لیونارڈو ڈاوِنچی کی وجۂ شہرت مونا لیزا یا لاسٹ سپر (Last Supper) ہے۔
’’عبقریت‘‘ کا تمغہ ہم کسی کے بھی کالر پر سجا سکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگ صدیوں میں کہیں خال خال ہوتے ہیں۔ ڈاونچی یقیناً عبقری Genious تھا۔ اس شخص کے اندر بلا کی توانائی تھی۔ اس کے کارنامے بوقلموں ہیں۔ عام طور پر مانا جاتا ہے کہ فن کار اور سائنس دان ایک دوسرے کی ضد ہوتے ہیں جب کہ ڈاونچی میں یہ یوں مدغم ہیں کہ طے نہیں ہو پاتا کہ وہ سائنس دان تھا یا فن کار۔ فن کار کے طور پر اس کی مصوری کے پندرہ شہ کار محفوظ ہیں اور ان میں مونا لیزا اور لاسٹ سپر لافانی مانے جاتے ہیں جب کہ نباتات، علم الابدان، فن تعمیر، انجنیئرنگ، نقشہ گری، ارضیات، فلکیات، موسیقی، فلسفہ، ریاضی، اسلحہ سازی، ہوابازی اور نہ جانے کن کن شعبوں میں اس کا کام یادگار ہے۔
ڈاونچی کا پورا نام لیونارڈو ڈی سر پیرو ڈاونچی (Leonardo di Ser Piero da Vinci) ہے، فرانسیسی تلفظ لیئن آردو,ہے، اس میں پیرو اس کے باپ کا اور ونچی اس مقام کا نام ہے جہاں وہ پیدا ہوا جب کہ SER احتراماً کہا جاتا ہے۔ لیونارڈو ٹسکینی یا ٹسکانا میں واقع ہے۔ یہ لیونارڈو کے عہد (پندرہویں صدی) میں آزاد ریاست فلورنس کا حصہ تھا۔ وِنچی، دریائے آرنوکی ایک نشیبی وادی ہے۔ لیونارڈو کا والد پیرو فروسینو ڈی انتونیو ڈاونچی(Messer Piero Fruosino di Antonio da Vinci) ایک قانون دان تھا اس کے نام کے ساتھ ’’سر‘‘ (Ser) کا لاحقہ تھا جو اس کے اشرافیہ سے تعلق کی علامت ہے، ماں قطرینہ ایک دہقان زادی تھی۔ ان کے درمیان باقاعدہ شادی نہیں ہوئی تھی۔ سو لیونارڈو ان کی محبت کا نتیجہ (Love Child)تھا۔
اس کے بچپن کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات نہیں ملتیں سوائے اس کہ کے اولیں پانچ سال تک وہ اپنی ماں کے گھر میں رہا،1457 کے بعد اس کا باپ اسے اپنے پاس لے آیا، یہ گھر ایک چھوٹے سے گاؤں فرانسسکو میں تھا، اس کے دادا، دادی اور چچا بھی یہیں تھے۔ اس کے باپ نے ایک 16 سالہ لڑکی سے شادی کی تھی، جولیونارڈو کے ساتھ بہت شفقت کرتی تھی تاہم وہ زیادہ عمر نہ پا سکی اور جلد ہی چل بسی۔ لیونارڈو 16 برس کا ہوا تو اس کے باپ نے 20 سالہ ایک اور خاتون فرانسسکالین فریدیتی سے شادی کی۔ وہ اپنا جائز وارث پیدا کرنا چاہتا تھا جس کے لیے اس نے تیسری اور پھر چوتھی شادی بھی۔ اس دوران لیونارڈو گھر پر ہی جیومیٹری اور ریاضی کی غیر رسمی تعلیم حاصل کر پایا۔ مصوری کا رجحان اس میں بہت آغاز ہی سے تھا۔ ایک بار ایک کسان ایک سادہ شیلڈ اس کے باپ کے پاس لایا اور اس سے درخواست کی وہ اس پر کوئی کچھ بنا دے، اس پر لیونارڈو نے مصوری کی اور ایک بہت بدہیئت عفریت کی تصویر بنادی جو آگ اگل رہا تھا۔ یہ تصویر اس کے باپ کو بڑی پسند آئی، ڈیوک آف میلان نے دیکھی تو خرید لی اس پر اس کے باپ نے بازار سے ایک اور شیلڈ خرید کر کسان کو دے دی۔
