Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

جب بھی میرا ڈراما نشر ہوتا ہے تو دل بجھ جاتا ہے

$
0
0

فصیح باری خان کو اگر میں دورِ جدید کا سب سے نڈر ڈرامانگار کہوں تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ ایک وقت تھا جب اس نام کو بہت کم لوگ جانتے تھے، لیکن آج یہ نام فلمی حلقوں سے باہر بھی جانا پہچانا نام بن چکا ہے۔ اس کی ایک ہی وجہ ہے، ان کا کام۔ لوگ انہیں عصمت چغتائی کا میل ورژن بھی کہتے ہیں۔

فصیح باری خان پاکستانی ڈراما انڈسٹری کے ان کم یاب لکھاریوں کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جو ہمیشہ کچھ نیا اور اچھوتا کام کرتے ہیں، جو اپنے اردگرد ہونے والے واقعات اور معاشرے کی محرومیوں کو بڑی ہی خوب صورتی سے کاغذ پر منتقل کرتے ہیں اور انہیں پردے پر لے کر آتے ہیں۔

بڑے شہروں کی چھوٹی کہانیوں پر فوکس کرتے ہیں۔ بے باک اور بہترین لکھنے کے عادی ہیں۔ تبھی ان کے تمام سیریلز کے کردار سیدھے عوام کے دل میں اتر جاتے ہیں۔ رہی بات ان کے لکھے مکالموں کی تو اس کی الگ تعریف بنتی ہے۔ اب تک تقریباً پچیس ٹیلی فلمز وڈرامے اور ایک فلم کی کہانی لکھ چکے ہیں۔

فصیح باری خان کے ساتھ میری دوستی بہت زیادہ پرانی نہیں ہے لیکن چوںکہ وہ عوام کے دلوں میں گھر کرنا جانتے ہیں، تو ہماری اچھی بنتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے فصیح بھائی کے ساتھ ملاقات کا موقع ملا تو دل میں بہت سے سوالات تھے جو پوچھ ڈالے اور انہوں نے بھی کمال محبت اور شفقت کے ساتھ ایک ایک سوال کا تسلی بخش جواب دیا۔ موجودہ دور کے اس لکھاری اور ڈائریکٹر کے دل میں بہت سی باتیں پوشیدہ ہیں جو یقیناً شوبز اور ادب سے لگاؤ رکھنے والے احباب کے لیے دل چسپی کا باعث ہوں گی۔

پٹھانوں کے بنگش قبیلے سے تعلق رکھنے والے فصیح باری خان کے دادا کا تعلق تو کوہاٹ سے تھا لیکن آپ کی پیدائش 18 مارچ 1971 کو کراچی میں ہوئی۔ والد ایک کثیرالقومی کمپنی کے کراچی میں مینیجر تھے اور انہوں نے پوری زندگی پڑھائی کے ساتھ ساتھ یہی ایک جاب کی۔ سات آٹھ سال وہ رحیم یار خان میں بھی رہے۔

سات بہن بھائیوں میں ان کا نمبر پانچواں ہے جب کہ والدین اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ ساتوں بہن بھائیوں میں بہت اچھی دوستی ہے۔

آپ نے ماس کمیونیکیشن میں ایم-اے کیا اور پھر اردو میں بھی ایم-اے کیا۔ اردو ان کی پسندیدہ تھی۔ اس کے بعد فلمی صحافت میں کام شروع کیا اور ”فلم سٹی” کے نام سے ایک فلمی میگزین بھی نکالا تھا۔ ڈرامے اور فلمیں شروع سے ہی پسند تھیں۔ تیرہ سال تک فلمی صحافت میں رہے اور بہت سے لوگوں کے انٹرویو کرکے اپنا ایک نام پیدا کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں جن کے بھی انٹرویو کرتا تھا تو بھرپور تیاری کر کے جاتا، تو سب مجھ سے بہت متاثر ہوتے تھے۔

