سیدنا عمر فاروقؓ کا سلسلہ نسب آٹھویں پشت میں جاکر نبی کریم ﷺ سے جاملتا ہے۔ آپؓ کی کنیت ابوحفص اور لقب فاروق ہے جو دربار رسالت مآب ﷺ سے عطا ہوا۔
آپؓ کو رحمت عالم ﷺ نے اپنے رب سے دعا کے ذریعے مانگا تھا۔ اس لیے کہا جا تا ہے کہ تمام صحابہ کرامؓ مرید رسول ﷺ تھے لیکن فاروق اعظم ؓ مراد رسول ﷺ تھے۔ نبی رحمت ﷺ نے دعا کی تھی کہ یااﷲ! عمر بن ہشام یا عمر بن خطاب سے اسلام کو قوت عطا فرما۔ اس دعا کی قبولیت آپؓ کے حق میں ظاہر ہوئی۔
سن شعور میں داخل ہوئے تو روایتی طور پر اونٹ چرانے کی خدمت سپرد کی گئی جو عرب میں قومی شعار سمجھا جا تا تھا۔ بعد ازاں جوانی میں داخل ہوئے تو مروجہ علوم و فنون کی تحصیل کی جن میں نسب دانی، سپہ گری، پہلوانی اور مقرری تھی۔ نسب دانی کا فن آپؓ کے خاندان میں موروثی چلا آرہا تھا اور آپؓ کے والد اور دادا بڑے انساب دان تھے۔ آپؓ نے انساب کا علم اپنے والد سے حاصل کیا۔ آپؓ نے فن پہلوان اور کُشتی میں بھی کمال حاصل کیا۔
یہاں تک کہ عکاظ کے میلوں میں جو سال بہ سال اس غرض سے منعقد کیا جا تا تھا تاکہ عرب کے تمام اہل فن جمع ہوکر اپنے کمالات کے جوہر دکھائیں اور حضرت عمر ؓ عکاظ کے دنگل میں کُشتی لڑا کر تے تھے۔ شہہ سواری میں کمال رکھتے تھے اور گھوڑے پر اچھل کر سوار ہو تے تھے اور اس طرح جم کر بیٹھتے تھے کہ جلدِ بدن ہوجاتے تھے۔ اسلام لانے سے قبل قریش نے آپؓ کو سفارت کا منصب دے رکھا تھا اور یہ منصب صرف اس شخص کو مل سکتا تھا جو قوت تقریر اور معاملہ فہمی میں کمال رکھتا تھا۔
اسی طرح حضرت عمر ؓ شاعری کا نہایت عمدہ ذوق رکھتے تھے۔ البتہ قبول اسلام کے بعد وہ مذہبی اشغال میں ایسے محو ہوگئے تھے اس قسم کے چرچے بھی پسند نہیں کر تے۔ اس زمانے میں آپؓ نے پڑھنا لکھنا بھی سیکھ لیا تھا اور یہ وہ خصوصیت تھی جو اس دور میں بہت کم لوگوں کو حاصل تھی۔ ان علوم و فنون سے فارغ ہوکر وہ فکر معاش میں مصروف ہوئے۔
عرب میں ذریعۂ معاش زیادہ تر تجارت ہی تھا۔ اس لیے آپؓ نے بھی یہی شغل اختیار کیا اور اس غرض سے دور دراز ملکوں کے سفر کیے اور لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور تجارت آپؓ کی ترقی کا سبب بنا۔ خودداری، بلند حوصلگی، تجربہ کاری اور معاملہ فہمی یہ تمام اوصاف جو آپؓ میں اسلام لانے سے قبل پیدا ہوگئے تھے، سب ان ہی خوبیوں کی بہ دولت تھے۔ مختصر یہ کہ عکاظ کے معرکوں اور تجارت کے تجربوں نے آپ کو تمام عرب میں روشناس کردیا اور لوگوں پر آپؓ کی قابلیت کے جوہر کھلتے گئے۔ یہاں تک کہ قریش نے آپؓ کو سفارت کے منصب پر فائز کردیا۔ قبائل میں جب کوئی پُرخطر معاملہ پیش آتا تو وہ آپؓ ہی کو سفیر بناکر بھیجتے۔