1466 میں لیونارڈو 14 برس کا ہوا تو اسے ویروشیو کی ورکشاپ میں داخل کرادیا۔ ویروشیو (Verrochio) اپنے وقت میں مصوری کا بہت بڑا استاد تھا، اس کی ورکشاپ فلورنس کا سب سے اعلیٰ نگار خانہ سمجھا جاتا تھا۔ یہاں اپنے وقت کے بڑے بڑے مصوروں نے تربیت پائی۔ لیونارڈو نے یہاں پوری ایک دہائی تربیت حاصل کی۔ اس ورکشاپ میں صرف مصوری ہی کی تربیت نہیں دی جاتی تھی بل کہ ڈرافٹنگ، علم کیمیا، دھاتوں کے علوم، آہن گری، پلاسٹر کا استعمال، چمڑے کا کام، لکڑی کا کام، مشین سازی، ڈرائنگ، مجسمہ سازی اور ماڈلنگ بھی سکھائی جاتی تھی۔ ویروشیو کی ورکشاپ سے مصوری کے نمونے اس کے ملازمین تیار کیا کرتے تھے۔
مورخین کے مطابق ویروشیو کے یادگار شہ پارے The Baptism of Christ پر لیونارڈو نے اپنا حصہ ڈالتے ہوئے اس میں ایک نوجوان فرشتے کو یوں مصور کیا کہ استاد دنگ رہ گیا اور اس کے بعد اس نے زندگی بھر برش نہیں اٹھایا۔ اس شہ پارے میں Tempera پر Oil Painting کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ روغنی رنگوں کے استعمال کی روایت افغانستان میں بہت پہلے سے موجود تھی یورپ میں اس کا آغاز پندرہویں صدی میں مصور وراسی نے کیا۔ مذکورہ تصویر میں فرشتے کے علاوہ حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی شبیہ، پانی اور پس منظر میں پہاڑی کی مصوری پر بھی ڈاونچی کی چھاپ نظر آتی ہے۔ اس ورکشاپ میں لیونارڈو نے ماڈلنگ بھی کی جس کے آثار اس ورکشاپ کے مختلف شہ پاروں جسے ڈیوڈ، بارگیلو، آرکنچل، رفائیل اور ٹوبیاس اینڈ دی اینجل رفائیل وغیرہ میں دکھائی دیتے ہیں۔ 1472 میں بیس سالہ لیونارڈو فارغ التحصیل ہو چکا تھا اور اسے گلڈ آف سینٹ لیوک نے ماسٹر تسلیم کر لیا۔ یہ گلڈ فن کاروں اور ادویات کے ڈاکٹروں کی مجلس تھی۔
اس کے والد نے اسے اپنی ورکشاپ سے منسلک کر لیا تاہم اس کے باوجود وہ اپنے استاد ویروشیو کے ساتھ برابر کام کرتا رہا۔
1476 میں لیونارڈو اپنے تین دوسرے ساتھیوں کے ہم راہ ہم جنسیت کے الزام میں گرفتار ہوا تاہم جلد ہی رہائی مل گئی۔ اس کے بعد 1478 تک کے برسوں کا کوئی سراغ نہیں ملتا کہ لیونارڈو اس عرصے میں کہاں رہا اور کیا کرتا رہا البتہ ریکارڈ کے مطابق 1478 میں اس نے اپنے استاد کی ورکشاپ چھوڑ دی اور اپنا گھر بھی ترک کر دیا۔ ایک مورخ کے مطابق 1480 میں لیونارڈو فلورنس کے علاقے سان مارکو کے ’’گارڈن آف دی پی ازا‘‘ سے منسلک تھا جو نو افلاطونی مصوروں، شاعروں اور فلسفیوںکی اکادمی تھی۔
جنوری 1478 میں اسے چیپل آف سینٹ برنارڈ میں پہلا کام ملا ساتھ ہی مارچ 1481 میں اسے سان دوناتو میں The Adoration of the magi بنانے کا کام ملا تاہم یہ دونوں کام ادھورے رہے کیوں کہ اس دوران لیونارڈو میلان چلا گیا البتہ دی ایڈوریشن آف دی میگی نامکمل حالت میں اب بھی محفوظ ہے۔
لیونارڈو بہ طور موسیقار:
لیونارڈو فنون و علوم کے باب میں سماجی مزاج کی شخصیت تھا۔ وہ ایک ایسا مصور تھا کہ جس نے صدیوں تک مصوروں کو متاثر کیے رکھا اور آج بھی اس کے شہ پاروں کو کلاسیکیت میں اعلیٰ مقام حاصل ہے لیکن وہ محض مصور ہی نہیں تھا بل کہ اعلیٰ درجے کا موسیقار تھا۔ 1482 میں اس نے گھوڑے کے سر کی شکل کا بربط یجاد کیا۔ یہ ساز روم اور یونان میں پہلے سے موجود تھا تاہم لیونارڈو نے اس میں ایک حسن پیدا کر دیا۔ یہ بربط اکادمی کے سربراہ لورینزو نے اسی کے ہاتھ میلان کے ڈیوک کو تحفے کے طور پر بھیجا تاکہ ڈیوک کے ساتھ دوستانہ مراسم قائم ہوں۔ میلان میں اس کا قیام 1482 سے 1499 تک رہا۔ اس دوران اس نے اپنے شہ کار Virgin of the Rocks اور Last Supper تخلیق کیے۔ ڈیوک آف میلان لیوڈوویکو کے ایما پر وہ ہنگری کے بادشاہ میتھیاس کاروینس کے پاس بھی گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ وہاں اس نے Holly Family نامی شہ پارہ تخلیق کیاتھا۔ 1495 کا سال اس کے لیے دکھ کا سال رہا کیوں کہ اس سال اس کی ماں قطرینہ کا انتقال ہوا۔ لیونارڈو نے ڈیوک آف میلان کی فرمائش پر کافی کام کیے، ان میں میلان کیتھیڈرل کے گنبد کا ڈیزائن بھی شامل ہے۔
ڈیوک آف میلان کے جانشین فرانسسکو کی فرمائش پر ایک یادگار ’’گھوڑے پر سوار نائیٹ‘‘ کا ڈیزائن تیار کیا۔ یہ بہت بھاری بھر کم یادگار تھی، جس کے لیے 70 ٹن دھات فراہم کی گئی لیکن یہ کام بھی سیماب صفت لیونارڈو نے کئی سال تک ادھورا ہی چھوڑے رکھا۔ اسی طرح ’’گران کیویلو‘‘ پر کام شروع کیا، یہ بھی ایک گھوڑے کا مجسمہ تھا، کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا میں گھوڑے کا سب سے بڑا مجسمہ تھا بہ شرطِ کہ پورا ہو جاتا۔ لیونارڈو ایک عرصے میں اس کا صرف مٹی کا مجسمہ ہی بنا پایا جو بعد میں فرانسیسی فوج نے علاقے پر ایک حملے کے دوران تباہ کر دیا تھا، اس کے باوجود یہ مجسمہ فن کی تاریخ میں ’’لیونارڈو ڈاونچی کا گھوڑا‘‘ کے نام سے معروف ہے۔
اس گھوڑے کی ڈھلائی کا کام نہ کر پانے پر اس کے ہم عصر مائیکل اینجیلو نے اس پر پھبتیاں بھی کسی تھیں، ڈھلائی کا کام نہ ہو سکنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس گھوڑے کی ڈھلائی کے لیے فراہم کی گئی دھات لیونارڈو نے شہر کو فرانس کے حملے سے بچانے کے لیے توپ بنانے کی خاطر عطیہ کر دی تھی، 1499 کی اس جنگ کو ’’سیکنڈ اٹیلیئن وار‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس دوران فرانسیسی سپاہی لیونارڈو کے گھوڑے کو چاند ماری کے لیے استعمال کرتے رہے۔
ڈیوک آف میلان کا تختہ الٹنے کے بعد لیونارڈو اپنے معاون سالائی اور ریاضی دان دوست لیو کا کے ہم راہ وینس چلا گیا۔ وینس کے دربار میں اسے فوجی آرکی ٹیکٹ اور انجنیئر کی جگہ ملی جس کے فرائض میں شہر کو بحری حملوں سے بچاناتھا۔
1500 میں لیونارڈو، فلورنس لوٹ آیا تو اس کے گھرانے کو سروائیٹ فرقے کے تارکین دنیا کی معروف خانقاہ انون زیاتا میں مہمان ٹھہرایاگیا۔ یہاں اسے ایک ورکشاپ بھی دی گئی، جہاں اس نے آٹھ تہوں کا ایک دبیز کاغذ بنایا اور اس پر چارکول اور چاک سے سفید و سیاہ The Virgin and child with St:Anne and St.John the Baptist نامی شہ کار تخلیق کیا جو لندن کی نیشنل گیلری میں موجود ہے۔ لیونارڈو نے اسے جب نمائش کے لیے پیش کیا تو دیکھنے کے لیے لوگ یوں ٹوٹے پڑتے تھے جیسے وہاں کوئی عظیم الشان میلہ لگا ہو۔
