’’تیل ہو تیل ہو۔۔۔ جدوجہد تیل ہو۔۔۔!‘‘
خانہ پُری
ر۔ ط۔ م
یوں تو تَحریک کے معنی حرکت پذیری کے ہیں، لیکن سماجی اصطلاح میں جب ہم لفظ ’تَحریک‘ برتتے ہیں، تو یہ اس امر کا واضح طور پر اظہار ہوتا ہے کہ یہ سیاسی، مذہبی یا سماجی طور پر کسی بدلائو اور کسی خاص مقصد کے حصول کی ایک مسلسل جدوجہد ہے۔۔۔ جس کے لیے ہر دَم اور ہر لمحہ متحرک رہا جائے گا۔۔۔
اپنی منزل کے حصول کے لیے مستقل بنیادوں پر کام کیا جائے گا، وقت کے ہر سرد وگرم سے لڑا جائے گا، اپنی توانائیوں اور صلاحیتوںکو محفوظ رکھتے ہوئے زمانے کے تمام نشیب وفراز سے نبردآزما ہوا جائے گا۔۔۔ تاوقتے کہ مجوزہ مقصد اور منزل حاصل نہ ہو جائے۔ اس کے لیے حائل ساری رکاوٹیں حکمت عملی اور دانش سے دور کی جائیں گی، کہ تَحریک تو نام ہی مسلسل جدوجہد اور مقصد کے لیے کام کرنے کا ہے۔
کوئی بھی تَحریک کبھی کسی ماحول، موسم، شخصیت اور دورانیے کی محتاج نہیں ہوتی، وہ رکاوٹوں اور پابندیوں جیسے تمام عوامل سے بے نیاز سست یا تیز جاری وساری رہتی ہے۔۔۔ اِسے بجلی کی سی سرعت ہی نہیں، کسی وائرس کی طرح کی شکتی بھی درکار ہوتی ہے، بلکہ اسے اپنا ’بھیس‘ اور ظاہری وضع قطع بھی بدل لینے کی صلاحیت کا حامل ہونا چاہیے۔
جیسے کوئی دوا جب وائرس پر حملہ آور ہوتی ہے، تو وہ وائرس جواباً اپنی شکل اور بہت سے خواص تک میں تبدیلی کر کے اس کا مقابلہ کرتا رہتا ہے، بعینہ کسی بھی تَحریک کو بھی اپنے مقابل آنے والی ایسی ہر رکاوٹ، مدافعت اور اونچ نیچ کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھنی چاہیے۔۔۔ جو جدوجہد چند رکاوٹوں پر ڈھیر ہو جائے، کسی کے منظر سے ہٹنے یا دنیا سے اٹھنے کے بعد ٹھیر جائے، تو وہ تَحریک، تحریک کہلانے کی مستحق ہی نہیں۔۔۔
یہاں ہمیں یہ بات بھی یاد رکھ لینی چاہیے کہ سماج کے ناخدا ’تَحریکوں‘ کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کرتے، کیوں کہ تَحریک کسی نہ کسی قسم کی ایسی تبدیلی کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے، جو اُن کی گدّی اور مسند کے لیے خطرہ ہو سکتی ہے، لہٰذا تَحریک کی طاقت کے ایوانوں سے آنکھ مچولی بالکل ایک معمول کی بات تصور کی جاتی ہے، بلکہ کبھی تو پوری مشینری اور لائو لشکر کے ساتھ تَحریک کا کچلا جانا بھی قرین از قیاس نہیں ہوتا، ایسے میں تَحریک سے وابستہ افراد اسے اپنے سینوں میں چھپا کر تَحریک کو آگے بڑھاتے رہتے ہیں۔۔۔
