Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

تعلیم کا عالمی دن اور عصری تقاضے

$
0
0

 حیدرآباد: 3 دسمبر 2018 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے منظور کی گئی قرارداد کے ذریعے 24 جنوری کو تعلیم کا عالمی دن قرار دیا گیا۔

اس کے بعد 24 جنوری 2019 کو تعلیم کا پہلا عالمی دن منایا گیا جس کا مقصد امن اور ترقی کے لیے تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا۔ اقوام متحدہ کے بین الاقوامی چارٹر برائے انسانی حقوق کے سیکشن 26 کے تحت تعلیم انسان کا بنیادی حق ہے۔ بین الاقوامی چارٹر کے مطابق عوام کو مفت اور لازمی بنیادی تعلیم فراہم کرنا ریاست کا فرض قرار دیا گیا۔ تعلیم حاصل کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ تعلیم صرف تدریس ہی کا نام نہیں ہے۔

تعلیم ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے سے ایک فرد اور ایک قوم خود آگاہی حاصل کرتی ہے، اور یہ عمل اس قوم کو تشکیل دینے والے افراد کے احساس و شعور کو نکھارنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ یہ نئی نسل کی وہ تعلیم و تربیت ہے جو اسے زندگی گزارنے کے طریقوں کا شعور دیتی اور اس میں زندگی کے مقاصد و فرائض کا احساس پیدا کرتی ہے۔ تعلیم ہی سے ایک قوم اپنے ثقافتی، ذہنی اور فکری ورثے کو آیندہ نسلوں تک پہنچاتی ہے اور ان میں زندگی کے ان مقاصد سے لگاؤ پیدا کرتی ہے جنھیں اس نے اختیار کیا ہے۔ تعلیم ایک ذہنی، جسمانی اور اخلاقی تربیت ہے اور اس کا مقصد اونچے درجے کے ایسے تہذیب یافتہ مرد اور عورتیں پیدا کرنا ہے جو اچھے انسانوں کی حیثیت سے اور کسی ریاست میں بطور ذمے دار شہری اپنے فرائض انجام دینے کے اہل ہوں۔

تعلیم کا لفظ عربی زبان کے لفظ ’’علم‘‘ سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے کسی چیز کا جاننا، پہچاننا، یقین کی حد تک حقیقت کا ادراک علم کہلاتا ہے جب کہ تعلیم سے مراد وہ علم ہے جو فرد باضابطہ طور پر کسی تعلیمی ادارے میں حاصل کرتا ہے۔ تعلیم معلومات، مہارتوں اور رویوں کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کا نام ہے۔ تعلیم اس عمل کا نام ہے جس کے ذریعے بچوں کو معاشرتی زندگی کا سرگرم محافظ بنایا جاسکتا ہے۔ تعلیم وہ ذریعہ ہے جس سے بچوں اور بالغان کے درمیان حائل وسیع خلیج کو دور کرکے معاشرے کے لیے اچھا شہری بنایا جاسکتا ہے۔

تعلیم ایک وسیلہ ہے جس کی مدد سے ایک نسل اپنی معاشرتی زندگی ان کے بعد آنے والی نسلوں کو منتقل کرتی ہے۔ فرد کی زندگی میں تعلیم کے بھرپور کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام میں حصول علم کو بڑی اہمیت دی گئی۔ رسول پاکؐ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلی وحی کا آغاز اس طرح ہوا ’’اپنے رب کے نام سے پڑھو جس نے پیدا کیا۔‘‘ قرآن مجید کے ساتھ ساتھ احادیث مبارکہ سے بھی علم کی فضیلت و اہمیت صاف طور پر واضح ہے۔ آپؐ نے تعلیم حاصل کرنے کے بارے میں ارشاد فرمایا ’’مہد سے لحد تک علم حاصل کرو‘‘، ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہے۔‘‘

ان تمام باتوں سے علم کی قدر و منزلت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلامی طرز زندگی میں علم کی کس قدر ضرورت ہے۔ تعلیم وقت کی ضرورت ہے اور کام یابی کی پہلی سیڑھی بھی ہے۔ تعلیم معاشرے میں بہتر زندگی گزارنے کے لیے اور منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے۔

