Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

عالمی سیاست کی جلتی پر امریکی تیل

$
0
0

اسلام آ باد:  چند سال قبل انٹرنیشنل انرجی ایجنسی نے متنبہ کیا تھا کہ اگر دنیا کے بیش تر ممالک نے اپنی انرجی پالیسیوں میں تبدیلیاں نہ کیں تو دنیا بھر میں توانائی کی مانگ ممکنہ طور پر بڑھتی چلی جائے گی۔

اس وقت انٹرنیشنل انرجی ایجنسی (آئی اِی اے) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نوبوٹا ناکا نے کہا تھا کہ دنیا میں توانائی کی مانگ 2030 تک بڑھتی ہی چلی جائے گی اور اس وجہ سے سکیورٹی اور ماحولیاتی تبدیلیوں میں تیزی سے اضافے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ آج کے مقابلے میں 2030 تک فوسل فیول، یعنی قدرتی ایندھن جس میں کوئلہ اور گیس وغیرہ بھی شامل ہیں، ان کے استعمال میں کمی نہ آئی تو اس کی ضرورت پچاس فی صد سے بھی تجاوز کر جائے گی ۔ نوبوٹاناکا نے یہ بات عالمی انرجی کی اہم رپورٹ، ورلڈ انرجی آؤٹ لک، کے اجرا کے موقع پر کہی تھی۔

انہوں نے واضح کیا تھا کہ بھارت اور چین، جن کی معیشتیں بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں، ان دو ممالک کو اس طلب کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ عالمی توانائی فراہم کرنے کی مارکیٹ میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا کا ہر ملک اس بڑھتی ہوئی طلب پر قابو پائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ظاہر سی بات ہے کہ بڑھتی ہوئی معاشی ترقی ہندستان اور چین کی اس عالمی توانائی کی مانگ میں مزید اضافہ کرے گی۔ اس رپورٹ پر وال اسٹریٹ جرنل نے لکھا تھا ’’ اگلے آٹھ دس برسوں میں دنیا میں تیل کی پیدوار کے نقشے میں زبردست تبدیلی آنے والی ہے۔ امریکا میں تیل اور گیس کی پیداوار میں جو انقلاب آرہاہے، اس کی وجہ سے دنیا کا توانائی کانقشہ نئے سرے سے مرتب ہورہا ہے۔ اس تبدیلی کے نتیجے میں نہ صرف توانائی کی فراہمی میں ایک انقلاب آئے گا بل کہ خود امریکی سیاسیات اور سفارت کاری بھی اس سے متاثر ہوگی‘‘۔

اس رپورٹ کے ٹھیک چھے سال بعد سال 2013 کے وسط میں جب شمالی امریکا میں تیل کی پیداوار ناقابل یقین مثبت حد تک بڑھی تو تیل کی عالمی منڈی میں ایک تہلکہ مچ گیا اور متعدد ماہرین نے اس وقت یہ اندازہ لگایا کہ سال 2020 میں امریکا دنیا کا سب سے بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک بن چکا ہو گا، جو سعودی عرب کو بھی پیچھے چھوڑ جائے گا، گو کہ ماہرین کا یہ دعویٰ دھیرے دھیرے سچ ہوتا دکھائی دے رہا ہے لیکن چند ماہ پہلے تک کسی بھی عالمی تھنک ٹینک کو یہ اندازہ ہرگز نہیں تھا کہ امریکا نہایت چابک دستی سے ایران کے خلاف اپنے ایٹمی تحفظات کو اپنے مفادات میں بدل کر خطے میں توانائی کی طلب اور رسد کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی وہ چال چل جائے گا کہ سب منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔

اب عالمی ادارے ’’ آئی اِی اے‘‘ ہی کا کہنا ہے ’’شمالی امریکا میں تیل کی تیزی سے بڑھتی ہوئی پیداوار نے عالمی منڈی میں تہلکہ مچا دیا ہے۔ پیرس میں قائم اس ادارے کی رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے، شمالی امریکا کی ریاست نارتھ ڈیکوٹا میں تیل کی اضافی پیداوار اور کینیڈا کے’’آئل سینڈز‘‘ اگلے پانچ برسوں میں تیل کی عالمی منڈی میں اِسی طرح تبدیلی لائیں گے، جس طرح چین میں گذشتہ 15 برسوں میں تیل کی بڑھتی ہوئی طلب سامنے آئی ہے‘‘ جب کہ اس ادارے کی انتظامی سربراہ ماریہ وین ڈر ہووین کا کہنا ہے ’’شمالی امریکا کی یہ پیش قدمی تیل کی عالمی منڈی میں ’’ ترتھلی‘‘ مچا دے گی۔ اگلے پانچ برسوں میں شمالی امریکا کا شمار مشرق وسطیٰ کے تیل برآمد کرنے والے ملکوں کی تنظیم (اوپیک) سے باہر تیل پیدا کرنے والے اْن ممالک میں ہوگا جو، دنیا میں پیدا ہونے والے کْل تیل کا دو تہائی پیدا کرتے ہیں۔ اوپیک ممالک اِس وقت دنیا میں 35 فی صد تیل کی مصنوعات پیدا کر رہے ہیں‘‘۔

