یوں تو نجی سطح پر خلائی سیّاحت کا ڈرامائی آغاز ہوچکا ہے مگر ارب پتیوں کے اس کھیل میں عام لوگ ابھی کوسوں دور تھے لیکن اب عین ممکن ہو چلا ہے کہ خلائی سفر کے شائقین کو ایلون مسک اور جیف بیزوس سے پہلے غباروں کے ذریعے خلاء کی سیر پر لے جایا جائے اور انہیں پیاری زمین وخلاء کے غیرمعمولی مناظر سے لطف اندوز ہونے کا ایک موقع فراہم کردیا جائے۔ بس اس کے لیے آپ کو چند سال انتظار کرنا ہوگا۔
اب خلاء کو قریب سے دیکھنے کا خواب زیادہ لمبے عرصے تک محض خواب نہیں رہ سکے گا۔ حال ہی میں کئی کمپنیاں وجود میں آچکی ہیں جو غباروں کی مدد سے خلاء میں مسافروں کو لے جانے کے انتظامات کررہی ہیں اور ان میں کئی ایک نے اپنے ابتدائی ٹیسٹ بھی پاس کرلیے ہیں۔
ان نئی خلائی سیّاحتی فرموں میں اسپیس پر سپیکٹیو(Space Perspective)، ورلڈ وِیو اِنٹرپرائزز(World View Interprises) بارسلونا سے تعلق رکھنے والی ہسپانوی کمپنی ـ”Zero 2 Infinity” نمایاں ہیں۔ یہ کمپنیاں مسافروں کو 50,000 سے لے کر100,000 ڈالروں کے لگ بھگ معاوضے کے صلے میں خلاء کی سیر کروائیں گی۔
اسپیس پرسپیکٹیوکمپنی اب ملین ڈالروں کے بجائے 125,000 ڈالر میں خلاء میں پہنچانے کی پیش کشیں کررہی ہے اور جو اس کے ٹکٹ حاصل کرپائیں گے وہ خلاء کے ساتھ زمین کے دل کش مناظر سے بھی لطف اندوز ہوسکیں گے، پرسپیکٹیو کے معنی بھی منظر یا نظارے کے ہیں۔
یہ فلوریڈا۔امریکا کی نئی سیّاحتی خلائی فرم ہے جس نے ایسا غبارے کا نظام تخلیق کرلیا ہے جو خلائی کیپسول کو خلاء میں پہنچاتا ہے۔ اس کا نام نیپچون۔ون (Neptune-One) رکھا گیا ہے جو نظام شمسی کا آٹھواں بعید سیّارہ ہے۔ نیپچون۔ون کی تجارتی خلائی پروازوں کے انتظامات کرنے کے لیے عملی ٹیسٹ پروازیں جون 2021 ء میں کی جاچکی ہیں اور اسی ماہ سے کمپنی نے اپنے سیّاحتی سیٹوں کی بکنگ کا آغاز بھی کردیا تھا جو کہ آئندہ آنے والے سالوں 2024 ء ، 2025 ء میں اور اس کے بعد کے سالوں میں خلاء کی جانب روانہ کی جائیں گی۔
ٹوسن، ایری زونا۔امریکا کی کمپنی ’’ورلڈ ویو انٹرپرائزز‘‘ نے تو اسپیس پرسپیکٹیو کی کل آفر سے نصف قیمت کی آفر کا اعلان کردیا ہے۔ وہ خلائی سفر کے متلاشی لوگوں کو 50,000 ہزار ڈالر میں خلاء میں لے جائے گی۔ اس انقلابی خلائی سیّاحتی کمپنی ’اسپیس پرسپیکٹیو‘ کے مشترکہ بانی اور چیف ایگزیکٹیو آفیسرز خلاء و زمینی سائنس کے حوالے سے متحرک ایک زبردست خاتون جین پوئینٹنر (Jane Poynter) اور ٹیِبرمیکیلم (Taber Maccallum) ہیں۔