1502 میں لیونارڈو نے پوپ الیگزینڈر ششم کے بیٹے سیزر بورجیا کی ملازمت اختیار کی۔ اس نے بھی لیونارڈو کو فوجی آرکی ٹیکٹ اور انجنیئر کی حیثیت دی۔ لیونارڈو پورے اطالیہ میں سیزربورجیا کے ساتھ گھومتا رہتا۔ اس دوران لیونارڈو نے ان علاقوں کا نقشہ تیار کیا جو سیزر کے زیرنگیں تھے۔ آئی مولا (Imola) نامی شہر بسانے کا منصوبہ بھی تیار کرکے دیا۔ اس زمانے میں نقشہ سازی ایک کم یاب فن تھا۔ اس کا کام دیکھ کر سیزربورجیا نے اسے چیف ملٹری انجنیئر کے عہدے پر فائز کر دیا۔ اس نے وادیٔ چی آنا کا نقشہ بھی تیار کیا، اس نقشے کا مقصد یہ تھا کہ سیزر کو اپنے زیرنگیں علاقوں کا درست ادراک رہے اور اس کے دفاع کے لیے بہتر حکمتِ عملی تیار کرسکے۔ اس نے ایک ڈیم کا نقشہ بھی تیار کیا، تاکہ فلورنس کو سمندر سے سارا سال پانی ملتا رہے۔
18 اکتوبر 1503 کو لیونارڈو ایک فلورنسلوٹ آیا اور گلڈ آف سینٹ لیوک میں دوبارہ شامل ہو گیا۔ یہاں ایک دیوار کو مصور کرنے پر اس نے دو سال لگا دیے۔ اس پینٹنگ کو The battle of Anghari کہاجاتا ہے۔ اس دیوار کے عین مقابل دیوار پر مائیکل انجیلو بھی اپنا شہ کار تخلیق کر رہا تھا جس کانام The battle of cascina ہے۔ لیونارڈو کا یہ شہ کار گم شدہ ہے تاہم اس کی نقول موجود ہیں۔ یہ دونوں عظیم مصور ایک دوسرے کے رقیب تھے۔ شومئی قسمت کہ لیونارڈو کو اس کمیٹی میں شامل کیا گیا جس نے مائیکل اینجیلو کے تخلیق کردہ ’’ڈیوڈ‘‘ نامی 17 فٹ بلند مجسمے کی تنصیب کے لیے جگہ کا تعین کرنا تھا حال آں کہ لیونارڈو اس کے حق میں نہیں تھا لیکن بہ دلِ نخواستہ اسے یہ کام کرنا پڑا۔ سنگ مرمر سے تراشا گیا یہ مجسمہ فلورنس کی ایک گیلری میں محفوظ ہے، اس کی جگہ اب اس کی نقل نصب ہے۔
1506 میں اسے میلان واپسی کا خیال آیا تاہم وہ زیادہ دیر اس شہر میں نہیں رہ سکا کیوں کہ 1504 میں اس کا باپ چل بسا تھا تاہم 1507 میں باپ کی جائداد پر اپنے بھائیوں کے ساتھ مسائل سلجھانے کے لیے اسے ایک بار پھر فلورنس آنا پڑا۔1508 میں وہ میلان لوٹ گیا اور سانتابابیلا کے قریب واقع اپنے ذاتی گھر میں مقیم ہو گیا۔
ستمبر 1513 سے 1516 تک لیونارڈو نے زیادہ تر وقت ویٹی کن سٹی (روم) میں گزارا۔ اس شہر میں اس کے دو عظیم ہم عصر مصور رفائیل اور مائیکل اینجیلو سرگرم تھے۔
اکتوبر 1515 میں فرانسس اول نے ایک بار پھر میلان پر قبضہ کر لیا تاہم لیونارڈو کا احترام برقرار رکھا اور اس سے فرمائش کی کہ وہ اس کے لیے ایک مشینی شیر بنائے جو حرکت کر سکتا ہو اور اس کی چھاتی میں ایک کھڑکی ہو جو خود کار طور پر کھلے تو اس کے اندر سے سوسن کے پھول جھانکنے لگیں، معلوم نہیں لیونارڈو نے شاہ فرانس کو ایسا شیر بنا کر دیا یا نہیں تاہم 1516 میں اسے ایک نہایت اعلیٰ درجے کی ملازمت مل گئی۔ اسے شاہی محل کے قریب ہی ایک شان دار رہائش دی گئی۔ اسی جگہ اس نے اپنی زندگی کے آخری تین برس آرام و آسائش میں گزارے۔ فرانس کا بادشاہ فرانسس اول اس کے قریبی دوستوں میں تھا۔ بتایاجاتا ہے کہ 2 مئی 1519 کو جب اس پر جاں کنی کا عالم طاری تھا تو اس کا سر بادشاہ کے بازوؤں میں تھا۔ مرنے سے کچھ دن پہلے اس نے ایک مذہبی پیش وا کو بلوا کر گناہوں کا اعتراف (Confession) کیا اور برکت حاصل کی۔ اس نے وصیت کی تھی کہ اس کے جنازے کے ساتھ بھکاری چلیں گے۔ اس کی باقیات میں سے اس کے شہ پارے، آلات مصوری، لائبریری اور نقدی ملزی (Melzi) کو ملی جب کہ اس نے اپنے شاگرد دوست سالائی اور اس کے ملازم باتستا کے لیے اپنے انگوروں کے باغ کا آدھا حصہ چھوڑا، بھائیوں کو زمین اور اپنی خدمت گار کو بہت قیمتی فر کا سیاہ چوغہ دیا۔ اسے سینٹ ہیوبرٹ کے گرجا میں سپرد خاک کیا گیا۔
