دوحہ میں طالبان اور امریکا کے مابین امن معاہدہ طے پاتے ہی امریکی انخلاء کا عمل شروع ہوگیا تھا۔
جلد امریکیوں کی جانب سے یہ اعلان بھی سامنے آگیا تھا کہ وہ جاتے ہوئے ان افغان عناصر کو بھی ساتھ لے جائیں گے جو بیٹل فیلڈ میں ان کی مدد کرتے رہے ہیں۔ ابتدائی طور پر ان کی تعداد پچاس ہزار کے لگ بھگ بتائی گئی تھی۔ پھر ان کے حوالے سے امریکی میڈیا میں بھی متواتر ہم دردی کی باتیں شروع ہوگئیں۔
ایسے میں ذہن میں یہ سوال پیدا ہونا ایک فطری عمل تھا کہ “سہولت کار” تو پینتالیس سال قبل ویتنام سے بھی ڈھوئے گئے تھے۔ ان ویتنامیوں کا کیا بنا؟ کیا انہیں وہ پرکشش زندگی میسر آئی جس کا انہوں نے جاتے ہوئے خواب دیکھا تھا اور جسے عرف عام میں “امریکی ڈریم” کہا جاتا ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنا شروع کیا تو جواب توقع سے بھی زیادہ حسب توقع سامنے آیا۔ ہوش اُڑا دینے والے اس جواب کی تفصیل ایکسپریس کے ان قارئین کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے جو بین الاقوامی امور میں دل چسپی رکھتے ہیں۔
یہ 30 اپریل 1975ء کا دن تھا جب سائیگون میں واقع امریکی سفارت خانے کی چھت سے آخری امریکی اور سہولت کار نے ویتنام کی زمین چھوڑی۔ لے جائے گئے سہولت کاروں کو امریکا کی پانچ مختلف ریاستوں میں تقریباً یکجا بسایا گیا تھا تاکہ ان کا کمیونٹی کا احساس باقی رہے۔
ان میں سے جنہیں ٹیکساس میں بسایا گیا ان کی کمیونٹی کو جلد “لٹل سائیگون” کا غیررسمی نام بھی مل گیا تھا۔ بظاہر سب کچھ بہت منظم طور پر پایہ تکمیل کو پہنچ گیا تھا اور زندگی پرسکون تھی۔ مگر گڑبڑ کا آغاز اس وقت ہوا جب 21 جولائی 1981ء کو سان فرانسسکو میں ایک ویتنامی زھونگ چونگ لام کا قتل ہوگیا۔ اسے اس کے دفتر کے سامنے فٹ پاتھ پر تین گولیاں ماری گئی تھیں۔ پھر جلد ہی ایک اور قتل 24 اگست 1982ء کو ہوگیا۔
اس بار واردات ہیوسٹن، ٹیکساس میں ہوئی تھی اور قتل ہونے والا ڈیم فانگ تھا جسے اس کے گھر کے دروازے میں گولی ماری گئی۔ ان دونوں واقعات میں کئی مماثلتیں تھیں۔ پہلی یہ کہ دونوں نے امریکا آکر ویتنامی زبان کے جرائد کے ڈیکلریشن حاصل کرلیے تھے اور بطور صحافی ان جرائد کی اشاعت کر رہے تھے۔
دوسری مماثلت یہ رہی کہ دونوں واقعات میں قاتلوں نے جائے وقوعہ پر خول نہیں چھوڑے تھے، جس سے ظاہر تھا کہ وہ اعلٰی تربیت یافتہ ہیں اور فرانزک ایویڈنس کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں۔ تیسری مماثلت آگے چل کر یہ سامنے آئی کہ دونوں کیسز میں پولیس اور پراسیکیوشن نے واضح طور پر ایسی حرکتیں کیں جن سے قاتلوں کو تحفظ فراہم کرنے حکمت عملی روبہ عمل ہونے کا پتا چلتا تھا۔