یہ دونوں بزنس پارٹنر ہونے کے ساتھ زندگی کے بھی ساتھی ہیں اور انہوں نے ہی مل کر پہلے کمپنی ’ورلڈ ویو ‘ اور پھر ’اسپیس پرسپیکٹیو‘ قائم کی ہیں۔ جین اس کے علاوہ اوریکل۔ایریزونا میں قائم امریکی ارتھ سائنس سسٹم کے تحقیقاتی مرکز “Biosphere2″ کی بھی مشترکہ بانی رکن ہیں جب کہ ان کے شوہر میکیلم تجارتی خلائی سیّاحت کی فیڈریشن “CSF”کے چیئرمین ہیں۔
غباروں کی ساخت، کارکردگی اور تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو غبارے ہماری زندگی میں بڑی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ بچوں کے کھیلنے سے لے کر دیگر سماجی تقریبات ہوں یا قومی تہوار، فضاء میں اشتہاری مہم ہو، ان کا استعمال عام ہے ۔ فی زمانہ گیسوں کے ذریعے دیوقامت غباروں میں فضاء کی سیر کے ساتھ کمپنیوں کی پبلیسٹی مہم میں ان غباروں کو نہایت خوب صورتی سے کام میں لایا جاتا ہے۔
اٹھارہویں صدی سے لوگوں میں غباروں کو فضاء میں چھوڑنے کا رواج پڑ گیا تھا، جب کپڑے اور کینوس کے غباروں کو گرم ہوا کی مدد سے اوپر بھیجا کرتے تھے۔1782 ء میں مونٹگولفیئر(Montgolfier) برادرز نے اپنے تجربے کے ذریعے دنیا کے پہلے جانوروں کو دُور فضائی سفر پر روانہ کیا، اونچائی (Altitude) پر وہ جان دار محفوظ رہے تھے، چناںچہ 1783 ء میں دنیا کا پہلا انسان غبارے کی مدد سے فضائی سفر پر روانہ کیا گیا۔
1790 ء میں پہلا غبارہ جو گیس بھر کر اڑایا گیا وہ ہائیڈروجن گیس کا غبارہ تھا۔ فرانس میں ایک صدی بعد پہلے ہائیڈروجن گیس سے بھرے موسمیاتی غبارے چھوڑے گئے جن کا استعمال موسمیاتی ادارے و خلائی ایجنسیاں فضاء و خلاء کے مطالعے کے لیے کرتی رہیں۔ 1824 ء میں عظیم سائنس داں مائیکل فیراڈے نے دنیا کے سب سے پہلے ربڑ کے جدید غبارے بنائے جو کہ ریکارڈ پر ہیں۔
ان کے استعمال میں گیسیں شامل کی گئیں۔ ان ہی تجربات کے نتیجے میں 1825 ء میں خصوصی طور پر ہائیڈروجن کے غبارے فروخت کیے گئے جو تھامس ہینڈکاک کے بنائے ہوئے تھے۔ لیکن فیراڈے کے بنائے ہوئے غبارے اپنی بناوٹ اور کارکردگی کے لحاظ سے انفرادیت کے حامل بن گئے تھے جب کہ امریکا میں جدید غباروں کی فروخت 20 صدی کے اوائل میں شروع ہوچکی تھی۔
غباروں کی کئی قسموں میں ایک سولر یا شمسی غبارے ہیں جو باریک ہوتے ہیں اور ان میں ہوا بھر ی ہوتی ہے۔ جب ان غباروں پر سورج کی گرمی یا تپش پڑتی ہے تو ہوا گرم ہوکر اوپر اٹھتی ہے جو غبارے کو اوپر لے جاتی ہے۔ غبارے خاص مقاصد کے لیے بھی چھوڑے جاتے ہیں جنہیں ’’بیلو ن راکٹ‘‘ کہتے ہیں۔