حضر ت عمر ؓ کے گھرانے میں آپ کی بہن فاطمہ ؓ اور بہنوئی سعید ؓ اسلام لاچکے تھے اور خاندان کے معزز شخص نعیم بن عبد اﷲ ؓ نے بھی اسلام قبول کرلیا تھا اور اسی طرح سعید ؓ کے والد زید ؓ بھی مشرف بہ اسلام ہو چکے تھے۔ عام سرداران قریش کی طرح آپؓ بھی اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کی عداوت کا شکار تھے اور قبیلے کے جو لوگ اسلام لاچکے تھے، آپؓ ان کے سخت دشمن بن گئے۔ اسلام دشمنی کا یہ عالم تھا کہ ایک کنیز جو اسلام کے دامن سے وابستہ ہوچکی تھی اس کو بے تحاشا مارتے اور مارتے مارتے تھک جاتے تو کہتے ذرا دم لے لوں تو پھر ماروں گا۔
اس کے علاوہ بھی جس پر زور چلتا زدوکوب کرنے سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ لیکن اسلام کا نشہ ایسا تھا کہ جس پر چڑھ جا تا اتر تا نہ تھا۔ ان تمام سختیوں کے باوجود ایک شخص کو بھی اسلام سے برگشتہ نہ کرسکے تو آخر مجبور ہو کر فیصلہ کیا کہ (نعوذ باﷲ) خود پیغمبر ﷺ کا قصہ پاک کر دیں، تلوار کمر سے لگائے سیدھے رسول اﷲ ﷺ کی طرف چلے۔ راہ میں اتفاقاً نعیم بن عبد اﷲ ؓ ملے ۔ ان کے تیور دیکھ کر پوچھا: خیر تو ہے؟ بولے: محمد ﷺ کا فیصلہ کرنے جا رہا ہوں۔
(نعوذ باﷲ) انہوں نے کہا: پہلے اپنے گھر کی خبر لو تمہاری بہن اور بہنوئی اسلام لا چکے ہیں۔ آپؓ فوراً چلے اور بہن کے ہاں پہنچے۔ وہ قرآن پڑھ رہی تھیں آپ کی آہٹ پاکر خاموش ہوگئیں اور قرآن کے اجزاء چھپا لیے۔ آپؓ نے بہن سے پوچھا: وہ کیا آواز تھی؟ بہن نے کہا: کچھ نہیں۔ بولے: نہیں میں سن چکا ہوں کہ تم دونوں مرتد ہوگئے ہو، یہ کہہ کر بہنوئی سے دست و گریباں ہوگئے اور جب بہن بچانے آئیں تو ان کی بھی خبر لی یہاں تک کہ وہ لہولہان ہوگئیں، اسی حالت میں ان کی زبان سے نکلا: عمر ؓ جو بن آئے کرو لیکن اسلام اب دل سے نہیں نکل سکتا۔
ان الفاظ نے سیدنا عمر ؓ کے دل پر ایک خاص اثر کیا، بہن کی طرف محبت کی نگاہ سے دیکھا، ان کے بدن سے خون رواں تھا۔ یہ دیکھ کر اور بھی رقّت ہوئی تو فرمایا: تم لوگ جو پڑھ رہے تھے مجھ کو بھی سناؤ۔ فاطمہ ؓ نے قرآن کے اجزاء سامنے لا کر رکھ دیے۔ اٹھا کر دیکھا تو یہ سورۃ طہٰ تھی۔ ہر لفظ پر ان کا دل مرعوب ہوتا تھا، یہاں تک کہ جب اس آیت پر پہنچے: ’’اٰمِنُوا بِااﷲِ وَرَسُولہٖ‘‘ تو بے اختیار پکار اٹھے: ’’اَشْھَدُ اَن لَااِلہ اِلَّااﷲُ وَاَشھَدُاَنَّ مُحُمدَّرَسُوْل اﷲ۔‘‘
یہ وہ دور تھا جب رسول اکرم ﷺ دارارقم میں جو کوہ صفا کے دامن میں واقع تھا، پناہ گزیں تھے۔ سیّدنا عمر ؓ آستانہ مبارک پر پہنچے اور دستک دی تو صحابہ ؓ کو تردد ہوا۔ سیّدنا حمزہ ؓ نے کہا: آنے دو مخلصانہ آیا ہے تو بہتر ورنہ اسی کی تلوار سے سر قلم کردیا جائے گا۔ حضرت عمر ؓ اندر داخل ہوئے تو رحمت عالم ﷺ خود آگے بڑھے اور ان کا دامن پکڑ کر فرمایا: کیوں عمر! کس ارادہ سے آیا ہے۔