مثلاً زھونگ چونگ لام کے قتل کے تین گواہ تھے۔ مگر پولیس نے ان میں سے کسی ایک کو بھی نہ تو طلب کیا اور نہ ہی ان کے بیان ریکارڈ کیے۔ اسی طرح زھونگ چونگ لام کی بہن نینسی زھونگ نے پولیس کو بتایا کہ کچھ عرصہ قبل اس کی کنپٹی پر گن رکھ کر دھمکی دی گئی تھی کہ بھائی سے کہو کہ فیملی سمیت امریکا سے نکل جائے ورنہ مارا جائے گا۔
لیکن پولیس نے اس بیان کو کوئی اہمیت نہ دی اور کیس عدالت میں یہ پیش کیا کہ زھونگ کی اپنے ایک دوست سے ذاتی رنجش تھی جس نے اسے قتل کردیا۔ زھونگ کے اس دوست کو باقاعدہ چارج بھی کیا گیا۔ مگر کیس اتنا مضحکہ خیز تھا کہ پہلی ہی سماعت پر جج نے اٹھا کر کورٹ سے باہر پھینک دیا۔ یوں یہ کیس سرد خانے میں چلا گیا۔ حیران کن بات یہ کہ نینسی زھونگ کہتی ہے کہ قتل کے بعد دو ماہ تک روز اسے دھمکی آمیز فون کالز صبح شام آتی رہیں مگر پولیس کوئی نوٹس ہی نہ لیتی تھی۔
یہ چوںکہ قتل کے واقعات تھے اور دونوں میں مماثلتیں بھی تھیں سو جلد ایف بی آئی نے اس کی تحقیقات شروع کردیں۔ یوں شروع ہوئے وہ ہوش ربا انکشافات جن کا دائرہ ٹیکساس سے تھائی لینڈ کے جنگلات اور وہاں سے ویتنام کے ساحلوں تک پھیلا ہوا تھا۔ اور اس دائرے میں پینٹاگون اور سی آئی اے دونوں کے فٹ پرنٹ کیا فنگر پرنٹ بھی عیاں تھے۔ اس معاملے کو سمجھنے سے قبل یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ افغانستان سے تو انہیں ایئرلفٹ کیا جا رہا ہے جو سویلین شہری ہیں اور امریکی فوج کے لیے سہولت کاری کی ملازمت کیا کرتے تھے۔
لیکن ویتنامیوں کا معاملہ مختلف تھا۔ جنہیں ویتنام سے لے جایا گیا تھا، ان کی اکثریت کا تعلق ویتنام کی مسلح افواج سے تھا اور ان میں ہر رینک کے افسران شامل تھے۔ ایف بی آئی نے جب قتل کے مذکورہ دو واقعات کی تفتیش شروع کی تو جلد انکشاف ہوا کہ امریکا میں ویتنامیوں کی تین زیرزمین تنظیمیں وجود میں آچکی ہیں۔ مرکزی تنظیم کا نام “دی فرنٹ” تھا جب کہ اس کی ایک ذیلی تنظیم K9 تھی۔
کے نائن کی حیثیت ڈیتھ اسکواڈ کی تھی جس کے اراکین نامعلوم تھے۔ ہیوسٹن ٹیکساس میں قتل ہونے والے ڈیم فانگ کے کیس کے حوالے ویتنامیوں میں کے 9 کا نام گردش کر رہا تھا، مگر جس بھی ویتنامی سے اس حوالے سوال کیا جاتا وہ ہونٹ سی لیتا۔
اس کے برخلاف سان فرانسسکو میں قتل ہونے والے زھونگ چونگ لام کے قتل کی ذمے داری VOECRN (دی ویتنامیز آرگنائزیشن ٹو ایکسٹرمنیٹ کمیونسٹ اینڈ ریسٹور دی نیشن) نامی تنظیم نے قبول کر رکھی تھی، مگر قتل کی یہ ذمے داری اس طرح قبول نہ کی گئی تھی جس طرح عام طور پر دنیا بھر میں دہشت گرد تنظیمیں قبول کرتی ہیں کہ میڈیا دفاتر کو فون یا دیگر مواصلاتی ذرائع سے رابطہ کرکے ذمے داری قبول کرلی جائے۔ زھونگ کے کیس میں یہ ذمے داری صرف فیملی کو فون کرکے اور ویتنامی کمیونٹی کو سینہ بسینہ آگاہ کرکے قبول کی گئی تھی۔ یعنی بات صرف ویتنامی کمیونٹی تک رکھی گئی تھی، عام امریکی اس سے لاعلم تھے۔
