علم اثریات کی اصطلاح میں ’’میگالتھ‘‘ (Megalith) کہلاتے ہیں۔
خیال ہے کہ قدیم انسان انھیں معاشرتی یا مذہبی رسومات بجا لانے کے لیے تیار کرتے تھے۔اب ٹیلے پہ انھیں دیکھ کر کلاس شمیت جان گیا کہ وہ قبروں کے کتبے نہیں بلکہ میگالتھ ہیں۔اپنا شک دور کرنے کی خاطر اس نے وہاں کھدائی شروع کروا دی۔
اس وقت جرمن ماہر کو بالکل اندازہ نہ تھا کہ اس کا شک تاریخ و آثارقدیمہ کے علوم کی درسی کتب تبدیل کرنے کا سبب بن جائے گا۔وہ ایسا نیا نظریہ تشکیل دے گا جسے جان کر پوری دنیا کے ماہرین ہی نہیں عام لوگ بھی حیرت زدہ رہ جائیں گے۔
زرعی معاشرے کی تشکیل
اس زمانے میں تاریخ اور آثار قدیمہ کے ماہرین طویل تحقیق کے بعد یہ نظریہ قائم کر چکے تھے کہ گیارہ ہزار قبل مسیح میں وادی دجلہ وفرات میں مستقل طور پہ اولیّں انسانی بستیاں آباد ہوئیں۔ان کے مکین کھیتی باڑی کرتے اور مویشی پالتے تھے۔رفتہ رفتہ ہر بستی میں کچھ لوگ اپنی محنت یا خوش قسمتی کی بنا پر امیر ہو گئے۔یوں معاشرے میں درجہ بندی نے جنم لیا۔جلد ہی ارتقا پذیر انسانی معاشرہ حکمران طبقے اور عوام کے مابین تقسیم ہو گیا۔
اس کے بعد معاشرے میں قانون و انصاف اور اخلاقیات کا بول بالا کرنے کے لیے مذہب نے جنم لیا۔مذہب نے انسانی معاشرے میں اخلاقی اقدار اور نظم وضبط کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔جب بستیاں وسیع ہو گئیں اور وہاں مذہب جڑ پکڑ چکا تو انسان نے ابتدائی معبد تعمیر کیے تاکہ وہاں اپنے اپنے دیوتاؤں کی عبادت کر سکیں۔پھر انسانی تہذیب وتمدن نے نشوونما پائی تو بڑے بڑے معبد بنائے گئے۔
درج بالا نظریے کی رو سے گیارہ ہزار سال پہلے کے انسان اتنے وسائل، تجربہ، آلات اور مہارت نہیں رکھتے تھے کہ باقاعدہ کوئی معبد تعمیر کر سکیں۔مگر اورفہ کے ایک غیر معروف ٹیلے پر کھدائی سے جو تعمیرات برآمد ہوئیں، انھوں نے ماہرین تاریخ واثریات کے مندرج بالا نظریے کو ملیامیٹ کر ڈالا۔
نئے انکشافات
مقامی ترک اس ٹیلے کو ’’گوبیکلی تپہ‘‘(Göbekli Tepe)کہتے تھے۔ترک زبان میں اس کا مطلب ہے:’’بڑے پیٹ والی پہاڑی۔‘‘کلاس شمیت نے وہاں کھدائی کرائی تو اس کا شک درست نکلا۔نیچے سے ٹی شکل والے والے ستون نکل آئے۔یہ کھدائی پھر مسلسل جاری رہی۔شام میں ہونے والی خانہ جنگی کی وجہ سے اس میں کچھ تعطل آ گیا۔اس دوران 2014ء میں کلاس شمیت دنیا سے رخصت ہو گیامگر اس کے شاگرد آج بھی گوبیکلی تپہ کی کھدائی کر رہے ہیں۔اس کھدائی سے درج ذیل انکشافات سامنے آئے۔
آج سے پندرہ ہزار سال پہلے اورفہ کا علاقہ کافی سرسبز تھا۔وہاں لمبے چوڑے گھاس میدان واقع تھے جن میں ہرن، غزال، جنگلی بھیڑ، بھیڑیے، شیر، خنزیر،مختلف اقسام کے پرندے اور دیگر حیوان بکثرت پائے جاتے۔
