انسانی تہذیب کے آغاز ہی سے عورت اپنا معاشی کردار ادا کرتی آئی ہے، جس کی ابتدا کھیتوں کھلیانوں میں کام اور دست کاری سے ہوئی تھی۔
یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور دیہی سماج کی معاشی زندگی نسوانی ہاتھوں کی محنت ہی سے نمو پاتی ہے، مگر شہری معاشروں میں صنف نازک ایک عرصے تک صرف امورخانہ داری نبھاتی رہی، لیکن گذشتہ صدی کے دوران خاص طور پر مغرب میں آنے والی فکری تبدیلی اور صنعتی انقلاب نے ہر شعبے میں عورت کو مرد کے شانہ بہ شانہ لاکھڑا کیا۔
ہمارے شہری معاشرے میں ایک عرصے تک عورت کا معاشی کردار بہت محدود تھا، لیکن اب ایسا نہیں۔
کارخانوں میں اپنی محنت کے جوہر دکھانے سے دفاتر میں اپنی صلاحیتوں کے اظہار تک اب حوا کی بیٹی ہمارے ہاں ہر شعبے میں متحرک ہے اور خود کو منوا رہی ہے۔ یوں وجود زن ثابت کر رہا ہے کہ وہ تصویر کائنات میں رنگ ہی نہیں، قوموں کی معاشی تگ ودو میں بھی پوری طرح شریک ِ کار ہے۔
خاص طور پر نجی اداروں میں خواتین کی بہت بڑی تعداد اہم مناصب پر فائز رہتے ہوئے اپنی ذمے داریاں بہ خوبی نبھارہی ہے۔ بالخصوص انتظامی امور نبھاتے اور مَردوں کے درمیان رہ کر کام کرتے ہوئے ایک عورت جس اعتماد کی ضرورت ہوتی ہے وہ اسے صلاحیتوں کے ساتھ لباس بھی عطا کرتا ہے۔
اس حوالے سے مغربی طرز کے ملبوسات خاص کر پینٹ شرٹ نسوانی وجود کو اعتماد کا بھرپور احساس دیتے ہیں۔ جدید تراش خراش کے یہ لباس اعتماد کے ساتھ شخصیت کو دل کشی اور وقار بھی عطا کرتے ہیں۔