ایسے نازک موقع پر تَحریک کی غلطیوں کی قیمت بہت بھاری پڑتی ہے، کبھی تو جان بوجھ کر ایسے جال بچھائے جاتے ہیں کہ جس سے بچنا تَحریک کے لیے ناممکن سا محسوس ہوتا ہے، یہ کسی بھی تَحریک اور جدوجہد کے لیے ایک بڑا امتحان ہوتا ہے کہ وہ دیکھے کہ کہاں اسے سرخ کپڑا دکھا کر مشتعل کیا جا رہا ہے، کہ تاکہ وہ کسی بپھرے ہوئے بیل کی طرح خوب زور سے آکر ٹکر مارے اور اس کے بعد ’’بُل فائٹر‘‘ کے ایک کاری وار کے آگے ڈھیر ہو کر رہ جائے۔۔۔
کسی مقصد کی جدوجہد میں آنے والے مسائل اور رکاوٹوں مشکل وقت میں حوصلہ نہ ہارنا، اعتماد جمع کرتے رہنا بھی ایک اہم مرحلہ شمار ہوتا ہے، عموماً دشوار وقت تَحریک کے اشتعال، ناسمجھی اور مزید غلطیوں در غلطیوں سے مزید کٹھن ہوتا چلا جاتا ہے، جس کے بعد ’ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا‘ کے مصداق تحریک کے بعض نام لیوا اس کے لیے مختلف عذر تراشتے ہوئے نظر آتے ہیں، لیکن اپنی غلطیوں اور بہک جانے کا اعتراف تو کجا اس کا درست ادراک بھی نہیں کر پاتے۔۔۔
یہ امر کسی مرض کی تشخیص اور پھر اس کے علاج جیسا ہوتا ہے، جب آپ مرض کی موجودی ہی تسلیم نہیں کرتے، تو علاج بھی نہیں کر پاتے، جس کے نتیجے میں بہتری کا امکان بھی جاتا رہتا ہے۔ تاریخ کے یہی موڑ اکثر کسی بھی جدوجہد کو صرف ایک شخصی اور وقتی ابال میں تبدیل کر کے تاریخ کے کوڑے دان کی زینت بنا دیتا ہے۔
مقامی اور بین الاقوامی تاریخ دائیں اور بائیں بازو کی مختلف تحریکوں سے مزیّن ہے، تحریک کے ارکان جہاں اپنے اراکین کی منظم تعلیم وتربیت کرتے رہتے ہیں، وہیں گاہے گاہے ان میں جوش اور ولولہ بھرنے کے لیے مختلف نعروں کا بھی سہارا لیتے ہیں، جن میں سے ایک مقبول ومعروف نعرہ ’’تیز ہو، تیز ہو۔۔۔ جدوجہد تیز ہو۔۔۔!‘‘ بھی ہے۔ گذشتہ دنوں کراچی پریس کلب کے سبزہ زار پر جب حسب معمول باہر سے ایک سمع خراش آواز میں اس نعرے کی گونج سنی، تو ماضی کی تحریکوں کے ایک نام وَر سرخیل نے حیرت کا اظہار کیا کہ آج تک نعرے بھی نہیں بدلے! بقول غلام محمد قاصر؎
ہے شوق سفر ایسا، اک عمر سے یاروں نے
منزل بھی نہیں پائی، رستہ بھی نہیں بدلا
دفعتاً ہمیں خیال آیا کہ بہت سے تحریکیں چلانے والے نعرے تو ’تیز ہو، تیز ہو۔۔۔ جدوجہد تیز ہو!‘ کے لگا رہے ہوتے ہیں، لیکن عملاً وہ ’تیل ہو، تیل ہو۔۔۔ جدوجہد تیز ہو!‘ کی جیتی جاگتی تصویر بن چکے ہوتے ہیں۔ وہ اس لیے کہ کہنے کو تو وہ خود کو تحریک کا سرخیل اور کارکن بنائے پھرتے ہیں، لیکن عقل سے ماورا اور زمینی حقائق کے خلاف ان کے سارے افعال ان کی بھنور میں پھنسی ہوئی جدوجہد کو باہر نکالنا، تو درکنار الٹا اب تک کے ثمرات کو ’تیل‘ کر رہے ہوتے ہیں۔۔۔ وہ جدوجہد، جس میں جانے کتنی نسلیں اور کتنی جوانیاں کام آچکی ہوتی ہیں۔
