یہ لوگ کس صنعتی انقلاب کی بات کرتے ہیں، کونسی تہذیبی ترقی کے ترانے گاتے ہیں۔ اس تبدیلی اور ترقی نے توہم سے ہمارے خاندانی رشتے، دیہاتی زندگی، برادری، شراکت داری، روایات، رسم ورواج اور اجتماعیت چھن لی ہے۔
ہم آج ایک ایسے تہذیبی ویرانے میں کھڑے ہیں، جہاں محبت، ہم دردی، انصاف اور یگانگت کے پھولوں کے بجائے لالچ، خودغرضی، ذات پسندی کا گردوغبار اڑ رہا ہے آدمی تو بہت آگے جا چکا ہے، لیکن آدمیت اور انسانیت بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ ہم ایک ایسے سیاسی اور اقتصادی نظام میں گھرے ہوئے ہیں، جو اپنے پیروں اور اپنی توانائی کے بجائے دوسروں کی بیساکھیوں کے سہارے کھڑا ہے۔
سیاسی لحاظ سے بھی اور اقتصادی اور تہذیبی لحاظ سے بھی ہم غیروں کی سوچ اور خیال کے پروردہ ہیں جس نے ہم سے ہمارا خاندان، ہماری برادری، ہماری دوستیاں اور عزیزداری جیسی اقدار چھین لی ہیں۔ رشتے داری نے دکان داری اور محبت نے بیوپار کی شکل اختیار کرلی ہے، مشین، ٹیکنالوجی اور سائنسی معاشرے نے انسان کو تخلیقی قوت، جذبات اور احساسات سے عاری کرکے بیگانگی ذات کا شکار بنا ڈالا ہے ہر کوئی مشین کی طرح چل رہا ہے اور مشینوں کے باہمی رشتے نہیں ہوتے، مشینوں کا کوئی کلچر، کوئی اقدار روایات اور رسم و رواج نہیں ہوتے۔
مشینیں تو صرف ایک چیز جانتی ہیں اور وہ ہے پیداوار اور سرمایہ، چاہے اس کے لیے انہیں کسی کے ہاتھ کاٹنے پڑیں یا جسم کا کوئی اور حصہ جدا کرنا پڑے۔ پہلے زمانے میں سرمائے کا جنون نہیں تھا، آبادی اور فطرت میں فاصلے نہیں تھے، اب اگر کوئی روپوں سے بوری بھی بھرلے وہ پیار وہ فضاء او مزہ کہاں سے لائے گا جو محبت، یگانگت، اتفاق، خلوص اور بے لوث خدمت کا جذبہ ’’اشر‘‘ اور ’’غوبل‘‘ (اردو میںگاہ) میں تھا۔
سادہ خوراک ہوا کرتی تھی، دودھ، مکھن، لسی، دیسی گھی، کھیر۔ آج ان چیزوں کے کھانے میں وہ ذائقہ اور مٹھاس بھی نہیں رہی، شاید کچھ لوگ ہمیں ماضی پرست، قدامت پسند یا روحانی جلاوطن کا نام دیں جیسا کہ آج کل اس قسم کی باتیں کرنے والے پر اس طرح کی اصطلاحات چسپاں کرنے کا فیشن بن گیا ہے، لیکن اگر ہم اپنے ارد گرد ماحول اور اپنے معاشرے پر نظر دوڑائیں اور تہذیبی یا ثقافتی نقطہ نظر سے اپنے ماضی کی ان روایات، اقدار اور رسم و رواج کا اپنے قومی اجتماعی مزاج اور نفسیات کے تناظر میں پرکھیں جو روایات واقدار ہمارے آباؤاجداد سے بتدریج ہم تک پہنچی ہیں تو شاید ہم ان باتوں کی معنویت اور افادیت کو سمجھ لیں گے اور اس بات پر متفق ہوجائیں گے کہ ہماری کچھ روایات واقدار اتنی مثبت، ترقی پسند اور انقلابی ہیں کہ اگر انہیں ہم آج بھی اپنائیں تو ہماری زندگی کی ترقی اور خوش حالی کی رفتار اور بھی تیز اور زندگی متحرک ہوسکتی ہے۔