جنگلی اناج بھی اگتا۔پانی کی بھی فراوانی تھی۔چناں چہ اس علاقے میں خانہ بدوش انسانوں نے عارضی بستیاں بسا لیں۔یہ لوگ شکاری اور گھوم پھر کر غذا اکھٹی کرنے والے (Hunter-gatherer) تھے۔ جب سردی کا موسم آتا تو وہ بحیرہ روم کے ساحلی علاقوں کی طرف چلے جاتے۔جب موسم گرما آتا تو واپس اورفہ کے علاقے میں آ بستے۔
یہ لوگ پتھر، ہڈی یا لکڑی سے بنے آلات اپنے روزمرہ کاموں میں استعمال کرتے تھے،مثلاً چھینی، ہتھوڑی، کلہاڑی، درانتی وغیرہ۔ نیزوں اور تیروں کی نوکیں بھی پتھر یا ہڈیوں سے بنائی جاتیں۔مختلف اقسام کی گھاس سے وہ رسی بنانا سیکھ گئے۔ درخت کے تنوں کو بطور پہیہ استعمال کر کے بھاری اشیا اِدھر اُدھر کرتے۔اپنے اوزاروں سے پتھروں اور دیواروں پہ تصاویر کندہ کر لیا کرتے۔انہی لوگوں نے بارہ ہزار سال قبل گوبیکلی تپہ کی تعمیر کا آغاز کیا۔
رہائشی بستی نہیں
ماہرین قطعیت سے نہیں بتا سکتے کہ یہ مقام اورفہ کے قدیم باشندوں نے کیوں تعمیر کرنا شروع کیا۔تاہم بعض نظریات وضع ہو چکے۔ایک نظریہ یہ ہے کہ علاقے کے لوگ اس مقام پہ جمع ہو کر عبادت کرتے تھے۔دوسرا نظریہ یہ کہ مقام بچھڑ جانے والے پیاروں اور بزرگوں کی یاد میں تعمیر کیا گیا۔تیسرا نظریہ یہ کہ مقام علاقے کے لوگوں کا دیوان یا بیٹھک تھی۔لوگ سال میں ایک یا دو مرتبہ جمع ہو کر وہاں میلا منعقد کرتے تھے۔اس موقع پہ شاید معاشرتی یا مذہبی رسومات بھی بجا لائی جاتیں۔
یہ بہرحال طے ہے کہ گوبیکلی تپہ کوئی رہائشی بستی نہیں تھی۔وجہ یہ کہ وہاں سے ایک بھی چولہا نہیں ملا۔اور نہ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر اور دیگر نشانیاں جو سبھی قدیم رہائشی بستیوں سے برآمد ہو چکیں۔ چناں چہ گوبیکلی تپہ کوئی زیارت گاہ، عبادت گاہ،اوطاق یا پھر میلہ لگانے کی جگہ تھی۔ماہرین کی اکثریت کا خیال ہے کہ وہ عبادت گاہ تھی۔یہ سمجھنے کی وجہ اس کا تعمیری ڈیزائن اور وہاں سے ملنے والی اشیا ہیں۔
دائروں کا آغاز
جب کا تعمیر کا آغاز ہوا تو قدیم انسانوں نے زمین کھود کر ایک دائرہ بنایا جو پچیس فٹ قطر رکھتا تھا۔اس دائرے کے کناروں پہ وقفے وقفے سے ستون رکھے اور پھر وسط میں ایک یا دو ستون رکھ دئیے۔ دائرے کے درمیان میں نصب ستونوں کی شکل انگریزی لفظ ٹی سے ملتی جلتی ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ یہ انسان کی تجسیم ہیںیعنی انھیں انسان سے تشبیہہ دی گئی۔قدیم انسانوں کی اولادیں پیدا ہوئیں تو انھوں نے پہلا دائرہ ختم کر کے اسی کے اوپر نیادائرہ بنا لیا۔یا پھر پرانے کے ساتھ ہی اپنا دائرہ بنایا۔یوں کئی سو سال کے عرصے میں گوبیکلی تپہ میں کئی دائرے تخلیق ہو گئے۔