بادشاہ نے اس کے مرنے پر اسے خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا تھا ’’دنیا میں کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہوا جو لیونارڈو سے زیادہ صاحبِ علم ہو، وہ صرف عظیم مصور اور ماہر تعمیرات ہی نہیں، ایک بڑا فلسفی بھی تھا‘‘۔
لیونارڈو رینے سانس (چودھویں تا سترھویں صدی) کے اوائلی برسوں کی ایک بہت بوقلموں شخصیت تھا۔ وہ اپنے عہد کا ایک بہت بڑا موجد تھا، بہت خوب صورت جسم کا مالک اور فیاض شخص تھا۔ مورخ وساری کا کہنا ہے کہ وہ اعلیٰ مرتبت روح کے ساتھ ایک انتہائی کشادہ ذہن رکھتاتھا، اس کا انوکھا پن دوسروں کے لیے بہت پرکشش تھا، زندگی کا بہت احترام کرتا تھا، غالباً اسی لیے زندگی بھر گوشت کھانے سے مجتنب رہا۔ اس کا ایک مشغلہ یہ بھی تھا کہ وہ پنجرے میں بند پنچھی منہ مانگے داموں خریدتا اور آزاد کر دیتا تھا۔
اس کے دوستوں میں سے اکثر نے تاریخ میں بڑا مقام پایا۔ ان میں اپنے وقت کا عظیم ریاضی دان لیوکا ڈی بورگو بھی تھا، جس نے لیونارڈو کے اشتراک سے ’’ڈی ڈیوائین پروپورشنے‘‘ (1490) میں تصنیف کی۔ لیوکا جدید عہد کی Accounting کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ خواتین کی طرف رجحان کم ہی رکھتا تھا تاہم تین خواتین، سیسیلا، بترائیس اور ازابیلا کے نام اس کی دوستوں میں ملتے ہیں۔ ان تینوں کو اس نے مصور بھی کیا ہے۔ سیسیلا گیلیرانی کو اس نے The lady with an Ermine کے نام سے مصور کیا، جو محفوظ ہے۔
لیونارڈو اپنی شخصیت پر پردہ ڈالے رکھتا تھا۔ اپنے دو شاگردوں ملزی اور سالائی کو بہت عزیز رکھتا تھا۔ اس پر ہم جنس پرستی کے الزام کا کوئی شاہد یا ثبوت موجود نہیں ہے، جس شخص کانام اُس سال کے عدالتی ریکارڈ میں درج ہے وہ لیونارڈو کے بہ جائے لائن آرڈو ہے۔
اس کے شاگردوں میں سالائی نے بھی نام پیدا کیا۔ سالائی اس کے پاس 10 سال کی عمر میں شاگرد ہوا اور اگلے 30 برس تک اسی کے پاس رہا۔ لیونارڈو کا شہ کار Jhon the Baptist کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس تصویر کے لیے سالائی ہی ماڈل بنا تھا۔ سالائی نے اپنے استاد کی شہرہ آفاق ’’مونالیزا‘‘ کے مقابل ’’برہنہ مونا لیزا‘‘ تخلیق کی، جو محفوظ تو ہے تاہم نام نہیںبناپائی۔ لیونارڈو کے انتقال کے بعد ’’مونالیزا‘‘ سالائی ہی کے حصے میں آئی تھی۔ فرانسسکو ملزی بھی اس کا چہیتا شاگرد تھا، لیونارڈو نے اپنی جائداد سے اسے بھی حصہ دیا تھا۔
وِرجن اینڈ چائلڈ وِد سینٹ این:
اس تصویر میں بھی پس منظر میں لینڈ سکیپ ہے۔ مقدسہ مریم اپنی والدہ این کی گود میں بیٹھی ہیں اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو تھامنے کی کوشش کر رہی ہیں جو ایک میمنے کے ساتھ غیر محتاط انداز میں کھیل رہے ہیں جب کہ جناب این بیٹی کو شفقت سے دیکھ رہی ہیں۔ معروف مصور ویسرمین نے اس شہ کار کو ’’سانس لینے کی حد تک حسین‘‘ قرار دیا ہے۔ اس تصویر کو بھی بے تحاشا نقل کیاگیا اور اس کے متاثرین میں لیونارڈو کا رقیب مائیکل انجیلو تک شامل ہے۔