قیام پاکستان کے وقت ہمیں ورثے میں فرسودہ برطانوی نظام تعلیم ملا جو ہماری قومی روایات کے منافی تھا۔ اس امر کی اشد ضرورت تھی کہ ایسا نظام تعلیم بنایا جائے جو ہمارے فلسفہ حیات سے مربوط ہو۔ بانی پاکستان قائد اعظمؒ نے صحیح تعلیم و تربیت کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے زور دیا کہ ایسا نظام تعلیم تشکیل دیا جائے جو ملک و قوم کی ترقی و خوش حالی کا ضامن ہو۔ چناںچہ آپ نے پہلی تعلیمی کانفرنس کے موقع پر اپنے پیغام میں فرمایا ’’ہمیں اپنی تعلیمی پالیسی اور منصوبے کو عوام کے تقاضوں اور تمدن و تاریخ کی روشنی میں تمام جدید تبدیلیوں کو پیش نظر رکھ کر مرتب کرنا ہوگا۔

ہمارے ملک کا مستقبل اس تعلیم و تربیت پر منحصر ہوگا جو ہم اپنے بچوں کو سچا پاکستانی شہری بنانے کے لیے دیں گے۔ تعلیم کا مقصد صرف کتابی تعلیم نہیں بلکہ اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ہمارے عوام ٹیکنیکل اور سائنسی تعلیم سے بھی مستفید ہوں تاکہ مستقبل میں ہماری اقتصادی زندگی بہتر کی جاسکے اور لوگ سائنس، تجارت اور خاص طور پر منظم کی ہوئی صنعتوں میں حصہ لے سکیں۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ہمیں دنیا سے مقابل کرنا ہے جو بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہمیں اپنی آیندہ نسل کی کردار سازی بھی کرنی چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم موزوں تعلیم کے ذریعے ان میں عزت نفس، راست بازی، ذمے داری اور ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا کریں اور قومی زندگی کے مختلف شعبوں میں خدمت و کردار ادا کرنے کے لیے اچھی مہارت اور تربیت ہو تاکہ پاکستان کو عظمت و کامیابی حاصل ہو۔‘‘

پہلی تعلیمی کانفرنس کے تعلیمی مقاصد پر اظہارخیال کرتے ہوئے بابائے قوم محمد علی جناح نے فرمایا ’’یقیناً ہمارے ملک کا مستقبل زیادہ تر اسی قسم کے تعلیمی پروگراموں پر منحصر ہے جس کے ذریعے طلبا بہترین پاکستانی بن سکیں۔ تعلیم سے مراد صرف ذہنی یا علمی تعلیم ہی نہیں بلکہ اس نوزائیدہ مملکت کے لیے ایسے افراد کی ضرورت ہے جو سائنسی اور ٹیکنیکل تعلیم سے بہرہ ور ہو کر اپنی معاشی زندگی کو مستقبل میں بہتر بناسکیں۔ تعلیم ایسی ہونی چاہیے جس سے ہمارے افراد سائنسی، تجارتی، کاروباری اور عملی لحاظ سے بہتر اور منظم صنعتوں کو قائم کرسکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آیندہ نسل کی سیرت و کردار کی تعمیر بھی ہوسکے۔ ہمیں بہتر تعلیم کے ذریعے ان میں اتحاد و یک جہتی، احترام، ذمے داری اور بے لوث قومی خدمت کا اعلیٰ تصور ذہن نشین کرانے کی کوشش کرنی چاہے۔‘‘

قائد اعظم کے ارشادات سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ قوم کی ترقی کا زیادہ تر انحصار طرز تعلیم پر ہے۔ ان کے نزدیک تعلیم کا مقصد محض درس گاہوں کی تعلیم نہیں ہے بلکہ پاکستان کے لوگوں کی توانائیوں کو ایک راہ پر لگا کر آنے والی نسلوں کے کردار کی تعمیر کرنا ہے۔ ان کے نزدیک جہاں طلبا کو اسلامی نظریہ حیات سے روشناس کرنا ہے وہاں طلبا کے کردار و سیرت کی اصلاح کرنا بھی ہے۔ غرض یہ کہ بانی پاکستان کے نزدیک تعلیم مسلمانوں کی ثقافت اور تاریخ سے ہم آہنگ ہونی چاہیے۔