اب تک وہاں کھدائی سے پچیس دائرے دریافت ہو چکے۔مذید کھدائی سے نئے برآمد ہو سکتے ہیں۔کچھ دائرے ایک دوسرے کے نیچے واقع ہیں۔کچھ چھوٹے اور کچھ بڑے ہیں۔بعض دائروں کے وسط میں صرف ایک ستون رکھا ہے۔دائروں کا رقبہ ایک ہزار فٹ تک پھیلا ہوا ہے۔یہ ستون چند فٹ سے لے کر اٹھارہ فٹ تک اونچے ہیں۔انھیں دیکھ کر ہی بعض ماہرین فلکیات نے یہ خیال ظاہرکیا کہ گوبیکلی تپہ شاید رصدگاہ تھی۔
ڈراؤنے چرندپرند
بیشتر ستونوں پر پرندوں اور جانوروں کی تصاویر کندہ ہیں۔ ان میں بیل،لومڑی،سانپ، گدھ،مکڑیاں، کیڑے مکوڑے،گدھے،غزال اور شیر شامل ہیں۔بعض ستونوں پہ عجیب طریقے سے انسانی اشکال بھی کندہ ہیں۔ماہرین کہتے ہیں کہ اب تک پتھر کے دور کا جتنا بھی آرٹ ملا ہے، ان میں پالتو مویشیوں کی تصاویر نمایاں ہیں یا پھر ہاتھی، اونٹ اور بیلوں کی۔گوبیکلی تپہ واحد مقام ہے جہاں کندہ تصاویر مختلف ڈراؤنے چرندپرند کی ہیں اور جو دیکھنے والے کو خوفزدہ کر دیتی ہیں۔
گوبیکلی تپہ کے نزدیک چونے کی پہاڑیاں واقع ہیں۔انہی پہاڑیوں سے پتھر کاٹ کر ستون بنائے گئے۔انھیں پھر تنوں پہ لاد کر اوپر چڑھایا اور رسیوں سے باندھ کر ایستادہ کیا جاتا۔یہ کام چند افراد نہیں کئی سو انسانوں نے مل کر انجام دیا ہو گا۔تپہ پہ سب سے بڑا دائرہ 65 قطر رکھتا ہے۔اسی دائرے میں بلند ترین ستون ملے جو صورت شکل میںکسی بت کی طرح لگتے ہیں۔اٹھارہ فٹ اونچے یہ ستون پینتالیس ٹن وزنی ہیں۔خیال ہے کہ گوبیکلی کا مرکز یہی دائرہ تھا۔
یہ معبد تھا؟
کلاس شمیت کے نزدیک یہ ایک معبد تھا۔قدیم انسان وہاں آ کر عبادت کرتے تھے۔ممکن ہے کہ یہ ستون ان کے دیوتاؤں کی علامت ہوں۔مگر یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ان دیکھے خدا کے عبادت گذار ہوں جبکہ ستون اس کی علامت قرار پائے۔ستونوں پہ جو چرند پرند کندہ ہیں، انھیں شاید خدا یا دیوتا کے قدرتی مظہر قرار دیا گیا۔شمیت کا یہ بھی کہنا تھا کہ سال میں ایک دو بار وہاں مذہبی یا معاشرتی تہوار منعقد ہوتا تھا۔تب خوب جشن منایا جاتا اور دعوتیں ہوتیں۔ایسا سمجھنے کی وجہ یہ ہے کہ وہاں سے ہرن وغزال وغیرہ کی ایک لاکھ ہڈیاں ملی ہیں۔
2014ء کے بعد گوبیکلی کی کھدائی پر نچلی تہوں سے کمرے بھی برآمد ہوئے۔لہذا بعض ماہرین کا خیال ہے کہ پہلے وہاںانسانی بستی تھی۔مگر بیشتر ماہرین سمجھتے ہیں کہ وہاں قدیم انسانوں کا محبوب و محترم سردار رہتا ہو گا۔جب وہ چل بسا تو اس کے گھر کو زیارت گاہ بنا لیا گیا۔