تاثر یہی تھا کہ تین مختلف آرگنائزیشنز متحرک ہیں، مگر جلد ایف بی آئی کو اپنی تحقیقات میں پتا چلا کہ VOECRN صرف ایک نام ہے۔ جو فرنٹ اور کے 9 کی وارداتوں کی ذمے داری قبول کرنے کے لیے تخلیق کیا گیا ہے تاکہ کے 9 نامی ڈیتھ سکواڈ کی جانب کوئی متوجہ نہ ہوسکے۔ ان تحقیقات کے نتیجے میں ایف بی آئی کو جلد پتا چلا کہ معاملہ صرف زھونگ چونگ لام اور ڈیم فانگ کے قتل کے دو واقعات تک محدود نہیں۔ بلکہ دیگر ریاستوں میں بسائی گئی ویتنامی کمیونٹی میں بھی اسی طرح کی وارداتیں ہوچکی ہیں۔
یوں مجموعی طور قتل کی سات اور اقدام قتل کی درجنوں وارداتوں کا سراغ ملا۔ قتل ہونے والے ساتوں افراد ویتنامی صحافی تھے، اسی طرح قاتلانہ حملوں کا نشانہ بننے والوں میں بھی اکثریت صحافیوں کی تھی۔ پھر اہم بات یہ کہ قاتل ہر جگہ خود ویتنامی تھے۔ معلوم نہیں تھے مگر دھمکیوں سے ثابت ہوچکا تھا کہ وہ جو بھی ہیں، ہیں ویتنامی۔ سو ایف بی آئی کے لیے یہ سوال اہمیت اختیار کر گیا کہ آخر بے وطن ہوکر امریکہ پہنچنے والے ویتنامی اپنے صحافیوں کو کیوں قتل کر رہے ہیں؟
جب تفتیش کا رخ اس پہلو کی جانب موڑا گیا تو انکشاف ہوا کہ ویتنام سے آنے والوں میں بہت سے کمیونسٹ بھی امریکا کو ٹوپی پہنا کر یہاں پہنچنے میں کام یاب ہوگئے ہیں۔ اور جرائد و اخبارات کے ڈیکلریشن لے کر ویتنامی کمیونٹی سے مخاطب ہیں اور ان کی ذہن سازی اپنے خطوط پر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پتا چلا کہ اقدام قتل کی واردات کا نشانہ بننے والا ہر شخص صحافی تو نہ تھا مگر مقتولوں سمیت تمام کے تمام کمیونسٹ ضرور تھے۔ جو قارئین دنیا بھر میں نظریاتی تحریکوں کی تاریخ سے واقف ہیں، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ کمیونسٹ تحریک کا ہر ملک میں سب سے اہم ذریعہ جرائد اور تحاریر ہی رہی ہیں۔
سو ویتنامی کمیونسٹ بھی اپنے عالم گیر چلن پر تھے اور وہ بھی صحافت ہی کے ذریعے اپنے مقاصد کو آگے بڑھا رہے تھے۔ ایف بی آئی کی تفتیش میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ امریکا میں بسے ویتنامیوں کی زیرزمین تنظیم نے کسی کی زندگی کا چراغ گل کرنے کے لیے تین شرائط رکھی ہوئی ہیں: پہلی یہ کہ وہ کمیونسٹ ہو، دوسری یہ کہ وہ فرنٹ کے وجود کے لیے خطرہ ہو اور تیسری یہ کہ وہ فرنٹ کے کسی ممبر کی ذات کے لیے خطرہ ہو۔ ان تینوں میں سے ایک بھی شرط پائی جانے کا مطلب موت کا حق دار ہونا تھا۔
اس پورے معاملے میں اورینج کاؤنٹی کیلی فورنیا میں اقدام قتل کے جرم میں سزا پانے والے واحد ویتنامی ٹرین وھین بیٹو سے امریکا کے مشہور اینویسٹی گیٹو جرنلسٹ اے سی تھامسن نے حال ہی میں آن کیمرہ انٹرویو کے دوران پوچھا کہ اس نے اپنے ٹارگٹ شخص پر حملہ کیوں اور کیسے کیا تھا ؟ تو اس نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کہا:
