کسی بھی قوم کی ترقی میں نوجوان نسل کا کردار ہمیشہ کلیدی رہا ہے۔ نوجوان ملک و ملت کا مستقبل اور قوم کے معمار ہوتے ہیں۔
آج کا نوجوان ہی کل کا لیڈر ہے۔ وہ اقوام جہاں نسلِ نو میں کچھ نیا سیکھنے اور کرنے کی تڑپ ہوتی ہے، ترقی کی راہ پر گامزن نظر آتی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں اپنی شعوری سمجھ اور محنت سے اپنا نام اور مقام پیدا کرنے والی کامیاب شخصیات نے اپنی اوائل عمری سے ہی کمالات کے جوہر دکھانا شروع کر دیے تھے۔
کچھ بننے کی لگن اور دنیا کو کچھ نیا کر دکھانے کی بے قراری اپنے اندر رکھتے ہوئے وہ خطرات سے گھبرانے کے بجائے خطرات مول لے کر آگے بڑھنے پر یقین رکھتے تھے اور ان کے اسی جوشِ جنوں اور جہدِ مسلسل نے قوموں کی تاریخ بدل ڈالی۔
تھریسا لارسن کے نزدیک ’’یہ چیلینجز ہی ہوتے ہیں جو آگے بڑھنے کے مواقع پیدا کرتے ہیں۔‘‘ جو نوجوان نامساعد حالات کے باوجود ان مواقع کو اپنے موافق کرنے کا فن جانتے ہیں وہی تاریخ میں اپنا نام لکھواتے ہیں۔ مگر اب سوال یہ ہے کہ اس سب کی آگہی رکھنے کے باوجود ہمارا آج کا نوجوان ان چیلینجز سے خوف زدہ کیوں نظر آتا ہے؟
کتنی عجیب سی بات ہے کہ ہماری نوجوان نسل کو آئے دن نت نئے چیلینجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر المیہ یہ ہے کہ یہ چیلینجز ان کی شخصیت سازی کرنے کے بجائے اوائل جوانی میں ہی نہ صرف ان کی شخصیت کو مسخ کرنے کے ذمہ دار بن جاتے ہیں بل کہ ان کے کردار پر بھی بری طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔
ان چیلینجز میں غربت، اقتصادی عدم مساوات، سیاسی عدم استحکام، سیاسی وابستگی اور دہشت گردی سرِفہرست ہیں۔ اس کے علاوہ سماجی، اقتصادی اور تعلیم میں طبقاتی امتیازات، علاقائی پسماندگی اور مستقبل سے متعلق فیصلوں میں خاندان بھر کا دباؤ نوجوانوں کے آگے بڑھنے کے راستے مسدود کر دیتی ہے۔
اس سب کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہماری نوجوان نسل ان چیلینجز سے متاثر ہو کر اپنی زندگی سے متعلق خود کوئی سے کوئی بھی فیصلہ کرنے سے گھبراتی ہے، جب کہ یہ چیلینجز ان کے لیے مثبت ہو سکتے ہیں اور ان چیلنجز میں ان کی ذاتی ترقی کے واضح اور روشن امکانات موجود ہوتے ہیں۔
یہ نوجوان ہی تھے جنہوں نے اس مملکتِ خدادا کے حصول کی جدوجہد میں قائد اعظم اور ان کے رفقاء کا شانہ بشانہ ساتھ دیا۔ قائد اعظم کو نوجوان نسل سے بہت امیدیں وابستہ تھیں 1937ء کے کلکتہ کے اجلاس میں قائداعظم نے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ’’نئی نسل کے نوجوانو! آپ میں سے اکثر ترقی کی منازل طے کرکے اقبال اور جناح بنیں گے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ قوم کا مستقبل آپ لوگوں کے ہاتھوں میں مضبوط رہے گا۔‘‘ ہمارے ان عظیم راہ نماؤں کا اس وقت کی نوجوان نسل پر اعتماد اور یقین ہی پاکستان کے حصول میں کام یابی کی ضمانت بنا، مگر آج ہم یہ یقین اور اعتماد اپنی نوجوان نسل کو دینے میں ناکام نظر آتے ہیں۔