پختونوں کے سماج میں ’’اشر‘‘ کرنے، کرانے اور بلوانے کی روایت ایک بہت ہی قدیم روایت ہے اور غالباً اس دورِغلامی کی ترقی یافتہ اور اتقائی شکل ہے، جب محنت کی تنظیم حتمی طور پر طاقت پر انحصار کرتی تھی۔ زراعت کے فروغ اور انسانی نابرابری کی وجہ سے معاشرتی طور پر کم زور لوگ طاقت ور لوگوں کے کام میں لگ گئے۔ اس طرح ہم انسانی تاریخ میں دیکھتے ہیںکہ جب ایک قوم جنگ میں فتح حاصل کرتی تو مفتوح قوم کو ختم کرنے کے بجائے تاوان کے طور پر اسے غلام بنالیتی اور اس سے بیگار لیا جاتا۔ غالباً صدیوں کی غلامی کی وجہ سے انسان نے جانفشانی کی روایات اور عادات پیدا کیں اور غلامی اس نظم وضبط کا حصہ بن گئی، جس کی بدولت انسان محنت کے لیے تیار ہوا اور بالواسطہ اس نے تمدن کو فروغ دیا۔
اب جہاں تک پختو ن معاشرے میں اشر کی روایت کا تعلق ہے یہ ایک الگ تصور کی غماز ہے۔ سب سے پہلے تو لفظ ’’اشر‘‘ کی بات کرتے ہیں جو خالص پشتو زبان کا لفظ ہے، یہ شرکت اور شراکت کا ایک بہترین نمونہ اور مظاہرہ ہے۔ ماضی کی طرح آج بھی خیبرپختون خوا کے بیش تر علاقوں اور دیہات میں لوگ ایک دوسرے کے کام کاج میں مدد کرنے کی غرض سے ’’اشر‘‘ کرتے ہیں۔
خصوصاً فصل کی کٹائی، گھرکی چھت پر مٹی کا لیپ کرنے فصل کی گوڈی کرنے اور اس طرح دیگر زرعی اور معاشرتی کاموں میں لوگ اب بھی ایک دوسرے کے ساتھ ’’اشر‘‘ کرتے ہیں۔ البتہ آ ج اور کل کے اشر میں جو اہم فرق محسوس کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح پہلے زمانے کے لوگوں کی زندگی سادہ تھی اسی طرح ان کی خوراک بھی اصل اور سادہ ہوتی تھی۔
اُس وقت اشر میں شریک افراد کے لیے خالص دیسی گھی، خالص دودھ کی بنی ہوئی کھیر، دیسی مرغ، اصل لسی سے بنی ہوئی کڑھی، جس میں مکھن بھی استعمال ہوتا تھا، گندم کی فصل کے کاٹنے کے بعد اس فصل کی گہائی کے دوران گاہ (جسے پشتو میں غوبل کہتے ہیں) بھی اس قسم کی خوراک ہوا کرتی تھی اور چائے کے ساتھ پراٹھوں کے بجائے تندور پر پکی روٹیاں اور ان روٹیوں پر دیسی گھی کی ترائی اور میدہ گُڑ ڈالا جاتا تھا، جسے پشتو میں ’’غڑی‘‘ کہتے ہیں۔ خصوصاً ’’غوبل‘‘ گندم کی پکی ہوئی فصل کو گاہ کرنے کے دن جس کی فصل کی گہائی ہوتی تھی اس شخص کے گھر میں خوشی کا سماں نظرآتا تھا۔
بالکل اسی طرح جس طرح صدیوں پہلے کئی قوموں اور قبیلوں میں یہ ایک عام رواج تھا کہ فصل کی کٹائی کے دوران وہ اپنی خوشی کا اظہار مختلف طریقوں سے کیا کرتے تھے، جس نے بعد میں موسمی میلے اور تہوار کی شکل اختیار کرلی۔ اس ضمن میں اردو زبان کے نام ور ادیب اور دانشور علی عباس جلال پوری اپنی کتاب رسوم اقوام میں لکھتے ہیں کہ ’’ موسمی میلے زرعی معاشرے میں ہر کہیں منائے جاتے تھے۔ یہ میلے آج بھی بالعموم بونے یا کاٹنے پر لگتے ہیں اور بارآوری کی یادگار ہیں۔ اراضی کی زرخیزی کو بحال رکھنے کے لیے رسمیں وضع کی گئی ہیں۔ یونان، ایران اور ہندوستان میں لوگ نفیریوں کی آواز اور ڈھولوں کی تھاپ پر ناچتے ہوئے ان میلوں میں شرکت کیا کرتے تھے۔ صنعتی انقلاب کے بعد زرعی دور کے یہ تہوار خواب و خیال ہوتے جارہے ہیں۔‘‘
