افریقہ اور خلیج کے عرب ممالک اپنی الگ جغرافیائی شناخت کے باوجود ’’عرب تشخص‘‘ کی بدولت ایک ’’وحدت‘‘ اور ’’اکائی‘‘ سمجھے جاتے ہیں لیکن ان کے بیچ حائل نظریاتی اور سیاسی تقسیم کی خلیج اتنی وسیع ہے کہ اس کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہے۔اس خلیج کی بنیادی وجہ عقیدہ اور مذہب یا جغرافیہ نہیں بلکہ اپنے اپنے مخصوص سیاسی نظام ونظریات ہیں ۔ مرور وقت کے ساتھ سیاسی افکارو خیالات میں تبدیلی بھی آتی رہی ہے مگرمجموعی طورپر عرب ممالک اخوان المسلمون کی فکر اور بادشاہی نظام کے درمیان منقسم ہیں۔
سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے قطر سے سفارتی تعلقات کے تعطل کا پس منظر بھی فقط سیاسی اور نظریاتی بُعد ہے۔ سعودی عرب خلیجی ممالک ہی کا نہیں تمام عرب ممالک کا لیڈر مانا جاتا ہے۔ سعودی مملکت کا احترام ومقام عرب دنیا سے آگے ہے، باقی عالم اسلام میں بھی اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس احترام کے باوجود سعودی عرب کے نظام سیاست سے اتفاق ضروری نہیں۔ اس باب میں بہت سے ممالک کو اختلاف رہا ہے، یہ بھی سچ ہے کہ سیاسی اور نظریاتی اختلافات کے علی الرغم سعودی عرب سے دشمنی کی جرات کم ہی ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہی ہے تو پھر قطر کے ساتھ معاملات کے بگاڑ کی بنیادی وجہ کیا ہے؟
چونکہ سعودی عرب کا سب سے زیادہ اثرو رسوخ خلیجی ممالک پر ہے ، اس لیے مملکت کی خارجہ اور دفاعی پالیسیاں دیگر بیشتر عرب ممالک پر براہ راست اثرانداز ہوتی ہیں۔متحدہ عرب امارات، بحرین اورکویت سعودی عرب سے پالیسیاں مستعار لیتے ہیں۔پچھلے چند برسوں کے دوران اُنہی ممالک کی مساعی سے یورپی یونین کی طرز پرخلیجی یونین کے قیام کی طرف بھی اہم پیش رفت ہوئی۔ آغاز کار میں خلیجی تعاون کونسل آزادانہ تجارت کا ایک مشترکہ پلیٹ فارم بنا،اگلے مرحلے میں ایک دوسرے کے شہریوں کے لیے ویزہ فری قرار دیا گیا۔ اب خلیجی ممالک میں متحدہ فوجی کمان اور انٹرپول کی طرز پرمشترکہ پولیس فورس کا قیام بھی عمل میں لایا جا رہا ہے۔تجارتی سطح پرنہ صرف تمام خلیجی ممالک متحد ہیں بلکہ خلیجی اکائی میں اُردن، مصر اور یمن کو بھی ملانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
2013ء میں خلیجی تعاون کونسل نے ایک سیکیورٹی معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کی رو سے تمام ممالک دفاع کی ایک لڑی میں بندھ گئے تھے۔ معاہدے میں واضح کیا گیا تھا کہ سیاسی ونظریاتی تفاوت کے باوجودخطے کو درپیش سیکیورٹی چینلجز کا سب مل کرمقابلہ کریں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ قطر نے اس معاہدے کی کیسے خلاف ورزی کی کہ ریاض، منامہ اور ابو ظہبی نے دوحہ سے سفارتی تعلقات ختم کرلیے۔ ان تمام سوالوں کا جواب صرف ایک ہے وہ ہے 80برس قبل مصر سے پھوٹنے والی اسلامی تحریک ’اخوان المسلمون‘۔بادی النظر میں ایسے لگ رہا ہے کہ خلیجی تعاون کونسل کا ’’سلامتی معاہدہ‘‘ ایران اور اخوان المسلمون کے خلاف ’’نیٹو‘‘ طرز کا ایک اتحاد ہے۔