پاکستان اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ نوجوان آبادی والے ممالک کی فہرست میں شامل ہے اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ ملک میں اس وقت نوجوانوں کی تعداد قومی تاریخ کے ریکارڈ میں سب سے زیادہ ہے۔ 64 فی صد پاکستانی 30 سال سے کم عمر ہیں اور 29 فی صد کی عمریں 15 سے لے کر 29 سال ہیں، مگر منصوبہ بندی کے فقدان کے باعث نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد خود پاکستان کے لیے ایک چیلینج کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ واضح رہے کہ بنیادی سہولیات سے محروم پاکستانی نوجوانوں میں شرح خواندگی تقریباً 30 فی صد ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان ان ممالک کی فہرست میں بھی شامل ہے جہاں تعلیمی بجٹ بہت کم مختص کیا جاتا ہے۔
ہمارے نوجوان ہی دنیا کے سامنے پاکستان کی شناخت ہیں اور پاکستان کی تعمیر و ترقی میں ان نوجوانوں کو ہی سب سے اہم کردار ادا کرنا ہے۔ خدانخواستہ ایسا نہیں ہے کہ ہماری نوجوان نسل کے پاس نئے اور زرخیز خیالات کی کمی ہو لیکن سوچ اور عمل میں جو دقّت حائل ہے اس پر ماہرین اور ذمہ داران کو کام کرنے کی ضرورت ہے۔ درحقیقت نوجوانی کا دور وہ دور ہوتا ہے جب انسان کے ارادے، جذبے اور توانائی اپنے عروج پر ہوتے ہیں۔ اسی جذبے کے ساتھ جنگیں لڑی جاتی ہیں اور جیتی جاتی ہیں۔ آج کل کی جنگیں میدانوں میں نہیں لڑی جاتیں بلکہ صرف ایک کلک کی طاقت سے جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے رہ کر کام یابی حاصل کی جاتی ہے۔
مگر صد افسوس کہ ہماری نوجوان نسل کا ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنی زندگی کے اس اہم ترین دور میں مناسب اور بروقت راہ نمائی اور توجہ سے محروم رہتے ہیں۔ اسکول، کالجز اور یونیورسٹی کی سطح پر ان کی اس انداز میں حوصلہ افزائی نہیں ہو پاتی جس کی بنیاد پر وہ اپنی سوچوں کو عملی جامہ پہنا سکیں۔ ترقی کرنے کا خواب دیکھنا مزاج بن جاتا ہے مگر اس پر عمل کرنا دیوانے کا خواب۔
اپنے اردگرد جب ان نوجوانوں کو وہ راہ نما نظر نہیں آتے اور وہ سپورٹ نہیں ملتی جس کی ان کو توقع اور ضرورت ہوتی ہے تو ان کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے۔ وہ خود سے کوئی بھی چیلینج لینے سے گھبراتے ہیں اور سماجی اور خاندانی دباؤ کو ذہن میں رکھتے ہوئے پھر ایک روبوٹ کی طرح مہیا کیے گئے پلیٹ فارم پر اپنی سروس دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ یہ اسٹیج پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے سودمند نہیں ہے اور اس طرح نوجوانوں کی صلاحیتوں کا ضیاع ملک کی معیشت کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے جوان اپنے ارادوں میں بوڑھے ہوتے کیوں دکھائی دے رہے ہیں؟ پرعزم نوجوان مایوسی کا شکار کیوں ہو رہے ہیں؟ ان کا اعتماد متزلزل کیوں دکھائی دیتا ہے؟ ان سب باتوں کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ نوجوان نسل کو اپنے اطراف ہمت بندھانے والوں سے زیادہ تعداد ہمت توڑنے والوں کی نظر آتی ہے۔
