غزل
یاد اوقات دلانے میں لگے رہتے ہیں
آئنہ آپ دکھانے میں لگے رہتے ہیں
خشک ہونٹ اپنے کہاں لاتے ہیں خاطر میں ہم
پیاس اوروں کی بجھانے میں لگے رہتے ہیں
ایک تمثیل ہے یہ زندگی ہم سب اس میں
کوئی کردار نبھانے میں لگے رہتے ہیں
کچھ عناصر مری تشکیل میں ہوتے ہیں ممد
دوسرے مجھ کو مٹانے میں لگے رہتے ہیں
جو خطا ہوتے ہیں دشمن سے وہ لوٹانے کو
ہم تو بس تیر اٹھانے میں لگے رہتے ہیں
مرگِ انبوہ پہ دو اشک بہا کر جاذبؔ
لوگ تشہیر کرانے میں لگے رہتے ہیں
(اکرم جاذب۔ منڈی بہائُ الدین)
۔۔۔
غزل
رہا ہی آج میں کتنا ہوں جسم و جان کے ساتھ
چلا گیا ہوں زیادہ تو رفتگان کے ساتھ
یہ اس جہان کو ایسے تو کھینچتا نہیں میں
ملا رہا ہوں اسے دوسرے جہان کے ساتھ
ہماری بات بھی سننے سے کیوں گریز میاں
ہمارے لفظ چپکتے نہیں ہیں کان کے ساتھ
میں مانتا ہوں کہ بھر دے گا وقت تیر کا زخم
مگر جو زخم لگایا گیا زبان کے ساتھ
تمام عمر بھری قسط پارسائی کی
مکان کب ملا سستے میں لامکان کے ساتھ
تمہارے ہجر کا حل مل نہیں سکا پھر بھی
ہزار گرچہ تعلق تھے آسمان کے ساتھ
(عزم الحسنین عزمی۔ ڈوڈے، گجرات)
۔۔۔
غزل
اوڑھ لیتا ہے کوئی تیرگی شب سے پہلے
رونما ہوتے ہیں اثرات سبب سے پہلے
سب سے اونچا تھا زمانے میں تخیل میرا
حادثے مجھ پہ گرا کرتے تھے سب سے پہلے
ایک دوجے سے نمو پاتی ہیں ساری چیزیں
پیاس کا نام کہاں ہوتا تھا لب سے پہلے
وہ جو دن رات کی ترتیب لگاتا ہے ابھی
جانے کیا کرتا تھا اس کارِ عجب سے پہلے
شعر نے حسن کی ترویج کا سامان کیا
رائگاں جاتی تھی ہر چیز ادب سے پہلے
صبح کا بھولا ہوا آ تو گیا ہے واپس
مسئلہ یہ ہے کہ آیا نہیں شب سے پہلے
ہم کہاں عشق کی معراج کو جا پائیں گے
وہ ہمیں چھوڑنے والا ہے رجب سے پہلے
اس طرح دنیا کی ترتیب الٹ سکتی ہے
کیوں میسر ہوئے جاتے ہو طلب سے پہلے
آج کچھ اور ہی مقصد ہے چراغوں کا عقیلؔ
روشنی اتنی کہاں ہوتی تھی اب سے پہلے
(عقیل عباس چغتائی۔لاہور)
۔۔۔
غزل
اب مرے حسن سے بڑھ کر اسے بھائے چائے
ڈر ہے سوتن نہ مری بن کہیں جائے ،چائے
لوٹنے والا سفر سے مجھے بھولا ہوا ہے
رٹ برابر یہ لگا رکھی ہے چائے چائے
دلفریب اس کو عطا کیسی یہ تہذیب ہوئی
سوئے جذبات کو نرمی سے جگائے چائے
موسمِ سرما کی یخ بستہ ٹھٹھرتی شب میں
گرمیِ لمس سے اس دل کو لبھائے چائے
آپ غصے میں ہیں خاموش رہیں تھوڑی دیر
چند لمحوں میں بدل ڈالے گی رائے چائے
اس کی یادوں بھری اک شام کی دہلیز پہ پھر
دل پکارے چلے جاتا ہے کہ ہائے چائے
(عنبرین خان۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
معبدوں سے نہ صنم خانوں سے خوف آتا ہے
ہم کو اِس دور کے انسانوں سے خوف آتا ہے
جانے کیوں اشک و تبسم کے گنہگاروں کو
بزمِ تقدیس کے پیمانوں سے خوف آتا ہے
جبر کے شہر میں سہمے ہوئے انسانوں کو
حاکمِ وقت کے ارمانوں سے خوف آتا ہے
ایسے طوفانِ جنوں خیز کی آمد ہے کہ اب
سنگ و دشنام کو دیوانوں سے خوف آتا ہے
عمر کے آخری مہرے ہیں بساطِ جاں پر
زندگی اب تو تیرے شانوں سے خوف آتا ہے
ہم کو اِس عہدِ زباں بندی میں اکثر ساحلؔ
واعظِ پاک کے فرمانوں سے خوف آتا ہے
(ساحلؔ منیر۔میاں چنوں،خانیوال)
۔۔۔
غزل
کتنے آثار مرتے جاتے ہیں
مجھ میں ادوار مرتے جاتے ہیں
موسموں کا پتا نہیںچلتا
سارے تہوار مرتے جاتے ہیں
کیوں مصنف کو اس کی فکر نہیں؟