رفتہ رفتہ وہ عبادت کا مقام بھی بن گیا۔یاد رہے، قران پاک میں آیا ہے کہ حضرت نوح ؑ کی اولاد نے اپنے متوفی بزرگوں کے بت بنائے اور انھیں پوجنے لگی۔یوں بت پرستی کا آغاز ہوا۔ممکن ہے کہ اورفہ کے قدیم انسان حضرت نوح ؑ کی اولاد میں سے ہوں۔تاہم گوبیکلی تپہ سے یہ ثبوت نہیں ملا کہ وہاں انسان دائروں میں بیٹھ کر ستونوں کے سامنے پوجا کرتے تھے۔
مذہب نے انقلاب برپا کیا
اورفہ کے علاقے میں گوبیکلی تپہ سے ملتے جلتے گیارہ مقامات دریافت ہو چکے مگر وہ چھوٹے ہیں۔گویا گوبیکلی اس علاقے میں سب سے بڑی عبادت گاہ یا مقام ِزیارت تھا۔ان کی دریافت سے یہ نیا نظریہ سامنے آ چکا کہ انسانی تہذیب وتمدن نے کیونکر جنم لیا۔اس نئے نظریے کے مطابق جب قدیم انسانوں نے گوبیکلی تپہ جیسے مذہبی ومعاشرتی اکٹھ کے مقام بنا لیے تو بہت سے جوڑے وہاں مستقل طور پر رہنے لگے۔ان مردوزن کو مستقل طور پہ غذا بھی درکار تھی تاکہ وہ زندہ رہ سکیں۔وہ پھر کھیتی باڑی کر کے اناج اگانے لگے تاکہ خوراک مستقل ملتی رہے۔یوں بنی نوع انسان نے زراعت کا آغاز کر دیا۔جدید سائنسی تحقیق اس نظریے کی توثیق کرتی ہے۔
ماہرین جینیات جین(gene)اور ڈی این اے کی مدد سے کسی غذا کی مختلف اقسام کا جائزہ لے کر دریافت کرتے ہیں کہ پہلی قسم کب وجود میں آئی۔انھوں نے چھان بین سے جانا کہ گندم کی پہلی قسم اورفہ کے ایک گاؤں میں آباد انسانوں نے گیارہ ہزار سال قبل اگائی تھی۔
وہ گاؤں گوبیکلی تپہ سے صرف بیس میل دور واقع تھا۔اسی طرح بذریعہ تحقیق انھیں یہ بھی معلوم ہوا کہ دنیا میں جس گاؤں میں پہلی بار مویشی پالے گئے ،وہ گوبیکلی سے ساٹھ میل دور آباد تھا۔یہی نہیں، اورفہ ہی وہ علاقہ ہے جہاں کے باشندے پہلی بار بھیڑ بکریاں اور بیل پالنے لگے تاکہ ان سے دودھ،اون اور گوشت حاصل کر سکیں اور ان کا گوبر تک کام میں لائیں۔اس طرح زرعی انقلاب کا آغاز ہوا۔
گوبیکلی تپہ اور اورفہ میں واقع دیگر مقامات کی دریافت جدید انسان کے سامنے یہ حقیقت لے آئی کہ زراعت نے مذہب کو جنم نہیں دیا…بلکہ یہ الٹا حساب ہے، یعنی مذہب نے انسانوں کو ترغیب دی کہ وہ زراعت اختیار کر لیں۔اور پھر انہی زرعی معاشروں نے تہذیب،ثقافت، تمدن اور سائنس وٹکنالوجی کو جنم دیا۔یہی نہیں ،انھوں نے مذہب کو بھی بنا سنوار کر معین صورت دے ڈالی اور وہ اخلاقیات کے ساتھ مل کر اعلی انسانی اقدار پروان چڑھانے کا سبب بن گیا۔اس باعث مذہب آج بھی انسانی زندگی میں بے پناہ اہمیت رکھتا ہے۔اگرچہ دور جدید کا انسان مذہب سے دور ہو کر بے چینی،انتشار اور پریشانی کا شکار بھی ہو چکا۔
ہند آریائی زبانیں
