توکّل، اﷲ کے پسندیدہ اور مقرب لوگوں کے مقامات میں سے ایک مقام ہے جس کا درجہ بہت بلند ہے۔ اﷲ پاک سے تعلق کی بنیاد اﷲ کی وحدانیت پر ایمان لانے کے بعد سے ہی شروع ہو جاتی ہے لیکن ہماری عملی زندگی میں بہت بار ایسا ہوتا ہے کہ مشکلات درپیش ہوتی ہیں اور قدم قدم پر ایمان ڈگمگاتا ہے۔
خاص طور پر اس وقت جب آپ کے حالات ناساز و کشیدہ ہوں ان سے مقابلہ کرنے کے لیے اﷲ پر بھروسا، اس کی جانب اپنے آپ کو سپرد کر دینا اور اس کی رضا میں راضی ہو جانا لازم ہو جاتا ہے۔ ایسا کرنے کی صورت میں ایمان ارتقاء پذیر ہوتا ہے۔ توکّل کا مفہوم و مطلب ’’کامل بھروسا کرنا‘‘ کے ہیں۔ ہر اچّھی بُری تقدیر کے لیے اﷲ پر کامل یقین رکھنے کا نام ہی توکّل ہے۔ اﷲ تعالیٰ متوکّل لوگوں کو اپنا دوست رکھتا ہے اور جو شخص اﷲ پر توکّل کرتا ہے اس کے واسطے بس اﷲ ہی کافی ہوجاتا ہے۔
حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ (حالت کشف یا خواب میں) میرے سامنے امُتّوں کو (ان کے انبیائؑ کے ساتھ) پیش کیا گیا (یعنی ہر نبیؑ کو اس کی اُمّت کے ساتھ مجھے دکھایا گیا) پس (جب ان انبیائؑ نے اپنی امّتوں کے ساتھ گزرنا) شروع کیا تو میں نے دیکھا کہ ایک نبیؑ کے ساتھ صرف ایک شخص تھا (یعنی دنیا میں اس کی پیروی کرنے والا اس ایک شخص کے علاوہ اور کوئی نہیں ہوا) اور ایک نبیؑ ایسا تھا کہ اس کے ساتھ دو شخص تھے۔
ایک اور نبیؑ گزرا تو اس کی معیت میں پوری ایک جماعت تھی اور پھر ایک نبیؑ ایسا بھی گزرا کہ اس کے ساتھ ایک بھی شخص نہیں تھا (یعنی دنیا میں اس کی پیروی کسی ایک شخص نے بھی نہیں کی) اس کے بعد میں نے اپنے سامنے ایک بہت بڑا انبوہ دیکھا جو آسمان کے کناروں تک پھیلا ہوا تھا، اتنی بڑی اُمّت دیکھ کر میں نے امید باندھی کہ یہ میری اُمّت ہو گی لیکن مجھے بتایا گیا کہ یہ حضرت موسیٰؑ اور ان کی اُمّت کے لوگ ہیں کہ جو ان پر ایمان لائے تھے پھر مجھ سے کہا گیا کہ ذرا آپؐ نظر اٹھا کر دیکھیے! میں نے جو نظر اٹھائی تو اپنے سامنے دیکھا کہ ایک بڑا ہجوم بے پناہ ہے جو آسمان کے کناروں تک پھیلا ہوا ہے (میں اتنا بڑا انبوہ دیکھ کر مطمئن ہوگیا اور اﷲ کا شکر ادا کیا) پھر مجھ سے کہا گیا کہ آپؐ اس انبوہ کو بس نہ سمجھیے، آپؐ اس سے کہیں زیادہ لوگوں کو دیکھیں گے۔
ذرا ادھر ادھر یعنی دائیں بائیں بھی نظر گھما کر تو دیکھیے! چناں چہ میں نے دائیں بائیں نظر گھما کر دیکھا تو دونوں طرف بے پناہ ہجوم تھا جو آسمان کے کناروں تک پھیلا ہوا تھا۔ اس کے بعد مجھ سے کہا گیا کہ آپؐ کے سامنے اور دائیں بائیں آسمان کے کناروں تک جو انسانوں کا ایک بحر بیکراں نظر آتا ہے یہ سب آپؐ کی امّت کے لوگ ہیں اور ان کے علاوہ (یعنی منجملہ ان لوگوں کے یا ان کے علاوہ مزید) ان کے آگے ستّر ہزار لوگ ایسے ہیں جو جنّت میں بغیر حساب کے جائیں گے اور یہ وہ لوگ ہوں گے جو نہ تو بدفالی لیتے ہیں، نہ منتر پڑھواتے ہیں اور نہ اپنے جسم کو دغواتے ہیں اور اپنے پروردگار پر توکّل کرتے ہیں۔
یہ سُن کر ایک صحابی عکاشہؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ﷺ! اﷲ تعالیٰ سے دعا فرمائیے کہ وہ مجھے ان لوگوں میں شامل فرما دے جو خدا پر توکّل کرتے ہیں اور بغیر حساب جنّت میں داخل ہوں گے۔ حضور ﷺ نے دعا فرمائی: الٰہی! عکاشہ کو ان لوگوں میں شامل فرما دے۔ پھر ایک اور شخص کھڑا ہوا اور اس نے بھی عرض کیا کہ اﷲ تعالیٰ سے دعا فرمائیے کہ وہ مجھے ان لوگوں میں شامل فرما دے۔ آپؐ نے فرمایا: اس دعا کے سلسلے میں عکاشہ تم پر سبقت لے گئے۔ (مفہوم: بخاری و مسلم)
