غزل
نظر اٹھی ہے جدھر بھی ادھر تماشا ہے
بشر کے واسطے جیسے بشر تماشا ہے
زمیں ٹھہرتی نہیں اپنے پاؤں کے نیچے
پڑاؤ اپنا ہے جس میں وہ گھر تماشا ہے
یہاں قیام کرے گا نہ مستقل کوئی
ذرا سی دیر رکے گا اگر تماشا ہے
فگار ہو کے بھی رکھے گا آبروئے نمو
نگاہ زر میں جو دستِ ہنر تماشا ہے
اے موسموں کے خدا بھید یہ کھلے آخر
نگاہ ِشاخ میں کیسے شجر تماشا ہے
نہ بال و پر ہیں میسر نہ اذنِ گویائی
تو اس کے معنی ہیں اپنی سحر تماشا ہے
ملا نثارؔ ترابی سرائے حیرت سے
وہ آئنا جسے اپنی نظر تماشا ہے
(ڈاکٹر نثار ترابی۔ راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
غمِ دنیا کو ترے غم کا بدل کہتے ہوئے
رو پڑا آج میںکانٹوں کو کنول کہتے ہوئے
بس سہولت سی ہے اک کام چلانے کے لیے
خاک ہم سمجھیں ابد اور ازل کہتے ہوئے
رفتگاں دامنِ دل کھینچتے رہتے ہیں مرا
وقفہ ٔ نقل مکانی کو اجل کہتے ہوئے
زیست کے کتنے تقاضوں کو فراموش کیا
سب مسائل کا تری دیدکو حل کہتے ہوئے
میں تو الہام کا ہونے لگا قائل جاذبؔ
خود فراموشی کے عالم میں غزل کہتے ہوئے
(اکرم جاذب۔ منڈی بہائُ الدّین)
۔۔۔
غزل
ہوئے جو بند کچھ رستے، کئی بہتر نکل آئے
عدو نے ہاتھ کاٹے تو ہمارے پر نکل آئے
نظر آتی کہاں تھیں دوستو خود گردنیں کل تک
یہاں جن گردنوں پہ اب کشیدہ سر نکل آئے
ارے تو تو مری آواز پر نکلا نہیں باہر
ہزاروں لوگ میری خامشی سن کر نکل آئے
ہمیں ہر جوہری نے اپنے اپنے ظرف سے پرکھا
کہیں یاقوت نکلے تو کہیں پتھر نکل آئے
وہاں پر اپنے ہونے کی ہمیں خود بھی خبر کب تھی
جہاں سے آپ کے آواز دینے پر نکل آئے
تخیل کا فلک سے پھوڑنا سر رائیگاں کب تھا
سخن کے دوسری دنیا میں بھی یوں در نکل آئے
رسائی خود تلک دی جس طرح عزمیؔ زمانے کو
مرا دشمن بھی ممکن ہے مرے اندر نکل آئے
(عزم الحسنین عزمی۔ ڈوڈے، گجرات)
۔۔۔
غزل
سنتا ہوں میں صدائیں یہ اشکوں کی جھیل سے
اب زندگی گزار تو صبرِ جمیل سے
میں نے دیے کی لو پہ تیرا اسم کیا پڑھا
اک روشنی سی پھوٹ پڑی تھی فصیل سے
دل کو سکون بخش دے اے خالقِ جہاں
تنگ آگیا ہے اب یہ جہانِ ذلیل سے
کیوں راس مجھ کو عشق بھی آیا نہیں میاں
کیوں سامنا ہوا مرا ہجرِ قلیل سے
طارقؔ اب اس قدر بھی نہ سچے بنو یہاں
رد بھی کیا نہ جا سکے تم کو دلیل سے
(طارق جاوید۔ کبیر والا)
۔۔۔
غزل
پہلے سے افتاد زدہ تھے منظر اور حالات الگ
وہ انگوری آنکھوں والی لے آئی آفات الگ
پہلے سے گہنایا ہوا تھا سورج اپنے جیون کا
اس پر اس کی زلفوں والی چھائی کالی رات الگ
اس کے گال کی لالی دیکھیں یا پھر خون میں ڈوبے لوگ
اندر کے جذبات الگ ہیں باہر کے حالات الگ
سب پیڑوں کے برگ و بار ہیں موسم کے محتاج مگر
اس کا عشق ہے برگد جیسا اور برگد کی بات الگ
ایک تو درد کمانا اس پر نقدِ درد بچانا بھی
اس کو شب بھر سوچتے رہنا اور کہنا ابیات الگ
اس شہزادی کو مفلس دہقان کا بیٹا جیت گیا
ہاتھ ہی ملتے رہ گئے ساہو کار الگ سادات الگ
(ظہیر مشتاق ۔سیالکوٹ)
۔۔۔
غزل
جو ہے نہیں وہ محبت جتاتا رہتا ہے
سو دور بھیج کے واپس بلاتا رہتا ہے
وہ آزمودہ بہت نسخے پاس ہوتے ہوئے
کئی نئے نئے گُر آزماتا رہتا ہے
وہ بات شیشۂ دل میں دراڑ جس سے پڑی
اسی کے پھر سے کرشمے دکھاتا رہتا ہے
میں اپنے رنگ میں رنگنے میں محو رہتی ہوں
وہ اپنے ڈھنگ سے دنیا کماتا رہتا ہے
