اسلام آباد: چند دن پہلے یعنی 8 فروری 2014کو چین نے ایک روبوٹ مشن کام یابی کے ساتھ چاند کی سطح پر اتارا تو اس کے ساتھ ہی چین، امریکا اور سابق سوویت یونین کے بعد چاند پر کام یاب مشن اتارنے والا تیسرا ملک بن گیا۔
بلا شبہ یہ چین کی تاریخ کے سنہرے لمحات تھے، جب ایک تاریک آڈیٹوریم میں تقریباً 250 چینی ماہرین ایک پروجیکٹر سے برآمد ہو کر سکرین پر پڑنے والی نیلی روشنی اور اس سے نمودار ہوتی تصاویر اور الفاظ کو بہ غور دیکھنے میں مصروف تھے اور چین کے’’لیونر پروجیکٹ‘‘ کے بانی اویانگ زی ژوان کے خلائی پروگرام کے مستقبل سے متعلق گفت گو کو بھی انہماک سے سن رہے تھے۔
عالمی رائے عامہ کے مطا بق جب امریکا اور دوسرے ممالک اپنے اپنے خلائی پروگرامز کے اخراجات میں نمایاں کمی کر رہے ہیں تو چین اس شعبے میں زیادہ سرمایہ کاری کر کے خود کو ایک ابھرتی ہوئی سپر طاقت کے طور پر منوانا چاہتا ہے۔ یہ سب کچھ ایسے ہی ہے جب امریکا اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ ہو رہی تھی، تب خلائی تحقیق کے شعبے میں سنگ میل عبور کرنے کے لیے دونوں ممالک ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششوں میں مصروف رہتے تھے۔ چاند کی سطح پر اترنے والے نئے روبوٹ مشن ’’چانگ ای تھری جیڈ ریبٹ‘‘ سے حاصل کردہ تازہ تصاویر بھی سامنے آرہی ہیں اور کچھ ایسی خیالی تصاویر بھی دکھائی جا رہی ہیں، جن میں چاند کی سطح پر ایک خلانورد نظر آ رہا ہے، جو وہاں بڑے فخر کے ساتھ چین کا تاروں بھرا سرخ پرچم گاڑ رہا ہے۔
گذشتہ ہفتے بیجنگ میں معروف چینی سائنسی ویب سائٹ گوکر کی جانب سے نوجوان چینی خلائی ماہرین کے ساتھ چینی خلائی پروگرام کے سابق سربراہ 78 سالہ اویانگ زی ژوان کی ملاقات کا انعقاد بھی کیا گیا تھا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ چین کی کیمیونسٹ پارٹی کی سینٹرل کمیٹی نے ہماری بھرپور حوصلہ افزائی کی اور کر رہی ہے جس کی وجہ سے، اب ہم چاند سے بھی آگے جائیں گے، اب چین بھی ’’ ڈیپ اسپیس ایکسپلوریشن‘‘ کی اہلیت کا حامل ہو چکا ہے، وہ دن دور نہیں جب چین پورے نظام شمسی کو مسخر کرلے گا۔ اویانگ کی رنگ برنگی تصاویر سے مرصع اس پریزنٹیشن کو ملک بھر میں خوب سراہا جارہا ہے اورچین میں چاند پر کمند ڈالنے کے اس عمل کو قومی سطح پر قابل فخر کارنامہ سمجھا جارہا ہے۔ چینی عوام کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں چین امریکا کے شانہ بہ شانہ کھڑا ہو چکا ہے۔
بیجنگ میں قائم انٹرنیشنل اسپیس انسٹیٹیوٹ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ماؤ ریسیو فلانگا کے مطابق ’’مغربی خلائی سائنس دان یہ بات جانتے ہیں کہ چین خلا کو مسخر کرنے کی اہلیت کا حامل ہے اور اسی لیے وہ چینی سائنس دانوں اور خلائی پروگرام کا تعاون چاہتے ہیں، اب چینی سمجھتے ہیں کہ وہ امریکا اور روس کے مدمقابل کھڑے ہو چکے ہیں اور چین ایک عالمی طاقت بننے والا ہے‘‘۔
