تیری آواز مکے مدینے۔۔۔!
خانہ پُری
ر۔ ط۔ م
23 جون 2021ء کو ’سندھ اسمبلی‘ میں تحریک انصاف کے رکن فردوس شمیم نقوی سیاہ شیروانی اور سرخ رنگ کی روایتی ترکی ٹوپی پہن کر جلوہ افروز ہوئے، تو ان کی جھپ ہی کچھ ایسی نرالی تھی کہ اسمبلی کے اندر اور باہر ان کے مخالفین بھی داد دینے پر مجبور ہوگئے۔۔۔
اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی نے بھی ان کی تحسین کی اور کہا ’ماشااللہ آج آپ بڑے زبردست اور خوب صورت لگ رہے ہیں‘ جس پر فردوس شمیم نقوی نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ’یہ لباس محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی اور سرسید احمد خان کا ہے۔۔۔‘ فردوش شمیم نقوی نے درخواست کی کہ یہ اسمبلی جس طرح اجرک اور سندھی ٹوپی کا دن مناتی ہے، تو ایک دن شیروانی اور جناح کیپ کا بھی منائے، کیوں کہ یہ بھی اتنی ہی سندھ کی ثقافت کا حصہ ہے، جتنا دوسرے ہیں۔‘
تحریک انصاف کی حکومت اور ان کے اراکین کی کارکردگی کیسی ہیِ، یہ کتنے فعال اور مستعد ہیں اور ان کے کتنے وعدے وفا ہوئے، یہ سب باتیں اپنی جگہ پر ہیں، لیکن تحریک انصاف کے رکن فردوس شمیم نقوی کے اِس عمل کو کُھل کر سراہا جانا چاہیے۔۔۔ اور اس سراہے جانے کا مطلب قطعی طور پر یہ نہیں ہوگا کہ ہم ان کے یا ان کی جماعت کے خیالات کے حامی اور طرف دار ہو گئے۔۔۔ جب ہم کسی کے غلط اقدام پر تنقید کرتے ہیں، تو پھر کسی اچھے قدم پر تعریف بھی کر لینی چاہیے۔۔۔
اس لیے فردوس شمیم نقوی نے اگر ہمارے اسلاف کی ثقافت کو زندہ کر کے کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے ایسے لوگوں کو زبان دی ہے، جو خود کو ایک طرح کے گھٹن کا شکار محسوس کر رہے تھے، تو ہمیں کم از کم ان کی اس ثقافتی پکار پر لبیک ضرور کہنا چاہیے۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ اس ملک کے اہل فکرونظر کو بھی اپنے اندر تھوڑی سی وسعت نظری پیدا کرنی چاہیے کہ وہ اِس ثقافت کو ’غیر‘ یا ’ہندوستانی‘ کہہ کر نہ دھتکاریں، جب ملک کی چار قومیتوں کو اپنی اپنی ثقافت اجاگر کرنے اور اسے پروان چڑھانے کا حق ہے، تو بالکل اسی طرح اس ملک کی پانچویں قومیت کو بھی یہ برابر کا حق ہے۔۔۔
بتایا جاتا ہے کہ جب 1988ء میں پہلی بار ’ایم کیو ایم‘ کے اراکین منتخب ہو کر اسمبلی پہنچے، تو ’ایم کیو ایم‘ کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عمران فاروق کی صلاح پر تمام اراکین روایتی کرتے پاجامے اور واسکٹ میں ملبوس ہو کر آئے تھے اور رکشے ٹیکسیوں میں اسمبلی آنے والوں کو روایتی اراکین اسمبلی ہونق ہو کر دیکھا کیے تھے۔۔۔ آج سندھ کے منتخب ایوان میں فردوس شمیم نقوی کے اس انفرادی قدم سے دفعتاً وہ زمانہ اور اُن کا وہ لباس یاد آگیا۔۔۔ پھر یوں ہوا کہ انھوں نے خود کو ’مہاجر‘ سے ’متحدہ‘ کرنے پر توجہ دی تو شاید انھیں یہ امر ’لسانیت‘ کا باعث لگا ہوگا۔
خیر، اب تو وہ تحریک اور اس کی اٹھان امتدادِ زمانہ کی نذر ہونے لگی ہے۔۔۔ بہرحال ہمیں امید ہے کہ فردوس شمیم نقوی نے سندھ اسمبلی میں شیروانی اور جناح کیپ کا دن منانے کی جس خواہش کا اظہار کیا ہے، اس سے زوہیب اعظم، فائز علی خان اور کراچی کے ان تمام نوجوانوں کی حوصلہ افزائی ہوگی، جنھوں نے گذشتہ برس 24 دسمبر کو ’یوم مہاجر ثقافت‘ منا کر سب کی توجہ حاصل کی تھی۔۔۔ ہم فردوس شمیم نقوی کی اس خواہش پر یہی کہیں گے کہ ’تیری آواز مکے مدینے۔۔۔!‘
پس نوشت: 23 جون 2021ء کو تحریک انصاف کے رکن سندھ اسمبلی فردوس عاشق اعوان نے ’حکومت سندھ‘ کے خلاف احتجاجاً اپنی نشست سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے تاہم استعفا جمع کرانا پارٹی مشارت سے مشروط بتایا جارہا ہے۔
ہم وعدہ کرتے ہیں اب ’آن لائن‘ کلاسیں باقاعدگی سے لیں گے!