سارے کردار مرتے جاتے ہیں
ہجر، غم، انتظار، سناٹا
میرے سب یار مرتے جاتے ہیں
ہو سکے تو پھر آ کے زندہ کر
تیرے اقرار مرتے جاتے ہیں
کل زمانے کو یاد آئیں گے
اب جوبے کار مرتے جاتے ہیں
ہے فساد اس طرف بپا شرجیلؔ
لوگ اس پار مرتے جاتے ہیں
(شرجیل بخاری۔فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
اس کی مرضی وہ اختلاف کرے
پر عداوت کا اعتراف کرے
میں کئی روز سے نہیں رویا
میری آنکھوں کی گرد صاف کرے
گر اسے ڈر ہے شہر والوں کا
وہ مرے دل میں اعتکاف کرے
ہم نے پوچھا جو اپنے بارے میں
ہنس کے بولے خدا معاف کرے
جس کو چاہے یہ ا س کی مرضی ہے
جس سے چاہے وہ انحراف کرے
(سید فیروز عباس ہادی۔ ضلع بھکر)
۔۔۔
غزل
آدمی وہ لائقِ دستار ہے
جو جہاں میں صاحبِ کردار ہے
آج مدت بعد یہ عقدہ کھلا
عقل ناقص،عشق پائیدار ہے
بیچتا ہوں پھول اس کے شہر میں
مختصر سا اپنا کاروبار ہے
امن و آشا کی خبر کوئی نہیں
دیکھیے یہ آج کا اخبار ہے
وہ جو اپنی خواہشوں کا ہے غلام
وہ ہمارے گاؤں کا سردار ہے
دیکھتا ہے، سوچتا ہے جو یہاں
وہ یقیناً زندہ و بیدار ہے
جو تجھے دیکھے وہ تجھ پر مرمٹے
کس قدر مہنگا ترا دیدار ہے
یا الٰہی خیر! ان کی بزم میں
عشق ہے اورتذکرۂ دار ہے
دیکھ کر مجھ کو فرشتوں نے کہا
چھوڑیے یہ عشق کا بیمار ہے
زندگی کچھ بھی نہیں طارق ملک
یہ فقط گرتی ہوئی دیوار ہے
(طارق ملک ۔اللہ آباد، تحصیل لیاقت پور)
۔۔۔
غزل
ہنستا رہتا تھا چراغوں کو جلا کر اور پھر
میں چراغوں کو بجھاتے ہوئے رو پڑتا تھا
اس سے ملتا تھا تو کچھ ایسے خوشی ملتی تھی
میں گلے اس کو لگاتے ہوئے رو پڑتا تھا
بے حسی ان کو تو مدہوش کیے رکھتی تھی
میں بھی لوگوں کو جگاتے ہوئے رو پڑتا تھا
اس کی آنکھوں کی چمک اور بڑھاتی تھی نمی
مسئلے جب وہ بتاتے ہوئے رو پڑتا تھا
لوگ ہنستے تھے بہت میری مہم جوئی پر
اور میں فتنوں کو دباتے ہوئے رو پڑتا تھا
(فیصل مضطر۔ کوٹلی)
۔۔۔
غزل
بس تُو ہی تُو دکھائی دیا کل جہان میں
لیکن تری کمی ہے مرے خاندان میں
ناداں نے رکھ لیا ہے عدو کو امان میں
کیا خوب حوصلہ ہے تنِ ناتوان میں
آنگن ہمارا ایک رہے عمر بھر رہے
مت کھینچنا لکیر کوئی درمیان میں
ہم ہیں زمین زادے، مبارک زمیں ہمیں
لیکن ہماری فکر اڑے آسمان میں
تصویر ایک جس سے تھا دیوار کا جمال
اب وہ پڑی ہوئی ہے کہیں کوڑے دان میں
دو چار لفظ سادہ بھی ہونٹوں پہ لائیے
ابہام تو نہ ڈالیے اپنے بیان میں
(ابرار ابہام۔اسلام آباد)
۔۔۔
غزل
اداسی بارہا گُت کو سنوارے
بدن کِھلتا ستائش کو پکارے
ہمارا عشق اک الہامی قصّہ
ہمارے درد کے ہیں تیس پارے
سمیٹوں کیسے یہ بے چین دریا
بہت خستہ ہیں آنکھوں کے کنارے
رقیبی دوستوں سے شرط باندھی
تمہارے نام کے سپنے بھی ہارے
ہمہ تن گوش ہیں کوئی کہیں سے
ہمارا نام لے ہم کو پکارے
وہاں کھڑکی میں وہ زلفیں بکھیرے
یہاں جذبات بے قابو ہمارے
(ریحان بشیر۔ بہاول نگر)
۔۔۔
غزل
زخم کریدو، خط لکھو
خون سے اس کو، خط لکھو
میں زندان میں تنہا ہوں
سجنوں مِترو، خط لکھو
جدّت وِدّت بھاڑ میں جائے
فون کو رکھو، خط لکھو
گر وہ چنچل غصہ ہے
تحفہ بھیجو، خط لکھو
منت مانگو، ہاتھ اٹھاؤ
دھاگہ باندھو، خط لکھو
(فرقان علی۔ڈسکہ)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی
The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.