فصیح نے بچپن کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ میرے والدین اپنے وقت کے لحاظ سے بہت پروگریسیو تھے۔ انہوں نے ہم سات بہن بھائیوں کو برابر وقت اور مواقع دیئے۔ بنگش پٹھان ہونے کے باوجود ہماری فیملی میں کوئی خاص رواج یا پابندیاں نہیں تھیں۔ میرے میڈیا میں جانے پر کچھ لوگوں نے انہیں کہا بھی کہ یہ کیا کر رہا ہے؟؟

اس پر ان کا کہنا تھا کہ جو اس کو کرنا ہے وہ اسے لازمی کرنا چاہیے۔

کراچی میں آپ نے اسٹریٹ تھیٹر میں کام شروع کیا۔ کتھا اور سیوک وہ ادارے تھے جن کے ساتھ جڑ کر آپ کے کام میں نکھار آنا شروع ہوا۔ سنجیدہ تھیٹر میں آپ نے اداکاری بھی کی اور لکھت بھی۔

وہ بتاتے ہیں کہ ٹی وی پر لکھاری کے طور پہ میرے کیریئر کی شروعات 1997 میں رمل خان کے پروگرام سے ہوئی تھی جس میں، میں لنکس لکھتا تھا۔ پھر میں نے انہی کا ایک پروگرام ”ڈراما ہی ڈراما” کیا جس میں ڈراموں سے متعلق باتیں ہوتی تھیں۔ میں اس کا اسکرپٹ لکھتا تھا۔

میرا پہلا سیریل ”اب یہ ممکن نہیں” تھا۔ پھر میں نے ایک ڈراما لکھا جو آن ایئر نہیں گیا۔

بریک تھرو کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ میرا ایک سنگل پلے تھا ”جادو” جِسے یاسر نواز نے ڈائریکٹ کیا تھا۔ اس میں ہمایوں سعید اور تزئین حسین تھیں۔ اس کے آن ایئر جانے کے بعد مجھے ڈائریکٹر سلطانہ صدیقی کا فون آیا۔ انہوں نے بہت تعریف کی اور کہا کہ ہم آپ کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں۔ مہرین جبار کا بھی فون آیا۔ مجھے اس سنگل پلے سے بہت زیادہ فائدہ ہوا۔

پھر بات چلی میرے پسندیدہ ڈرامے ”خالہ کلثوم کا کنبہ” کی جس نے بچپن میں مجھے بہت متاثر کیا تھا۔ فصیح بھائی نے بتایا کہ اس دور میں ایک ہی طرح کے ڈرامے آن ایئر ہوتے تھے جن میں اکثر کتابی باتیں ہوتی تھیں۔ تو مجھے محسوس ہوا کہ ڈراما نیچرل ہونا چاہیے۔ کراچی شہر میں نے بہت گھوما اور وہاں کے لوگوں اور ان کے رویوں کا بغور مشاہدہ کیا، میں نے دیکھا کہ یہاں تو بہت سے علاقوں کی کہانیاں لکھی جا سکتی ہیں۔ یہی بات میں نے عاطف حسین سے کی جو ڈرامے کے ڈائریکٹر بھی تھے کہ گلی محلے کی باتیں اور ان کی روز مرہ زندگی پردے پر دکھانی چاہیے۔ اس ڈرامے کو لکھنے میں مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہوا کہ میں کراچی کے لائف اسٹائل کو اچھی طرح سمجھتا تھا اور آپ نے دیکھا کہ اس ڈرامے کی پھر دھوم مچ گئی کیوںکہ ہر فرد نے اسے خود سے ریلیٹ کیا۔

لاہور منتقل ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے آپ نے کہا کہ یہ شہر مجھے شروع سے کھینچتا تھا۔ مجھے یہاں رہتے آٹھ سال ہو چلے ہیں لیکن پھر بھی اس کی قدرومنزلت میری نظر میں کسی صورت کم نہیں ہوئی۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ مجھے یہاں بہت پہلے آ جانا چاہیے تھا۔ لیکن خیر کوئی بات نہیں۔

یہاں آنے کے بعد بہت سے ایسے لوگ جن کو نہیں جانتا تھا، ان سے میری دوستی ہوگئی تو یہ نظریہ بھی غلط ثابت ہو گیا کہ دوست صرف بچپن کے ہی ہوتے ہیں۔