اب تعلیم محض پڑھنے پڑھانے کا نام نہیں بلکہ طلبا کی شخصیت کے جسمانی، نفسیاتی، جمالیاتی، معاشی اور معاشرتی تقاضوں کی آئینہ دار اور علم بردار ہے۔ تعلیمی درس گاہ کا فرض ہے کہ بچوں کی جسمانی صحت کا خیال رکھے، ان کے ذوق جمال کی تسکین کا سامان بہم پہنچائے۔ نفسیاتی ضرورتوں کو پورا کرے اور معاشرتی زندگی گزارنے کے ڈھنگ سکھائے۔ تعلیم کے ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں کا اہتمام ہو، تاکہ طلبا عملی طور پر تجربات سے گزر کر اصول و تصورات کا صحیح طور پر بامعنی انداز میں ادراک کرسکیں، وہ ایسی مفید مہارتیں سیکھیں جو انھیں باعزت روزگار کے اہل بنا دیں۔ وہ معاشرے کے زندہ مسائل سے آگاہ ہوں اور ان کے لیے مناسب حل تجویز کرسکیں۔ گویا تعلیمی ادارے معاشرے کے سچے نمایندہ بن جائیں اور دونوں ایک دوسرے کے قریب تر ہو جائیں۔

کسی بھی ملک کی ترقی اور اس کے نوجوانوں کے ذہنی ارتقا کا اندازہ وہاں کی تعلیمی حالت سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ تعلیم صرف درسی کتب اور لیکچر تک محدود نہیں بلکہ ہم نصابی سرگرمیاں بھی اس کا حصہ ہوتی ہیں جن سے طلبا کی ذہنی، جسمانی اور اخلاقی نشو و نما ہوتی ہے۔ بچوں کی بہترین تربیت کے لیے نصاب کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیاں انتہائی اہمیت کی حامل اور لازم و ملزوم ہیں۔ تعلیمی اداروں کو نصاب تعلیم کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں پر بھی خصوصی توجہ دینی چاہیے تاکہ بچوں کی صلاحیتوں کو نکھارا جاسکے۔

ان سرگرمیوں میں کھیل کود، گلوکاری، مقابلہ تقاریر، مصوری، مقابلہ کوئز وغیرہ مختلف مشاغل ہیں۔ ان سرگرمیوں میں حصہ لینے کے باعث طلبا کو آزادانہ برتاؤ سیکھنے کے مواقع ملتے ہیں۔ یہ سرگرمیاں ایمانداری اور تعاون کی خصوصیات کی ترقی کے لیے بہت ہی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ تعلیمی اداروں کا بنیادی اور اہم مقصد یہ ہوتا ہے کہ طلبا کے کردار، ذہانت اور جسمانی صلاحیتوں کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کریں اور انھیں مکمل طور پر اس بات کی تربیت دیں کہ وہ انسانی زندگی کے اہم اور بڑے کاموں کو کامیابی سے انجام دے سکیں اور بہتر شہری بن سکیں۔ نفسیاتی ضرورتیں جیسا کہ جذبات، ذاتی دعوے، جنس اور تجسس وغیرہ کی تربیت کو بھرپور طور پر ان سرگرمیوں سے بہتر بنایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ سرگرمیاں جذبات، ولولہ انگیز اور وجدان، جبلت وغیرہ کے لیے مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

ان سرگرمیوں میں حصہ لینے کے باعث کسی بھی فرد کو اظہار رائے کا موقع ملتا ہے۔ یہ جبلت جیسے کہ تجسس، تعمیری حصول اور مل جل کر رہنے وغیرہ میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے اور طلبا تہذیب و شائستگی سے قریب تر رہتے ہیں۔ ہم نصابی سرگرمیاں تعلیمی اور ادبی اقدار رکھتی ہیں۔

ادبی سرگرمیاں جیسے مباحثے، بات چیت، عوام سے خطاب کرنا، مجالس، مذاکرہ، ڈرامے وغیرہ میں طلبا مختلف طریقوں سے زبانی اظہار کرنا سیکھتے ہیں۔ نظریاتی کام جو کہ تاریخ اور سائنس سے جڑے ہوتے ہیں وہ تاریخی مقامات، کتب خانہ کی سرگرمیوں اور قدرتی علوم وغیرہ سے حاصل ہوتے ہیں۔ یہ سرگرمیاں اخلاقی معیار کو کسی بھی بچے میں فروغ دیتی ہیں۔ طلبا یہ سیکھتے ہیں کہ دوسروں کے ساتھ کیسے برتاؤ کیا جائے۔