اوپیک (Organization of the Petrolium Exporting Countries) پٹرول برآمد کرنے والے ملکوں کی ایک عالمی تنظیم ہے، اس میں الجزائر ، انگولا ، انڈونیشیا ، ایران ، عراق ، کویت ، لیبیا ، نائجیریا ، قطر ، سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور وینیزوئلا شامل ہیں۔ اوپیک کا بنیادی مقصد تیل کی عالمی منڈی میں قیمت کو متوازن کرنا اور مناسب مقدار تک بڑھانا شامل ہے۔ اس کا مرکزی دفتر آسٹریا کے شہر ویانا میں ہے اگرچہ آسٹریا اس کا ممبر نہیں ہے۔ وینیزوئلا جنوبی امریکا کا ایک تیل پیدا کرنے والا ملک ہے۔ ترقی یافتہ دنیا تیل کو بڑے سستے داموں حاصل کر کے اسی سے بنائی ہوئی چیزیں تیسری دنیا کے ممالک کو منہگے داموں بیچتی ہے۔ تیل کی عالمی منڈی میں اصل طاقت امیر ملکوں کے پاس ہے جن کی حکومتیں اور تیل کمپنیاں مختلف حیلے بہانوں سے تیل کی رسد بڑھا کر تیل کی قیمت کو ایک سطح سے کم رکھتی ہیں۔

اس بات کو بنیاد بنا کر سب سے پہلے 1949 میں وینیزوئلا کے صدر نے ایران ، عراق ، کویت اور سعودی عرب کی حکومتوں سے رابطہ کیا جس کا مقصد ایک مشترکہ ادارہ قائم کرنا تھا جس میں تیل سے متعلق مسائل کے بارے میں تبادلۂ خیال کرنا تھا۔ اس وقت بات نہیں بنی کیوں کہ ان ملکوں میں امریکا ، برطانیہ اور فرانس کا اثر و رسوخ بہت زیادہ تھا بل کہ تیل کی کمپنیاں ان کی ملکیت تھیں۔ 1960 میں ان ہی ممالک کا اجلاس عراق کے شہر بغداد میں ہوا، جہاں اوپیک کا قیام عمل میں لایا گیا۔ خیال تھا کہ اوپیک تیل کی عالمی رسد کو محدود کر کے اس کی قیمت کو ایک مناسب درجے تک لے آئے گی۔ ابتدائی ممبران یہ ہی ممالک تھے مگر 1975 تک قطر ، الجیریا (الجزائر) ، انڈونیشیا ، لیبیا ، نائجیریا ، متحدہ عرب امارات ، ایکواڈور اور گیبون شامل ہو گئے، ایکواڈور اور گیبون نے بعد میں اوپیک چھوڑ دی۔ جنوری 2007 میں انگولا نے اوپیک میں شمولیت حاصل کر لی۔ سوڈان کی شمولیت کی توقع بھی ہے۔ آج کل اوپیک کے ممبران تیل کے ذخائرکے پینسٹھ فی صد کے مالک ہیں اور کل پیداوار میں ان کا حصہ چالیس فی صد سے زیادہ ہے۔

آج کل شمالی امریکا میں تیل کی پیداوار میں اضافے کے لیے استعمال کی جانے والی جدید تکنیک تیل میں اضافے کا سبب بنی ہوئی ہے، اِس تکنیک میں پانی کی تیز دھار اور دیگر عناصر کو پہاڑوں کے بیچ تیزی سے چھوڑا جاتا ہے تاکہ پہاڑ سے تیل کے ذخائر کے مادوں کو کھدائی کے لیے نرم کیا جاسکے۔ شمالی امریکا میں تیل کی پیداوار میں آنے والی یہ تبدیلی اتنی بڑی ہے کہ ماہرین کا اندازہ ہے کہ سال 2020 میں امریکا دنیا کے سب سے بڑے تیل پیدا کرنے والے ملکوں کو پیچھے چھوڑ جائے گا البتہ تیل کی پیداوار کے عالمی ادارے کا یہ کہنا بھی ہے کہ شمالی امریکا میں تیل کی پیداوار شاید اگلے چند برس تک وہیں محدود رہے لیکن تیل نکالنے کا جدید طریقہ دیگر کمپنیوں کو یہ موقع دے سکتا ہے کہ وہ اْن مقامات سے تیل پیدا کرنے کی کوشش کریں جنہیں اب تک پْرخطر اور گراں سمجھ کر مسترد کر دیا گیا تھا لیکن اِس صورت حال میں تیل کی عالمی منڈی کی جانب سے شدید ردِعمل بھی سامنے آسکتا ہے۔