میرا ماننا ہے کہ دوست آپ کو کسی بھی عمر میں مل سکتا ہے۔ میرے بھی بہت سے دوست حادثاتی طور پہ ملے اور اب تک ساتھ ہیں۔

یہ وہ ہیں جن سے میرا ذہن ملتا ہے۔

کیریئر کی ابتدا میں پیش آنے والے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ میں بہت بولڈ اور رف لکھتا تھا اور میرے ڈرامے میں ہیرو ہیروئن کا کوئی تصور نہیں ہوتا تھا۔ اس لیے یہ اسٹائل ہر آدمی سے ہضم نہیں ہوتا تھا۔ تبھی میرے ڈرامے کی آڈینس میں صرف پروگریسیو لوگ ہی ہوتے تھے۔

بہت سے لوگوں نے میری تحریروں اور اسکرپٹس کو فحش بھی کہا۔ کوئی کہتا کہ یہ بہت بے باک لکھتا ہے۔ یہ سن کہ کبھی کبھی میرا دل بجھ سا جاتا تھا۔ لیکن جو میرا سرکل ہے، میرے فینز ہیں، آپ جیسے لوگ ہیں انہیں دیکھ کہ مجھے خوشی ہوتی ہے جو مجھ سے اسی طرح کے ڈرامے کی توقع کرتے ہیں۔ ظاہر ہے پوری دنیا آپ کے ساتھ نہیں ہو سکتی۔

گھِسی پٹی محبت جب میں نے لکھا تو بہت سی خواتین مجھ سے توقع کرنے لگیں کہ میں ان کے لیے اور بامقصد ڈرامے لکھوں گا۔ اور اب میں لکھ رہا ہوں۔

اپنی شخصیت کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ مجھے لگتا ہے میں لکھنے کے معاملے میں بہت کاہل انسان ہوں۔ گھسی پٹی محبت کے بعد میں کچھ نہیں لکھ سکا۔

میرے ساتھ ایک اور عجیب چیز ہوتی ہے کہ جب میں کچھ لکھتا ہوں تو بہت جوش، ولولے اور محنت سے لکھتا ہوں لیکن جب بھی میرا کام ٹیلی کاسٹ ہوتا ہے تو میرا دل بجھ جاتا ہے، پتا نہیں کیوں۔ مجھے اپنی چیز بہت کم اچھی لگتی ہے۔ میں اپنی لکھائی کو زیادہ انجوائے نہیں کر پاتا۔

لکھنے کے حوالے سے اپنی انسپیریشن بتاتے ہوئے کہا کہ مجھے بہت سے لکھاریوں میں ”منَو بھائی” بہت پسند ہیں۔ وہ بہت سادہ اور پختہ کردار لکھتے تھے۔ میں نے ان کے بہت ڈرامے دیکھے لیکن ان کو وہ شہرت نہیں ملی جس کے وہ حق دار تھے۔ کردار بنانے کی انسپریشن میں نے ان سے لی ہے۔ ”ڈاکٹر انور سجاد” کا کام بھی پسند ہے۔ مجھے بانو قدسیہ کے ضیاء دور سے پہلے کے ڈرامے بہت پسند تھے۔ ضیاء دور کے بعد ان کے اسٹائل میں تبدیلی آ گئی تھی۔

آج کل کے لکھاریوں کی تو بہت موج ہے۔ آج انہیں بہت معاوضہ مل رہا ہے جو پہلے کبھی نہیں ملتا تھا۔ اب لکھاریوں کو بھی ہائی لائٹ کیا جاتا ہے اور ڈراموں میں ان کے اہم کردار کو تسلیم کیا جاتا ہے، جب کہ پہلے وہ گم نام سے ہوا کرتے تھے۔