ڈرائنگ:
لیونارڈو محض مصور ہی نہیں ایک بہت بڑا ڈرائنگ ماسٹر بھی تھا۔ اس کی ڈرائنگ کے متعدد نمونے بھی محفوظ ہیں۔ اسے جو چیز، واقعہ یا منظر متاثر کرتا وہ اس کی چھوٹی چھوٹی ڈرائنگز بناتا رہتا۔ اس کے بہت سے شہ کار رنگوں میں ڈھلنے سے پہلے ڈرائنگز کی صورت میں ہیں۔ اس کی سب سے مشہور ڈرائنگ The Vitruvian Man ہے، جس میں جسم انسانی کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے، فرشتے کا سر (Head of thd Angel) اور چٹانوں کی دوشیزہ (The Virgin of the rocks) بھی اس کی اعلیٰ ترین ڈرائنگز میں شمار کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ اس کی ’’دی وِرجن اینڈ چائلڈ وِد سینٹ این اینڈ سینٹ جون دی بیپٹسٹ‘‘ اور ایک پھول دار بوٹی نجم بیت اللحم (Star of Bethlehem) کی مطالعاتی ڈرائنگ اور درجنوں دیگر محفوظ ہیں۔
مشاہدہ
لیونارڈو کا مشاہدہ بہت گہرا ہے، وہ اپنے آس پاس کی چیزوں کو انتہائی گہری نظر سے دیکھاکرتا تھا۔ مورخ وساری لکھتا ہے کہ جب اسے کسی چہرے میں کوئی دل چسپ بات نظر آتی تو سارا سارا دن اس کے تعاقب میں رہتا اور مختلف زاویوں سے اس کا مشاہدہ کرتا تھا۔ اپنے کام کے آغاز میں اس نے کپڑے پر بھی کام (Drapery) کیا۔
لیونارڈو کے ہاں فن اور سائنس میں کوئی خط فاصل نہیںہے۔ وہ دونوں کو سکے کے دو رخ سمجھتا تھا۔ اسی لیے وہ جہاں ایک بہت بڑے مصور کے روپ میں سامنے آتا ہے وہیں وہ ایک بہت بڑا انجنیئر بھی ہے۔ اس کی ڈرائنگز میں بے شمار مشینوں کی ڈرائنگز ہیں، اس نے رائٹ برادران سے بہت پہلے اڑن مشین کی ڈرائنگ بنائی تھی جو آج کے ہیلی کاپٹر کے مشابہ ہے۔ اس کے محفوظ کام کا پھیلاؤ 13 ہزار صفحات پر مشتمل ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ روزمرہ کی زندگی کے مشاہدے سے کسی لمحہ غافل نہیں رہتا تھا۔
کوڈیکس لیسٹر:
کوڈیکس، لیونارڈو کے 30 سائنسی رسالوں کا مجموعہ ہے، اسے کوڈیکس ہیمر بھی کہا جاتا ہے۔ کوڈیکس نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ رسالے رول آف لسٹر تھامس کوک نے 1719 میں خریدے تھے۔ نومبر 1994 میں بل گیٹس نے یہ مجموعہ نیلامی 3 کروڑ 80 لاکھ 2 ہزار 500 ڈالر میں خریدا تھا۔ اس مجموعہ کے مطالعے سے لیونارڈو کی عبقریت کے بہت سے پہلو نقاب کشا ہوتے ہیں۔ اس میں اس نے پانی، پتھر، متحجرات، فلکیات، ماورائی روشنیوں اور متعدد موضوعات پر اپنے مشاہدات درج کیے ہیں۔
تحیراتِ لیونارڈو
لیونارڈو کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ دو ہتھا تھا، جب چاہتا بایاں ہاتھ کام میں لاتا، جب چاہتا دایاں، بعض اوقات دونوں ہاتھوں سے کام کرتا۔ اپنی بعض تحریروں کو خفیہ رکھنے کے لیے وہ دائیں جانب سے لکھتا تھا (یاد رہے کہ یورپی زبانیں بائیں جانب سے لکھی جاتی ہیں) اس کی ایسی تحریریں آئینے میں دیکھنے پر ہی پڑھی جا سکتی ہیں لہٰذا مرئی تحریریں (Mirrored writing) کہلاتی ہیں۔ وہ ایک ہی وقت میں دائیں اور بائیں ہاتھ سے الٹا/ سیدھا لکھنے پر قادر تھا۔ اس کی تحریروں کا بڑا حصہ مرئی انداز میں ہے۔
موسیقار