قبل ازیں بتایا گیا کہ اورفہ ’’زرخیز ہلال‘‘کا حصّہ تھا۔یہ علاقہ فلسطین، عراق، شام،جنوبی اناطولیہ اور مغربی ایران تک پھیلا ہوا تھا۔ایشائی ترکی کا وسیع علاقہ ’’اناطولیہ‘‘کہلاتا ہے۔اس کے جنوبی حصے بشمول اورفہ زرخیز ہلال میں شامل تھے۔ماہرین اثریات کی رو سے اس علاقے میں سولہ ہزار قبل مسیح سے گیارہ ہزار قبل مسیح تک’’ کباریہ ثقافت‘‘(Kebaran culture)سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد تھے۔شاید انھوں نے ہی گوبیکلی تپہ اور دیگر مقامات تعمیر کیے۔تاہم یہ نظریہ ہے، قطعیت سے یہ بات نہیں کہی جا سکتی۔
واضح رہے، دور جدید میں ہند آریائی(Indo-Aryan) زبانوں کا سب سے بڑا خاندان ہے۔انگریزی، ہندی(و اردو)،ہسپانوی، بنگالی، فرانسیسی، روسی، پرتگیزی، جرمن، فارسی اور پنجابی اس میں شامل ہیں۔
اربوں انسان یہ زبانیں بولتے ہیں۔ اس خاندان کی تشکیل کے سلسلے میں دو نظریے مشہور ہیں۔اول نظریہ کورغان (Kurgan hypothesis) جس کی رو سے ان زبانوں کو یوکرائن اور جنوبی روس کے میدانی علاقے (Pontic–Caspian region)میں آباد لوگوں نے چھ سات ہزار قبل رواج دیا۔دوسرا’’نظریہ اناطولیہ‘‘کہلاتا ہے۔اس کے مطابق ہند آریائی زبانوں کے خالق اناطولیہ کے باسی تھے۔اس نظریے کو ممتاز برطانوی ماہر آثار قدیمہ، کولن رینفریو (Colin Renfrew)نے وضع کیااور ایک کتاب(Archaeology and Language: The Puzzle of Indo-European Origins) بھی لکھی۔
اناطولیہ نظریے کے مطابق دس ہزار سال قبل اناطولیہ کے باشندے مختلف علاقوں کو ہجرت کرنے لگے۔ایک گروہ نے روس کا رخ کیا۔دیگر گروپ یورپ، ایران، ہندوستان، افریقہ وغیرہ چلے گئے۔انھوں نے وہاں نئی بستیاں بسائیں اور اپنی زبانوں کو فروغ دیا۔مقامی اثرات کے سبب ہزارہا برسوں کے دوران فرق آ گیامگر سبھی زبانوں کی بنیادی ساخت ملتی جلتی ہے۔اسی لیے وہ ہند آریائی خاندان میں شامل ہیں۔جبکہ انھوں نے عربی زبان پر بھی اثرات مرتب کیے۔یہی وجہ ہے، عربی،فارسی ،سنسکرت وغیرہ کے اشتراک سے ایک نئی زبان(اردو)پیدا ہونے میں زیادہ دشواری نہیں ہوئی۔
عین ممکن ہے کہ اناطولیہ سے آنے والوں نے بلوچستان میں مہرگڑھ کی بنیاد رکھی۔یہ برعظیم پاک وہند میں مستقل طور پہ آباد ہونے والی قدیم ترین بستی ہے۔خیال ہے کہ نو ہزار سال پہلے بسائی گئی۔اس کے باشندے کھیتی باڑی کرتے اور مویشی پالتے تھے۔ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہی لوگوں نے بعد ازاں وادی سندھ کی تہذیب کی بنیاد رکھی۔رفتہ رفتہ یہ تہذیب شمالی ہندوستان تک پھیل گئی۔
بت پرستی کیسے پھیلی