عائشہ معاذ، ملتان
ہم نے جب سے یہ سنا ہے کہ اسکول کھل رہے ہیں، تب سے ایک عجیب سی کیفیت سے دوچار ہیں، ایک عجیب سی کشمکش ہے کہ یہ کیا ہوگیا ہے۔۔۔ کیا واقعی اسکول کھل گئے ہیں۔ باخدا، ہم ایسے نہ تھے ہم تو الارم لگا کے رات کو سوتے تھے، بلکہ صبح الارم بجنے سے پہلے ہی اٹھ جاتے تھے، رات کو ہی اپنا یونیفارم اور بستہ بنا کے رکھتے، جوتے پالش کر کے، بلکہ موزے بھی جوتوں کے اندر رکھتے تھے۔
اسکول میں کیا لنچ لے کر جانا ہے، وہ بھی پہلی رات کو ہی سوچ لیتے تھے۔۔۔ کینٹین سے کچھ کھاناہے تو وہ بھی دماغ میں خاکہ بنا لیتے تھے کہ کل کینٹین پر اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر سموسے یا فروٹ چاٹ کھائی جائے گی۔ صبح کس استاد کو کس طرح سے ستانا ہے، کس ٹیسٹ میں نقل کرنی ہے۔ یہ سب کچھ ایک رات پہلے سوچ لیتے تھے، مگر اس کورونا نے اور اس کورونا کی بے شمار و بے تحاشا چھٹیوں نے ہم جیسے چست باہمت انسان کو کاہل اور کمزور بنا دیا تو کیا کیا جائے۔۔۔ ہمارا کیا قصور اس میں۔ اسی امید پر روزانہ 9 بجے کا ’خبرنامہ‘ بہت شوق سے دیکھتے ہیں کہ شاید چچا جی چھٹیاںکچھ اور چھٹیاں دے دیں۔ قسم سے اسکول جانا بہت مشکل ہے۔
’آن لائن‘ کلاسیں ہی جاری رکھی جائیں ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم ’آن لائن‘ کلاس باقاعدگی سے لیں گے ناں، مانا کہ پہلے ہم نے ’آن لائن‘ کلاسیں چھوڑ دی تھیں، کیوں کہ تب تو سردی بہت ہوتی تھی، رضائی میں منہ دے کر ہم سوئے رہتے تھے اور رضائی کے اندر ہی موبائل پکڑ کر ’آن لائن‘ کلاس لینے لگتے تھے اور اسی رضائی اور سردی کے بیچ اگر سو جاتے، اس میں ہمارا کیا قصور ہوتا جب آنکھ کھلتی تو نہ موبائل ملتا اور نہ ہی ’آن لائن‘ کلاس اس میں ہماری کیا غلطی ہمارا کیا قصور۔۔۔ مگر اب تو گرما اپنے عروج پر ہے۔۔۔
اب ہم اچھی طرح اور چاق وچوبند رہتے ہوئے ’آن لائن‘ کلاسیں لے سکتے ہیں۔۔۔ اب دیکھیے ویسے بھی یہ جون، جولائی ہمارے ملک میں گرمیوں کی تعطیلات کا زمانہ ہے، کیسا غضب ہے کہ جن شدید گرم مہینوں میں ہم کبھی نہیں پڑھے، ان میں ہماری نسل کے بچوں کو زبردستی اسکول بلا کر پڑھایا جا رہا ہے۔۔۔ وہ ٹھیک ہے ہمیں اِن دو مہینوں سے زیادہ چھٹیاں مل گئیں، لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ جو اصل چھٹیاں ہیں، وہی غصب کر لی جائیں۔۔۔ یہ تو سراسر ’ظلم‘ ہے ناں صاحب!