مختلف وجوہات کی بنا پر اپنی زندگیوں میں، مختلف مواقع پر نظرانداز ہونے والی مایوس نوجوان نسل ہی اب اس ملک کی قیادت سنبھال رہی ہے، جن کی بنیادوں میں مایوسی ہے اور جو بے دلی کے ساتھ نہ صرف اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں بلکہ معاشی سرگرمیوں میں بھی حصہ لے رہے ہیں۔ ہمیں ان نوجوانوں پر کام کرنے کی سخت ضرورت ہے، کیوں کہ یہ مایوس اذہان بہت جلدی دوسرے ناپختہ اذہان کو بھی متاثر کر جاتے ہیں۔ جن کے ساتھ زندگی میں کچھ اچھا نہیں ہوا وہ دوسروں کو بھی کچھ بھی اچھا نہ ہونے کا عندیہ دیتے ہوئے ان کے اندر بھی مایوسی کے بیج بو دیتے ہیں۔ نتیجتاً “کچھ بھی کر لو کیا حاصل ہونا ہے” والی سوچ پنپنا شروع ہو جاتی ہے۔ اس سوچ کو بدلنے کے لیے ہم سب کو اپنے اپنے حصے کا کام کرنے کی ضرورت ہے۔
’’یہ تم کیسے کر سکتے ہو؟‘‘ والی سوچ کو ’’یہ تم کر سکتے ہو‘‘ میں تبدیل کرنے والے اساتذہ اور راہ نماؤں کی ضرورت ہے۔ اعتماد شکن جملوں کی تکرار والے ماحول میں اعتماد اور یقین دلانے والے لوگوں کی ضرورت ہے۔ ’’مشکل کچھ نہیں‘‘ اور ’’تم یہ سب کر سکتے ہو‘‘ جیسی مثبت سوچ دینے کی ضرورت ہے۔
ان نوجوانوں کے اندر پننپتی ’’خود کو منوانے کی سوچ اور جذبے‘‘ کو زندہ رکھنا نہایت ضروری ہے۔ ملک میں سیاسی اور سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے نوجوانوں کی ہر سطح پر حوصلہ افزائی کی اشد ضرورت ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے یہ لازمی ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو ہر سطح پر ان کے مستقبل کے معاملات میں مدد دینے اور راہ نمائی فراہم کرنے کے لیے بہترین مشاورتی ٹیمیں اور ادارے میسر ہوں جو مستقبل، تعلیم اور روزگار سے متعلق ان کے رجحانات اور صلاحیتوں کا اندازہ لگا کر انہیں درست سمت بتا کر ان کی رہنمائی کر سکیں۔
آج کے نوجوان کو مختلف محاذوں پر ایک ساتھ کئی چیلینجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ، پہلے کے مقابلے میں آج کے نوجوان کے لیے آگے بڑھنے کے بے تحاشہ مواقع موجود تو ہیں مگر ساتھ ہی مقابلے کی فضا بھی سخت ہوگئی ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو اللّہ نے زندگی کے ہر میدان میں مقابلہ کرنے کی خداداد صلاحیتوں سے نوازا ہوا ہے۔ ان کے عزائم بلند ہیں اور پاکستان سے محبّت ان کی طاقت ہے۔ لیکن اگر ان کو صحیح اور بروقت سمت نہ دکھائی جائے تو ان نوجوانوں کے حوصلے پست ہوجائیں گے۔ نوجوان نسل میں موجود حب الوطنی کے جذبے سمیت کچھ کر گزرنے اور چیلینجز کو قبول کرنے کے جذبے کو جوان رکھنا اہم ہے اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کی قدر کرنا ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر سال پاکستانی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اعلیٰ تعلیم اور روزگار کے نئے مواقع تلاش کرنے بیرون ممالک رہائش اختیار کر لیتی ہے۔ پاکستان کے معاشی سروے کے مطابق دنیا کے 50 مختلف ممالک میں ایک کروڑ 14 لاکھ سے زائد پاکستانی روزگار کی غرض سے مقیم ہیں جن میں کثیر تعداد نوجوانوں کی ہے۔ بیرون ملک روزگار کا حصول ہمارے نوجوانوں کی اولین ترجیحات میں شامل ہو چکا ہے۔ اس طرح پڑھے لکھے اور ہنرمند افراد ملکی معیشت کی ترسیلاتِ زر میں اضافہ کرنے کا باعث تو بن رہے ہیں مگر یہ بھی سوچنا لازمی ہے کہ ہمارے نوجوان زرخیز اذہان سے اگر ترقی یافتہ ممالک مستفید ہو سکتے ہیں تو ہم ان اذہان کی صلاحیتوں سے کب اور کس طرح فائدہ اٹھائیں گے؟