کلاس شمیت کا خیال ہے کہ اورفہ میں بت پرستی نے جنم لیا۔پھر وہاں کے لوگ دوسرے علاقوں میں پہنچے تو نئی جگہوں میں بھی اپنے مذہبی چلن کو رواج دیا۔چناں چہ آنے والی اقوام مثلاً سمیری، مصری اور وادی دجلہ وفرات کی دیگر قومیں بت پرست ہو گئیں۔انھوں نے کثیر تعداد میں معبد بنائے۔سمیری اولیّں تہذیب سمجھی جاتی ہے۔اس میں روایت ہے کہ دیوتاؤں نے انسانوں کو زراعت اور مویشی پروری کے تحفے بخشے۔یہ دیوتا مقدس پہاڑ’’ایکور‘‘( Ekur)میں بستے تھے۔اس روایت میں مقدس پہاڑ گوبیکلی تپہ ہو سکتا ہے۔
وید مت کی مولد گاہ
گوبیکلی تپہ کی دریافت کے بعد بھارت میں قدیم ترین بھارتی مذہب، ویدمت کے عالم بھی اس میں دلچسپی لینے لگے۔اکثر عالموں نے اورفہ علاقے کو ویدمت کی مولد گاہ قرار دے ڈالا۔ان کا کہنا ہے کہ گوبیکلی تپہ بنانے والے جو اعتقاد،روایات اور رسوم ورواج رکھتے تھے،وہ ابھی تک ویدمت میں چلے آ رہے ہیں۔
مثال کے طور پہ گوبیکلی کے ستون نمبر 12میں ایک خنزیر کندہ ہے۔اس کے بالکل اوپر ایک سوراخ بنا ہے۔ماہرین وید مت اس تصویر کو اپنے وشنو دیوتا کے تیسرے اوتار، وراہ سے جوڑتے ہیں۔یہ اوتار آدھا انسان آدھا خنزیر تھا۔ویدوں کی روایت کے مطابق ایک اسر(نیم دیوتا)نے زمین کو سمندر میں ڈبونا چاہا تھا۔تب وشنو وارہ کی صورت میں نمودار ہوا،اپنی تھوتھنی سے زمین کو اوپر اٹھایا اور یوں اسے ڈبونے سے بچا لیا۔اس طرح زمین کی نئی زندگی کا آغاز ہوا۔
گوبیکلی تپّہ کی کندہ تصویر میں خنزیر کے اوپر پانچ پرندے نما جانور بنے ہیں۔ماہرین وید کی رو سے یہ پانچ دیوہیں۔انھیں ’’پانچ بھوت‘‘کہا جاتا ہے جو دراصل پانچ عناصر: ہوا،پانی،آگ،آسمان اور زمین کا استعارہ ہیں۔وہ تصویر میں وشنو کو خراج تحسین پیش کر رہے ہیں کہ اس نے زمین کو تباہی سے بچا لیا۔
ماہرین وید ستون نمبر43کی مثال بھی دیتے ہیں۔یہ گوبیکلی کے سب سے بڑے دائرے میں نصب ہے۔اس میں پرندوں اور جانوروں کے ذریعے کوئی واقعہ دکھایا گیا ہے۔ماہرین وید کی رو سے اس میں پرندہ ویدی دیوتا، گارودا ہے۔یہ آدھا پرندہ اور آدھا انسان تھا۔وشنو کی سواری تھا۔سانپ کا دشمن تھا۔چناں چہ ستون میں سانپ بھی (بچھو کے ساتھ)دیکھا جا سکتا ہے۔ویدوں کے مطابق گارودا انسانوں کو سانپوں اور بچھوؤں سے بچاتا تھا۔
ستون 43ہی میں سب سے نیچے پرندے پہ کوئی سوار دکھایا گیا ہے۔ماہرین وید کی رو سے یوں بھی تقویت ملتی ہے کہ یہ گارودا دیوتا ہے۔یہ سورج دیوتا کی سواری بھی تھا۔لہذا ایک گول دائرہ سورج کی علامت کے طور پر بھی کندہ ہے۔
گوبیکلی تپہ کے سب سے بڑے دائرے میں بارہ ستون ہیں۔ماہرین وید کی رو سے یہ بارہ مہینوں کی نشان دہی کرتے ہیں۔ان ستونوں پہ بھیڑیے کی تصاویر بھی کندہ ہیں۔ ماہرین وید انھیں چاند کی علامت قرار دیتے ہیں۔سنسکرت زبان میں بھیڑیے کو ’’وریکا‘‘ کہتے ہیں۔اس لفظ کے دوسرے معنی چاند بھی ہیں۔ویدیوں کے نزدیک ان تصاویر میں چاند کو بارہ مہینوں کے خالق کی حیثیت سے پیش کیا گیا۔