“میں اسے اورینج کاؤنٹی کی مارکیٹ کے پارکنگ لاٹ میں گولی مارنے لگا تو اس نے میرا ہاتھ دبوچ لیا۔ لیکن میں نے ہاتھ چھڑایا اور اس کے سر میں گولی داغ دی۔ وہ کسی درخت کی طرح دھڑام سے گرا۔ میں سمجھا وہ مرگیا ہے۔ لیکن بعد میں پتا چلا کہ وہ بچ گیا تھا۔ میں اسے اس لیے قتل کر رہا تھا کہ وہ کمیونسٹ تھا، اور اس نے لاس اینجلس ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ویتنام کی کمیونسٹ حکومت سے ڈائیلاگ ہونا چاہیے۔ کمیونسٹ بیمار لوگ ہوتے ہیں۔ بیمار لوگوں کو مرنا ہی ہوتا ہے۔ لوگ مجھے ممکنہ قاتل سمجھتے ہیں، مگر یہ قتل کی کوشش نہیں تھی بلکہ جنگی اقدام تھا۔ ہماری جنگ ابھی ختم نہ ہوئی تھی۔”
اسی طرح تھامسن نے فرنٹ کے سابق ممبر نوین ڈینگ خوا سے پوچھا:
“اگر 80 کی دہائی میں کوئی شخص تمہارے سامنے کمیونسٹ نظریات کا اظہار کرتا تو تمہارا ردعمل کیا ہوتا ؟”
ڈینگ خوا نے جواب دیا:
“میں اسے خنجر گھونپ دیتا، یا گلا کاٹ دیتا، کچھ بھی کرتا مگر اسے قتل کر دیتا”
جب اس سے پوچھا گیا:
“کیا تمہارا تعلق کے 9 سے تھا؟”
تو اس نے دوسری طرف دیکھتے ہوئے کہا:
“نہیں !”
اس پورے ایشو میں سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ ایف بی آئی کی ساری تحقیقات کسی پراسیکیوشن کے بغیر سردخانے میں چلی گئیں۔ چناںچہ ان واقعات کے لگ بھگ تیس سال بعد اے سی تھامسن نے اسے اپنی تحقیق کا موضوع بنالیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اتنا کچھ امریکی سرزمین پر ہوا لیکن بیٹو کے سوا کسی کو سزا نہ ہوئی۔
دی فرنٹ اور کے9 کا کوئی بھی اہل کار پکڑا گیا اور نہ ہی اس تنظیم کے خلاف کوئی قانونی ایکشن ہوا؟ اپنی تحقیقات کے دوران تھامسن کو پتا چلا کہ ایک کیس فیڈرل کورٹ میں گیا ضرور تھا، مگر اس کیس میں فرنٹ نے جج کے سامنے یہ موقف اختیار کرلیا تھا کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں اس میں ڈیفنس ڈیپارٹمنٹ اور سی آئی اے کی سرپرستی حاصل ہے۔ اس کے بعد یہ کیس بند ہوگیا۔ اے سی تھامسن کہتے ہیں کہ جب میں متعلقہ عدالت گیا اور آرکائیو سے اس پرانے کیس کی فائلیں حاصل کرنی چاہیں تو پتا چلا کہ کیس کی تمام فائلیں آرکائیو سے غائب ہیں۔
اے سی تھامسن کو یہ بھی پتا چلا کہ فرنٹ امریکا میں باقاعدہ بھاری چندہ اکٹھا کرتا تھا اور مقصد اس کا یہ بتایا جاتا تھا کہ ہم نے ویتنام میں گوریلا جنگ لڑنی ہے۔ اس ضمن میں تھامسن نے فرنٹ کے مالیاتی امور کی تفتیش کرنے والے اس دور کے ریٹائرڈ پولیس سارجنٹ ڈگ زیمسکی سے انٹرویو میں پوچھا:
