سب کچھ کتنا سادہ ہے، سیدھا پن پہچان ہے اس شہر کی، کوئی ٹیڑھ نہیں یہاں، سب کچھ سامنے، سب کچھ صاف، یہ میرپورخاص ہے، آم کی مٹھاس اور روئی جیسی نرم برتاؤ والے باسیوں کی بستی، آم اور روئی اس کی پہچان سہی مگر یہ عام سا شہر اپنی سادگی اور سیدھے پن کی وجہ سے خاص ہے، جیسے یہ سیدھی سی سڑک، جو نواب شاہ کو جاتی ریل کی پٹریوں کو کاٹتی ایک چھوٹے سے چوک سے گزر کر سیدھی چلتی ہوئی شہر کی حدود کے ساتھ ختم ہوجاتی ہے۔
اس پر سے ابھی جو ریل گاڑی گزرے گی اسے منزل تک پہنچنے کی کوئی جلدی نہیں۔ وہ کسی پگڈنڈی پر اردگرد کے سرسبز ماحول سے لطف اٹھاتے کسی سست رو مسافر کی طرح دھیرے دھیرے چلے جاتی ہے۔ چوک پر پہنچنے سے ذرا پہلے وہ پکارے گی، ’’پوںںںںںں‘‘، یہاں کوئی پھاٹک نہیں، سو وہ اپنی آمد کی اطلاع دے کر دھیرج سے چھک چھک کرتی، اپنی روانگی کی خبر نیلے آسمان پر کالے دھویں سے لکھتی گزرنا چاہے گی، مگر یہاں اسے رکنا پڑے گا، دور سے دوڑتے ہوئے ریل کی سمت آتے ’’سعید بھائی‘‘ نے ’’روکے ے ے ے ے‘‘ کی آواز لگا کر گارڈ اور ڈرائیور کو رکنے کا اشارہ جو کردیا ہے۔ وہ محکمۂ ٹیلی فون میں چھوٹے موٹے ملازم اور نواب شاہ میں تعینات ہیں۔ کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ گھر سے وقت پر نکلیں۔ کوئی ’’پھنے خاں‘‘ نہیں کہ ان کے لیے چلتی گاڑی رک جائے، بس گارڈ اور ڈرائیور کی مُروت ریت کے پہیوں سے لپٹ جاتی ہے۔
گاڑی سعید بھائی کو لیے خاموشی کو اپنی ’’چھک چھک‘‘ سے بھرتی رینگ گئی۔ میں نے قدم بڑھا کر پٹری پار کی اور ریلوے کالونی المعروف بہ ’’کھڈرو لائن‘‘ میں داخل ہوگیا۔ دائیں ہاتھ پر درختوں کی چھاؤں سے ڈھکا ریلوے اسپتال ہے، جس کی کوئی تین فٹ اونچی پختہ منڈیر اندھیرا اوڑھتے ہی اِس سِرے سے اُس سِرے تک آباد ہوجائے گی۔ یہاں رومانی کام رانیوں کے قصوں، دیومالائی گپوں اور سیاسی بحثوں کی الگ الگ محفلیں جمیں گی۔ گرماگرم بحثیں ہوں گی، مگر ٹمٹماتی روشنی کو سنبھالے اندھیرے میں خوف اور اندیشے کا کوئی سایہ نہیں ابھرے گا، کوئی چنگاری نہیں بھڑکے گی، ایک بھی نہیں۔
اُلٹے ہاتھ پر سُرخ اینٹوں سے بنے ڈبا سے کوارٹروں میں بھی وہی سیدھا پن۔ برابر برابر دو کمرے اور چوکور طشتری سے صحن، جو آسمان، دھوپ اور تاروں سے بھربھر جاتا ہے۔ ان میں سے ایک کوارٹر میں مسز مَل رہتی ہیں۔ بیوگی جھیل کر دو بچیوں کی پرورش کرتے کرتے اندر سے جھلس جانے والی سابق نرس، نہایت سے بھی بہت کالی اور بے حد سے بھی کہیں زیادہ چمک دار رنگت، جیسے سنگ سیاہ سے تراشی کالی ماتا کی مورتی، ہمیشہ سفید ساڑھی لپیٹے، جو ان کی سیاہی کو اور نمایاں کردیتی ہے، پاکستان پر تَبّرا بھیجتی اور مسلمانوں کو مسلمانوں کے منہ پر جی بھر کے بُرا کہتی ہیں۔ ایک دن تو اﷲ کے گھر میں داخل ہوگئیں اور عین صحنِ مسجد میں کھڑے ہوکر مولوی صاحب کو سنانے لگیں۔ مولوی صاحب حجرے سے نکلے اور ڈانٹ ڈپٹ کر مسجد سے باہر کردیا۔ بات ختم۔