غبارے والے اس راکٹ میں غبارے سے سکڑنے سے ہوا دباؤ کے زیراثر اس کے منہ سے خارج ہوتی ہے جب وہ کھلتا ہے اور اس طرح گیس کا اخراج ہوتا ہے۔ یہ نیوٹن کے قانون حرکت کا تیسرا اصول ہے، یعنی ’’عمل و رَدِعمل۔‘‘ یہ گیس پیچھے کی جانب سے خارج ہوتی ہے جو اسے آگے کے طرف دھکیلتی ہے۔ یہی اصول حرکت راکٹ کو روبہ عمل کرتا ہے جو مقدار میں یکساں مگر مخالف سمت میں دباؤ ڈالتا ہے جس سے راکٹ اوپر جاتا ہے۔ گرم ہو ا کیوںکہ ہلکی ہوتی ہے اسی لیے بہ آسانی اوپر چلی جاتی ہے۔ چناںچہ 18 صدی یا اس سے پہلے کی پروازیں گرم ہوائی غباروں کی مدد سے تیار کی جاتی تھیں، ان میں ہائیڈروجن گیس کی طاقت سے مشین کو اوپر اٹھایا جاتا ہے۔ اس کے بعد کول گیس کا استعمال کیا گیا اور اب ہیلیم گیسوں کو غباروں کا ایندھن بنایا جاتا ہے۔
ہوا کی مدد سے اَپ فارورڈ غبارے سفر کرتے ہیں، جنہیں ’’ایئر شپ‘‘ کہا جاتا ہے۔ غبارے کے نیچے اس کا انجن ہوتا ہے اور ہوا کی مدد سے اسے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ ایسے ہی ایئرشپس میں “Goodyear” اور “Zeppelin” کمپنیاں نمایاں رہی ہیں۔ یہ ڈاک کی تقسیم وغیرہ اور فلکیاتی تحقیق کے لیے استعمال ہوتے رہے ہیں۔ موسمیاتی سیارے زمینی کرے کے اطراف 50 کلومیٹر کی بلندی پر چھوڑے جاتے ہیں، جنہیں ’’اسٹریٹوفیئر‘‘ کہتے ہیں جب کہ طیاروں کی اڑان 20 کلومیٹر پر ’’ٹروسفیئر‘‘ میں ہوتی ہے اور 100 کلومیٹر بلندی پر “Aurora” ہے جس میں خلاء اور زمین کی حد مقرر ہے یہ “Karman Line” 80 کلومیٹر یا 62 میل کی دوری پر ہے جہاں خلاء کی شروعات ہوتی ہے۔
آسمان کی انتہائی بلندیوں سے جمپ لگانے کے عالمی ریکارڈ ہولڈر ڈائیور اور جمپر بھی ایسے ہی غباروں کی مدد سے مطلوبہ بلندی تک پہنچے تھے۔1960 ء میں پہلی بار امریکی ایئرفورس کے ایک کرنل ٹیسٹ پائیلٹ جوزف کیٹنگر(Joseph Kittinger) نے تاریخ کی سب سے اونچی پرواز کی اور چھلانگ لگائی تھی۔ وہ غبارے کی مدد سے ہی 19.5 میل (چالیس ہزار فٹ) کی اونچائی پر گئے تو ان کے ساتھ سامان و آلات کا وزن 150 پاؤنڈ تھا۔
وہ 450 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے جمپ لگاتے ہوئے زمین کی جانب آئے اور پیراشوٹس کی مدد سے اترے۔ 52 سالوں بعد ان کے اس تاریخی ریکارڈ کو بریک کیا گیا اور ایک آسٹرین اسکائی ڈائیور نے کرنل کیٹنگر کا ریکارڈ توڑا۔ 14 اکتوبر2012 ء کو 43 سالہ ڈائیور فیلکس باؤم گارڈنر ( Felix Baumgartner) بھی ہیلیم غبارے کے ذریعے زمینی کرے اسٹریٹوفیئر پہنچے اور24.2 میل کی بلندی سے ہائی جمپ لگائی۔ وہ نیومیکسیکو۔امریکا میں زمین پر پیراشوٹس سے اترے ، یہ امریکی “Red Bull Stratos” پروجیکٹ کا حصّہ تھا اور یہ تاریخی ریکارڈ بریکنگ جمپ تھی۔