اسے غلطیوں اور کام یابیوں کی جمع تفریق اور اس کی اکھڑتی ہوئی سانسیں بحال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔ ورنہ تاریخ اکثر کہتی تو یہ ہے کہ تحریکیں طاقت سے نہیں دبائی جا سکتیں، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سی دبا بھی لی جاتی ہیں۔۔۔ پھر یہ سوال بھی تو کھڑا ہو سکتا ہے کہ جس اُبال یا ’بخار‘ کو ’تَحریک‘ کہا جا رہا ہو، وہ صرف تَحریک کا التباس ہی ہو، درحقیقت اس کے اندر کوئی تَحریک والی خو بو موجود ہی نہ ہو، ورنہ مصلحت اور حالات کے تقاضوں کے عین مطابق لچک اور ماحول کے موافق رنگ اپنا کر خود کو بچانا تو دنیا کی ہر تحریک ہی کا خاصہ رہا ہے۔
رہا جدوجہد کا ثمرہ، تو اگر کوئی بھی تحریکی یہ سمجھتا ہے کہ وہ جوانی میں مار کھا کر احتجاج کر کے، عمر کے آخری حصے میں اس ساری جدوجہد کا پھل پا لے گا، تو یہ ایک بہت بڑی بھول کے سوا کچھ نہیں، کیوں کہ تحریک بعضے وقت کئی کئی نسلوں تک چلتی چلی جاتی ہے، لیکن مقصد سے پہلے کسی طور نہیں مرتی، تبھی تو وہ تَحریک کہلائی جاتی ہے۔۔۔! اگر اس کے بغیر کسی کو خود کو ’تحریک کا جاں نثار‘ سمجھنے کا خبط ہو تو پھر وہ چاہے کسی بھی درجے پر ہو، وہ لفظ ’تَحریک‘ کی سہار بالکل نہیں رکھتا، کیوں کہ صحیح معنوں میں ایسی تحریکیں کم ہی پائی گئیں، جو اپنی شروعات کرنے والوں کو ہی اس کا پھل اور مکمل منزل دے جائیں۔
ہٹ کر چلے وہ ہم سے جسے سر عزیز ہو
ہم سر پھروں کے ساتھ کوئی سر پھرا چلے
یار لوگ اگر اس شعر میں ’سرپھرے‘ کا مطلب اگر دیوار سے سر مار دینا سمجھیں، تو یہ سراسر ’مقصدی خودکُشی‘ ہے، کیوں کہ اگر ایسے ہی ’سر‘ ضایع ہوتے رہے، تو پھر تو ساری جدوجہد خود ہی ٹائیں ٹائیں فش۔۔۔ یعنی تَحریک کو کسی دشمن اور کسی مخالف کی ضرورت ہی نہیں ہوگی، اس کے لیے وہ خود ہی کافی ہے!
تقریب کا بائیکاٹ ، چائے کا نہیں
کمال الدین احمد
خواجہ ناظم الدین وزیراعظم کی حیثیت سے کوئٹہ آئے تو کوئٹہ میونسپلٹی نے ٹائون ہال میں وزیراعظم کی تصویر کی نقاب کشائی کی تقریب منعقد کی۔ صحافیوں کی نشستیں اسٹیج سے دو حاضرین کے پیچھے اور ایسی جگہ تھیں، جہاں سے وہ نہ دیکھ سکتے تھے، نہ سن سکتے تھے۔ انھوں نے یہ صورت دیکھ کر تقریب کا بائیکاٹ کردیا اور تمام صحافی ہال سے احتجاجاً باہر نکل آئے اور ایک ہوٹل میں جا بیٹھے۔ تھوڑی دیر بعد ایک معمر صحافی بولے اب تقریب تو ختم ہوگئی ہوگی۔ چلو چائے پئیں، اس پر کسی نے کہا بائیکاٹ کیوں کیا تھا۔ معمر صحافی نے فوراً جواب دیا۔ تقریب کا بائیکاٹ کیا ہے، چائے کا تو نہیں۔n
(تصنیف ’صحافت وادی بولان میں‘ سے ایک اقتباس)
مشین کی طرح دیوار بنی اور ’نقاب کشائی‘ کی تختی لگی!