’’اشر‘‘ کی رسم بھی ہمارے ہاں ایک ایسی زرعی روایت کے طور پر آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود چلی آرہی ہے جو نہ صرف ہمیں اتفاق، اتحاد، تنظیم کاری اجتماعیت اور شراکت سکھاتی ہے بل کہ فصل کاٹنے یا فصل کی گہائی ’’غوبل‘‘ کے دن تو یہ عمل ایک تفریح بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس دن اچھی خوراک ملتی ہے، خوشی کا موقع بھی ہوتا ہے، پورے سال کے بعد گھرانے کے سب افراد خوشی کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ اگرچہ صنعت یعنی مشین نے ’’غوبل‘‘ (گہائی) کو بالکل ختم کردیا کیوںکہ تھریشر کی ایجاد اور استعمال نے آج ’’غوبل‘‘ کو ماضی کا ایک حصہ بنادیا ہے۔
آج کی نوجوان نسل غوبل کے نام سے تو واقف ہے لیکن غوبل کیا تھا اور کس طرح کیا جاتا تھا اس سے موجودہ نسل بالکل ناواقف ہے۔ وہ تو اس نام کو صرف اس حد تک جانتی ہے کہ روزمرہ زندگی میں یہ لفظ غوبل اکثر اوقات شوروغل اور ایک دوسرے کے ساتھ مستی کرنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ ’’داسہ غوبل مو جوڑ کڑے دے‘‘ ( یہ تم لوگوں نے کیا مستی اور شور کا ماحول بنا رکھا ہے ) چوںکہ ہمارا موضوع ’’اشر‘‘ ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ اشر کی ساخت اور طریقۂ کار پر بھی کچھ روشنی ڈالی جائے۔
اشر اجتماعی طور پر کسی کے ساتھ کام کرنے اور مزدوری نہ لینے کو کہتے ہیں۔ اجتماعی طور پر ایک دن میں کسی کے لیے ایک کام نمٹانا اشر کہلاتا ہے۔ زمین داروں اور کاشت کاروں میں عام دستور ہے کہ کسی مسجد یا حجرے کی تعمیر کے سلسلے میں پہاڑ سے پتھر لانے، مٹی اور اینٹیں ڈھونے یا زمینوں میں ہل چلانے، فصل کاٹنے اور گاہنے کے لیے اشر بلواتے ہیں۔ اشر کے ہر کام میں بڑی سرگرمی اور قوت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ خصوصاً گہائی (غوبل) کے وقت جب کہ مئی، جون کے دنوں میں گیہوں پر بیلوں کو پھراتے تھے تو ان بیلوں کے ساتھ بیلوں کی جوڑی کے مالک خود بھی ہاتھ میں لاٹھی جسے پشتو میں ’’چوکہ‘‘ کہا جاتا ہے اس گول دائرے میں پھیرتے اچھلتے کودتے اور پیروں سے گندم کی فصل کو روندتے تھے۔ گاہنے کا کام عموماً صبح سے لے کر ظہر، عصر اور شام تک کیا جاتا تھا۔
گہائی یعنی غوبل کے لیے بیلوں کے پیچھے جو کیکر یا ببول کی موتی دوشاخی سہ شاخی ڈگالی باندھی جاتی تھی۔ اسے پشتو میں درمڑ، جامبرہ اور چپہ بھی کہا جاتا تھا پھر اس کے بعد بھوسا کو محفوظ کرنے کے لیے اس سے بوساڑہ بنایا جاتا ہے، کہنے کا اصل مطلب یہ ہے کہ زراعت سے وابستہ ہماری جتنی بھی رسوم وروایات اور تہوار تھے یا اب بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔ ان روایات سے ہمیں ایک اچھا سبق یہ ملتا ہے کہ کس طرح ہمارے آباؤاجداد آپس میں ایک دوسرے کو چاہتے تھے کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ اپنی ہم دردی کا عملی مظاہرہ کرتے تھے۔