گوبیکلی تپہ کے اکثر ستونوں پہ سانپ بھی کندہ ہیں۔بعض جگہ بل کھائے ہوئے یا لہریے دار سانپ دکھائے گئے ہیں۔ویدمت کے علاوہ بدھ مت اور ہندو مت میں بھی سانپ مذہبی طور پہ اہم ہیں۔اسی لیے دیوتا شیو کی گردن میں سانپ لپٹا دکھایا جاتا ہے۔اس سانپ کا نام’’ والوکی‘‘ ہے اور وہ بھی ایک چھوٹا دیوتا ہے۔ویدمت کے عالم کہتے ہیں کہ سانپ انا(ایگو)کے علاوہ بہادری اور بے خوفی کی علامت ہے۔اس باعث شیو اسے اپنی گردن پہ سوار رکھتا اور سانپ کو اپنے دل ودماغ میں داخل نہیں ہونے دیتا۔اس لیے وہ بیراگی بھی کہلاتا ہے کہ اسے مادی خواہشات سے کوئی واسطہ نہیں۔
اورفہ علاقے میں واقع ایک اور قدیم بستی، نیوا کوری کا تذکرہ قبل ازیں ہو چکا۔یہ بستی دس ہزار سال پہلے آباد ہوئی تھی۔اس کے کھنڈر سے ایک ایسے آدمی کا مجسمہ ملا ہے جس کے سر پہ بال نہیں مگر وہ چوٹی رکھتا ہے۔چوٹی رکھنا ہندوستان کے برہمن مردوں کا وتیرہ ہے۔لہذا بھارتی عالم اس مجسمے کی بنیاد پہ دعوی کرتے ہیں کہ وید مت وبرہمن مت اورفہ علاقے کے باسیوں کی مذہبی ومعاشرتی رسومات سے ماخوذ ہیں۔
وادی سندھ کی تہذیب
دلچسپ بات یہ کہ وادی سندھ کی تہذیب میں کسی اہم بستی سے دیوتاؤں کے بتوں کی کوئی عبادت گاہ نہیں ملی ۔ممکن ہے کہ اللہ تعالی کے کسی پیغمبر نے انھیں بت پرستی سے تائب کرا دیا۔چونکہ زرخیز ہلال میں آباد بت پرستوں کو توحید پرستی قبول نہ تھی لہذا انھوں نے سندھ و ملحقہ علاقوں میں دھاوا بول کر وادی سندھ کی تہذیب کو تباہ کر دیا۔انھوں نے پھر ہندوستان میں بت پرستی کو رواج دیا۔آج بھارت بت پرستوں کا سب سے بڑا مسکن بن چکا۔
وادی سندھ کی تہذیب کے مختلف مقامات سے ایسی مہریں اور الواح ملی ہیں جن پہ عجیب وغریب الفاظ اور کچھ جانور کندہ ہیں۔یہ رسم الخط ابھی تک سمجھا نہیں جا سکا۔اسی طرح ماہرین کا خیال ہے کہ گوبیکلی تپہ اور اورفہ کے دیگر مقامات سے ملنے والے ستونوں پہ کندہ تصاویر ضرور کوئی پیغام یامعنی رکھتی ہیں۔لہذا انھیں سمجھنے کی کوششیں جاری ہیں۔
اگر دونوں علاقوں سے ملنے والے آثار قدیمہ میں پوشیدہ معنی سمجھ لیے گئے تو ممکن ہے، جدید انسان قدیم انسانوں کی مذہبی ومعاشرتی زندگی کے بارے میں بہت کچھ جان سکیں۔فی الوقت تو گوبیکلی تپہ اور وادی سندھ کی تہذیب کے ہزاروں سال پرانے باسی ہمارے لیے سربستہ راز ہیں۔کوئی نہیں جانتا کہ ستونوں اور مہروں پہ کندہ الفاظ وتصاویر سے وہ آنے والی انسانیت کو کیا پیغام دینا چاہتے تھے۔۔۔۔۔رہے نام اللہ کا!
The post گوبیکلی تپہ؛ دنیا کی پہلی عبادت گاہ appeared first on ایکسپریس اردو.