پروفیسر فرحت عظیم
ہمارا بہت عرصہ سے مطالبہ تھا کہ سرسید گرلز کالج میں پوسٹ گریجویٹ کلاسیں ہونی چاہئیں۔ ہماری ہزاروں بچیاں محض اس لیے تعلیم چھوڑ دیتی ہیں کہ وہ یونیورسٹی نہیں جا سکتیں۔ نعمت اﷲ خان نے ہمارے اس مطالبہ کے پیش نظر پوسٹ گریجویٹ کلاسوں کے لیے باقاعدہ الگ ایک بڑی عمارت کا آغاز کروایا، مگر وہ ان کے زمانے اور بعد میں مکمل نہ ہو سکا۔ پروفیسر نجمہ طیب تھیں۔ انہوں نے مصطفی کمال تک بھی یہ بات پہنچائی۔ فوراً ردعمل ہوا۔ بلڈنگ کی تعمیر دوبارہ شروع ہوئی۔ تیزی سے کام مکمل ہونا شروع ہوا۔
بہت جلد ایک شان دار بلاک بن کر تیار ہوگیا، تو کچھ ہی دن بعد 11 بجے میئر کراچی کے سیکریٹری کا فون آیا، آج ایک بجے کے قریب مصطفی کمال افتتاح کریں گے، پوسٹ گریجویٹ بلڈنگ کا۔ انتظامات کے لیے ہمارے لڑکے پہنچ رہے ہیں۔ میئر صاحب، بہت مصروف ہیں۔ اس لیے اس کے بعد ٹائم ملنا بہت مشکل ہوگا۔ فون بند ہوتے ہی دو تین جیپ نما لوکل گورنمنٹ کی گاڑیوں میں پندرہ بیس افراد کالج پہنچ گئے۔ یہ سیدھے پوسٹ گریجویٹ بلڈنگ بلاک پہنچے۔ جو کالج کے سامنے والا گرائونڈ پار کرنے کے بعد پچھلے حصے میں واقع ہے۔ وہیں چھوٹا سا شامیانہ اور کرسیاں لگانے کے احکامات فون پر دیتے رہے۔
انھوں نے نہایت منظم انداز سے، بہت تیزی سے انتظامات مکمل کرلیے۔ وہ فون پر جس کو بلاتے، 15 منٹ کے اندر آجاتا اور کام شروع کر دیتا۔ شامیانے، قناتیں، کرسیاں، مائک وغیرہ تو ایک طرف ایک چھوٹی سے دیوار پر میئر کراچی کا نام، افتتاح ، تاریخ سب دو گھنٹے میں مکمل ہوگیا۔ مستری اور مزدور اپنے ساتھ اینٹیں، سیمنٹ ، بجری لائے تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں دیوار تیار، اسی دوران نام وغیرہ کی تختی بھی آگئی جو دیوار میں نصب کر دی گئی۔ سب مشین کی طرح اپنے اپنے کاموں میں لگے ہوئے تھے۔ یہ سب لکھنے کا مقصد وہ حیرت ہے جس میں ہم سب مبتلا تھے۔
کالج کے پروگراموں اور جلسوں کے لیے ہم بھی انتظامات کرتے تھے، مگر مجال ہے جو کوئی ایک دفعہ بلانے پر آجائے یا اتنے کم وقت کے نوٹس پر کام ہو جائے۔ ہفتوں پہلے سے فون، رابطے، جان پہچان شروع کرتے تھے۔ تب وقت پر کام ہوتا تھا اور وہ بھی پروگرام سے ایک دن پہلے ، صبح سے شام ہو جاتی تھی تیاری میں۔ میڈم نے میئر صاحب کے ہراول دستے سے پوچھا کہ مجھے بتا دیں کتنے لوگوں کا ریفرشمنٹ کرنا ہے؟ اس نے ’اوہ!‘ کہہ کر ماتھے پر ہاتھ مارا، کہنے لگا، بالکل ذہن سے نکل گیا۔ میڈم آپ زحمت نہ کریں، ہم ابھی کرتے ہیں۔
فوراً پھر ایک فون کیا، مطمئن ہو کر ہم سے کہا۔ آدھے گھنٹے میں سارا سامان آجائے گا۔ ہم نے اس موقع پر انتہائی اطمینان سے لطف اٹھایا۔ کسی بھی قسم کی کوئی فکر ہی نہ تھی۔ دل چاہتا تھا اپنے تمام پروگراموں کا ذمہ دار انھیں ہی بنا دیں۔