لیونارڈو کا زمانہ ایسا تھا کہ اس کی بنائی ہوئی دھنیں محفوظ نہ رہ سکیں تاہم حال ہی میں ایک اطالوی موسیقار گیوآنی ماریا پالا نے لیونارڈو کی مشہور عالم تصویر ’’دی لاسٹ سپر‘‘ سے 40 سیکنڈ کا ایک سازینہ ڈی کوڈ کیا ہے، جس کا تاثر کچھ مرثیے یا دعائے بخشش کا سا ہے۔ ایک بار اس نے ایک صاحبِ اختیار کی فرمائش پر گھوڑے کے سر سے مشابہ بربط بنایا تھا جو اسی کے ہاتھ ڈیوک آف میلان کو خیر سگالی کے طور پر پیش کیا گیا تھا، جہاں اس نے اسے بجانے کا مظاہرہ بھی کیا۔ وہ تاروں والے ساز بجانے میں یکتا تھا۔ بہت ممکن اس کی تحریروں سے اس کے مزید سازینے بھی مل جائیں۔
مائیکل انجیلو سے رقابت:
مائیکل انجیلو یوں تو عمر میں لیونارڈو سے 23 سال چھوٹا تھا لیکن اپنی تیزی اور طراری کے باعث لیونارڈو کے لیے چیلنج بنتا تھا۔ لیونارڈو کی طبیعت میں آج کا کام کل پر چھوڑنے کا عنصر تھا جس کے باعث اس نے کئی کام پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچائے۔ دونوں فن کار مصوری اور مجسمہ سازی میں صاحبِ کمال تھے اور مدیچی کے دربار سے وابستہ بھی۔ مائیکل کو اس کی عبقریت سے چڑ ہوتی تھی وہ جہاں جاتا وہاں اسے لیونارڈو کے ذکر سے پالا پڑتا تھا۔ وہ اسے ’’گھوڑوں کا ماڈلر‘‘ قرار دیتا تھا۔ یہ گھوڑے کے دھاتی مجسمے کے اس نامکمل منصوبے کی طرف اشارہ تھا جو لیونارڈو نے میلان کے ایک چوک میں نصب کرنا تھا لیکن وہ اپنی افتاد طبع کے باعث محض مٹی کا مجسمہ ہی بنا پایا تھا، اس پر آگے کام کرنا باقی تھا لیکن اسی دوران فرانسیسی فوجوں نے علاقے پر قبضہ کرکے اسے تباہ کر دیا۔ ادھر لیونارڈو کہا کرتا تھا یہ مجسمہ سازوں اور بیکری کے کاری گروں میں کچھ فرق نہیں۔ اس پر مائیکل انجیلو بڑی توہین محسوس کرتا۔ انجیلو ایک تو نوجوان تھا اس پر تنک مزاج اور نازک طبع بھی تھا سو خوب چیخم دھاڑ کرتا تھا۔
چرچ کے ساتھ اختلاف:
لیونارڈو کیتھولک چرچ سے کچھ زیادہ لگاؤ نہیں رکھتا تھا، خاص طور پر ان لوگوں کو ہدف تنقید بناتا تھا جو مذہب کا ملائی رجحان رکھتے تھے۔ بعض محقیقین اسے منکر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاہم حقیقت یہ ہے کہ وہ مذہب کے مروجہ تصور کا باغی تھا اور مذہبی پیش واؤں سے ایسے سوالات کرتا تھا جو انہیں زچ کر دیتے تھے۔
علم الابدان
لیونارڈو کو علم الابدان (Anatomy) کا خبط تھا۔ اس کی بیاضوں میں اس حوالے سے متعدد ڈرائنگز اور مشاہدات موجود ہیں تاہم اس کی سٹڈی ڈرائنگ وٹروویئن مین (Vitruvian Man)یقیناً ایک شاہ کار ہے۔ یہ ڈرائنگ نہ صرف بدنی مشاہدے پر مبنی ہے بل کہ اس میں آرکی ٹیکچرل رموز بھی ہیں۔ اس کا نام دراصل اٹلی کے بہت بڑے آرکی ٹیکٹ وٹرو ویئس کے نام پر ہے۔ اس حوالے سے لیونارڈو کی 240 ڈرائنگز دست یاب ہیں۔ اس مقصد کے لیے اس نے خود لاشوں کی چیرا پھاڑی کی اور بہ نظر غائر جو دیکھا اس کو ڈرائنگ کیا۔ واضح رہے کہ لاشوں کی چیرا پھاڑی کیتھولک چرچ کے مطابق ناجائز تھی۔ یہ چرچ کے ساتھ اس کا ایک اور اختلاف تھا۔
شمسی توانائی