خلیجی ملکوں میں اخوان المسلمون کی کھل کرحمایت کرنے والوں میں قطر پیش پیش رہاہے، لیکن قدرتی تیل کی دولت سے مالا مال سلطنت اومان بھی اخوان کو بری نظر سے نہیں دیکھتی۔ گوکہ اومان کے سعودی عرب کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں لیکن اس کی ایران سے بھی گہری دوستی ہے۔ کویت میں حکومتی سطح پراخوان المسلمون کی حمایت نہیں کی جاتی مگر پارلیمنٹ میں اخوان المسلمون کے نظریاتی حامیوں کی قابل ذکرتعداد موجود ہے۔ مصر کی اخوان قیادت نہایت فخر کے ساتھ اپنے بیانات میں کہتی رہی ہے کہ خلیجی ممالک میں کویت وہ واحد ملک ہے جہاں حکومت کی مخالفت کے باوجود اخوانیوں کو سب سے زیادہ مالی معاونت مل رہی ہے۔
تجارتی یکجہتی و دفاعی اشتراک اپنی جگہ۔ یقینا بیرونی جارحیت کے جواب میں تمام خلیجی ممالک ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ ہوں گے۔ مگر’اخوان المسلمون‘ وہ بنیادی فیکٹر ہے جس کی حمایت اور مخالفت میں نہ صرف خلیجی ممالک بلکہ تمام عرب ممالک میں اختلاف ہے اور رہے گا۔ اخوان المسلمون کا اقتدار تک پہنچنا ہی مشترکہ خطرہ ہے جس کی طرف سعودی عرب نے اشارہ کرتے ہوئے2013ء میں دفاعی معاہدہ کیا تھا۔ جب قطر کی جانب سے مصرمیں اخوان المسلمون کے زیرعتاب لائے جانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اخوان کی حمایت جاری رکھی تو ریاض کی جانب سے دوحہ کو بتا دیا گیا کہ وہ مشترکہ خطرے کے انسداد کے بجائے خطرے کا حصہ بن رہا ہے۔
سعودی عرب کے زیراثر سمجھے جانے والے ٹی وی چینل ’’العربیہ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق اخوان کوئی معمولی تنظیم نہیں جو کسی ایک ملک تک محدود ہو اور اسے بیک جنبش قلم ختم کردیا جائے۔ یہ دنیا کے 72ممالک میں پھیلی 10 ملین متحرک ارکان پرمشتمل عالمگیر جماعت ہے۔ یوں تمام عرب ممالک میں اس کے بڑے بڑے حامی موجود ہیں۔ عرب حکومتیں اخوان کے مخالفین کو چن چن کرٹھکانے لگانے کی بھی کوششیں کرتی رہی ہیں لیکن خود حکومتوں کی صفوں میں ایسے لوگ پائے جاتے رہے ہیں،جنہیں آسانی سے ہٹانا ممکن نہیں تھا۔
تنازعہ کی بنیاد کہاں سے پڑی؟
سنہ 2011ء کے اوائل میں تیونس، مصر، لیبیا، یمن اورپھر شام میں اٹھنے والی بغاوت کی تحریکوںکی حمایت تو تمام خلیجی اور دوسرے ممالک کی جانب سے کی گئی مگرجب یہ تحریکیں عرب ممالک میں ’’سیاسی اسلام‘‘ کے حامیوں اور اخوانی فکر کے لوگوں کو اقتدار تک پہنچنے کا موجب بننے لگیں، جب تیونس میں زین العابدین کی جگہ اسلام پسند راشد الغنوشی کی ’تحریک النہضہ‘، مصرمیں حسنی مبارک کے فرسودہ نظام کی جگہ اخوان المسلمون کی’حزب الحریہ والعدالۃ‘ اور لیبیا میں کرنل قذافی کے جبر کے شکار اخوانیوں کو اقتدار ملنا شروع ہوا تو خلیجی ممالک میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔
قطری ٹی وی ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ میں عرب ممالک کی اخوان المسلمون سے ناراضگی کی وجوہات سے متعلق رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر’’عرب بہاریہ‘‘ کے نتیجے میں’’سیاسی اسلام‘‘ کے حامیوں کو اقتدار نہ ملتا تو کسی خلیجی ملک کو اخوان المسلمون سے کوئی پریشانی نہ ہوتی۔ پریشانی کی بنیادی وجہ اخوان المسلمون کا سیاسی طورپر تقویت پکڑنا اور عنان حکومت تک پہنچنا تھا۔ سعودی عرب، شورش زدہ بحرین اور اخوان المسلمون ا ور ایران کو ایک پلڑے میں تولنے والے متحدہ عرب امارات کی حکومتوں کو اخوان المسلمون کی فروغ پذیر سیاسی قوت سے خطرہ محسوس ہوا۔ کیونکہ شام میں جاری بغاوت کی تحریک کے نتیجے میں شام کا مستقبل بھی ایسے ہی لوگوں کے ہاتھ میں آتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس لیے خلیجی ممالک نے مصرمیں اخوان المسلمون کے خلاف فوجی بغاوت کو غنیمت جانا اور اس کے بعد انہوں نے بھی اپنے ہاں اخوان کو سیاسی طورپر دبانے کے لیے اسے پابندیوں میں جکڑنا شروع کردیا ہے‘‘۔
امریکی اخبار’واشنگٹن پوسٹ‘ نے یہی بات ایک قدم آگے بڑھ کریہاں تک کہہ دی ہے کہ مصرمیں اخوانی حکومت کے خلاف بغاوت بعض خلیجی بزر جمہروں کی مداخلت سے ہوئی تھی اور مقصد اخوان کو سیاسی طورپر کمزور کرنا تھا۔تیونس میں تحریک النہضہ پرکلہاڑا چلانے کی پوری کوشش کی گئی ہے مگروہاں فی الحال جماعت پرپابندیاں نہیں لگی ہیں۔ اخوانی فکر کے خلاف نفرت کا دائرہ صرف خلیجی ملکوں تک نہیں بلکہ مراکش اور موریطانیہ تک وسیع ہوچکا ہے۔موخرالذکر ملک میں اخوان المسلمون اور حکومت وقت کے درمیان سنگین تنازعہ کی خبریں آ رہی ہیں۔ مستقبل قریب میں وہاں بھی اخوان المسلمون کو سیکیورٹی رسک قرار دے کرپابندیوں کے جال میں جکڑا جاسکتا ہے۔
جہاں تک خلیجی ملکوں کے مابین پائے جانے والے اختلافات کے مضمرات کا تعلق ہے تو اس سے خود خلیجی مقتدر قوتیں بھی بے پرواہ نہیں ہیں۔ بحرین سے قطع تعلقی سعودی عرب، بحرین اور یو اے ای تینوں ملکوں کے لیے خسارے کا سودا ہے۔ سعودی اخبار’الریاض‘ کی رپورٹ کے مطابق خلیجی ملکوں کے باہمی رسہ کشی خطے کی خلیجی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ متحدہ عرب امارات خلیج سے گیس کی بڑی مقدار درآمد کررہا ہے۔ سعودی عرب اور بحرین کے بھی دوحہ کے ساتھ کئی مشترکہ منصوبے روبہ عمل ہیں۔ شنید یہی ہے کہ تین ملکوں کے سفیروں کی واپسی صرف سفارتی معاملات تک رہے گی لیکن دوحہ سے سفارت کاروں کی واپسی کے پہلے روز چاروں ممالک قطر، بحرین، یو اے ای اور سعودی عرب کی سٹاک مارکیٹوں کو ایک بڑا دھچکا لگا ہے۔
’’العربیہ ‘‘کی رپورٹ کے مطابق سفارتی تعطل کے نتیجے میں قطر کا نقصان دوسرے ممالک سے کہیں زیادہ ہوسکتا ہے۔ قطر، بحرین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، سلطنت امان کویت کے اشتراک سے خطے میں ایک ریلوے ٹریک بچھایا جا رہا ہے۔اس میں قطر کی جانب سے منصوبے کی کل لاگت کا دس فی صد سرمایہ شامل ہے۔قطر کا دوسرا بڑا منصوبہ’’ڈولفن گیس پائپ لائن‘‘ ہے۔ گیس پائپ لائن کے ذریعے قطر اپنی گیس دیگرپڑوسی ملکوں تک پہنچانا چاہتا ہے ۔ قطر اور بحرین کو سمندر پر 40 کلو میٹر طویل ایک پل کے ذریعے مربوط بنانے کا منصوبہ بھی روبہ عمل ہے۔ یہ تمام منصوبے تو متاثر ہوں گے مگرحالات کسی اور سمت آگے بڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔ امید کی جاسکتی ہے کہ دوست ممالک محض سیاسی بنیادوں پر خلیج میں پھوٹ کی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے لیکن مغربی میڈیا کے ذرائع بتا رہے ہیں کہ خلیج کے کچھ ممالک محض اخوان المسلمون سے فکری وابستگی کی بناء پرقطر کو تنہا کرنا چاہتے ہیں۔ جب معاملات زیادہ بگڑ جائیں گے تو قطر میں بھی بغاوت کی تحریک کو ہوا دی جاسکتی ہے۔اگر یہ اطلاعات درست ہیں تو یہ پورے خلیجی خطے کوبد امنی کی چتا میں جھونکنے کے مترادف ہوگا۔