واضح رہے کہ 2010 میں چین نے پہلی مرتبہ ایک انسان کو خلا میں بھیجا تھا جب کہ، چین 2020 تک زمینی مدار میں گردش کرنے والا اپنا ایک مستقل خلائی اسٹیشن بھی قائم کرنا چاہتا ہے۔ یہ وہ وقت ہو گا جب امریکا، روس، جاپان، کینیڈا اور یورپ کے خلائی اسٹیشنز اپنی مدت پوری کر چکے ہوں گے اور دوسری جانب یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ امریکا نے دنیا بھر میں جاری اپنی غیر ذمہ دارانہ حرکتوں پر اربوں ملین ڈالر لٹانے کے بعد معاشی توازن برقرار رکھنے کے لیے حال ہی میں خلائی تحقیق کے شعبے میں ناسا کو مہیا کیے جانے والے سرمائے میں نمایاں کمی کر دی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو چین کی یہ پیش کش خاصی قابل غور ہے کہ اس نے اپنے ’’سیٹلائٹ نیوی گیشن نیٹ ورک‘‘ کی دیگر ممالک کو استعمال کی دعوت دے دی ہے۔ چینی ماہرین جانتے ہیں کہ چین کا تیار کردہ سیٹلائٹ نیویگیشن سسٹم نہ صرف ملک کے لیے سماجی، معاشی اور فوجی حوالے سے ایک اثاثہ ثابت ہو گا بل کہ چینی سیٹلائٹ نیویگیشن ایجنسی کے مطابق ایشیا کے دیگر ممالک بھی اس سے مستفید ہو سکیں گے۔
گذشتہ سال روس کے ذرائع ابلاغ نے چین کی خلائی تسخیر پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے لکھا تھا ’’ امریکا اور سوویت یونین کے بعد چین تیسرا ملک ہے جس نے چاند کی سطح پر اترنے کی خاطر زمینی آلہ بھیجا ہے۔ چاند گاڑی کو وسط دسمبر 2013 تک چاند کی سطح پر اترنا چاہیے، جہاں سے وہ چاند کی مٹی کے نمونے لے گی اور کارآمد اطلاعات زمین پر اپنے مستقر کو بھجوائے گی۔ اگلا قدم چینی خلا بازوں کو چاند پر بھیجنے کے حوالے سے ہوگا مگر یہ مرحلہ اخراجات اور تحقیق کے لحاظ سے خاصا دقت طلب ہے لہٰذا 2020 کے بعد ہی طے ہو پائے گا۔ بیجنگ نے اس کام کو ایسے وقت پر کیا ہے جو، یونی پولر یا یک رخی دنیا میں چین کے دوسری عالمی قوت ہونے کی دلیل ہے، ایسی قوت جو مستقبل میں اپنے بڑے مد مقابل امریکا سے نہ صرف تجارت اور معیشت کے میدان میں مقابلہ کرنے کے قابل ہو رہی ہے بل کہ خلائی صنعت میں بھی وہ اسی راہ پر گام زن ہے ۔
روس کے ذرائع ابلاغ نے خصوصی طور پر چینی لانچنگ سنٹر کے ڈائریکٹر زہانگ زہن زہونگ کے بیان کو نمایاں کیا تھا ’’ہم خلا سے متعلق اپنے خواب پورے کرتے رہیں گے جو، قومی حیات نو کے بارے میں چین کے خواب کا ایک حصہ ہوگا، قابل غور بات یہ ہے کہ “عظیم چینی خواب” چین کے نئے حکام، جن کی سربراہی شی جن پنگ کر رہے ہیں، کے کلیدی پروگراموں کی بنیاد ہے‘‘۔