ان کی چھوٹی بیٹی وینس ایم بی بی ایس کرتے کرتے خود مریض ہوگئی ہے، اس کے گردے ناکارہ ہوگئے ہیں۔ مسز مَل کی اپیل پر محلے کے مسلمان اپنی اپنی استطاعت کے مطابق چندہ کر رہے ہیں۔ ہر دل دکھی ہے۔
میں پتلی سی سڑک کو جوتوں سے تھپتھپاتا چلا جارہا ہوں۔ گندے نالے پر بنی پُلیا پار کی اور سفید براق چھوٹی سی مسجد کے سامنے سے گزرا، جس کے پیش امام بریلوی ہیں اور انتظامات ایک دیوبندی کے ہاتھ میں۔ مسجد میں لاؤڈ اسپیکر لگنے والا ہے، جس پر دو بچے نعت پڑھیں گے:
اﷲ اﷲ اﷲ ہو، لاالہ اﷲ ہو
آمنہ بی بی کے گلشن میں آئی ہے تازہ بہار
ان میں سے ایک صدیقی سُنّی ہے دوسرا زیدی شیعہ۔
داہنے طرف قبرستان کی دیوار شروع ہوگئی۔ زرد ہوتی دھوپ سلام پھیرتے عصر کے نمازیوں کے چہرے چوم رہی ہے۔ اب اس دیوار کے سائے میں گلی کے نکڑ کے سامنے ایک چھوٹا سا غیراعلانیہ مناظرہ ہوگا، جماعتِ اسلامی کے بٹ صاحب اور ان کے پڑوسی راسخ العقیدہ شفیق صاحب کے درمیان۔ زوردار تکرار ہوگی، کتابیں آئیں گی، حوالے دیے جائیں گے۔ نتیجہ۔۔۔۔بٹ صاحب وہی وہابی کے وہابی، شفیق صاحب وہی بریلوی کے بریلوی اور مجمع کچھ سمجھے بغیر اپنے اپنے گھر روانہ۔ اردگرد جمع لوگوں میں سے کوئی اس بحث پر مشتعل ہونا تو دور کی بات، اسے سنجیدگی سے لیتا بھی نہیں۔
جس گلی کے نکڑ پر مناظرہ سجا وہ ایک نالی پر ختم ہوتی ہے، سامنے نیم کی ٹہنیوں سے چھت ملائے کوارٹر میں بسے خاندان کے سربراہ کے کمرے کی دیواروں پر دو غلاف سے ڈھکی دو تصویریں آویزاں ہیں۔ یہ غلاف عشرۂ محرم میں اتریں گے تو ان میں سے ایک تصویر میں حضرت علی ؓ اور حضرت حسنؓ وحسینؓ شیر پر ہاتھ رکھے نظر آئیں گے اور دوسری میں واقعہ کربلا کا منظر۔ ان شبیہوں کے سائے تلے ہر محرم کی آٹھ کو ماتم کے ردھم میں نوحے گونجتے ہیں۔ اسی کمرے میں کونڈے بھی ہوتے ہیں، پھر یہاں سے گزر کر اس گھر کا کوئی لڑکا یا لڑکی پلیٹ یا کپڑے سے ڈھکی کونڈے کی ٹکیاں لیے باہر نکلے گا۔ یہ خصوصی طور پر بنائی گئی ٹکیاں ہیں۔