عرب اختلافات اور فلسطینیوں کے مسائل
اخوان المسلمون، مصر اور خلیجی ریاستوں کے مابین سیاسی رسہ کشی سے جڑا ایک اہم مسئلہ فلسطین کی موجودہ صورت حال کا بھی ہے جسے نظراندازنہیں کیا جا سکتا۔ فلسطین اس وقت ایک نازک موڑ سے گزررہا ہے۔ امریکا کی نگرانی میں امن بات چیت اپنے آخری مرحلے میں ہے لیکن فریقین کے درمیان کسی امن سمجھوتے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہاہے۔ اسرائیل خود کو ’’یہودی ریاست‘‘ کا تشخص دلوانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور صرف کررہا ہے اور عرب لیگ نے اسرائیلی ریاست کو ’’یہودی مذہبی تشخص‘‘ دینے سے صاف انکارکردیاہے۔ اس کے بعد اب کسی امن معاہدے کا امکان کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ دوسری جانب فلسطینی شہرغزہ کی پٹی کا محاصرہ مزید تنگ کردیاگیا ہے۔ مصرمیں فوجی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی غزہ کے عوام کو بھی انتقام کا نشانہ بنانا شروع کردیا تھا۔گزشتہ ماہ حماس پرمصرمیں پابندیوں کے نفاذ کے بعد فلسطینیوں بالخصوص غزہ کی پٹی کے مکینوں کی مشکلات دوچند ہوگئی ہیں۔ خلیجی ممالک کی طرف سے اخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دیے جانے اور قطر سے سفارتی تعلقات ختم ہونے کے بعد غزہ کی اٹھارہ لاکھ آبادی کو سنگین انسانی بحران کا سامنا ہے۔ مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق متحدہ عرب امارات نے غزہ کی پٹی کے لیے اعلان کردہ 50 ملین ڈالر کی امداد معطل کردی ہے۔
سعودی عرب کی جانب سے پہلے ہی فلسطینیوں کو دی جانے والی امداد صرف فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کے اکاؤنٹس میں بھجوائی جاتی رہی ہے جس میں غزہ کے شہریوں کاکوئی حصہ نہیں ہوتا۔ مصری حکومت کی جانب سے ڈیڑھ ماہ بعد صرف دو دن کے لیے رفح بارڈ کو کھولا گیا۔ مصر نے علی الاعلان حماس پرپابندیاں عائد کی ہیں لیکن خلیجی ممالک کی طرف سے رسمی اعلان ہونا باقی ہے۔ صرف قطر کی طرف سے غزہ کے محصورین کو امداد کی فراہمی کا اعلان کیا گیا ہے۔ غزہ کے عوام کو اخوان المسلمون کی ہم خیال حماس کو انتخابات میں کامیاب کرانے کی سزا دی جا رہی ہے۔ خوراک ، ادویات، بجلی گیس اور ایندھن کی معطلی نے غزہ کے باسیوں کو بدترین عذاب میں مبتلا کررکھا ہے۔حال ہی میں رام اللہ اور مقبوضہ بیت المقدس میں متعین یورپی یونین کے دو سفیروں نے اپنے وزراء خارجہ کو ایک رپورٹ ارسال کی ہے جس میں غزہ کی پٹی میں متوقع انسانی المیے پر گہری تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں غزہ کے غذائی بحران پراسرائیل، فلسطینی اتھارٹی اور مصر کو براہ راست جبکہ حماس کو بالواسطہ طور پر مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ ماہرین کاکہناہے کہ فلسطینی عوام کی مشکلات کو سیاسی اختلافات کی بھینٹ چڑھانے کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