آج کل کے ڈراموں پر بات کرتے ہوئے فصیح باری خان کا کہنا تھا کہ اِس دور کے ڈرامے زیادہ تر کمرشل ہوچکے ہیں جس میں لکھاری کا بھی قصور ہے۔ وہ پیسے اور شہرت کی خاطر ڈرامے کو خراب کر دیتے ہیں۔ یہ بھوک بہت خطرناک ہوتی ہے۔

میرے لیے ڈرامے کا مصرف یہ ہے کہ میرے اندر جو بات ہے میں اسے باہر نکال دوں۔ میں ریٹنگز پر بالکل یقین نہیں رکھتا اور نہ ہی یہ سوچتا ہوں کہ اس ڈرامے نے اتنے ایوارڈ لے لیے اور فلاں کو کوئی بھی نہ ملا۔

ہر ڈراما ہر ایک کو پسند نہیں ہوتا۔ میں تو کہتا ہوں بھائی جس کو جو چیز پسند ہے وہ دیکھے۔

مجھے فلسفے والے ڈرامے پسند نہیں ہیں، میں انٹیلیجنٹ ڈرامے دیکھتا ہوں۔ مجھے بی گل اور مصطفیٰ آفریدی کا کام پسند ہے۔ سنگِ مرمر، ڈر سی جاتی ہے صِلہ اور تلخیاں میرے پسندیدہ ڈرامے رہے ہیں۔ آمنہ مفتی کا الو برائے فروخت بہت اچھا لگا تھا۔ بی گل کے کردار بہت اچھے ہوتے ہیں۔ فائزہ افتخار کا ”عون زہرہ” بھی اچھا تھا۔

پروڈکشن ہاؤس کے بارے میں بتایا کہ مجھے ”آئی ڈریمز” کے ساتھ کام کرنے کا مزہ آتا ہے کیوںکہ اس میں سنیہ اکرام ہوتی ہیں جن سے میری اچھی دوستی ہے۔

آنے والے پراجیکٹس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں فہد مصطفیٰ کے لیے ایک سیریل کر رہا ہوں جس کا نام ہے ”بہت بری بات”۔ ایک ثناء شاہنواز کے لیے کر رہا ہوں۔ ساتھ ہی میری شارٹ فلم ”دفع ہوجاؤ تم” اور گلزار پر بھی کام چل رہا ہے، جو آپ کباڑ خانہ (یوٹیوب چینل) پر دیکھ سکیں گے۔ چنٹو کی ممی کے دوسرے حصے پر بھی کام شروع کرنا ہے۔

فلم کے تجربے پر بولے کہ میرا فلم کا تجربہ اتنا اچھا نہیں رہا جتنا میں نے سوچا تھا۔ سات دن محبت اِن کی جو کہانی میں نے لکھی تھی وہ بالکل بدل گئی۔ مجھے نہیں پتا تھا کہ فلم میں اتنی مداخلت ہوتی ہے۔ اس لیے اب اس طرف نہیں جانا۔

فصیح باری خان کا گھر ان کے بہترین ذوق اور ان کی حساس طبیعت کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ یہ گھر کم اور ایک میوزیم زیادہ ہے جہاں آپ پاکستان بھر اور دیگر ممالک کی ثقافت کا عمیق مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ پرانی فلموں کے پوسٹر اور مدھم روشنیاں اسے اور زیادہ خواب ناک سا بناتی ہیں۔ چنٹو کی ممی اور دفع ہو جاؤ تم میں آپ ان کا گھر دیکھ سکتے ہیں۔

ہم نے حنا دلپزیر کو فصیح خان کے بہت سے ڈراموں میں دیکھا ہے۔ ان کے کام کے حوالے سے جب میں نے پوچھا تو بولے حنا بہت اچھی آرٹسٹ ہیں۔ ان کی کامیڈی ٹائمنگ بہت اچھی ہے۔ وہ میرے کرداروں میں اتنے اچھے طریقے سے ڈھل جاتی ہیں کہ ان کے ساتھ کام کرنے کا مزہ آتا ہے۔ ہماری کیمسٹری بہت اچھی ہے جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ میری لائنز کو اچھی طرح سمجھتی ہیں اور کرداروں کو اوڑھ لیتی ہیں۔