کیسی عجیب بات ہے کہ شمسی توانائی پر اس نے آج سے پانچ صدیاں پہلے بات کی اور اپنے مشاہدات پیش کیے، اڑن کھٹولے پر کام کیا اور اس کی ڈرائنگ بھی بنائی۔ پانی اور اس سے توانائی کے حصول کا ذکر کیا، اس مقصد کے لیے مشینوں کے مطالعاتی خاکے بھی بنائے۔ جنگی مشینوں پر کام کیا۔ اس کے عہد میں گو عملی طور پر کوئی کام نہ ہو سکا لیکن اس کے صدیوں بعد یہ تسلیم کیاجا رہا ہے کہ لیونارڈو نے جو بنیادیں فراہم کی تھیں، وہ بہ ہرحال قابل عمل تھیں۔
ہمیشہ دیر کر دینے والا
لیونارڈو اپنی اس کم زوری کے باعث خاصا بدنام رہا۔ وہ کوئی بھی کام بروقت نہیں کر سکتا تھا اور اکثر کام نامکمل چھوڑ دیتا تھا۔ یہ جدید عہدکی خوش بختی ہے کہ اس کے ہاتھ اس کا اتنا ڈھیر کام ہاتھ آگیا۔ وہ دراصل پرفکشنسٹ (Perfectionist) تھا مثال کے طور پر مونالیزا سے وہ کبھی مطمئن نہیں ہوا اور ایک پوری دہائی اس کو وقتاً فوقتاً بناتارہا۔ یہ بہ ہرحال کہا جاتا ہے کہ اگر وہ اس مزاج کا مالک نہ ہوتا تو اتنا کام بھی نہ کر پاتا۔
مونا لیزا (1500)
مونالیزا لیونارڈو کا ایک ایسا مقبولِ خواص و عوام شہ کار ہے کہ جس کی مصوری کی تاریخ میں دوسری کوئی مثال موجود نہیں۔ اب تک اس کی کروڑوں نقول اور پوسٹرز بن چکے ہیں۔ اس کی سب سے پہلی خصوصیت تو یہ ہی ہے کہ یہ بہ ظاہر انتہائی سادہ ہے۔ یہ چھوٹا سا پورٹریٹ یا پلرپینل پر روغنی رنگوں سے بنایا گیا ہے۔ لیونارڈو نے اسے تین سال (1503-1506) میں مکمل کیا۔ اسے وہ اپنی سب سے اعلیٰ تخلیق قرار دیتاہے۔ اس تصویر کا ایک نام لا جیوکونڈا (La Gioconda) بھی ہے۔ خاتون کا اصل نام گیرار دینی یا جیراردینی تھا جو فرانسیسکو جیوکونڈا کی اہلیہ تھی۔ تصویر میں خاتون، اہرامی انداز (Pyramid Designe) میں ایک آرام دہ کرسی پر براجمان ہے۔ اس عہد میں پورٹریٹ بنانے کا یہ ہی انداز تھا۔ لیونارڈو نے اس کے ہاتھ آرام کرسی کے دستے پر رکھے بنائے جس سے یہ تاثر بنا کہ وہ ایک فاصلے پر دکھائی دیتی ہے اور اس کے آسن سے یہ بھی محسوس کرایا کہ خاتون کچھ ریزرو موڈ میں ہے۔
تاہم وہ براہِ راست آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ رہی ہے جس سے لگتا ہے کہ ابھی وہ کچھ کہے گی۔ اس میں شیڈوز اور بالوں وغیرہ جیسی تفصیلات کی باریکیاں بے مثال ہیں۔ لیونارڈو نے اس میں نئے میتھڈ یہ استعمال کیے کہ آئوٹ لائن نہیں کھینچی بل کہ شیڈز کا استعمال گوشہ ہائے لب و چشم پر کیا۔ اس کے علاوہ مونا لیزا اپنے عہد کی اولیں تصویروں میں سے ہے جس میں پس منظر میں لینڈ سکیپ بنایاگیا ہے۔ ایک خیال یہ ہے کہ مونا لیزا تصویر ہونے کے موقع پر یرقان میں مبتلا تھی، ایک قیاس یہ ہے کہ حاملہ تھی۔ اس کی مسکراہٹ کی پراسراریت بھی خاصے کی چیز ہے۔ یہ کچھ خندۂ زیر لب کا شائبہ دیتی ہے۔ یہ مسکراہٹ ناظر کے موڈ کے مطابق کبھی نشاطیہ ہوتی ہے توکبھی اداس۔ تصویر میں مونا لیزا کی بھنویں نہیںہیں۔ 2007 میں ایک فرانسیسی انجینئر نے دعویٰ کیا ہے کہ مونا لیزا کی بھنویں امتداد زمانہ کے باعث مٹ گئی ہیں جب کہ بعض محقیقین کا دعویٰ ہے کہ لیونارڈو کے عہد میں بھی بھنویں نوچنے (Plucking) کا رواج تھا۔ بعضے اسے لیونارڈو کا اپنا پورٹریٹ قرار دیتے ہیں۔
اپنی طویل تاریخ کے دوران یہ شہ کار بارہا چرایا گیا۔ یہ عظیم شہ کار پیرس کے میوزیئم میں 1797 سے محفوظ ہے۔