’کورونا‘ کی لازمی ویکسینیشن۔۔۔
خانہ پری
ر۔ ط۔ م
10 اگست 2021ء کو لندن میں سفر کے لیے پاسپورٹ کے ساتھ ’کورونا ویکسین‘ لازمی کرنے کے خلاف ایک مظاہرہ کیا گیا، جس میں مشتعل مظاہرین کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں۔۔۔ مختلف مغربی ممالک سے کورونا ویکسین لازمی کرنے کے خلاف وفتاً مظاہروں کی اطلاعات آ رہی ہیں، 15 اگست کو لاس اینجلس (امریکا) میں بھی ویکسین کے خلاف ’طبی آزادی‘ یا ’میڈیکل فریڈم‘ کے لیے مظاہرہ کیا گیا۔
ادھر وفاقی وزیر منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات اسد عمر نے شہریوں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ 31 اگست 2021ء تک کورونا کی ویکسین لگوا لیں، بہ صورت دیگر وہ کام نہیں کر سکیں گے۔۔۔! اس سے پہلے حکومت سندھ ’پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی‘ (پی ٹی اے) کو ایک خط لکھ چکی ہے کہ جن شہریوں نے کورونا کی ویکسین نہیں لگوائی، ان کے موبائل فون ’سِم‘ بند کر دی جائیں! اگر ایک لمحے کے لیے اس فیصلے کے حامی بھی ہو جائیے، تب بھی اس خیال کے بھونڈے پن سے نظریں نہیں چُرائی جا سکتیں کہ پاکستان میں ایک فرد کے نام پر چار ’سِم‘ نکلوائی جا سکتی ہیں۔
ظاہر ہے عام طور پر ایک فرد اِن میں سے ایک یا دو ’سِم‘ ہی خود استعمال کرتا ہے، باقی عموماً اس کے اہل خانہ کے استعمال میں ہوتی ہیں۔ اگر اس غیر مناسب اور غیر منصفانہ فیصلے پر عمل کیا گیا، تو ویکسین نہ لگوانے والے کے نام پر چار موبائل فون سِمیں بند ہوں گی، یعنی دراصل یہ ’سزا‘ ویکسین نہ لگوانے والے کے نام پر سِم لینے والوں کو بھی بھگتنی پڑے گی، چاہے وہ یہ ٹیکہ لگوا چکے ہوں۔۔۔!
ہمارے ثمر بھائی کہتے ہیںکہ اصل معاملہ یہ ہے کہ ویکسین نہ لگوانے والوں پر جو پابندیاں عائد کرتے جا رہے ہیں، کہ عام شہری اس ویکسین کو لگوائے بغیر وہاں داخل ہی نہیں ہو سکتے، یہ امر بنیادی انسانی حقوق سے براہ راست متصادم ہے۔۔۔ دستور پاکستان کے آرٹیکل 15 میں شہریوں کو ملک کے اندر کہیں بھی آباد ہونے اور نقل وحرکت کا پورا حق حاصل ہے۔۔۔
ہر چند کہ کورونا کے وبا ہونے میں کوئی شک نہیں۔۔۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اِس کی ویکسین کے معاملے پر کھل کر گفتگو ہی نہیں ہو پا رہی، جس سے ایک طرف لوگوں کے خدشات بڑھتے جا رہے ہیں، تو دوسری طرف ویکسین کے حوالے سے طرح طرح کی افواہوں اور پریشانیوں کا بازار بھی گر م ہے۔ اس میں ایک قابل غور موقف یہ ہے کہ ایک ایسی ویکسین جس کے ابھی صرف ایمرجینسی اور آزمائشی یا ابتدائی استعمال کا مرحلہ جاری ہے، اُسے تمام لوگوں کے لیے لازمی کر دینا کس قدر درست ہے۔۔۔؟ کسی بھی ویکسین کو عام طور پر دو سے تین سال ٹرائل کے بعد ہی استعمال کی اجازت دی جاتی ہے۔
کورونا ویکسین کے معاملے میں یہ ہوا ہے کہ دنیا کی وبائی صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے ہنگامی استعمال کی اجازت دے دی گئی ہے، لیکن بہ جائے اس کی افادیت کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کے اُسے لازمی کرنے پر زیادہ زور دیا جا رہا ہے، جو کہ بنیادی انسانی حقوق کے بھی خلاف ہے۔۔۔ ثمر بھائی تو یہ بھی کہتے ہیں کہ جو حکومت لوگوں کو پینے کا صاف پانی نہیں دے رہی، شہر سے کچرا نہیں اٹھا رہی، کتے کے کاٹے کے ٹیکے مہیا نہیں کر پا رہی، وہ اس ویکسین کے لیے کمربستہ ہے، تو لوگوں کے لیے یہ معاملہ اور بھی مشکوک ہو رہا ہے۔۔۔‘
اس حوالے سے تو ہمیں کوئی جواب سجھائی نہیں دیا، تاہم ہمارے ہاں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے حوالے سے مختلف قومیتوں اور طبقوں کے بنیادی حقوق کی باتیں تو بڑے شد ومد سے کی جاتی ہیں، لیکن اس بنیادی حق کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی جا رہی کہ ایک بالکل نئی نئی دوا کیسے ہر فرد کے لیے لازمی قرار دی جا سکتی ہے۔۔۔؟
کیا شہریوں کو ویکسین نہ لگوانے کا حق استعمال کرنے پر اپنے روزگار اور تنخواہ سے محروم کر دینا مبنی برانصاف عمل ہوگا۔۔۔؟ ہمارا آئین بھی شہریوں کو نقل وحرکت کی مکمل آزادی دیتا ہے، تو کیا ملک کے اندر مختلف عوامی مقامات پر جانے سے روکنا بنیادی انسانی حقوق سے متصادم عمل نہیں ہوگا۔۔۔؟ اور اسی پر بس نہیں یہ ویکسین نہ لگوانے والوں کے قومی شناختی کارڈ معطل کر دینے کی باتیں تو اچھی خاصی سنگین اور تشویش ناک ہیں۔۔۔!
دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل میں تقریباً پوری آبادی کی ویکسینشن ہونے کے باوجود وہاں کورونا دوبارہ ابھر آیا۔ چین کے صوبے ووہان میں بھی ویکسین کے بعد صورت حال پھر خراب ہوئی، کیا ایسے میں ضروری نہیں ہے کہ زیادہ سے زیادہ احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے، بہ جائے اس کے کہ ایک ایسی ویکسین لوگوں کے جسموں میں زبردستی داخل کی جائے، جس کے اثرات کے بارے میں ابھی ’طویل المدت‘ معلومات ہی حاصل نہیں ہوئیں۔۔۔
بہت سے شہری مضطرب ہیں کہ ان کے دفاتر، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں وغیرہ میں کورونا کی ویکسین لازمی قرار دی جا رہی ہے، تو پھر انھیں اس کے مضر اثرات نہ ہونے کی بھی کوئی تحریری ضمانت دی جائے، ورنہ اس کے نتیجے میں اگر کوئی جسمانی نقصان ہوا، تو اس کا ازالہ کون کرے گا۔۔۔؟
یہاں یہ جواب دیا جاتا ہے کہ جب آپ کسی بھی بیماری کا کوئی آپریشن وغیرہ کراتے ہیں، تب بھی آپ سے ایک تحریر پر دستخط کرا لیے جاتے ہیں کہ اس دوران کسی بھی گڑ بڑ میں ڈاکٹر کو دوش نہیں ہوگا، لیکن ایک فرق ہے کہ وہ شہری کی رضا مندی سے ایک بیماری اور مجبوری والا معاملہ ہوتا ہے۔ یہاں صحت مند شہریوں کو ریاست کی طرف سے جبری ویکسین کے لیے کہا جا رہا ہے، جو ایک مختلف بات ہے۔
کورونا کے حوالے سے بنیادی حقوقِ نقل وحرکت پر پابندی کو ہم اس حوالے سے مستثنا قرار دے سکتے ہیں کہ اس سے براہ راست لوگوں کی زندگی کو خطرہ ہے، لیکن ویکسین نہ کرانے والے (ایک لحاظ سے) صرف اپنی صحت اور اپنی زندگی سے متعلق ہی فیصلہ کر رہے ہیں، کیوں کہ جو ویکسین لگوا رہے ہیں، وہ تو ماہرین کی اب تک کی رائے کے مطابق اس وبا کے مہلک ہونے سے اچھے خاصے محفوظ ہو ہی چکے ہیں۔۔۔
یہاںہم یہ واضح کردیں کہ ہم کورونا کی ویکسین کی مخالفت قطعی طور پر نہیں کر رہے۔۔۔ ہماری دعا ہے کہ یہ ویکسین سو فی صد کارآمد ثابت ہو اور دنیا کو جلد از جلد اس مہلک وبا سے نجات مل جائے، لیکن بات تصویرکے دوسرے رخ کی ہے کہ جو شہری ویکسین لگوانا چاہے، وہ ضرور لگوائے اور جو فی الحال اِس حوالے سے کچھ انتظار کرنا چاہتا ہے اور ابھی خود کو اس حوالے سے مطمئن نہیں پا رہا، تو اُس سے اِس کا یہ بنیادی انسانی حق نہ چھینا جائے۔۔۔! ویسے بھی آج کل فرد کی نجی زندگی اور اس کی بنیادی آزادیوں کی بہت زیادہ بات کی جاتی ہے، تو پھر ضروری ہے کہ اس اہم ترین معاملے میں بھی فرد کی اس آزادی کو فراموش نہ کیا جائے۔۔۔!