پھر بات چلی ان کے ماسٹر پیس ”قدوسی صاحب کی بیوہ” کی جس کے کلپس بھی وہ اکثر اپنی فیس بک پر فینز کے لیے شیئر کرتے رہتے ہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ اس ڈرامے کا اور خصوصاً اس میں بولے گئے ڈائیلاگز اور تلفظ کا میں بہت بڑا مداح ہوں۔

یہاں پڑھنے والوں کو میں یہ بتاتا چلوں کہ یہ ڈراما اپنے آپ میں ایک ریکارڈ تھا جس نے ٹی آر پی کے چارٹ پر مدتوں راج کیا تھا۔ اِس میں حنا دلپزیر جیسی منجھی ہوئی آرٹسٹ نے بیس مختلف کردار نہایت عمدگی سے نبھائے تھے۔ فصیح باری خان بولے کہ میں اور اس ڈرامے کے ڈائریکٹر مظہر دونوں اچھے دوست اور ہم عمر ہیں۔

ہم یہ سوچتے تھے کہ ایک دور تھا جب لوگوں کے پاس فرصت ہوتی تھی، ان کا ملنا جلنا ہوتا تھا۔ محلے میں کئی کردار ہوتے تھے جیسے اس ڈرامے میں عقیلہ کا کردار ہے۔ میں نے اپنے بچپن میں ایسے بہت سے لوگ دیکھے تھے اب تو یہ کردار بہت کم نظر آتے ہیں جس کی ایک وجہ محلے داری سسٹم کا کم ہو جانا ہے۔ ہم نے سوچا کہ کچھ ایسا ہونا چاہیے، تو یہی ایک ناسٹیلجک فیلنگ تھی اس ڈرامے کو شروع کرنے کے پیچھے۔ اس کی ساری اسٹوری میں نے روانی میں لکھی تھی۔ میں کبھی بھی اکٹھی کہانی نہیں لکھتا۔ ایک سین کے بعد دوسرا سین موقع پر ہی لکھ ڈالٹا ہوں۔ پھر اس ڈرامے میں حنا تھیں جو بہت بیلنس کامیڈی کرتی ہیں تو مجھے اس چیز کی فکر نہیں تھی۔ انہوں نے سنجیدگی کے ساتھ کامیڈی کی۔ یہ روشن آنکھ بہت کم لوگوں کے پاس ہوتی ہے۔

اس ڈرامے کا ایک مرکزی کردار ودود کا تھا جسے وقار حسین نے نہایت عمدگی سے نبھایا۔ اس کا پسِ منظر بتاتے ہوئے کہا کہ وقار میرے ایک ڈرامے ”سرے گھاٹ کی فرزانہ” میں میک اپ آرٹسٹ تھا۔ اس میں ماریہ واسطی کا لیڈ رول تھا۔ وقار کی حرکتیں دیکھ کہ ایک دفعہ میں نے ماریہ سے کہا کہ اس کو ایکٹنگ کرنی چاہیے۔ تو وہ بولیں کرواؤ تم اس سے اداکاری۔ تبھی سوچ لیا کہ اس کے لیے کوئی خاص کیریکٹر لکھوں گا۔ پہلے رونق جہاں کا نفسیاتی گھرانا میں اسے چانس دیا اور پھر قدوسی صاحب کی بیوہ میں بھی اس کا کردار لکھ دیا جسے بہت پذیرائی ملی۔

میں نے پوچھا کہ آپ کے ڈائیلاگز میں اردو کا بہترین استعمال کیا جاتا ہے۔ پرانے الفاظ اور محاوروں کی مدد سے ایک ایک چیز کو بیان کیا جاتا ہے۔ اِس پر فصیح خان کا کہنا تھا کہ میں تب ہی لکھتا ہوں جب طبیعت آمادہ ہو اور جب لکھنے بیٹھ جاؤں تو دل سے لکھتا ہوں۔ تو کراچی کے محلوں میں جیسے بولا جاتا ہے اسے میں نے پیش کیا۔ اردو ویسے بھی میری پسندیدہ زبان ہے تو اسے لکھنے میں بھی مزہ آتا ہے۔