اس پر رواں سال امریکا نے عالمی سطح پر ایران کے قریب اور سعودی عرب سے دوری اختیار کر کے جو چال چلی، وہ شاید اسی شدید ردعمل سے بچنے کی ایک حکمت عملی ہے، عین ممکن ہے کہ اب نئے تناظر میں ایران اوپیک کے سالانہ اجلاس میں امریکی مفادات کا کھل کر تحفظ کرے ، جس سے ممکنہ ردعمل کی شدت میں خاطر خواہ کمی کا امکان روشن ہو جائے گا۔ یہ بات اس لیے قرین قیاس ہے کہ گذشتہ سال کے امریکی اخبارات میںشائع ہونے والے متعدد کالموں اور تجزیوں سے اس چال (حکمت عملی) کے خدوخال اب ، 2014 میں کافی حد تک واضح ہو چکے ہیں۔

گذشتہ سال ایران کی طرف سے عراق کوگیس کی ترسیل پر ایک مؤقر امریکی اخبارکی رپورٹ کا متن کچھ یوں تھا ’’ایران عراق کو قدرتی گیس فراہم کر رہا ہے، اِس سودے سے ایران کو مغرب کی طرف سے لگائی ہوئی اقتصادی تعزیرات کا مقابلہ کرنے میں مدد مل رہی ہے اور واشنگٹن کو اِس پر خاصی تشویش ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل کی اس رپورٹ میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا ’’ اگلے چار سال کے دوران اس گیس کی مجموعی مالیت چودہ اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر تک چلی جائے گی، اِس سودے سے ایران کو مغرب کی طرف سے لگائی ہوئی اقتصادی تعزیرات کا مقابلہ کرنے میں بھر پور مدد ملتی ہے، ایران کی قدرتی گیس کی برآمدات دوگنی ہوجائیں گی اور گیس کے کنوؤں کی پیداوار، جو بین الاقوامی تعزیرات کی وجہ سے رْکی ہوئی تھی، اس میں اب مزید توسیع ہوگی۔ اخبار نے عراق کے ایک ترجمان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا ’’اِس قدرتی گیس کی مدد سے دو بجلی گھر چلائے جائیں گے‘‘۔ اخبار نے مزید لکھا تھا کہ تہران کے جوہری پروگرام کی وجہ سے اس پر لگنے والی مغربی تعزیرات کے بعد اس کی برآمدی منڈیاں تو سْکڑ گئی ہیں لیکن اْس کے لیے اِس سودے کی بہ دولت ایک اہم برآمدی منڈی کْھل جائے گی اور بغداد میں اس سودے پر دست خط کے بعد ایران، عراق کو روزانہ ایک کروڈ ڈالر مالیت کی گیس برآمد کرے گا۔ اِس طرح ایران عراق کو تین اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر کی گیس ہر سال برآمد کرے گا۔ اقتصادی تعزیرات کی وجہ سے ایران کی تیل کی برآمدات سے ہونے والی آمدنی میں پچھلے سال (2012) 26 ارب ڈالر سے زیادہ کی گراؤ ایا تھا۔ اوباما انتظا میہ کو ایران کے ساتھ عراق کے بڑھتے ہوئے تعلّقات پر تشویش لاحق ہے، خاص طور سے اس پر، کہ ایران شام کے صدر بشار الاسد کو اسلحہ اور نقدی فراہم کرنے کے لیے عراقی فضائی حدود استعمال کر رہا ہے اور امریکی عہدے داروں کی بار بار تنبیہ کے باوجود ایران کی پروازیں جاری ہیں۔ ایران ترکی کو بھی قدرتی گیس فراہم کر رہا ہے۔ اخبار نے ترکی کی حکومت کے حوالے سے بھی بتایا تھا کہ وہ مغربی دباؤ کے باوجود ایران سے گیس خرید نے پر ڈٹا ہوا ہے۔