نیپچون۔ون کے منصوبے کے مطابق تجویز ہے کہ خلائی پروازوں کے ذریعے مسافروں کو ایک لاکھ (100,000) فٹس، 30 کلومیٹر یا 18.64 میل کی بلندی تک لے جایا جائے گا۔ یہ انٹرنیشنل فیڈریشن آف ایئروناٹکس(FAI) کے عین مطابق بلندی ہے۔ اصل میں خلاء کی شروعات 330,000 فٹس (100 کلومیٹر یا 62 میل) کی بلندی شروع ہوتی ہے تو اس صورت میں زمین سے خلاء کی دوری پر تیکنیکی طور پر جو مسافر نیپچون پر سوار ہوں گے وہ ’’خلائی سیّاح‘‘ سمجھے جائیں گے نہ کہ خلاباز۔ اسپیس پرسپیکٹو کے ایک جائزے کے مطابق نیپچون۔ ون خلائی جہاز تین بنیادی جُز میں تقسیم ہے، 1 ۔ اڑان والا غبارہ: یہ بالکل ویسے ہی کام کرتا ہے جو کہ ناسا کی ٹیکنالوجی استعمال کرتی ہے۔
2۔ زمینی اسٹریٹوفیئر میں دباؤ والے غبارے کے ذریعے ایک خلائی کیپسول مسافروں کو خلاء میں پہنچاتا ہے جو کہ جہاز کے اندر رہتے ہوئے خلاء کا 360 ڈگری پر پیش نگاہ جائزہ کراتا ہے، 3 ۔ ایک مہرباں نظام حفاظت کے تحت جو بیک اپ کے ساتھ بنایا گیا ہے اور ایمرجینسی کی صورت میں پیرا شوٹس کی مدد سے باحفاظت زمینی لینڈنگ ہوتی ہے۔ ایک راکٹ کے عمل کے یکسر برعکس غباروں کے ذریعے خلائی سفر میں مسافروں کو دھیرے دھیرے، آہستگی کے ساتھ اوپر کی جانب اٹھایا جاتا ہے۔ خلاء سے قریب ترین قربت میں یہاں چھے سے بارہ گھنٹوں کے مابین سفر ممکن ہوسکے گا۔
دنیا کے اطراف خلائی ایجنسیاں اور فرمیں پہلے ہی خلائی غباروں کو مفید طور پر استعمال کرچکی ہیں جن میں خلائی دوربینوں، روبوٹس اور دوسرے متعلق سائنسی آلات کو غباروں کے ذریعے خلاء کے حوالے کیا جاتا رہا ہے۔ نیپچون۔ون بھی ایک ترقی یافتہ غبارے کی ہی شکل ہے جس میں مسافروں کے کیپسول کو خاص طریقے سے ڈیزائن کیا گیا ہے، اس میں اب روایتی فضائی غباروں کے برعکس ہائیڈروجن گیس استعمال کی جارہی ہے۔ آج کی خلائی ایئرواسپیس فرمیں خلاء تک دسترس کے لیے راکٹوں پر انحصار کرتی آئی ہیں جن میں اسپیس ایکس، ورجن گالیکٹیک اور بلیواورجن سرفہرست ہیں۔
نیپچون خلائی غبارے کا کیپسول ہلکے وزن کا رکھا گیا ہے یہ مضررساں گیسوں کے اخراج کا سبب بھی نہیں بنتا۔ پرواز کے دوران دباؤ والا کیپسول خلائی غبارے کے نیچے لٹکا ہوتا ہے اور ایک پائیلٹ سمیت 9 خلائی پیسنجروں کو خلاء میں لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے جب کہ اس پرواز کا کل دورانیہ چھے گھنٹے تک ہے، ایک لاکھ فٹس کی بلندی پر جہاں مسافر خلاء سے نزدیک رہ کا اس کا نظارہ کریں گے وہ دو گھنٹے دورانیہ کا وقت ہے۔
کمپنی کی ویب سائیٹ سے پتا چلتا ہے کہ نیپچون کے کیسپول میں مسافروں کی سیٹوں کے ساتھ علیحدہ ایک اہم فیچر “Refreshment” کے نام سے رکھا گیا ہے، اس میں مواصلاتی رابطے کی ڈیوائس، تازہ ہوا کا نظام، ذاتی کیبنٹس، وائی فائی کی سہولت، باتھ روم اور دوسری وہ سہولیات جن کی مسافروں کو اس سفر کے لیے ضرورت ہو سکتی ہے، رکھی گئی ہیں۔
