آج کل کچھ بھی پڑھیے، سنیے یا دیکھیے۔۔۔ چاہے وہ اخبار ہو یا ٹی وی اور ہمارے مُٹھی میں سما جانے والا موبائل فون، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر جگہ غلطی پر صرف مرد ہی ہوتا ہے، قتل ہو یا چوری ہو یا اور کسی الزام میں گرفتاری۔۔۔ ہر جگہ بنا سوچے بنا جانچے آنکھیں بند کر کے ’صنفِ قوی‘ کو ہی مطعون کیا جا رہا ہوتا ہے۔
میں یہ بالکل بھی نہیں کہنا چاہ رہی کہ صنفِ نازک پر مختلف مظالم کا باعث بننے والے مرد غلط نہیں ہیں۔۔۔ لیکن آج بس ذرا تھوڑی دیر کو تصویر کے دوسرے رخ کی طرف دیکھنے کی درخواست ہے۔۔۔ ذرا غور کیجیے گا، تو پتا چلے گا کہ کبھی مرد کے بہ جائے عورت بھی غلط ہوتی اور ہو بھی سکتی ہے۔۔۔ وہ بھی بشری تقاضوں اور انسان ہونے کے ناتے کسی غلطی کی مرتکب ہو سکتی ہے۔ جب ہم یہ سنتے ہیں کہ مرد نے عورت پر ہاتھ اٹھایا تو ہمیں بہت برا لگتا ہے، غصہ آتا ہے، لیکن جب یہی فعل کوئی عورت کرتی ہے، تو ہم اپنے آپ ہی یہ سوچ لیتے ہیں کہ غلطی مرد ہی کی ہوگی۔۔۔ بہت اچھّا کیا عورت نے۔۔۔ شاباش۔۔۔! کوئی یہ نہیں سوچتا کہ غلطی تو عورت کی بھی ہو سکتی ہے۔
جب ہم کسی قطار میں کھڑے ہوئے ہوتے ہیں اور پہلے عورت کو جگہ نہ دی جائے، تو سب مرد کو برا بھلا کہنے لگتے ہیں اور اگر کوئی مرد جگہ دے دے، تو کوئی بھی اس کو نہیں سراہتا، سب یہی سمجھتے ہیں کہ یہ تو اس کا فرض تھا، اگر کیا تو کون سا احسان کیا۔ مساوات کے ترازو میں تو جب یہ بتایا جا رہا ہے کہ سب برابر ہیں، تو یہ اس کا فرض بالکل بھی نہیں ہوا، بلکہ یہ اس کی اچھائی اورایک قابل تعریف عمل ہے۔
اگر کوئی خاتون بازار میں کھڑی ہو اور کسی چیز کے دام میں کمی بیشی کروا رہی ہو، تو بعض اوقات تو وہ باقاعدہ بدتمیزی کرتی ہوئی بھی پائی جائے گی، تب کوئی یہ نہیں کہتا کہ یہ خاتون ایک مرد سے بدتمیزی کیوں کر رہی ہے۔۔۔ تب وہ بدتمیزی بالکل ’جائز‘ ہوتی ہے اور اگر یہی چیز خدانخواستہ کسی خاتون کے ساتھ کوئی مرد کرتا ہوا پایا جائے، تو وہ جاہل، بدتمیز اور پتا نہیں کیا کیا ہو جاتا ہے۔
ہم ہمیشہ خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہیں، خواتین پر ہونے والے مظالم کے خلاف لکھتے ہیں، لیکن کبھی اس بات پر بھی غور فرمائیے گا کہ جب کوئی پولیس اہل کار کسی خاتون کو جو گاڑی چلا رہی ہو، اس کو روک لے، تو وہ کتنا شور اور بدتمیزی کرتی ہے، لیکن ہاں میں یہ ضرور مانتی ہوں کہ پولیس والے بھی بدتمیزی کرتے ہیں، لیکن میں نے کئی دفعہ ایسا بھی ہوتا ہوا دیکھا کہ خاتون اپنی غلطی ہونے کے باوجود پولیس اہل کار سے بدتمیزی کر رہی ہوتی ہے۔