لوگ چاہے ان فرماں برداریوں کو خوف یا ڈر کا نام دیں۔ ہم نے تو تنظیمی احساس ذمہ داری پایا۔ یہ ساری باتیں ہمارے لیے ناقابل یقین تھیں۔ اصل بات تو پوسٹ گریجویٹ کلاسوں کے لیے بنائی جانے والی شان دار عمارت کے افتتاح کی تھی۔ دو ڈھائی بجے کے درمیان میئر کراچی مصطفیٰ کمال نے آکر ہمارے پوسٹ گریجویٹ بلاک کے گیٹ پر باندھا ہوا ربن کاٹ دیا۔ وہ انتظار کروانے کی معذرت کر رہے تھے۔ ہم سب شکریہ ادا کر رہے تھے اور کلاسوں کے آغاز کے لیے پرنسپل کو اپنی حمایت کا یقین دلا رہے تھے۔
مشفق خواجہ نے واحد سنجیدہ کالم سلیم احمد کی وفات پر لکھا
فیاض اعوان
مشفق خواجہ صرف ادبی کالم لکھا کرتے تھے، جن لوگوں نے پڑھے ہیں۔ وہی جانتے ہیں کہ وہ کیسے کالم لکھنے والے تھے۔ شاید ہزار برس تک ایسا کالم نگار پیدا نہ ہو۔ ایک دن انھی مشفق خواجہ سے میں نے پوچھا ’’آپ نے طنز و مزاح میں تو جو کالم لکھے ہیں، سو لکھے ہیں، آپ نے کبھی کوئی سنجیدہ کالم بھی لکھا ہے؟‘‘ مشفق خواجہ نے جو کچھ میرے سوال کے جواب میں کہا اس نے مجھے حیرت میں ڈال دیا، کیوں کہ ابھی کچھ ہی دیر پہلے وہ کہہ رہے تھے۔ انہیں مجموع کرنے اور بھیڑ جمع کرنے والے لوگ کبھی اچھے نہیں لگتے۔
اور کہہ رہے تھے۔ میں نے جو واحد سنجیدہ کالم لکھا ہے، وہ سلیم احمد کے بارے میں لکھا ہے، جب وہ وفات پا گئے۔ یہ تھے سلیم احمد، منہ چڑھاکر مشفق خواجہ ایسے شخص سے اپنے بارے میں وہ کالم لکھوا لیا، جو پھر کبھی انھوں نے نہیں لکھا۔ خود اپنے بارے میں وہ لکھ ہی نہیں سکتے تھے۔ کالم لکھنا کجا۔ وہ اپنے بارے میں کچھ پڑھنا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ سب عجیب ہی تھے۔ ان دنوں میں سلیم احمد کے کالم پڑھ رہا تھا۔ وہ کالم جو بعنوان ’’جھلکیاں‘‘ روزنامہ حریت کراچی میں لکھا کرتے تھے۔ ان میں تین طرح کے کمال ہوا کرتے تھے۔
اول کالم کا مستقل عنوان ’’جھلکیاں‘‘ ہوا کرتا تھا ۔ مگر اس کے ساتھ کوئی اور شہ سرخی یا عنوان نہیں ہوا کرتا تھا۔ جیسا کہ معروف کالم نگاروں کے کالم میں ہوتا ہے۔ بس اوپر ’’جھلکیاں‘‘ لکھا ہے۔ اب آپ کی مرضی ہے پڑھ ڈالیں یا نہ پڑھیں۔ دوسرے کالم ہمیشہ ایک کالم میں اوپر سے نیچے تک لکھا کرتے تھے۔ تیسرے کا ذکر کرتے ہوئے دل خون کے آنسو روتا ہے۔ سلیم احمد ، حریت میں ایک محدود سرکولیشن کے حامل اخبار میں صرف اس لیے لکھا کرتے تھے کہ انھیں وہاں سے پیسے ملا کرتے تھے۔
اس وقت ’حریت‘ کا دامن اس حوالے سے انتہائی کشادہ ہوا کرتا تھا کہ وہ اپنے ہر لکھنے والے کو معاوضہ دیا کرتا تھا۔ اور سلیم احمد کی مجبوری اور ہائے کیسی مجبوری تھی۔ اﷲ اکبر کہ انہیں اپنا گھر چلانے اور بچوں کی تعلیم اور دال دلیے کی خاطر پیسے کی اور معاوضے کی بہرصورت ضرورت ہوا کرتی تھی اور اس بات نے ان کا وجود پارہ پارہ کر ڈالا تھا۔ وہ دنیائے ادب کا ایک بڑا نام تھے۔ اتنا سروقد نام کہ مشفق خواجہ ایسے بااصول ادیب کو ان کی وفات پر پہلی بار ایک سنجیدہ کالم لکھنا پڑا۔ پھر کتنے ہی وقت کے عظیم شاعر لوگ گزرگئے۔ مگر انھوں نے کالم نہیں لکھا۔
The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.