آسمان کی بلندیوں پر ایک پُرآسائش سفری تجربہ دینے والے نیپچون۔ ون کی تمام سیٹیں اور متعلقہ اشیاء کی پہلی خلائی پروازیں جو 2024 ء کے آغاز پر لاؤنچ کی جائیں گی وہ بُک ہوچکی ہیں۔ پرسپیکٹیو کے تجویزکردہ خلائی سیّاحتی منصوبے کے لیے واقعتاً اچھا ردعمل مل رہا ہے۔ کمپنی کے بیان کے مطابق اب تک 450 سیٹیں فروخت کی جاچکی ہیں اور یہ اگلے سالوں 2025 ء یا اس کے بعد کے سالوں کے لیے قابل ِقبول ہوں گی۔
خلائی سیّاحتی میدان میں دوسری جانب ارب پتیوں کی اس دوڑ میں رچرڈبرانسن اور جیف بیزوس بذات خود خلاء کی سیاحت کر آئے ہیں اور ان کی مستقبل قریب کی تجارتی خلائی پروازوں کا مکمل اعلان کیا جارہا ہے۔ تاریخ کے سب سے امیر ترین پہلے ٹریلین پتی ایلون مسک نے بھی اس ریس میں اپنا حصّہ بٹاتے ہوئے دنیا کی پہلی شہری خلائی پرواز ’’انسپریشن ۔4 ‘‘ کے نام سے خلاء میں پہنچائی ہے۔
غباروں کے ذریعے سیّاحت کے ٹکٹ کی قیمت جو پرسپیکٹیو وصول کررہی ہے وہ آربیٹل پرواز کے لیے ان تمام ارب پتی کمپنیوں کی ڈیمانڈز سے بہت کم ہے۔ ورجن والے نے حال ہی میں اپنی خلائی سفر میں جو ’’وی ایس ایس۔یونیٹی‘‘ کے ذریعے پایۂ تکمیل تک پہنچا تھا، ٹکٹ کی قیمت اب 450,000 ڈالرز تک جا پہنچی ہے جب کہ اسپیس ایکس کی ’’انسپریشن۔4 ‘‘ مشن کے چاروں مسافروں کی قیمت 55 ملین ڈالر فی سیٹ ادائی کی گئی تھی، جس میں نصف ادائی ایک اسپتال کے چیریٹی فنڈ سے ادا کی گئی۔ اس کے علاوہ ان کی حریف کمپنی بلیواوریجن نے بھی حالیہ تاریخی فلم اسٹار ولیم شینٹر کی پرواز کے لیے اپنی دو سیٹیں 28 ملین ڈالر فی سیٹ فروخت کی ہیں، اس میں اداکار شینٹر کو اعزازی مہمان کے طور پر جگہ دی تھی۔
اگر نیپچون ون یا غباروں کی مدد سے سیّاحتی پرواز کی قیمت کا موازنہ بہ مقابلہ ٹائم کیا جائے جو کہ کم ازکم چھے گھنٹے کی پرواز کا ہے جو کمپنی بیان کررہی ہے، تو پتا چلا ہے کہ دوسری طرف مسافروں کو بلیواورجن وغیرہ کی طرف سے راکٹ کی مدد سے محض گیارہ منٹوں کی پرواز کا موقع ملتا ہے تو بہرحال کہنا پڑتا ہے کہ ان غباروں کی مدد سے زیادہ سے زیادہ وقت مل سکے گا، جب خلاء کی قربت سے دو گھنٹوں تک مسافر سیّاح اس کیفیت میں رہ کر گزاریں گے، چناںچہ یہ عام مسافر سیاحوں کے لیے ایک بڑی کام یابی ہوگی۔
نیوز ویب سائیٹ ’’بزنس ان سائیڈر‘‘ کے ایک حالیہ انٹرویو سے انکشاف ہوا ہے، پرسپیکٹیو کی بانی جین کہتی ہیں کہ کمپنی کے عہد کے مطابق پہلی لاؤنچ کرو ٹیسٹ 2023 ء میں متوقع ہے، تب زیادہ غالب امکا ن ہے کہ آنے والے سال کمرشل خلائی مہمات کے اہم ہوں گے۔2030 ء میں ان کی کمپنی 500 خلائی مسافروں کو سالانہ بنیاد پر خلاء کی سیر کرانے کی منصوبہ سازی کررہی ہے۔ سب آربیٹل خلائی سفر کے لیے اب نیپچون ایک قابل اور امید افزاء انتخاب ہے۔