فقط: ایک چھٹیوں کا طلب گار طالب علم۔
اِن سب کی ایک کہانی ہوتی ہے۔۔۔
وریشا ذوالفقار
اس کا لباس اس قدر گندا تھا، جیسے ایک عرصے سے نہ بدلا ہو، الجھے ہوئے گندے بال، بڑھا ہوا شیو، میلے ہاتھوں کی انگلیوں کے بڑھے ہوئے ناخوں میں میل، پیروں پر سینکڑوں مکھیاں بیٹھی ہوئی تھیں، لیکن اسے احساس تک نہیں تھا، دبلا سا وہ شخص جس کی شکل صورت چہرے کے میل کی وجہ سے واضح نہیں تھی، اپنی ہتھیلی میں دیکھ کر خود سے باتیں کر رہا تھا، اس کے چہرے کے تاثرات ایسے تھے، جیسے وہ کسی کو سمجھ داری کی کوئی بات بتا رہا ہو، مگر وہ دراصل اپنے آپ سے باتیں کر رہا تھا اور سب سے بے فکر اپنی ہی دنیا میں کھویا ہوا تھا، میں اسٹاپ پر یہ منظر دیکھ ہی رہی تھی کہ اتنی دیر میں میری گاڑی آگئی اور میں اس میں سوار ہوگئی، لیکن سارے راستے اسی کے بارے میں سوچتی رہی۔
وہ ہمیشہ سے تو ایسا نہیں ہوگا، اس کے بھی تو ماں باپ، خاندان، نام اور دوست احباب ہوں گے، اس کے پیدا ہونے پر بھی شاید خوشی منائی گئی ہو، مٹھائی بانٹی گئی ہو، اس کی ماں نے اس کی خاطر کتنی تکلیفیں جھیلی ہوں گی، باپ نے بھی بہت کشٹ اٹھائے ہوں گے اور اس کے لیے کچھ خواب بھی سجائے ہوں گے۔۔۔ لیکن اب یہ اس حال کو پہنچا ہوا ہے، کیا اس کے والدین یا وابستگان اس کے حال سے باخبر ہیں، اس کے دوستوں کو پتا ہے کہ وہ آج کس حال میں ہے؟ یہاں آتے جاتے لوگ اسے پاگل کہتے ہیں، کچھ آوازیں کستے ہیں، مذاق اڑاتے ہیں، پتھر مارتے ہیں، لیکن وہ سب سے بے پروا ہے۔ اُسے زندگی سے فقط اتنا غرض ہے کہ جب بھوک لگے، تو کھانا مل جائے، جب نیند ائے، سو جائے، مگر ان سب کا کوئی نا کوئی پس منظر تو ہوتا ہی ہے، اچھا یا برا، ایسے لوگوں کا کیا مستقبل ہوتا ہے، کبھی کبھار تو گھر والے بھی پہچاننے سے انکاری ہو جاتے ہیں اور یہ لوگ لاوارث ہی مر جاتے ہیں۔
یہ ساری سوچیں مجھے کراچی کے علاقے ’ایبے سینیا لائن‘ کی گلیوں میں لے گئیں، جہاں کے محل و وقوع سے میں خاص واقف تو نہیں، لیکن اکثر جانا ہوا ہے، تو یہ اچھی طرح جانتی ہوں کے وہاں چھوٹی چھوٹی تنگ گلیوں میں سفید پوش اور پڑھے لکھے لوگ، کاروباری حضرات سے لے کر ملازمت پیشہ تک کے لوگ رہائش پذیر ہیں، نچلے اور متوسط طبقے کا یہ خاصا پر رونق علاقہ ہے، گھر کی دیواریں ساتھ ساتھ ملی ہوئی ہیں۔۔۔ سبھی محلے دار ایک دوسرے کو جانتے ہیں، ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں، پاس پڑوس کا رشتے داروں کی طرح میل جول اور آنا جانا لگا رہتا ہے۔ کراچی کا یہ قدیمی علاقہ خاصے بڑے رقبے پر محیط ہے، جہاں لاکھوں لوگ بستے ہیں۔ اسی ایبے سینیا لائن کی ایک کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔
یہ ساتھ اسکول جانے والے تین دوست تھے، سارے کھیل کود اور مشاغل میں ساتھ ساتھ رہتے۔ ان کے پسندیدہ کھیل کرکٹ اور ’ڈبو‘ (کیرم بورڈ) تو تھے ہی، لیکن انھیں گلی کے آوارہ کتوں سے بہت پیار تھا، وہ اکثر ان کتوں کے چھوٹے پِلّوں کو پالتے، انھیں اپنے جیب خرچ سے دودھ لاکر پلاتے، یہ خدا ترس اور معصوم بچے جن کا مضبوط خاندانی پس منظر ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ مذہبی بھی تھا۔
وقت گزرا دوست بڑے ہوئے تو اپنی زندگیوں میں مصروف ہوگئے، لیکن ان کی محبت کم نہیں ہوئی، ان میں سے دو دوست کچھ عرصے بعد وہاں سے منتقل ہوگئے، انھوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، اچھے عہدوں پر فائز ہوئے اور اپنا مستقبل بنایا، لیکن تیسرا دوست پتا نہیں کیسے کچھ غلط صحبت میں بیٹھنے لگا۔۔۔ اُسے نشے کی لت لگی اور وہ ’ایڈز‘ میں مبتلا ہوگیا، جس کا اسے علم نہیں تھا ، اس کی زندگی کا مقصد صرف اپنے نشے کی طلب کو پورا کرنا تھا، جب زیادہ طبعیت خراب ہوتی، تو وہ گھر والوں کو بتاتا، لیکن وہ اس کی حرکتوں سے شرمندہ ہوتے اور اسے گھر سے نکال دیتے، وہ اپنی دوا لینے ’لائینز ایریا‘ سے ’کالا پل‘ تک پیدل جاتا، وہاں کوئی حکیم نشہ کرنے والوں کو دوا بنا کر دیتا تھا، یہ لگ بھگ ڈیڑھ، دو کلومیٹر کی مسافت ایک بیمار انسان کے لیے بہت زیادہ ہے، ایسے ہی ایک دن وہ وہیں کہیں جاتے ہوئے وہ گرا، اس کے سر پر چوٹ لگی، وہ جناح اسپتال میں دو دن رہا، پھر اسے لاوارث قبرستان میں دفنا دیا گیا، اُسے اپنی گلی کے آوارہ کتوں کی طرح کوئی ایسا رحم دل انسان نہ ملا، جو اس کی دیکھ بھال کر لیتا۔۔۔ جیسے بچپن میں وہ روپیا جوڑ جوڑ کر کرتا تھا!