اس پر روسی مبصّر سرگئی تومن نے بھی یوں اظہار کیا تھا ’’امریکا اور روس سے خلائی صنعت میں پیچھے رہ جانے والے چین نے گزرنے والی صدی کی آخری دو دہائیوں میں خلائی میدان میں بے تحاشا رقم خرچ کی ہے، اسی وجہ سے اسے آگے بڑھنے میں دوسروں کا سر چکرا دینے والی کام یابیاں نصیب ہوئی ہیں اور یوں چین آج عالمی خلائی دوڑ میں تیسرے مقام پر آ چکا ہے‘‘۔ یاد رہے کہ چین نے اس منصوبے کا عملی مظاہرہ 2011 میں کیا تھا لیکن وہ ناکامی سے دوچار ہوگیا تھا تاہم حریفوں کو یہ امید ہرگز نہیں تھی کہ اتنی بری طرح منہ کے بل گرنے کے باوجود چین اس سے زیادہ توانائی کے ساتھ اٹھے گا اور از سر نو، یعنی 2014 کے آغاز میں ہی اپنی کمند چاند کی کگر پر ڈالنے میں کام یاب ہو جائے گا۔
اب تو چین کا اپنا میڈیا بھی کچھ یوں کہ رہا ہے کہ جب خلائی پروگرامز سے متعلق بات ہو رہی ہو تو یہ صرف سائنس اور ٹیکنالوجی کا ہی معاملہ نہیں ہوتا بل کہ وسیع تر سیاست بھی کہیں نہ کہیں نظر میں رکھی جاتی ہے۔ چین نے خلائی تحقیق کے ضمن میں دوسرے ملکوں اور سب سے پہلے بھارت کے ساتھ تعاون کرنے میں دل چسپی ظاہر کی تھی مگر اس خواہش میں عالمی منڈی میں خلائی ٹیکنالوجی اور خدمات میں ایشائی ملکوں کے بڑھتے ہوئے مفادات بھی لامحالہ شامل ہوں گے۔
ایک معتبر اطلاع کچھ یوں بھی ہے کہ چین کے علاوہ دنیا کے 25 سے زیادہ ممالک خلا میں پہنچنے اور وہاں اپنی جگہ بنانے کے لیے درمیانے اور طویل مدتی منصوبے ترتیب دے چکے ہیں ، ان ملکوں میں بھارت، اسرائیل، ایران اور پاکستان نمایاں طور پر سامنے آچکے ہیں جب کہ، دیگر ملک جلد یا بہ دیر اپنے منصوبوں کا اعلان کرنے والے ہیں۔ 2 ستمبر 2013 کو اسرائیل نے روس کی مدد سے ایک مصنوعی سیارہ ’’عاموس 4‘‘ کے نام سے خلا میں چھوڑا تھا، جو بڑی کام یابی کے ساتھ تل ابیب کو مواصلاتی میدان میں معاونت فراہم کررہا ہے۔ اسرائیل کی ایک کمپنی کا کہنا تھا کہ مصنوعی سیارہ ٹیلی ویژن چینلز کی نشریات میں مدد فرہم کرنے کے ساتھ ساتھ یورپ، امریکا، مشرق وسطیٰ، افریقا، روس اور جنوب مشرقی ایشیا کے بارے میں مواصلاتی رابطوں میں بھی معاون ثابت ہوگا۔ یاد رہے کہ اسرائیل اب تک چار مصنوعی مواصلاتی سیارے خلا میں بھیج چکا ہے۔ مواصلاتی سیاروں کے علاوہ اسرائیل اب تک چھے جاسوس سیارے بھی خلا میں بھیج چکا ہے اور کچھ عرصہ پیش تر ’’شاویٹ‘‘ راکٹ کے ذریعے خلا میں بھیجے گئے ’’وویک ۔9‘‘ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے ایران کی نگرانی پر مامور کیا گیا ہے۔
اسی طرح پاکستان بھی 2014 تک خلا میں ریموٹ سینسنگ سیٹلائیٹ سسٹم بھیجنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے خلائی اور اعلیٰ ماحولیاتی ریسرچ کمیشن سپارکو نے 2014 تک جدید ریموٹ سینسنگ سیٹلائیٹ سسٹم کو خلا میں بھیجنے کی منصوبہ بندی کر لی ہے جو، قومی اور بین الاقوامی صارفین کی مصنوعی سیارے سے منظر کشی کی ضروریات کو پورا کرسکے گی۔ سپارکو رواں برس کے آخر میں آپٹیکل سیٹلائیٹ بھی خلا میں چھوڑنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان جنوری 2003 میں ’’ پاکسیٹ ون‘‘ کے ساتھ ہی خلائی دوڑ میں شامل ہوچکا تھا، پاکستان کا خلائی پروگرام 2040 تک متعدد مصنوعی سیاروں کی لانچنگ پر مشتمل ہوگا۔