اپنے ڈراموں کے متنازع اور بولڈ ہونے کے بارے میں کہا کہ ہر آدمی کا ایک اسٹائل ہوتا ہے۔ مجھے کسی نے کہا تھا کہ آپ اپنے لکھنے کا اسٹائل بدلیں تو میں نے جواب دیا کہ اسی اسٹائل کی تو قیمت ہوتی ہے۔ ایک پینٹر کے ہاتھ کا اسٹروک ہی آپ کو بتاتا ہے کہ یہ فلاں پینٹر کی تصویر ہے۔ یہ اسٹائل تو ریاضت کے بعد آتا ہے۔ تو میں کسی کی تنقید کو دل پر نہیں لیتا۔ میں بہت بہادر و جرأت مند انسان ہوں۔ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ہم ڈرامے کے موضوع سے ہی پہچان جاتے ہیں کہ اس کے لکھاری آپ ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ میری کام یابی ہے۔

بھوپال والی بلقیس ، پِچھل پیریاں، سرے گھاٹ کی فرزانہ، برنس روڈ کی نیلوفر، بونی مینشن کی سنڈریلائیں۔۔۔۔ یہ تمام ٹائٹل کسی جگہ اور کسی نام سے مل کر بنے ہیں، یہ منفرد نام کیسے سوجھتے ہیں اور ان کی وجہ کیا ہے؟ کیا ان ناموں کے پیچھے حقیقی زندگی کا کوئی کردار ہے؟؟

جواب یہ تھا کہ میرے ڈراموں کا فلیور الگ ہے۔ الگ مزاج ہے تو میں سوچتا ہوں کہ نام بھی منفرد ہونا چاہیے۔ میں سیدھا سیدھا نام نہیں رکھتا۔ اب جیسے چنٹو کی ممی اور دفع ہو جاؤ تم بھی، بہت الگ ہیں۔ اور ان ناموں کے پیچھے حقیقی زندگی کا کوئی کردار نہیں ہے۔ یہ سب میری سوچ کا نتیجہ ہیں۔

پاکستان میں متنازعہ موضوعات پر فلم کے حوالے سے ان کا مؤقف یہ تھا کہ ایسے موضوعات پر فلمیں بالکل بننی چاہییں۔ یہ ہمارے معاشرے کا عکس ہیں۔ ہمارے لوگ پچاس ساٹھ کی دہائی میں بہت روشن خیال تھے۔ لوگ مل بیٹھتے تھے، کتاب پہ بات ہوتی تھی، فلم کو ڈسکس کرتے تھے لیکن اب یہ کلچر رہا ہی نہیں۔ اس چیز کو واپس آنا چاہیے۔

گھسی پٹی محبت میں سامعہ کا کردار ایک لاجواب اور انوکھا کردار تھا۔ اس کے بارے میں جب بات چلی تو فصیح بھائی نے بتایا کہ اس کے پیچھے ایک کہانی ہے۔ مجھے سفر کے دوران ایک خاتون ملیں جنہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کیا کرتے ہیں؟ میں نے بتایا کہ ڈرامہ رائٹر ہوں۔ جب میں نے اپنے ڈراموں کا نام بتایا تو وہ اٹھ کھڑی ہوئیں کہ مجھے یقین نہیں آتا۔ ان کے ذہن میں تھا کہ قدوسی صاحب کی بیوہ کسی بوڑھے بابے ٹائپ شخص نے لکھا ہو گا۔ تب انہوں نے کہا کہ میری خواہش تھی کہ اس ڈرامے کے رائٹر سے اگر کبھی ملی تو اپنی زندگی کی کہانی سناؤں گی۔ پہلے میں نے انہیں سنجیدہ نہیں لیا لیکن جب انہوں نے کہانی سنانی شروع کی تو وہ اتنی اچھی اور گہری تھی کہ میرے دل کو لگی اور میں نے اسے لکھ ڈالا۔ تو یہ کردار حقیقی زندگی سے متاثر ہو کہ لکھا تھا۔