ان کی دو خصوصیات ہیں، یہ نرم ہیں اور ان پر نیاز نہیں دی گئی، جب ہی تو گھر کی چاردیواری سے باہر جارہی ہیں، کچھ فاصلے پر اس کوارٹر کی طرف جہاں رہتی بستی کٹر وہابی خاتونِ خانہ منہہ میں دانت نہ ہونے کی وجہ سے سخت ٹکیاں نہیں کھاسکتیں، اور کونڈوں میں جاتی بھی نہیں۔ ہاں مگر گھر میں میلاد بھی ہوچکا ہے، اور بارہ ربیع الاول کو اس کوارٹر کی چھت اور دیواروں کی منڈیروں پر مٹی کے دیوں کی روشنی بہتی ہے۔ اس گھرانے میں مذہب اور عقیدہ الگ ہے، اور مذہبی ثقافت جُدا۔ اس گھر میں پیتل کا ایک منفرد ساخت کا گلاس ہے، جس کی گولائی کا قطر عین وہی ہے جو کونڈے کی ٹکیا کے لیے درکار ہوتا ہے۔ تو اکیس رجب کی رات یہ گلاس شبیہوں اور مجلس والے گھر چلا جاتا ہے، جہاں اس کے کنارے کے کٹاؤ سے ٹکیوں کی صورت گری ہوتی ہے۔
پیتل کے اس گلاس کی طرح وہ نعت پڑھنے والا بچہ بھی اسی ’’صدیقی‘‘ گھرانے کا ہے۔ اسے بخار ہوگیا ہے۔ اب وہ اپنی امی سے کہے گا ’’بابوجی کو بلائیے۔‘‘ پھر شبیہوں، مجلس اور کونڈوں والے کمرے سے اٹھ کر بابوجی انگلیوں کی پوروں پر تسبیح کے دانے گھماتے آئیں گے اور بچے کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے عربی ’’نادِعلی‘‘ فارسی لہجے میں پڑھیں گے۔ راز کی بات یہ ہے کہ بچے کو نادعلی سے کچھ لینا دینا نہیں، اسے تو بابوجی کے بوڑھے ہوتے، سختی اور نرمی کا عجیب سا امتزاج لیے ہاتھوں کو بالوں میں پاکر سکون ملتا ہے، نیند آجاتی ہے۔
سُرخ اینٹوں والے اور پیلاہٹ اور سفیدی سے رنگے ان کوارٹروں میں بسے ہر کنبے کے ریت رواج اور اقدار ایک دوسرے سے کم یا زیادہ فرق ضرور رکھتے ہیں۔ سڑک کے ساتھ والے اُس کوارٹر میں مقیم خاندان کی لڑکیاں برقع کے بغیر گھر سے باہر قدم نہیں رکھتیں اور یہیں ایسے گھرانے بھی آباد ہیں جن کی بیٹیاں دوپٹہ بس گردن میں ڈالے گھومتی ہیں۔ پنج وقتہ نمازی بھی ہیں اور ’’استاد‘‘ باکسر جیسے پختہ عزم والے بھی جو عیدین کی نمازوں میں بھی نظر نہیں آتے۔ وہ بھی جن کے دلوں میں بھٹو زندہ ہے اور وہ بھی جن کی زبانوں پر ’’مردِمومن مردِ حق‘‘ کا نعرہ۔ یہ فرشتے تو کیا بہت اچھے لوگ بھی نہیں۔ رشوت خوری سے نظربازی اور غیبت سے قماربازی تک، ہر برائی موجود۔ مگر یہ اختلاف کے ساتھ رہنا جانتے ہیں، خود کو فرشتہ دوسرے کو شیطان نہیں سمجھتے۔ سو سکون سے رہے جارہے ہیں۔
میں سڑک پر چلا جارہا ہوں۔۔۔۔۔یہ کیا ہوا۔۔۔۔میرے اردگرد سب کچھ بدل گیا۔ میں وہاں نہیں ہوں یا وہ محلہ نہیں ہے، کہیں نہیں ہے۔
مجھے کوئی بدلاؤ نہیں چاہیے، کوئی انقلاب نہیں درکار، تم شوق سے ملک کو جنت یا جاپان بنانے کے نعرے لگاتے رہو۔ اسے سیکولر یوٹوپیا یا اسلامی بہشت بنانے کے جتن کرتے رہو۔ مگر مجھے میرا وہ پُرانا کھویا ہوا محلہ دے دو، کہیں سے لادو۔