دنیا بھر میں چاول کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ متعدد ایشیائی ممالک میں چاول دن کے ہر کھانے کا اہم حصہ ہوتے ہیں۔ بعض لوگ چاول سے تیار کردہ دودھ کو عام استعمال کے دودھ کے متبادل کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں۔ چاول سے تیار کردہ دیگر اشیاء کی کھپت بھی دنیا بھر میں بڑھ رہی ہے۔
بی بی سی کی سیریز ’ ٹرسٹ می آئی ایم اے ڈاکٹر ‘ میں ان سوالات کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ چاول میں سنکھیا یا آرسنک کی موجودگی کتنا بڑا مسئلہ ہے؟ اور ہمیں غیر محفوظ مقدار سے نجات کے لیے کیا کرنا چاہیے؟
آرسنک قدرتی طور پر مٹی اور پانی میں پایا جاتا ہے۔ یہ زہریلا ہو سکتا ہے اور یوروپی یونین نے اسے کینسر پیدا کرنے والے عناصر میں پہلے درجے میں شامل کیا ہے۔
چاول میں آرسنک کی کتنی سطح؟
چونکہ آرسنک مٹی اور پانی میں پایا جاتا ہے، اس لیے یہ ممکن ہے کہ اس کی کچھ مقدار فصلوں میں بھی چلی جائے لیکن عام طور پر ہمارے کھانے پینے کی چیزوں میں آرسنک کی سطح اتنی کم ہوتی ہے کہ اس بارے میں پریشان ہونے کی نوبت نہیں آتی لیکن دیگر فصلوں کے مقابلے میں چاول میں آرسنک کی سطح دس سے بیس گنا تک زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چاول کی کاشت میں پانی کا بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ اس وجہ سے آرسنک کے لیے مٹی سے چاول میں داخل ہو جانا بہت آسان ہو جاتا ہے۔
بیلفاسٹ کی کوئینز یونیورسٹی کے پروفیسر اینڈی میہارگ نے اس بارے میں برسوں ریسرچ کی ہے۔ انھوں نے ریسرچ اور ٹیسٹنگ کی بنیاد پر بی بی سی کو بتایا کہ ’ باسمتی چاول میں چاول کی دیگر اقسام کے مقابلے میں آرسنک کی سطح کم ہوتی ہے۔ براؤن رائس میں آرسنک زیادہ پایا جاتا ہے۔‘
پروفیسر میہارگ کے بقول ’ آرگینک فصل تیار کرنے سے بھی آرسنک کی سطح پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پینے کے پانی میں جتنے آرسنک کو خطرناک نہیں سمجھا جاتا، رائس مِلک میں اس سے کہیں زیادہ مقدار ہوتی ہے۔‘ ڈاکٹر میہارگ بتاتے ہیں کہ ماضی میں چاول سے بننے والی اشیاء میں جتنا آرسنک ہوتا تھا، اب اس کی اجازت نہیں ہے۔
برطانیہ میں ایسے قانون موجود ہیں جن کے تحت چاول میں آرسنک ایک محدود مقدار سے زیادہ نہیں ہو سکتا ہے۔ سنہ دو ہزار چودہ میں عالمی ادارہ صحت اور اقوام متحدہ کے خوراک اور زراعت کی ادارے نے چاول میں آرسنک کی موجودگی سے متعلق گائیڈلائنز جاری کی تھیں۔ یورپی یونین نے بھی یورپ میں فروخت کی جانے والی اشیاء میں آرسنک کی مقدار کی حد کا تعین کر دیا تھا۔
یورپی یونین نے چھوٹے بچوں کے لیے فروخت کی جانے والی اشیاء میں بھی آرسنک کی مقدار کی حد کا اعلان کیا تھا۔ انڈیا کے شمال مشرقی علاقوں اور مشرقی بنگال جیسی ریاستوں میں آرسنک کی سطح پر تشویش کا اظہار بھی کیا گیا تھا۔ پروفیسر اینڈی میہارگ کا خیال ہے کہ بچوں سمیت وہ افراد جو زیادہ چاول کھاتے ہیں، ان کے تحفظ کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
بین الاقوامی اداروں کی کیا رائے ہے؟
اقوام متحدہ کے خوراک اور زراعت کی ادارے کا کہنا ہے کہ ’ دنیا کے کچھ علاقوں میں چاول خوراک کا ایک اہم حصہ ہیں اور محفوظ خوراک کی سہولت یقینی بنانے کے لیے اس کی معقول فراہمی بھی اہم ہے۔
آرسنک جیسے زہریلے مادوں کے خوراک میں موجود ہونے سے انسانی جانوں کو نقصان ہو سکتا ہے۔ اور اسے دور کرنے کے لیے اہم اقدامات کی ضرورت ہے۔ پالش کیے ہوئے ایک کلو چاول میں زیادہ سے زیادہ 0.2 ملی گرام تک آرسنک کی مقدار کو عام لوگوں کی صحت اور تجارتی نقطہ نظر سے ٹھیک قرار دیا گیا ہے۔‘
چاول کی کتنی مقدار کھانا مناسب ہے؟
یہ ایک مشکل سوال ہے اور اس بارے میں کوئی حتمی جواب دینا فی الحال ممکن نہیں لیکن موجودہ معلومات کی بنیاد پر اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے۔ آرسنک کی کتنی مقدار ’ خطرے کی حد سے باہر‘ ہے؟
امریکی ادارے فوڈ سٹینڈرڈز ایجینسی کی ایک رپورٹ کے مطابق ستر کلو سے زیادہ وزن والے ایک شخص کے لیے سو گرام چاول کھانا ٹھیک سمجھا جاتا ہے لیکن ان اعداد و شمار کو روزمرہ کی خوراک کے تعین میں شمار نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہ بھی دھیان میں رکھنا ہوگا کہ ہماری خوراک میں شامل دیگر اشیاء اور پانی کے ذریعے بھی آرسنک ہمارے جسم میں داخل ہو سکتا ہے۔
چاول سے آرسنک کیسے کم کریں؟
دیگر خوردنی اشیاء کی طرح چاول کا استعمال بھی توازن میں ہونا چاہیے۔ زیادہ تر معاملوں میں چاول کا استعمال موضوع فکر نہیں، لیکن وہ لوگ جو بہت زیادہ مقدار میں چاول کھاتے ہیں یا چاول سے بنی دیگر اشیاء زیادہ کھاتے ہیں ان کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے لیکن اگر آپ رات کو ہی چاول کو بھگو کر رکھ دیں، اگلے دن صاف پانی سے چاول کو اچھی طرح دھونے کے بعد پکائیں، تو اس میں موجود آرسنک کی سطح کو کم کیا جا سکتا ہے۔
چاول پکانے کے دوران بھی چاول کا پانی ایک ابال آنے کے بعد اگر بدل دیا جائے، تو بھی آرسنک کو کم کرنے میں مدد ہوتی ہے۔ اس طریقے سے چاول پکانے سے اس میں موجود آرسنک کو اسی فیصد تک کم کیا جا سکتا ہے۔(بشکریہ بی بی سی )
The post چاول کو پکانے سے پہلے بھگونا یا دھونا کیوں ضروری ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.