حکومتی سطح پر نوجوانوں سے متعلق مؤثر حکمت عملی اور منصوبہ بندی کا فقدان نوجوانوں میں آہستہ آہستہ مایوسی بڑھا رہا ہے۔ سائبر ٹیکنالوجی کی فضا میں سانس لینے کے باوجود صحیح معلومات کی عدم دستیابی کی بنا پر ہمارا آج کا نوجوان درست سمت کا تعین نہیں کر پا رہا ہے۔ رہی سہی کسر سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوانوں میں پھیلائے جانے والے ذہنی دباؤ اور ففتھ جنریشن وار نے پوری کردی ہے۔ خودنمائی، فیشن اور فضول مشاغل میں وقت کا ضیاع نوجوان دماغوں کو بری طرح زنگ لگانے کا باعث بن رہا ہے۔
نوجوانوں کو ان کے مقاصد اور اہداف کا تعین کرنے کے قابل بنانے کے لیے پبلک اور پرائیویٹ سیکٹرز کو آپس میں ایک مثبت ربط قائم کرنا ہوگا اور ایک مضبوط تعلیمی نظام تشکیل دینا ہوگا تاکہ نوجوان ملکی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں سے مؤثر طریقے سے نبرد آزما ہو سکیں۔ ضرورت اب صرف اس بات کی ہے کہ ہمارے نوجوانوں کے سامنے ایک واضح خاکہ اور منصوبہ بندی ہو جس پر عمل پیرا ہوکر یہ نوجوان اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں اپنا مثبت اور فعال کردار ادا کر سکیں۔
اس کے لیے حکومتِ وقت، ماہرینِ تعلیم، والدین، اور خود نوجوانوں کو مل کر سنجیدگی سے کام کرنا ہے۔ نوجوان نسل کو اس وقت ایسے فعال پلیٹ فارم کی بھی ضرورت ہے جو نوجوانوں کو ان کی آئینی شناخت کے ساتھ مکمل سماجی تحفظ بھی فراہم کرے اور جہاں ان کو تعلیم کے ساتھ صحت مند تفریح اور باوقار روزگار کے سود مند مواقع مہیا ہو سکیں۔ یہ کام مکمل سنجیدگی کے ساتھ مؤثر اور نوجوان دوست قانون سازی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
اس کے علاوہ ملکی فیصلوں میں نوجوانوں کو نظرانداز کرنا کسی طور بھی مناسب نہیں۔ کل کو اس پاک سر زمین کی باگ ڈور انہوں نے ہی سنبھالنا ہے۔ نوجوانوں کو درپیش مسائل کو نوجوانوں سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے لہٰذا انہیں ملک کی پالیسی سازی اور مستقبل سے متعلق فیصلے کرنے کے عمل میں جمہوری انداز میں شامل کیا جانا چاہیے۔
نوجوانوں اور طلباء کا قومی ترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے اور مستقبل کے چیلینجوں سے نمٹنے کی تیاری کے لیے ضروری ہے کہ وہ جدید دنیا اور نئے سماجی، سیاسی اور معاشی رجحانات کو سمجھنے اور تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے تعلیمی میدان میں زیادہ سے زیادہ آگے بڑھیں، وقت کی قدر کریں اور اُن کی زندگی کا کوئی لمحہ بے مقصد نہ گزرے۔
سی ایس لوئس نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’تم واپس نہیں جاسکتے کہ ابتدا کو بدل دو لیکن تم جہاں ہو وہاں سے شروع کرکے اختتام کو تبدیل کر سکتے ہو۔‘‘ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری نوجوان نسل کو وہ پلیٹ فارمز میسر ہوں جہاں وہ بلاجھجک، پُراعتماد انداز میں اپنی محنت، لگن اور بھرپور توجہ کے ساتھ چیلینجز سے گھبرانے کی بجائے چیلینجز پر کام کر سکیں۔
The post ’’تم کر سکتے ہو‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.