”چِنٹو کی ممی” کا ذکر چلا تو میں نے شکوہ کیا کہ یہ ویب سیریز بہت مختصر تھی، اس سیریز کو ذرا لمبا چلنا چاہیے تھا۔ فصیح باری خان نے بتایا کہ چوںکہ یہ بہت مزے کا تھا تو ہم نے اسے دو حصوں میں بنانا ہے۔ ایک حصہ آ چکا ہے جب کہ دوسرا آنے والا ہے۔ ہمارا یوٹیوب چینل ”کباڑ خانہ” اگرچہ نیا ہے لیکن اس ڈرامے پر بہت اچھا ریسپانس ملا ہے۔ اور جو لوگ اسے فحش قرار دیتے ہیں ان کے لیے میں کہوں گا کہ یہ ایک لوجیکل ڈراما ہے جس میں ایک عورت کی جسمانی ضروریات کو دکھایا گیا ہے جس پر ہمارے معاشرے میں بات نہیں کی جاتی۔ تو ہم نے کچھ غلط نہیں کیا۔

اِس بولڈ ویب سیریز کو فصیح کے دوست عمران قاضی نے ڈائریکٹ کیا ہے جب کہ اس کی تمام شوٹنگ فصیح باری خان کے اپنے گھر پر ہوئی ہے۔ وقار حسین، تمکنت منصور، عبداللہ اعجاز اور سمیر بُچہ نے مرکزی کردار نہایت عمدگی سے ادا کیے ہی۔

اس ویب سیریز میں مشہور یوٹیوبر تمکنت منصور کی کاسٹنگ پر بولے کہ تمکنت یہ کردار ڈیزرو کرتی تھی۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو کب سے جانتے تھے اور ایک دوسرے کے کام کی بہت تعریف کرتے تھے۔ وہ میرے ڈرامے دیکھا کرتی تھیں۔ میں کہا بھی کرتا تھا کہ کبھی ہم ساتھ کام کریں گے۔ بس اتفاق سے اس ڈرامے کا سین بنا تو میں نے تمکنت سے پوچھا۔ ان کا جواب تھا کہ مجھے آپ کے ساتھ کام کرنا ہے، تو میں کروں گی۔ یوں وہ اس کا حصہ بن گئیں۔ وقار بھی اس ڈرامے میں ایک بالکل نئے روپ میں سامنے آیا تھا جسے ناظرین نے بہت سراہا۔ عورت بننا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ وقار اپنا میک اوور خود ہی کرتا تھا۔ مجھے ایسی ہی ایک عورت چاہیے تھی، موٹی اور کیوٹ سی۔ اگر میں اس کی جگہ کسی ہیروئن کو لیتا تو وہ نخرے کرتی کہ میں فلاں سین نہیں کروں گی لیکن وقار کے ساتھ ایسا کوئی معاملہ نہیں تھا۔ جیسے کھانے والا سین اس نے بہت اعلیٰ کیا تھا جو میں سمجھتا ہوں کہ ہر ہیروئن کے لیے کرنا آسان نہیں۔

فصیح نے بتایا کہ میں دو بار بھارت بھی جا چکا ہوں جہاں میں نے دہلی، بھوپال، اُجین، رتلام، اِندور کا دورہ کیا اور بہت کچھ دیکھا۔ میرے کافی رشتے دار بھارت میں رہتے ہیں تو مجھے کوئی مشکل نہیں ہوئی۔ وہاں میرے ڈراموں کے بہت سے فینز ہیں۔ اس کے علاوہ میں تھائی لینڈ، ہالینڈ، سنگاپور، سکاٹ لینڈ اور نیپال بھی گیا ہوں۔ نیپال ایک سیریل کی ریکی کے لیے گیا تھا۔

پسندیدہ چیزوں کے بارے میں بتایا کہ کھانے میں ساگ، مکھن، تازہ مکئی کی روٹی اور لسی بہت پسند ہے۔ رنگ کالا، لباس میں ٹی شرٹ، شہروں میں لاہور، موسم سردی کا، پاکستانی علاقوں میں ہُنزہ، ہیروئنوں میں تبو جب کہ پاکستان میں عارفہ صدیقی اور بابرہ شریف کا کام بہت پسند ہے۔