تب کوئی یہ کیوں نہیں کہتا کہ یہ عورت بدتمیزی ہے اس کو تمیز نہیں ہے، بلکہ الٹا پولیس والوں کی کم بختی آتی ہے کہ ایک عورت کو ’بلاوجہ‘ کیوں روک لیا۔۔۔؟ اس پولیس والے کے کردار پر باتیں کی جانے لگتی ہیں، کہ یہی ’ٹھرکی‘ ہوگا یا لازمی اسی نے ہی ایک عورت سے بدتمیزی شروع کی ہوگی، جب آپ اسکول، کالج یا یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں، تب بھی ہمیشہ یہی سننے کو ملتا ہے ’وہ دیکھو لڑکا کتنا ’بدتمیز‘ ہے، مجھے دیکھ رہا ہے۔ لڑکے تو ہوتے ہی ایسے ہیں، لیکن پھر جب وہی لڑکیاں اس عمل کی مرتکب پائی جاتی ہیں۔
تب وہ صحیح کیسے ہو جاتا ہے۔۔۔؟ تب لڑکیاں خود پر یہ ’کلیہ‘ لاگو نہیں کرتیں اور نہ ہی لڑکوں کی طرف سے ان پر کبھی یہ اعتراض آپ نے سنا ہوگا۔۔۔ اسی طرح جب کوئی لڑکا کسی لڑکی سے دوستی ختم کرتا ہے، تو لڑکی اس کی اتنی برائیاں کرتی ہے، جس پر اس کے حلقے کے لوگ، گھر والے سبھی مل کر اُس لڑکے کو ہی برا بھلا کہنے لگتے ہیں کہ ’سارے لڑکے ایسے ہی ہوتے ہیں۔
وہی غلط اور بدتمیز ہوگا اور جب بالکل ایسے ہی کوئی لڑکی ایسا کرتی ہے، تب بھی لڑکی کو ہی کیوں درست کہا جاتا ہے۔۔۔؟ تب بھی یہی کیوں کہا جاتا ہے کہ بس لڑکا ہی غلط ہوگا، کیوں اس سے یہ نہیں پوچھا جاتا کہ کہیں تمھاری طرف سے تو کوئی غلطی نہیں ہوئی؟ اور پھر کہیں کہیں پر تو یہ بھی ہوتا ہے کہ لڑکے کے گھر والے اتنے سیدھے اور شریف ہوتے ہیں کہ پھر لڑکی کے خاندان والے اس کا بھرپور فائدہ اٹھانے لگتے ہیں، تب تو سب یہ کہتے ہیں کہ بہت اچھا ہے، اس سے لڑکا قابو میں رہے گا۔۔۔ ’انسان‘ بن کر رہے گا اور وہ لڑکی اُس بے چارے لڑکے سے پھر چاہے کیسا بھی رویہ رکھے، بدتمیزی کرے، اسے برا بھلا کہے، یہاں تک کہ اگر مارے بھی، تو وہ سب ٹھیک قرار پائے گا اور اگر یہی چیز لڑکا کرے اور کرتا بھی ہے، لیکن اُسے برا کہنے اور سمجھنے والے سب ہوتے ہیں۔
لڑکے کے گھر والے کچھ کریں تو وہ ظالم، گھٹیا اور بہت بُرے اور ’گرے ہوئے‘ ہو جاتے ہیں، جب کہ غلط چیز دونوں صورت میں ہی برابر غلط ہونی چاہیے۔ بنا سچائی جانے ہمارا سماج یہ دُہرا معیار کیوں اختیار کرتا ہے۔۔۔ غلطی ہمارے معاشرے کی ہے، اس نے مرد کو اتنا زیادہ برا بنا دیا ہے کہ بعض اوقات غلطی نہ ہو کے بھی مرد ’غلط‘ ہو جاتا ہے اور عورت کو اتنا اچھا بنا دیا ہے کہ اس کی غلطی ہونے کے باوجود وہ ہم سب کی نظروں میں اچھی ہے، تو کیا یہ چیز اور یہ رویہ غلط نہیں۔۔۔؟
The post غلطی عورت کی بھی تو ہو سکتی ہے۔۔۔! appeared first on ایکسپریس اردو.