عراق کو گیس کی فراہمی کے لیے ایران، تْرکی ہی کے راستے پائپ لائن بچھا رہا ہے جو 90 فی صد مکمل ہو چْکی ہے اور دو ماہ میں مکمّل تیار ہو جائے گی‘‘۔ اسی طرح جب 2013 میں پاک ایران گیس معاہدہ طے پایا تھا تو اس پر بھی امریکا اور امریکی میڈیا کا رویہ اسی نوعیت کا تھا۔ اس وقت آئی اِی اے نے بتایا تھا کہ امریکا جس تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے وہ 2035 میں تیل کی اپنی تمام ضروریات ملکی وسائل سے پوری کرنے کے قابل ہو جائے گا جب کہ 2016 تک امریکا تیل پیدا کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ملک کی حیثیت سے سعودی عرب اور روس پر سبقت لے جائے گا اور صرف دو عشروں میں توانائی کے میدان میں خودکفیل بھی ہو چکا ہوگا۔ امریکا اور کینیڈا کی طرف سے برازیل میں ’’شیل‘‘ آئل ڈرلنگ اور زیر آب تیل کی تلاش کے کام میں حاصل ہونے والی کام یابی کے نتیجے میں، اگلے 10برسوں کے اندر امریکا کا مشرق وسطیٰ کے سایہ تلے قائم تیل درآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم پر انحصار ختم ہوجائے گا اور وہ تیل پیدا کرنے والا دنیا کا نمایاں ملک بن چکا ہوگا کیوں کہ ایک طویل عرصے سے خودکفالت کی منزل امریکی راہ نماؤں کا ہدف رہی ہے‘‘۔

لیکن اسی حوالے سے گذشتہ سال پیرس میں ہی، توانائی استعمال کرنے والے 28 ممالک سے تعلق رکھنے والے ادارے کے مشیر نے یہ بھی کہا تھا کہ 2020 کے وسط تک جب نارتھ ڈکوٹا اور ٹیکساس کی وسطی امریکی ریاستوں میں تیل کی کانوں سے تیل نکلنا بند ہوجائے گا تو دنیا میں تیل پیدا کرنے والے ملک میں امریکا کی برتری بھی ختم ہوجائے گی اور اْس کے بعد مشرق وسطیٰ کے ممالک ہی بڑھتی ہوئی تیل کی ضروریات کا زیادہ تر حصہ پورا کریں گے۔

لیکن دوسری جانب آئی اِی اے نے کہا تھا کہ اْبھرتی ہوئی معیشتوں کے باعث دنیا بھر کی توانائی کی طلب میں اضافہ ہو جائے گا اور یہ کہ 2030 تک تیل کے سب سے بڑے صارف کے طور پر چین، امریکا پر سبقت لے جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق تیل کی ضرورت کے حساب سے، چین، بھارت اور مشرق وسطیٰ کو دنیا میں پیدا ہونے والے تیل کے تیسرے حصے کے استعال کی ضرورت پیش آئے گی تاہم ادارے کا کہنا ہے کہ تیل کے بڑھتے ہوئے نرخوں کے نتیجے میں دنیا بھر میں توانائی کی سلامتی کا معاملہ خطرات و خدشات سے دوچار ہو چکا ہے کیوں کہ2011 سے اوسطاً تیل کی قیمت 110 ڈالر فی بیرل تک بڑھ چکی ہے۔ تیل کی قیمتوں میں اضافے کی اس سے قبل کوئی مثال نہیں ملتی تاہم ادارے کی پیش گوئی کے مطابق تیل کی قیمتیں مزید بڑھیں گی اور 2035 تک یہ 128ڈالر فی بیرل تک پہنچ جائیں گی۔ دنیا بھر میں تیل کی قیمتوں میں آنے والا اضافہ نسبتاً یک ساں نوعیت کا ہے جب کہ قدرتی گیس کے نرخ عام طور پر مختلف سطح پر رہیں گے۔

تیل کے تناظر میں چلی جانے والی چالیںدراصل بھارت اور چین کی طلب اور رسدکو کنٹرول کرنے اور خطے میں اوپیک کی طرح کا ایک نیا ادارہ بنا کر مشرق وسطیٰ کے تیل پیدا کرنے والے ممالک اور سعودی عرب کو کارنر کرنے کی تیاریاں محسوس ہورہی ہیں۔ اس نئے ادارے میں جہاں امریکا خود مرکزی کردار ادا کر سکتا ہے تو اس میں ایران کو بھی نمایاں کردار مل سکتا ہے، جس پر اسرائیل اور سعودی عرب کا سیخ پا ہونا اس امکان کی چغلی کھا رہا ہے۔


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>