“کیا فرنٹ کی چندہ مہم کی امریکی قانون میں گنجائش تھی ؟”
تو زیمسکی نے دوٹوک انکار کردیا۔ تھامسن نے پوچھا:
“تو پھر یہ سب کیسے ہوتا رہا؟”
زیمسکی نے جواب دیا:
“بس یہ ہوتا رہا، اور بے روک ٹوک چلتا رہا”
تھامسن نے پوچھا:
“کیا آپ کے خیال میں اسے امریکی حکومت کی پشت پناہی حاصل تھی؟”
زیمسکی نے اعتماد سے بھرپور لہجے میں جواب دیا:
“جی بالکل! وہ ایک کورٹ کیس میں کہہ چکے تھے کہ وہ پینٹاگون اور سی آئی اے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کے خلاف کئی کیسز تیار کیے گئے، مگر ہر کیس اٹارنی آفس پہنچ کر سرد خانے کی نذر ہوجاتا۔”
زیمسکی نے پرسنل ریکارڈ سے ایک مقتول کی بلر تصویر دکھاتے ہوئے بتایا:
“یہ لوگ اتنے سفاک تھے کہ اس مقتول کے سینے پر خنجر سے لکھ دیا تھا، میں ایک غدار تھا، اور غدار کی موت مرا۔”
چناںچہ تھامسن نے اس بات کی تحقیق شروع کردی کہ آخر اس منظم اور سفاک خفیہ تنظیم کا سربراہ کون تھا؟ پتا چلا کہ ویتنامی نیوی کا سابق وائس ایڈمرل ہوانگ کو منہ فرنٹ کا سربراہ تھا۔ فرنٹ میں اکثریت سابق ویتنامی نیول افسران کی ہی تھی، جس کی وجہ یہ تھی کہ ویتنام کی کوسٹ لائن 3260 کلومیٹر پر مشتمل ہونے کے سبب مسلح افواج میں نیوی ہی اس کا سب سے نمایاں عسکری محکمہ ہے۔ جب ہوانگ کو منہ کی شخصیت اور امریکا میں اس کی سرگرمیوں کو کھنگالا گیا تو انکشاف ہوا کہ یہ امریکا ویتنام جنگ کے ویٹرن جیمز کیلی کی سفارش پر پہنچا تھا۔
یہ وہی جیمز کیلی ہے جو رونالڈ ریگن اور بش سینئر کے دورحکومت میں نیشنل سیکیوریٹی کونسل کا سنیئر عہدے دار رہ چکا تھا۔ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ ہوانگ کو منہ نے امریکا میں داخل ہونے کے لیے جو فارم بھرا تھا اس پر اس کام اصل نام ہی درج ہے، مگر شہریت والے خانے میں اس نے خود کو “بے وطن” درج کر ا رکھا تھا۔ آگے چل کر جب اس کی امریکی شہریت کا مرحلہ آیا تو سرکاری دستاویزات سے ثابت ہے کہ شہریت کے لیے اس نے جو کاغذات جمع کرائے تھے اس پر اس نے اپنا نام “ویلیم ناکامورا” درج کر رکھا تھا جو ایک جاپانی نام ہے۔
ان دستاویزات میں اس نے اپنے گھر کا پتا واشنگٹن کا درج کر رکھا ہے مگر جگر تھام کر سنیے کہ یہ پتا پینٹاگون کے ایک تاریخی کردار رچرڈ آرمٹیج کے گھر کا ہے۔ یہ وہی رچرڈ آرمٹیج ہے جس کی جانب مبینہ طور پر یہ دھمکی منسوب ہے کہ اس نے نائن الیون کے فوراً بعد اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی کو پتھر کے دور میں پہنچانے کی دھمکی دی تھی۔ صرف یہی نہیں بلکہ انفارمیشن ایکٹ کے تحت حاصل کردہ دستاویزات سے اے سی تھامسن کے ہاتھ پینٹاگون کا وہ خط بھی لگا ہے جوہوانگ کو منہ کی شہریت کے لیے جمع کرائی گئی فائل کا حصہ ہے اور جس میں پینٹاگون نے سفارش کر رکھی ہے کہ ہوانگ کو منہ کو امریکی شہریت جلدازجلد فراہم کی جائے۔