خلا نوردی کے تین عالمی نظام
چینی نیویگیشن سیٹلائیٹس پر مشتمل نظام ’’بیئی ڈو‘‘(Beidou) امریکی گلوبل پوزیشننگ سسٹم (GPS) اور روس کے گلوناس نظام کا حریف بن چکا ہے۔ چین نے قریباً ایک سال پہلے فرانسیسی ساختہ مواصلاتی سیارہ کام یابی سے خلا میں روانہ کیا تھا، یہ مصنوعی مواصلاتی سیارہ ایشیا، افریقا اور یورپ میں صارفین کے لئے ٹیلی کمیونیکیشن کی خدمات فراہم کررہا ہے۔ بیئی ڈو کے اب تک 16 مصنوعی سیارے زمین کے اوپر خلا میں موجود کام کر رہے ہیں اور اس وقت یہ ایشیا پیسیفک علاقے میں نیویگیشن کی سہولت فراہم کر رہا ہے تاہم 2020 تک اس کے سیٹلائیٹس کی تعداد 30 تک پہنچ چکی ہوگی جس کے بعد، اس کی نیویگیشن سروس پوری دنیا کے لیے دست یاب ہو گی۔ چین کے سیٹلائیٹ نیویگیشن آفس کے ڈائریکٹر رین چینگ چی کے مطابق یہ نظام سویلین اور فوجی مقاصد کے لیے یک ساں فائدہ مند ہوگا۔
انہوں نے کہا ’’بیئی ڈو نیٹ ورک‘‘ کی تکمیل ملکی سیکیوریٹی سے متعلق مسائل کا حل ثابت ہو گی جن میں، معاشی سلامتی اور وسیع پیمانے پر معاشرتی سلامتی سے متعلق معاملات بھی شامل ہیں۔ بلا شبہ یہ انفراسٹرکچر، ملٹری اور سویلین، دونوں مقاصد کے لیے ہے، اس نظام کی فوجی افادیت کے بارے میں تو ظاہر ہے کہ ملکی وزارت دفاع ہی جانتی ہے تاہم اس کو بہت سے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، یہ نظام اب ٹیکنالوجی اور سروسز، دونوں حوالے سے مکمل طور پر دست یاب ہے؛ گو ابھی ہم گلوبل کوریج فراہم نہیں کر رہے تاہم اس نظام سے منسلک ایپلیکیشنز دنیا بھر میں پھیل رہی ہیں‘‘۔ بیئی ڈو نظام کی کام یاب تکمیل کے بعد چینی فوج کو غلطی سے مبرا اور خودمختار نیوی گیشن نظام مل جائے گا۔ یہ ٹیکنالوجی؛ میزائلوں، بحری جنگی جہازوں اور ہوائی جہازوں کی رہ نمائی کے لیے انتہائی اہم ہوتا ہے۔ اس طرح تیزی سے طاقت حاصل کرتی ہوئی چینی فوج کے قوت میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
چینی سرکاری میڈیا کے مطابق سینیئر فوجی حکام یہ کہ چکے ہیں کہ بیئی ڈو نظام چین کے لیے انسان بردار خلائی پرواز اور چین کے چاند پر بھیجے جانے والے تحقیقی مشن سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ چینی حکومت اس نظام کو کاروں، موبائل فون اور دیگر ایپلی کیشنز کے لیے تیزی سے ترقی کرتی ہوئی سیٹلائیٹ نیویگیشن کی صنعت کے لیے بھی تجارتی حوالے سے بہت زیادہ اہم سمجھتی ہے۔ چین ایشیا کے دیگر ممالک کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے کہ وہ بیئی ڈو کی سروسز کو بغیر کسی بھی طرح کی ادائی کے بغیر استعمال کریں ۔۔۔ یاد رہے کہ امریکا بھی اپنے سویلین جی پی ایس سسٹم کی سروسز مفت فراہم کررہا ہے ۔ پاکستان میں چین کے اس خلائی نظام کی سروسز کو بہتر بنانے کے لیے اسٹیشنز کی تعمیر کا کام جاری ہے جب کہ تھائی لینڈ نے بیئی ڈو کی سروسز کو قدرتی آفات کے بارے میں پیش گوئی کے لیے حاصل کیا ہوا ہے۔