دیکھنا ہے کہ یہ کیسے مقبولیت حاصل کرتا ہے اور کام یابی سے ہم کنا ر ہوتا ہے۔ یہ نہایت دل چسپی کا حامل ہوگا۔ سُپریئر غبارے کی خلائی ٹیکنالوجی آج کے بہترین پرواز کے حامل راکٹوں کا مقابلہ کرنے جارہی ہے جو ان نجی بڑی خلائی کمپنیوں نے تیار کرلیے ہیں، اور جن کی قیمت بھی لاکھوں ڈالروں میں ہوتی ہے۔ کمپنی ’’ورلڈ ویوانٹرپرائزز‘‘ کا کہنا ہے کہ ہم غبارے کے ذریعے کیپسول کو خلاء میں بھیجنے کے خلائی سیّاحت کی انتہائی مہنگی لاگت کو کم کرنا چاہتے ہیں۔
کمپنی کے ایک ترجمان کے مطابق خلائی سیاحت پر بڑے پیمانے پر دنیا کی وسیع آبادی والی اکثریت کی رسائی نہایت مہنگا سودا ہے اور عام لوگوں کی دسترس حاصل کرنے میں طویل وقت درکار ہوگا، کیوںکہ اس کی ترقی نہایت سست روی سے آگے بڑھ رہی ہے۔
اسپیس پرسپیکٹیو کی چیف آفیسر جین نے سی این این سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ہماری کمپنی نے عام لوگوں کو زمین و خلاء کے نظاروں سے لطف اندوز کروانے کا بیٹرا اٹھایا ہے۔ زمین و خلاء، دونوں جگہوں پر ابھی بہت زیادہ ریسرچ کی ضرورت ہے، زمین پر زندگی کا فائدہ اور اس کے اثرات کو ہم کیسے دیکھتے ہیں؟ اور کیسے اپنے سیّارے سے پیوستہ ہوسکتے ہیں، وہاں اسپیس پرسپیکٹیوکھڑا ہے، اس خلائی پیش رفت کے حصول کی جدوجہد میں اپنے طاقت ور سیّاحتی حریفوں اسپیس ایکس، ورجن اور بلیواوریجن کے درمیاں۔ پچھلے سال کے ایک ٹوئیٹ میں جین نے لکھا ہے کہ،’’خلاء ہر ایک کے لیے ہے ، کوئی بھی کہیں بھی ہے اسے شوق ہونا چاہیے کہ کائنات کو اور اس میں اپنے مقام کو جانے!‘‘
’ورلڈ ویو‘‘ کمپنی بھی 2024 ء سے پروازیں شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے کمپنیوں کو پہلے فیڈرل ایوی ایشن اتھارٹی(FAA ) سے سرٹیفیکیٹ حاصل کرنا لازمی ہوتا ہے۔ اگر سب کچھ منصوبوں کے مطابق درست سمت میں جاری رہتا ہے تو یہ سفر کم ازکم خلاء کے ایک سرے تک، جلد ہی ٹرانسپورٹ جیسی سواری کی قیمت میں ممکن بن جائے گا۔
بتدریج اور مزید کمپنیاں اس سیّاحتی میدان عمل میں وارد ہورہی ہیں اور جب ا ن کے کھلنے سے خلاء کی سیاحت کے اور زیادہ مواقع عوام کو میسر آسکیں گے اور زیادہ کاروباری مقابلہ آرائی کے نتیجے میں سیاحتی سفر میں اخراجات میں بھی نمایاں کمی آئے گی اور تب خلاء سے خاص لگاؤ رکھنے والوں کے لیے بھی مناسب قیمت کی ادائی پر کم از کم ایک بار اسے دیکھنے کا موقع مل سکے گا اور وہ خلاء کے مناظر سے مستفید ہوں گے اور وہ اپنی آنکھوں سے دنیا کو بنا سرحدوں کے دیکھ پائیں گے تو دنیا پھر ایک بہتر جگہ بنے گی۔ تب انسانیت ہماری زمین کے مستقبل کو نمایاں طور پر بہتر بنانے میں کام یاب ہوجائے گی، کمپنی کو اس پر کامل یقین ہے۔
The post خلائی سیّاحت اور غبارے appeared first on ایکسپریس اردو.