کہنے کو یہ ایک عام سی کہانی ہے، لیکن مقصد یہ ہے کہ ہمیں یہ دھیان رکھنا چاہیے کہ آج سڑک کے کنارے دنیا و مافیہا سے بے خبر پڑے ہوئے میلے کچیلے سے یہ وجود ہمیشہ سے ایسے نہیں ہوتے۔۔۔ ان سب کی ایک کہانی ہوتی ہے، جو شاید بہت کم لوگوں کے علم میں ہوتی ہے، اس لیے کبھی ایسے کسی شخص کو دیکھ کر کبھی کوئی رائے قائم نہ کیا کیجیے، نہ ان سے نفرت کیا کیجیے اور کچھ تو شاید ہم ان کے لیے کر نہیں سکتے، بس یہ کافی ہے کہ ان سے متعلق بدگمانی نہ کیجیے، وقت اور حالات کے ستم نہ جانے کس ماں کے لال اور کس باپ کے خواب کو یوں فٹ پاتھ پر لا کر پھینک دیتا ہے ، جسے ہم اور آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔
جمشید نسروانجی کے ایک بیان نے پاک بھارت کشیدگی کم کرادی
ضیا الدین برنی
کراچی کے پہلے میئر جمشید نسروانجی (1886ء تا 1952ء) کو شہر کے محسنین میں شمار کیا جاتا ہے، وہ نومبر 1933ء کو اپنی ذمہ داریوں پر فائز ہوئے، انھوں نے کراچی کے لیے بے شمار تاریخی خدمات انجام دیں۔۔۔ گرومندر کراچی کے قریب واقع مشہور ومعروف سڑک ’جمشید روڈ‘ انھی کے نام پر ہے۔۔۔ اُن کا تعلق کراچی کی پارسی برادری سے تھا۔ ضیا الدین احمد برنی 1961ء میں شایع ہونے والی اپنی تصنیف ’عظمت رفتہ‘ میں اُن سے متعلق لکھتے ہیں:
میں بمبئی میں برسوں سے کراچی کے اس سینٹ (مقدس بزرگ) کا نام نامی سنتا چلا آیا تھا اور اسی لیے کراچی آتے ہی اپنی اوّلین فرصت میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور ہر ملاقات میں ان کی شرافت اور خلوص سے گہرے طور پر متاثر ہوا۔ وہ ہندوستان اور پاکستان دونوں مملکتوں میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم لیاقت علی خان نے گاندھی جی کے مجسمے کے متعلق خاص طور پر ان سے بیان دلوایا۔
ہندوستان والوں کا خیال تھا کہ مجسمہ جان بوجھ کر گرایا گیا ہے اور پاکستان والے کہتے تھے کہ تند ہوائوں کے جھونکوں سے یہ خود بخود گر گیا ہے۔ اس خیال سے کہ کہیں یہ واقعہ دنوں مملکتوں کے مابین مزید کشیدگی کا باعث نہ بن جائے، لیاقت علی خان نے جمشید مہتا سے ایک بیان دلایا جس کا ہندوستان پر خاطر خواہ اثر ہوا۔ جمشید نسروانجی کی ساری زندگی خدمت الناس میں گزری اور انھوں نے اپنی پاکیزہ زندگی سے بتایا کہ مادیت کے اس دور میں بھی بے غرضی، سچائی اور روحانیت کو روزمرہ کے کاموں میں کس طرح سمویا جا سکتا ہے۔
بات صرف ترجیحات کی ہے
رضوان ناصر، بہادرآباد
کسی پر ہمارا حق جب ختم ہو جاتا ہے، تو پھر اسے ہر وقت ’آن لائن‘ دیکھنا اور پھر ضبط کی کیفیت میں نڈھال ہوجانا، انتہائی تکلیف دہ عمل ہے۔ میں اپنا ’’ایکٹو اسٹیٹس‘‘ آف کر کے رکھتا ہوں، پر اس منحوس میسینجر پر پھر بھی سبز بتی جلی رہتی ہے، اور پھر نہ چاہتے ہوئے بھی انگلیاں حرکت میں آتی ہیں، خوامخواہ میں ہر دو منٹ بعد میسنجر چیک کرنا ۔۔۔ ابھی وہ ’آن لائن‘ ہے۔۔۔ تین منٹ پہلے وہ ’آن لائن‘ تھی۔۔۔ آدھے گھنٹے پہلے تھی۔۔۔ اور پھر کبھی وہ شام سے آن لائن نہیں ہوئی۔۔۔ اللہ جانے کیوں نہیں ہوئی۔۔۔
ہم انسان بھی ناں اپنے لیے اذیت خود پیدا کرتے ہیں۔۔۔ خوامخواہ کسی کے ساتھ نہ ہونے کو محسوس کرتے رہتے ہیں، ان لوگوں کو جن کے لیے اب ہماری کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ پھر بھی خیال آتا ہے کہ کیا پتا اُس کے دل میں رحم آئے اور وہ بات کر لے، لیکن جسے بات نہ کرنی ہو، وہ راستے ہوکر بھی نہیں کرتا اور جسے کرنی ہو تو وہ کوئی نہ کوئی راستہ ڈھونڈ ہی لیتا ہے۔۔۔ یہ صرف زندگی کی ترجیحات اور اہمیت کی بات ہوتی ہے!
The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.