ان کے درمیان محبت بھائی چارے، اتفاق اور یکجہتی کی جو فضاء قائم تھی۔ اس فضاء کو مشین نے کس طرح نفرت اور بیگانگی سے آلودہ کردیا ہے۔ ’’اشر‘‘ کی روایت سے ہمیں جو درس ملتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ کام کاج میں بلامعاوضہ شرکت کرنا۔ چوںکہ آج زمانہ صنعتی انقلاب کی طرف گام زن ہے۔ زرعی معاشرے کی روایات، آلات و اوزار ختم ہوتے جارہے ہیں۔
ان روایات اور آلات و اوزار کے ساتھ لوگوں کے جو تصورات، احساسات وجذبات وابستہ تھے وہ بھی ختم ہوتے جارہے ہیں، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے ماضی کی ان روایات، اقدار، رسوم و رواج، تہواروں اور میلوں کو صرف ماضی پرستی یا قدامت پسندی کا نام دے کر مسترد نہ کریں، بل کہ ان کو آج کے تناظر میں جانچیں، پرکھیں اور ان میں جو بھی مثبت اثرات، تصورات اور احساسات ہمیں ملتے ہیں چاہیے کہ ہم انہیں ایک جدید شکل و صورت دے کر ان میں ایک نئی تہذیبی اور ثقافتی روح ڈال دیں۔
زندہ قومیں اپنے ماضی کی درخشندہ روایات، تاریخ اور اقدار پر نازاں ہی نہیں ہوتیں بل کہ ان سے سبق بھی حاصل کرکے زندگی کی دوڑ میں دیگر قوموں کے ساتھ شانہ بشانہ ترقی اور خوش حالی کے میدان میں کھڑے ہونے کے لیے جدوجہد کرتی ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ دیگر قوموں میں جتنا بھی علم اور شعور آتا ہے وہ اپنی روایات و اقدار میں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق انقلابی تبدیلیاں لاکر تہذیب و تمدن کے میدان میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتی ہیں جب کہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں تعلیم یافتہ طبقہ جتنا بھی علم اور تعلیم حاصل کرتا ہے وہ اپنی ثقافت اور اپنی تاریخ و تہذیب سے دور ہوتا جاتا ہے۔
اس کے مقابلے میں ہمارے معاشرے کا وہ طبقہ جوان پڑھ اور ناخواندہ ہے وہ اپنی تاریخ ثقافت اور تہذیب کے ساتھ والہانہ لگاؤ اور محبت رکھتا ہے، لیکن جدید علم اور شعور نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنی ان روایات و اقدار میں کوئی انقلابی تبدیلی نہیں لاسکتا۔ یہ کام دنیا کے ہر معاشرے میں تعلیم یافتہ اور اہل علم ہی کرتے ہیں اور جب تک ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ اپنی تاریخ اور ثقافت کے ساتھ بے رخی کا برتاؤ کرتا رہے گا تو ہم اپنی تاریخ اور ثقافت کے بجائے غیروں کی تہذیب کے زیراثر رہیں گے۔ صنعتی انقلاب کے بعد زرعی دور کے یہ تہوار خواب و خیال ہوتے جارہے ہیں، جن کا احیاء بہت ضروری ہے۔
The post ’’اشر‘‘ کی رسم۔۔۔ماضی سے حال تک appeared first on ایکسپریس اردو.