اسے تراش لیا ہے مری محبت نے
جو سنگ ریزوں سے ہیرے بناتا رہتا ہے
وہ عنبرین ؔمجھے جاں سے پیارا ہو گیا ہے
سو زخم اب بہ سہولت لگاتا رہتا ہے
(عنبرین خان۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
راستوں کی تھکن اُٹھاتے ہوئے
دشت پہنچا ہوں گیت گاتے ہوئے
میں نے زیتون کے درختوں میں
چاند دیکھا ہے مسکراتے ہوئے
کھول دیتا ہوں نیند میں بانہیں
خواب کا راستہ بناتے ہوئے
اُس شفق زاد کا خیال آیا
طاقچے میں دیا جلاتے ہوئے
توڑ دیتا تھا خامشی شب کی
اک دیا داستاں سناتے ہوئے
غم کی تشہیر تو نہیں ہے سعیدؔ
سوچیے قہقہہ لگاتے ہوئے
(مبشر سعید ۔ ملتان)
۔۔۔
غزل
خواب سے ہوتا ہے پھر پار مری زلف کا خم
اس کو یوں رکھتا ہے بیدار مری زلف کا خم
مضطرب کرنے کو پر تول رہی ہے مری آنکھ
دل میں کُھبنے کو ہے تیار مری زلف کا خم
ایک بادل ہے مرے سر پہ ضیا باری کا
اور اک نشے سے سرشار مری زلف کا خم
اسی سائے میں ہی گزرے گی تری عمرِ رواں
ہے تمہارے لئے گھر بار مری زلف کا خم
بھید کیا کیا نہ کھلے تم پہ یہاں آ آ کر
کیا ہے؟ اک خانۂ اَسرار مری زلف کا خم
وہ تو جل جاتا ہے اس آتشِ محشر میں جیا ؔ
آگ ہے اور اک انگار مری زلف کا خم
(جیا قریشی۔ اسلام آباد)
۔۔۔
غزل
زباں بدلنے لگے یا بیاں بدلنے لگے
بدلنے والے کو ٹوکو! جہاں بدلنے لگے
سنبھال سکتے نہیں گھر، جہاں سنبھالتے ہیں
زمیں بدل نہیں پائے، زماں بدلنے لگے
میں دیکھتا رہا ،دنیا سیاہ ہوتی گئی
میں دیکھتا رہا آتِش رخاں بدلنے لگے
ہم ایسے لوگ جو قرضہ چکا نہیں سکتے
ادھار بڑھنے لگا تو دکاں بدلنے لگے
تمام رات بلاؤں کا رقص تھا انجم ؔ
مکین خوف کے مارے مکاں بدلنے لگے
(اِمتیاز انجم ۔اوکاڑہ)
۔۔۔
غزل
بھر سکا حرص کا گھڑا نہ کبھی
پیٹ کم ظرف کا بھرا نہ کبھی
جب تلک سایہ ماں کا سر پہ رہا
چھو سکی گرم بھی ہَوا نہ کبھی
عشق میں شرط ہے وفاداری
کرنا محبوب سے دغا نہ کبھی
لڑتے اوروں سے کٹ گیا جیون
کر سکے خود کا سامنا نہ کبھی
ایسا کھویا ہمارے دل کا قرار
لاکھ کوشش کی پر ملا نہ کبھی
یوں گئے میرے چاہنے والے
ان سے پھر سامنا ہوا نہ کبھی
بھیڑ میں کھو گیا جو دنیا کی
چاہ کر بھی وہ پھر ملا نہ کبھی
لوگ جتنے ملے بھلے ہی ملے
کوئی مجھ کو ملا برا نہ کبھی
جس تعلق میں ہو غرض شامل
ہو گا راحلؔ وہ دیرپا نہ کبھی
( علی راحل۔بورے والا)
۔۔۔
غزل
وہ کائنات کی تجہیز تک نہیں پہنچا
جو تیرے حسن کی دہلیز تک نہیں پہنچا
کچھ اس لیے بھی تحیر سے کام لیتا ہوں
کسی کا لمس جو ناچیز تک نہیں پہنچا
سنا ہے وقت بہت تیز بھاگتا ہے مگر
تمہارے پاؤں کی مہمیز تک نہیں پہنچا
میں آپ اپنی رسائی میں خود ہی حائل ہوں
تبھی ملال بھی تعویذ تک نہیں پہنچا
ہمارا مسئلہ سنگین تھا بہت حارث ؔ
مگر لڑائی کی دہلیز تک نہیں پہنچا
(راجہ حارث دھنیال۔ اسلام آباد)
۔۔۔
غزل
آپ کے آنے سے اک ایسی فضا بنتی ہے
ہم جہاں سانس بھی کھینچیں تو ہوا بنتی ہے
ویسے جنت سے بڑا دل تو نہیں ہے اُس کا
لیکن اُس میں مرے جیسوں کی جگہ بنتی ہے
جو تمہیں چھوڑ دیں پھر چھوڑ دے دنیا اُن کو
ایسے لوگوں کے لیے ایسی سزا بنتی ہے
نہ دواؤں میں اثر ہے نہ دلاسوں میں کمی
ایسی بگڑی ہے کہ اب صرف دعا بنتی ہے
(شہباز مہتر۔رحیم یار خان)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی
The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.