اے سی تھامسن کو اپنی تحقیقات کے دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ ہیوسٹن ٹیکساس میں قتل ہونے والے ویتنامی صحافی ڈیم فانگ نے قتل سے کچھ عرصہ قبل تھائی لینڈ کا دورہ کیا تھا اور تھائی جنگلات میں فرنٹ کے خفیہ ٹریننگ سینٹر کی لوکیشن معلوم کرلی تھی، جس کا ذکر اس نے اپنے جریدے میں کر رکھا تھا اور یہی اس کے قتل کا سبب بنا تھا۔ چناںچہ اے سی تھامسن مزید کھوج کے لیے نہ صرف تھائی لینڈ گیا بلکہ اس دور کے تھائی آرمی چیف Chavalit Yongchaiyudh کا اس حوالے سے انٹرویو بھی کیا۔ یہ صاحب بعد میں 90 کی دہائی میں تھائی لینڈ کے ڈپٹی پرائم منسٹر، منسٹر فار ڈیفنس اور وزیراعظم بھی رہے ہیں۔
جب تھامسن نے Chavalit Yongchaiyudh سے پوچھا کہ کیا تھائی لینڈ کے جنگلات میں فرنٹ کا کوئی ٹرینگ سینٹر تھا؟ تو انہوں نے صاف اقرار کیا کہ بالکل تھا، اور یہ لوگ لاؤس کے عسکریت پسندوں کے تعاون سے ویتنام میں گوریلا جنگ کی تیاری کر رہے تھے۔ جب پوچھا گیا کہ کیا ان کی تعداد 200 کے قریب تھی؟ تو سابق تھائی آرمی چیف نے کہا، اس سے بہت زیادہ تھی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس میں امریکی حکومت کی بھی کوئی مدد تھی؟ تو انہوں نے کہا، بہت بڑی مدد تھی۔ رچرڈ آرمٹیج بہت سرگرم تھے۔
اور یہ کہ اس کیمپ کو قائم کرنے کے لیے مجھے تھائی وزیراعظم نے ہی حکم دیا تھا۔ اے سی تھامسن نے لاؤس کا دورہ کرکے پرانے وقتوں کے لاؤ گوریلوں کا بھی انٹرویو کر رکھا ہے، جنہوں نے انکشاف کیا کہ تھائی لینڈ کے جنگل سے فرنٹ کے بہت سے گوریلوں نے فرار کی بھی کوشش کی تھی جنہیں ہوانگ کو منہ کے حکم پر قتل کردیا گیا تھا، جن میں سے دس افراد کی قبریں یہیں لاؤس کے جنگلات میں ہی ہیں۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ تھائی لینڈ اور ویتنام کے بیچ لاؤس حائل ہے۔ سو سیکیوریٹی کے پہلو سے یہ ٹریننگ سینٹر تھائی لینڈ میں بنایا گیا تھا، کیوںکہ لاؤس میں شورش کے سبب وہاں ویتنامی افواج کو رسائی حاصل تھی۔
اب آخر میں آجاتا ہے یہ سوال کہ ہوانگ کو منہ اور اس کی گوریلا فورس کا کیا بنا؟ تو اسکا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ 1987ء کے موسم گرما میں ہوانگ کو منہ اپنے 200 گوریلوں کے ہم راہ تھائی لینڈ سے لاؤس کے جنگلات میں داخل ہوا اور دس دن تک سفر کرتا ویتنام کی جانب بڑھتا رہا۔ ویتنام کی سرحد بیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہی رہ گئی تھی کہ ایمبوش لگائے بیٹھی ویتنامی فورسز نے انہیں لاؤس کی حدود میں ہی بھون ڈالا۔ یوں 20 اگست 1987ء کو ہوانگ کو منہ اپنے ساتھیوں سمیت مارا گیا۔