نبوت کی بارعب آواز نے ان کو کپکپا دیا۔ نہایت خضوع کے ساتھ عرض کیا: ایمان لانے کے لیے۔ نبی رحمت ﷺ بے ساختہ اﷲ اکبر پکار اٹھے اور ساتھ ہی تمام صحابہ ؓ نے مل کر اس زور سے اﷲ اکبر بلند کیا کہ مکہ کی تمام پہاڑیاں گونج اٹھیں۔ سیّدنا عمر ؓ کے اسلام کے ساتھ دفعتاً یہ حالت بدل گئی اور انہوں نے اعلانیہ اپنا اسلام ظاہر کیا، کافروں نے ابتداً ان پر بڑی شدت کی لیکن وہ ثابت قدمی سے مقابلہ کر تے رہے۔ یہاں تک کہ آپؓ نے رحمۃ اللعالمین ﷺ کی اقتدا میں بیت اﷲ میں نماز ادا کی اور کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ وہ کوئی غیرمناسب حرکت کر سکے۔
حضرت عمر ؓ کے قبول اسلام کا واقعہ نبوت کے چھٹے سال واقع ہوا۔ اس طرح اسلام کو تقویت حاصل ہوئی اور دعوت توحید و رسالت رفتہ رفتہ پھیلنے لگی۔ پہلے پہل تو اہل قریش آنحضرتؐ کے دعویٰ نبوت کو بے پروائی کی نگاہ سے دیکھتے رہے لیکن جیسے جیسے آوازۂ حق دور و نزدیک پھیلنے لگا تو کفار کی سختیوں میں بھی انتہائی شدت آگئی اور جس کافر کو جس مسلمان پر قابو ملا اسے اس طرح ستایا گیا کہ اگر اسلام کے جوش اور وارفتگی کا اثر نہ ہوتا تو شاید ایک شخص بھی اسلام پر ثابت قدم نہ رہ سکتا۔ یہ حالت پانچ چھے برس تک رہی۔ اسی اثناء میں مدینہ منورہ کے ایک معزز گروہ نے اسلام قبول کر لیا تھا۔
اس لیے رحمت عالم ﷺ نے حکم دیا کہ جن لوگوں کو کفار کے ستم سے نجات نہیں مل سکتی وہ مدینہ ہجرت کر جائیں سب سے پہلے ابوسلمہ عبداﷲ بن اشہلؓ پھر سیدنا بلالؓ اور عمار یاسرؓ نے ہجرت کی۔ ان کے بعد سیدنا عمر ؓ نے بیس آدمیوں کے ہم راہ مدینہ کا قصد کیا۔ سیدنا عمر ؓ نے اپنی ہجرت کو پوشیدہ نہ رکھا بل کہ فرمایا: جسے اپنے بچے یتیم کرانے ہوں یا سہاگنوں کو بیوہ کرانا ہو وہ میرا راہ روک کر دیکھ لے۔ آپؓ نے مدینہ سے باہر قبا میں قیام فرمایا، چوں کہ اہل اسلام یہیں پڑاؤ ڈال رہے تھے آپؓ کے بعد اکثر صحابہؓ نے ہجرت کی، یہاں تک خود جناب رسالت مآب ﷺ نے مدینہ ہجرت فرمائی اور قبا میں تشریف لائے۔
یہاں آکر آپ ﷺ نے مہاجرین کے رہنے سہنے کا انتظام فرما دیا اور مہاجرین و انصار کے درمیان اسلام کی بنیاد پر مواخات قائم فرمائی اور انسانی تاریخ کی ایسی عظیم برادری تشکیل پائی جو مختلف النسل و قبائل افراد کے مابین مثال بن گئی کہ انصار مدینہ نے اپنے مکہ سے آئے ہوئے مہاجر بھائیوں کے درمیان اپنی ہر شے مال و متاع برابر تقسیم کرلیے یہاں تک کہ اگر کسی کی دو بیویاں تھیں تو اس نے ایک کو محض اس لیے طلاق دے دی کہ مہاجر بھائی اس سے شادی کرکے اپنا گھر آباد کرے۔
سیدنا فاروق اعظم ؓ کی ساری زندگی، جہاد اور حق و باطل میں فرق و امتیاز سے عبارت رہی ہے، زندگی میں بھی ہر قدم پر رسول اکرم ﷺ کے ساتھ رہے اور لحد میں بھی آپ ﷺ کے رفیق بننے کا شرف اور اعزاز حاصل ہے۔
The post سیرت سیّدنا عمر فاروق اعظم ؓ appeared first on ایکسپریس اردو.