طلبا کا اعتماد بحال ہوتا ہے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے اس کے علاوہ ایمان داری سے پیش آنا، بھائی چارہ، اتحاد اور خوداعتمادی کا اظہار ان سرگرمیوں میں حصہ لینے کے دوران سیکھتے ہیں۔ صبح کی اسمبلیوں اور اجتماعی دعا وغیرہ سے بھی ایسا ہی معیار اور کردار پیدا ہوتا ہے۔ ہم نصابی سرگرمیاں سماجی ذمہ داری کے لیے کسی بھی شخصیت کے لیے بہت ہی ضروری اور اہم ہوتی ہیں۔ یہ سرگرمیاں سماجی برتاؤ جس میں گروپ کے جذبات، تعاون، احساس ذمہ داری، اخلاص، وفاداری اور باہمی سمجھ بوجھ جیسے اچھے اوصاف پیدا کرتی ہیں۔

یہ سرگرمیاں کسی بھی طالب علم کے سماج اور اسکول کے درمیان تعلق کو سمجھنے میں مدد گار ہوتی ہیں۔ کوئی بھی طالب علم چاہے وہ کسی بھی جماعت میں ہو جب تک جسمانی طور پر فٹ نہیں ہوگا اس وقت تک وہ بہتر تعلیم حاصل نہیں کرسکتا۔ جسم کو فٹ رکھنے کے لیے ورزش بے حد ضروری ہے اور جسمانی ورزش کا تعلیم بالواسطہ یا بلاواسطہ کھیلوں سے ہی ہوتا ہے۔ فٹنس کے حوالے سے یہ قول مشہور ہے کہ ’’جس ملک میں کھیل کے میدان آباد ہوں گے تو ان کے اسپتال ویران ہوں گے اور جس ملک کے کھیل کے میدان ویران ہوں گے تو ان کے اسپتال آباد ہوں گے‘‘ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی معاشرے میں اکیڈیمک ایجوکیشن کی طرح فزیکل ایجوکیشن کے کلیدی کردار کو بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔

آج کا دور کمپیوٹر کا دور ہے، ایٹمی ترقی کا دور ہے، سائنس اور صنعتی ترقی کا دور ہے مگر اسکولوں میں بنیادی عصری تعلیم، ٹیکنیکل تعلیم، انجینئرنگ، وکالت، ڈاکٹری اور مختلف جدید علوم حاصل کرنا آج کے دور کا لازمی تقاضا ہے۔ جدید علوم تو ضروری ہیں ہی اس کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کی بھی اپنی جگہ اہمیت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انسان کو انسانیت سے دوستی کے لیے اخلاقی تعلیم بھی بے حد ضروری ہے۔ اسی تعلیم کی وجہ سے زندگی میں خدا پرستی، عبادت، محبت، خلوص، ایثار، خدمت خلق، وفاداری اور ہمدردی کے جذبات بیدار ہوتے ہیں۔ اخلاقی تعلیم کی وجہ سے صالح اور نیک معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے۔

تعلیمی نظام کا بنیادی عنصر یعنی اچھے اساتذہ، اس نظام کی روح ہیں اور جب تک اساتذہ کو معاشرے میں عزت نفس نہیں ملتی، وہ مقام نہیں ملتا جس کے وہ مستحق ہیں، وہ اپنے فرائض منصبی کو بہ خوبی انجام نہیں دے سکتے۔ بقول علامہ اقبالؒ:

شیخ مکتب ہے اک عمارت گر
جس کی صنعت ہے روح انسانی

تعلیم کے حصول کے لیے قابل اور محنتی اساتذہ بھی بے حد ضروری ہیں جو بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے حصول میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ استاد طلبا کی مخفی صلاحیتوں کو بیدار کرتا ہے اور انھیں شعور و ادراک، علم و آگہی نیز فکرونظر کی دولت سے اپنے شاگردوں کو مالا مال کرتا ہے۔ جن اساتذہ نے اپنی ذمے داریوں کو بہتر طریقے سے پورا کیا، ان کے شاگرد آخری سانس تک ان کے احسان مند رہتے ہیں۔ بہ حیثیت معلم ہماری ذمہ داری محض ادارے کی چار دیواری کے اندر والے بچے اور ان کو پڑھایا جانے والا نصاب نہیں ہے، بلکہ ہمیں یہ فکر ہونی چاہیے کہ بچے صرف کتاب پڑھ کر امتحان پاس کرکے نہ چلے جائیں بلکہ وہ صحیح معنوں میں مسلمان بچے بنیں، باشعور اور کارآمد شہری بنیں۔ معلم کا پیشہ دنیا میں سب سے مقدس ہے۔