ہوانگ کے بعد بھی یہ تنظیم بہت کم زور حالت میں عسکری تنظیم کے طور پر موجود رہی اور 90 کی دہائی کے آخر تک چھوٹی موٹی وارداتیں بھی کرتی رہی۔ لیکن جب امریکا کے ویتنام کے ساتھ سفارتی تعلقات پہلے قائم اور پھر بہتر ہونے شروع ہوئے تو فرنٹ نے 19 ستمبر 2004 کو اپنا نام بدل کرViet Tân رکھ لیا جوVietnam Reform Revolutionary Party کا ویتنامی مخفف ہے۔ اور اعلان کیا کہ اب وہ ایک عدم تشدد پر یقین رکھنے والی سیاسی جماعت کے طور پر کام کرے گی اور اس کا مقصد پرامن سیاسی سرگرمی کے ذریعے ویتنام کو “لبرل ڈیموکریسی” بنانا ہوگا۔ اقوام متحدہ اور امریکا دونوں نے اس کے حق میں بیانات جاری کرتے ہوئے اسے ایک قانونی سیاسی تنظیم قرار دیا، مگر ویتنام میں یہ اب بھی ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر بین ہے۔
ویتنام کا کہنا ہے کہ ہم اسے اب بھی دہشت گرد تنظیم اس لیے مانتے ہیں کہ امریکا میں اب بھی ہر سال اس کی سالانہ پریڈ ہوتی ہے جس میں اس کے سابق فوجی اہل کار باقاعدہ فوجی وردی میں حصہ لیتے ہیں، پریڈ میں فوجی جیپوں کے ذریعے مارچ ہوتا ہے اور ان فوجیوں کے پاس پریڈ میں مشین گنیں بھی ہوتی ہیں، جب کہ دوسری بات یہ کہ اس کے امریکا سے آنے والے کئی اراکین ویتنام میں مسلح وارداتوں میں پکڑے گئے ہیں۔ جب تک وہ پکڑے نہ جائیں، ان کے اہل کار ہوتے ہیں۔ لیکن جوں ہی کوئی گرفتار ہوجائے تو یہ فوراً اس سے لاتعلقی کا اعلان کردیتے ہیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ حکمت عملی بدل کر ویتنام میں قدم جمانے کے لیے پُرامن سیاسی جماعت کا صرف ڈھونگ رچا رہے ہیں۔
ویتنامی موقف کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ پر امن سیاسی جماعت بننے کے بعد اس کے موجودہ چیئرمین کی سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش اور نائب صدر ڈک چینی کے ساتھ مشترکہ ملاقات کی تصاویر موجود ہیں۔ یہ سہولت کسی اور ملک کی سیاسی جماعت کی قیادت کے لیے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ قابل غور بات یہ ہے کہ یہ تنظیم اب بھی ہر سال امریکا میں باقاعدہ تقریب کی صورت ہوانگ کو منہ کی برسی مناتی ہے۔ 20 اگست 2020 کی تقریب کی انویسٹی گیٹیو جرنلسٹ اے سی تھامسن نے ویڈیو ریکارڈنگ بھی کر رکھی ہے، جس میں فوجی وردی میں ملبوس سیکڑوں سابق ویتنامی فوجی افسران دیکھے جا سکتے ہیں۔
ویتنام سے لے جائے گئے سہولت کاروں کی اس پینتالیس سالہ تاریخ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ممکنہ طور افغان سہولت کار بھی آنے والے وقت میں کس کام آسکتے ہیں۔ اور اگر ایسا ہوا تو افغان مستقبل پر اس کے اثرات کیا مرتب ہوں گے!
The post ان کی کہانی جو ویتنام سے لے جائے گئے appeared first on ایکسپریس اردو.