سجل علی اور فہد مصطفیٰ ٹی وی کے پسندیدہ فن کار ہیں۔ سجل علی کے ساتھ مستقبل میں بھی ضرور کام کروں گا۔

میرا پسندیدہ گانا 1964 کی فلم وہ کون تھی کا ”جو ہم نے داستاں اپنی سنائی آپ کیوں روئے” ہے جسے لتا منگیشکر نے گایا تھا۔

ادب میں راجندر سنگھ بیدی، رحمٰن عباس اور شمس الرحمٰن صدیقی کو پڑھنا بہت پسند ہے۔

بھارتی موسیقاروں میں جئے دیو، مدن موہن اور اے-آر رحمٰن بہت پسند ہیں۔

فلموں میں گرودت کی ’’صاحب، بیوی اور غلام‘‘ ، جب کہ باسو بھٹا چاریہ کی گِرہ پرویش اور آویشکار بہت پسند ہیں۔ باسو چیٹر جی کی کچھ سادہ اور ہلکی پھلکی فلمیں جیسے چھوٹی سی بات، رجنی گندھا اور چِت چور بہت پسند ہیں۔

اگر کبھی کسی بھارتی کلاکار کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تو تبو اور پنکج ترپاٹھی کے ساتھ کروں گا۔

آخر میں کچھ ہلکی پھلکی باتیں کھانوں، سیاحت اور لاہور پر بھی ہوئیں۔

موصوف نے مجھ سے لاہور کے بہت سے منفرد کھابوں اور جگہوں کے بارے میں پوچھا اور وہاں جانے کا عزم ظاہر کیا۔ اچھے اور منفرد کھانوں کے بہت شوقین ہیں۔ ڈھیروں لوازمات کے ساتھ اپنی خاص ترکیب سے بنائے گئے حلوے سے میری تواضع کی جسے چکھ کر میں ان کے ٹیسٹ کی داد دیے بنا نہ رہ سکا۔

اسی طرح سیاحت پر بات چلی تو بتایا کہ میں سفر کرنا اور سفرنامے پڑھنا بہت پسند کرتا ہوں۔ کمراٹ جانے کی خواہش ہے اور عنقریب جاؤں گا۔

میرے حالیہ آزاد جموں و کشمیر کے لمبے سفر کی بھی بات کی جو وہ فیس بک پر دیکھتے آ رہے تھے۔ انہیں سماہنی، سون سکیسر ویلی، کوہ سلیمان اور پنج پیر جیسی جگہوں کے بارے میں معلومات دیں۔ پھر جب میں نے انہیں اپنی کتاب شاہنامہ پیش کی تو بہت خوش ہوئے، کتاب کھول کہ مضامین کی فہرست چیک کی اور ایک ایک کے بارے میں مجھ سے سوالات کیے۔ خصوصاً گلگت بلتستان کے کھانوں کے بارے میں پڑھا تو اپنا بھی تجربہ بیان کیا۔

ان کی یہ ادا مجھے بہت بھائی کہ ایک اچھا آرٹسٹ ایسا ہی ہوتا ہے، ہر چیز کو گہرائی سے دیکھنے والا۔

فصیح بھائی کے ساتھ چند گھنٹے گزارنے کے بعد میں یہ دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ شخص اپنے کام کے معاملے میں بہت حساس ہے اور جن جن چیزوں میں دل چسپی رکھتا ہے، ان کو کھوجتا ہے۔ یاروں کا یار ہے اور اپنی بات کھل کہ کہہ دینے کا عادی ہے۔ حقیقت پسندی اور عاجزی ان کے مزاج میں کوٹ کوٹ کہ بھری ہوئی ہے۔

مکمل طور پر عوامی شخص ہیں اور فینز سے ملنا پسند کرتے ہیں۔ ان کی رائے کو بھی اہمیت دیتے ہیں۔

The post جب بھی میرا ڈراما نشر ہوتا ہے تو دل بجھ جاتا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>