۔۔۔
صد لفظی کتھا
کال
رضوان طاہر مبین
تیسری دنیا کے ایک ’سربراہ‘ کو بھپتیاں کَسی جاتی تھیں۔
’’تم امریکا کے غلام ہو، ہمیشہ تم ہی فون کر کے عرضیاں پیش کرتے ہو۔‘‘
’’کبھی انھوں نے بھی فون کیا ہے تمھیں۔۔۔؟‘‘
اور ان کے پاس بغلیں جھانکنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا۔
مگر آج تو تاریخ ہی بدل گئی۔۔۔
کیوں کہ اس بار کال وہاں سے آئی تھی!
ملک کا سربراہ بہت خوش تھا۔
اب وہ سینہ تان کر کہہ سکتا تھا کہ اسے امریکی صدر نے کال کی۔
یہ الگ بات ہے کہ امریکی صدر نے فون کر کے پوچھا تھا:
’’مس کال کیوں ماری۔۔۔؟‘‘
۔۔۔
پروفیسر کرار حسین، ایک قابل فخر استاد
اسلم ملک
بلوچستان میں قوم پرستی کے عروج کا زمانہ تھا کہ بلوچستان کی قیادت نے کراچی کے اردو بولنے والے ایک استاد کو بلوچستان یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنانے کا فیصلہ کیا۔ کوئٹہ پہنچنے پر استاد کا شان دار استقبال کیا گیا۔ استقبال کرنے والوں میں گورنر غوث بخش بزنجو، وزیر اعلیٰ عطا اللہ مینگل اور وزیر تعلیم گل خاں نصیر شامل تھے۔
پھر جب وہ استاد کوئٹہ سے کراچی واپس روانہ ہوئے، تو انھیں رخصت کرنے سارا شہر امنڈ آیا۔ یہ سراپا محبت استاد پروفیسر کرار حسین تھے، جو آٹھ ستمبر، 1911ء کو کوٹہ (راجستھان) میں پیدا ہوئے۔ تعلیم و تربیت میرٹھ میں ہوئی۔
آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے (اردو)، ایم اے (انگریزی) کی ڈگریاں حاصل کیں۔ زمانۂ طالب علمی میں وہ پہلے انڈین نیشنل کانگریس اور پھر خاکسار تحریک سے وابستہ ہوئے، اس کے بعد کسی اور جماعت کی طرف نہیں دیکھا، میرٹھ سے خاکسار تحریک کا ترجمان اخبار ’’الامین‘‘ بھی جاری کیا تھا۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد انھوں نے تدریس کو اپنا شغل بنایا۔ میرٹھ کالج میں انگریزی کے لیکچرر ہوئے۔
وہ پاکستان نہیں آنا چاہتے تھے، لیکن جنوری 1948ء میں گاندھی جی کے قتل کے بعد مسلمانوں کے بارے میں کچھ ایسی غلط فہمیاں پیدا ہوئیں کہ ہندوستان بھر کے نمایاں اور مشہور مسلمانوں کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔ کرار صاحب بھی چند دن جیل میں رہے۔
اس واقعے کے بعد وہ ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔ یہاں وہ اسلامیہ کالج کراچی کے بعد خیر پور، میر پور خاص، کوئٹہ کے گورنمنٹ کالجوں کے پرنسپل رہے۔ سرکاری ملازمت سے سبک دوش ہونے بعد کچھ عرصہ جامعہ ملیہ، کراچی میں بھی تدریسی خدمات انجام دیں۔ بعد میں کراچی میں اسلامی ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر رہے۔
کرارحسین اسلام میں ترقی پسند نقطۂ نظر رکھتے تھے۔ ان کی تصانیف میں قرآن اور زندگی، مطالعہ قرآن اور غالب: سب اچھا کہیں جسے، سوالات و خیالات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی تقاریر کے کئی مجموعے کتابی صورت میں شایع ہو چکے ہیں۔ پروفیسر کرار حسین نے سات نومبر، 1999ء کو کراچی میں وفات پائی اور سخی حسن قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔ جوہر حسین، تاج حیدر، شائستہ زیدی، اور صادقہ صلاح الدین ان کی قابل ِ فخر اولاد ہیں۔
۔۔۔
’’وہ سب گھر داماد ہیں، کوئی فکر کی بات نہیں۔۔۔‘‘
نواب مشتاق احمد خان
(حیدرآباد (دکن) کے پاکستان میں پہلے اور آخری نمائندے)
حیدرآباد کے سقوط کے بعد حکومت پاکستان نے مجھے یقین دلایا تھا کہ حیدرآباد پر بھارت کے قبضے سے میرا سفارتی رتبہ اور حیثیت متاثر نہیں ہوگی اور تمام مراعات برقرار رہیں گی۔ نواب زادہ لیاقت علی خاں کو حکومت کی اس یقین دہانی کا شدت سے احساس تھا اور جن دشوار حالات میں، میں اپنے موقف کو نباہ رہا تھا، وہ اس کی دل سے قدر کرتے تھے۔