آپؐ کے فرمان گرامی کا مفہوم ہے کہ اگر تم لوگ اﷲ تعالیٰ پر ایسے توکّل رکھو جیسا کہ توکّل رکھنے کا حق ہے تو حق تعالیٰ تمہیں اس طرح روزی پہنچائے گا جس طرح پرندوں کو پہنچاتا ہے، جو صبح کو بھوکے ہوتے ہیں اور شام کو سیر ہو کر گھر لوٹتے ہیں۔
حضرت ابُویعقوب بصری ؒ نے کہا ہے کہ میں مکہ معظمہ میں دس دن تک بھوکا رہا، آخر بے تاب ہوکر باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ زمین پر ایک شلجم پڑا ہے، جی میں آیا کہ اُٹھا لوں تو میرے دل سے آواز آئی دس دن سے بھوکا ہے آخر سڑا ہوا شلجم تجھے نصیب ہُوا! میں نے ہاتھ کھینچ لیا اور مسجد چلا آیا کچھ دیر میں ایک شخص آپہنچا اور پٹاری بھری روغنی ٹکیاں، شکر اور مغز بادام لاکر میرے سامنے رکھ دیے اور کہنے لگا کہ میں دریائی سفر میں تھا ناگہانی طوفان آیا میں نے منّت مانی کہ اگر میں سلامت بچا تو یہ چیزیں اس درویش کو دوں گا جس سے پہلے پہل ملاقات ہوگی۔
میں نے ہر ایک میں سے مٹھی بھر کی مقدار لے کر کہا کہ باقی تجھے بخش دیا پھر میں نے اپنے دل میں کہا کہ دیکھ اﷲ تعالیٰ کیسا رازق مطلق ہے کہ دریا میں ہوا کو تیری روزی کے بندوبست کا حکم دیا، جب کہ تُو دوسری جگہ سے تلاش کرتا پھر رہا تھا۔
روٹی سے بھوک کا علاج اور پانی سے پیاس کا علاج اور کہیں آگ لگ جائے تو پانی ڈالنے سے علاج کرنا ہی جائز ہے، ایسے علاجوں سے دست بردار ہونا توکّل نہیں بل کہ ناجائز ہے۔ حضور اکرم ﷺ کے یہ قول و فعل ہیں کہ قول یوں ہیں فرمایا: اے اﷲ کے بندو! دوا کا استعمال کرو اور فرمایا کہ کوئی بیماری ایسی نہیں ہے کہ جس کی دوا نہ ہو سوائے بڑھاپے کے۔ اور آپ ﷺ کے افعال یہ ہیں کہ آپ ﷺ ہر رات کو سرمہ لگاتے، ہر مہینے پچھنے لگواتے، دوا کا استعمال فرماتے اور جب سر مبارک میں درد ہونے لگتا تو آپ ﷺ مہندی لگاتے اور جسم مبارک میں کہیں بھی زخم ہوجاتا تو وہاں مہندی رکھ لیتے۔
دواؤں میں بھی تو اﷲ تعالی ہی نے تو اثر رکھا ہے۔ جو بھی اسباب مہیا ہوں انہیں اس یقین کے ساتھ اختیار کرنا چاہیے کہ کرنے والی ذات صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ کی ہے اسباب تو ہمیں اختیار کرنے چاہیں لیکن ہمارا بھروسا صرف اور صرف اﷲ کی ذات پر ہی ہونا چاہیے کہ وہ اسباب کے بغیر بھی چیز کو وجود میں لا سکتا ہے اور اسباب کی موجودی کے باوجود اس کے حکم کے بغیر کوئی بھی چیز وجود میں نہیں آسکتی۔ اﷲ تعالیٰ حضرت ایوب ؑ کو شفا دے سکتے تھے مگر دنیا کے دارالاسباب ہونے کی وجہ سے حضرت ایوب ؑ کو حکم دیا کہ وہ کچھ حرکت کریں یعنی کم از کم اپنے پیر کو زمین پر ماریں اور دوسرا یہ کہ جو بھی اسباب مہیا ہوں ان کو اس یقین کے ساتھ اختیار کرنا چاہیے کہ اﷲ تعالیٰ کی قدرت اور حکم سے کم زور اسباب کے باوجود کسی بڑی سے بڑی چیز کا وجود بھی ہو سکتا ہے۔
حضرت مریم ؑ کو حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش کے وقت کھجور کے تنے کو ہلانے کا حکم دیا گیا۔ کجھور کا مضبوط تنا چند طاقت ور مرد حضرات بھی آسانی سے نہیں ہلا سکتے لیکن صنفِ نازک نے اس کم زور سبب کو اﷲ کے حکم سے اختیار کیا تو سوکھے ہوئے کھجور کے درخت سے حضرت مریم ؑ کے لیے تازہ کھجوریں یعنی غذا کا انتظام ہوگیا۔
اسباب، ذرائع اور وسائل کا استعمال کرنا ہی حکم الہی اور منشائے شریعت بھی ہے۔ اﷲ پاک ہمیں بھی ایسے ہی توکل کی توفیق دے جیسا کہ اُس پر توکل کا حق ہے۔
The post توکّل کا اصل مفہوم appeared first on ایکسپریس اردو.