معلم کو پیغمبری پیشہ کہتے ہیں۔ نظام تعلیم کتنا بھی اچھا ہو لیکن اگر اس کو آگے بڑھانے اور موثر بنانے میں اچھے اور نظریاتی اساتذہ میسر نہ ہوں تو نظام تعلیم جمود اور بے اثر ہوکر رہے گا۔ ایک خوش حال، اخلاقی طور سے بلند اور صحت مند سماج صرف اسی صورت میں وجود میں آسکتا ہے جب اچھے قابل اور نظریاتی اساتذہ حاصل ہو جائیں۔ استاد کی حیثیت معمار جیسی ہوتی ہے۔

فرق یہ ہے کہ معمار عمارت بناتا ہے جب کہ استاد انسانی شخصیت یا روح کی تعمیر کرتا ہے۔ روح انسانی کی تعمیر عمارت سازی کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہم اور مشکل کام ہے۔ طلبا خود کو جدید علم اور آئی ٹی مہارت حاصل کرکے ملکی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ طلبا تعلیم پر توجہ مرکوز کرکے ملکی ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کریں۔ نظام تعلیم کو درست اور جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈگری یافتہ جاہل پیدا کرنے کی بجائے بہتر ہے کہ ابتدائی تعلیم پر بھرپور توجہ دی جائے، نصاب مختصر اور مضامین کم رکھے جائیں یعنی اردو، انگریزی اور دیگر مضامین سے واقفیت کے بعد مختلف ہنرمند افراد کی حوصلہ افزائی کی جائے، کیوںکہ کوئی بھی معاشرہ صرف ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر وغیرہ پر قائم نہیں رہ سکتا، ہر معاشرے میں ہنرمند افراد کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کے ساتھ ساتھ علم و فنون، ادب اور شاعری کا مطالعہ نہ صرف کسی بھی شعبے میں کامیابی کے لیے انتہائی ضروری ہے بلکہ بہتر انسان بننے کے لیے بھی شاعری اور ادب سے رشتہ استوار رکھنا انتہائی اہم ہے۔ انگریزی ذریعہ تعلیم کے اداروں میں اردو کو بے حد کم درجہ دیا جاتا ہے۔ آج ہم جو شکوہ کرتے ہیں کہ پاکستان میں اردو کا معیار گرتا جا رہا ہے اس کی وجہ انگریزی ذریعہ تعلیم سے زیادہ غیر ملکی نظام تعلیم ہے کہ انھوں نے محض بہ ظاہر اردو کی اہمیت کو تسلیم کرکے اپنے اختیاری مضامین میں شامل کرلیا ہے مگر اصل مقصد اردو کا معیار بڑھانا ہرگز نہیں ہے۔

کتاب کا مطالعہ تعلیم و تربیت کا ایک بہترین طریقہ ہے۔ اچھی کتابوں کا مطالعہ انسان کو مہذب بناتا ہے، شخصیت کو نکھار اور وقار عطا کرتا ہے۔ کتاب سے دوستی انسان کو شعور کی نئی منزلوں سے روشناس کرواتی ہے۔ کتاب علم و معلومات میں اضافہ کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ انسان کو اپنی تخلیق کا مقصد جاننے کی جستجو کرتے رہنا چاہیے۔ اپنے آپ کو جاننے اور بہتر انسان بننے کے لیے ادیبوں اور شاعروں کو پڑھنا بھی ضروری ہے۔

تعلیم کا عالمی دن منعقد کرنا قابل ستائش اقدام ہے، اس عمل سے تعلیم میں بہتری لانے لیے غور و خوض کرنے کا موقعہ ہے اور پورے سال کی تعلیمی کارکردگی کا جائزہ لے کر آیندہ سال کی حکمت عملی مرتب کی جائے۔ پاکستان میں تعلیم کو عام کرنے کے لیے حکومت ترجیحی بنیاد پر کام کرے اور نئی تعلیمی پالیسی کا اعلان کرے۔

The post تعلیم کا عالمی دن اور عصری تقاضے appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>