حیدرآباد کے سقوط کے بعد اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل ریلوے نے مجھے ایک بڑے عہدے کی پیش کش کی۔ جب نواب زادہ صاحب کو اس کا علم ہوا تو انھوں نے مجھ سے پوچھا ’’مشتاق! کیا تم اپنی ذمے داری سے دست بردار ہونا چاہتے ہو۔۔۔؟‘‘ میں نے جواب دیا ’’میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے، جب تک حکومت پاکستان میرے اسناد تقرر کو تسلیم کرتی ہے، میرے لیے اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘ میرے اس جواب پر لیاقت علی خاں نے خود ریلوے والوں سے کہہ کر ملازمت کی پیش کش واپس کرا دی۔ اس کے بعد وہ معمول سے بھی زیادہ میرا خیال کرنے لگے۔
اس کے برخلاف غلام محمد صاحب جن سے حیدر آباد کے معاملات میں مجھ سے براہ راست تعلق تھا، کے روّیے سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ میں کسی نہ کسی طرح اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہو جائوں۔ چناں چہ انھوں نے خود ہی مجھے مرکزی سیکریٹریٹ میں عہدے کی پیش کش کرا دی، جسے میں نے نواب زادہ علی لیاقت علی خان سے پوچھے کے بغیر ہی مسترد کر دیا۔ اس پر غلام محمد صاحب مجھ سے کئی دنوں تک بہت ناراض رہے۔
علاوہ ازیں بعض اعلیٰ عہدے داروں کے روّیے سے یہ تاثر ہونے لگا کہ وہ میری سفارتی پوزیشن کو کچھ اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔ اب تک جہاں میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا۔ اب وہاں بے اعتنائی اور بے رخی برتی جانے لگی۔ بعض حضرات موقع محل دیکھے بغیر ایسی بات کہہ دیتے تھے، جس سے ان کے دل کی بات ظاہر ہو جاتی تھی۔
مثال کے طور پر ایک حیدرآبادی مہاجر کی شادی ایک وزیر مملکت کے گھرانے میں طے پائی۔ حیدرآباد کا نمائندہ ہونے کی بنا پر میں برات کا سربراہ تھا۔ جیسے ہی برات دلہن کے گھر داخل ہوئی، ایک بڑے افسر نے خواجہ ناظم الدین صاحب کو، جو مہمان خصوصی تھے، مخاطب کر کے کہا ’’لیجیے جناب اب حیدرآبادی ہماری لڑکیوں کو بھی لے جانے لگے۔‘‘ مجھے یہ مذاق بھونڈا اور بے موقع معلوم ہوا اور میں نے جواباً عرض کیا ’’مگر جناب عالی، وہ سب گھر داماد ہیں، کوئی فکر کی بات نہیں۔ کوئی باہر نہیں جائے گا۔‘‘ مطلب یہ کہ آپ حیدر آبادیوں کے پاکستانی معاشرے میں ضم ہونے کو برا کیوں مناتے ہیں۔
یہ جواب سن کر وہ شرمندہ ہوگیا اور خواجہ صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں اس جواب کو بہت سراہا۔ ان حالات میں نواب زادہ صاحب کی شفقت اور چوہدری ظفر اﷲ خان صاحب کی حمایت کے باوجود میں روز بروز یہ محسوس کرنے لگا کہ وقت گزرنے کے ساتھ میرے مشن میں دل چسپی میں نمایاں کمی ہو رہی ہے اور جو مراعات مجھے شروع سے حاصل تھیں یا قاعدے کے مطابق یا انصاف کی رُو سے مجھے ملنی چاہیے تھیں۔
ان کے بارے میں ’احتیاط‘ برتی جانے لگی اور جو غلط استدلال میری اسناد کی پیش کشی کے وقت بروئے کار لایا گیا، وہ آہستہ آہستہ میری حاصل شدہ مراعات کو بھی متاثر کرنے لگا۔ مثلاً موٹر پر لگائی جانے والی پلیٹ کا ہی معاملہ تھا۔ میرا کہنا یہ تھا کہ جو سفارتی مراعات میرے ہم رتبہ سفیر کو نئی دہلی میں حاصل تھیں، جس میں پلیٹ کا امتیازی نشان بھی شامل تھا، مجھے بھی ملنی چاہئیں، لیکن اس پر ٹال مٹول ہوتا رہا۔
(خود نوشت ’کاروان حیات‘ کا ایک ورق)
The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.