انجنیئر اقبال ظفرجھگڑا نے صوبہ خیبرپختون خوا کے 28 ویں گورنر اور قبائلی علاقہ جات کے آخری چیف ایگزیکٹیو کے طور پر خدمات انجام دیں، وہ پکے مسلم لیگی ہیں، انتہائی مشکل حالات میں بھی انہوں نے مسلم لیگ اور میاں نوازشریف کا ساتھ نہیں چھوڑا، جب سابق صدر پرویزمشرف نے 12 اکتوبر1999ء کو اقتدار کو سنبھالا اور میاں نوازشریف کی حکومت برطرف کی گئی۔
اس وقت کہیں بھی مسلم لیگی راہ نماؤں اور شریف خاندان کو جائے امان نہیں مل رہی تھی، ان حالات میں جب کہ سب اپنے بچاؤ کی فکر میں تھے، لیکن یہ انجنیئر اقبال ظفر جھگڑا ہی تھے جن کی رہائش گاہ کو بیگم کلثوم نواز اور مریم نواز نے اپنے دورہ پشاور کے دوران لیگی ورکروں اور قائدین سے ملاقات کے لیے چنا، وہ نہ تو ’’کُو‘‘سے متاثر ہوئے اور نہ ہی مسلم لیگ(ق) کا قیام ان کے پایہ استقامت میں لرزش پیدا کرسکا بلکہ اسی روز جب پشاور میں مسلم لیگ(ق) کی جنرل کونسل کا انعقاد اور قیادت کے انتخاب کے ذریعے مسلم لیگ کا مزید ایک اور دھڑا تخلیق کیا گیا، اقبال ظفر جھگڑا کی رہائش گاہ پر مسلم لیگ(ن) کی جنرل کونسل کا انعقاد کرتے ہوئے پیغام دیا گیا کہ جو سیاست اور اپنے قائدین سے مخلص ہوتے ہیں وہ اپنی جگہ چٹان کی طرح کھڑے رہتے ہیں۔
مسلم لیگ(ن) نے انہیں دو مرتبہ سینیٹر بنوایا اور جب سردارمہتاب احمدخان گورنر کے عہدے سے مستعفی ہوئے تو اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی نگاہ انتخاب اقبال ظفر جھگڑا پر پڑی اور انہیں صوبے کا گورنر بنایا۔ انہوں نے 4 مارچ2016 ء سے20 اگست2018ء تک خیبرپختون خوا کے 28 ویں گورنر کے طور پر فرائض انجام دیے، آئین میں 25 ویں ترمیم کے تحت قبائلی علاقہ جات کے خیبرپختون خوا میں انضمام کے بعد انہوں نے قبائلی اضلاع کے آخری چیف ایگزیکٹیو کی حیثیت سے ان کے صوبہ خیبرپختون خوا میں انضمام کی سمری پر دستخط کیے۔
پارٹی میں انہیں مرکزی جنرل سیکرٹری کا عہدہ دیا گیا اور انہوں نے اس عہدہ کو خوب نبھایا۔ جھگڑا خاندان کا نام روشن کرنے والوں میں جہاں اس خاندان کے دیگر سپوتوں یعنی افتخار جھگڑا اور سلیم جھگڑا اور اب تیمور سلیم جھگڑا کے نام آتے ہیں وہیں۔ انجنیئر اقبال ظفر جھگڑا کا نام ماہ روشن کی طرح دکھائی دیتا ہے،’’ایکسپریس‘‘ نے ان کے ساتھ موجودہ حالات کے تناظر اور عہد گورنری سے متعلق اہم امور سے متعلق ایک نشست کا اہتمام کیا جس کی روداد ذیل میں پیش کی جارہی ہے۔
ایکسپریس: قبائلی علاقوں کے خیبرپختون خوا میں انضمام کے اقدام کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
اقبال ظفرجھگڑا: پاکستان سے ملحقہ علاقوں کو قبائلی علاقوں میں تقسیم کرنا انگریز کی اپنی ضروریات اور اپنی موجودگی کو دوام بخشنے کے لیے کیا جانے والا اقدام تھا لیکن قیام پاکستان کے بعد وقت کا تقاضا یہی تھا کہ ہر لحاظ سے چاہے وہ تہذیب وتمدن، بول چال اور رسم ورواج ہو، کسی صورت میں بھی قبائلی علاقوں کو قبائلی رکھنا پاکستان اور خصوصاً خیبرپختون خوا کے حق میں نہیں تھا جس کا بین ثبوت یہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی صورت میں 9/11 کے بعد پاکستان بھر میں حالات کو تشویشناک کردیا گیا اور قبائل کو بھی۔
ایکسپریس: کیا اس انضمام کے بعد قبائلی عوام کے مسائل حقیقی معنوں میں حل ہوپائیں گے؟
اقبال ظفرجھگڑا: قبائلی عوام کی پس ماندگی کی بڑی وجہ یہی تھی کہ پاکستان کا حصہ ہونے کے باوجود ان کی کوئی آئینی حیثیت نہ تھی اور یوں وہ ملک کے مالی وترقیاتی پروگرام کا حصہ نہ تھے، اس انضمام سے اب وہ خیبرپختون خوا کا باقاعدہ حصہ بن گئے ہیں اور یوں سالانہ بجٹ میں بھی ان کا پورا پورا حصہ ہوگا اور یوں قبائلی عوام کے تمام مسائل حل کرنے کی ذمہ داری حکومت پاکستان پر عائد ہوگی۔
ایکسپریس: سیاسی نہ ہوتے ہوئے بھی صدر پاکستان اور گورنرز کے عہدے سیاسی ہی ہیں جن پر مرکز میں برسراقتدار پارٹی اپنے من پسند افراد کا تقرر کرتی ہے، کیا اس کے لیے کوئی دوسرا طریقہ کار نہیں ہونا چاہیے؟
اقبال ظفرجھگڑا: بہت اچھا سوال ہے اور یقیناً ہر دوسرے شخص کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے، لیکن ذرا غور سے سوچا جائے تو حکومت اور حزب اختلاف میں توازن رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت میں صدر اور گورنرز کے عہدوں کو جمہوری نظام میں غیرسیاسی بناکر مرکزی وصوبائی حکومتوں پر ایک آئینی دسترس رکھی جائے، ان عہدوں کے غیر سیاسی ہونے سے توازن برقرار رہتا ہے اور برسراقتدار جماعت کو یہ اختیار دینا بھی ضروری ہے کہ وہ اپنا من پسند فرد لے آئے کیوںکہ حکومت کو فیصلے کرنے میں بھی پوری تسلی ہونی چاہیے۔
ایکسپریس: کیا آپ اپنے دورگورنری کی کارکردگی سے مطمٔن ہیں؟
اقبال ظفرجھگڑا: خیبرپختون خوا کی گورنری میرے دور تک نہایت ہی اہم اور بڑی ذمہ دار تھی، کیوںکہ اس وقت قبائلی علاقہ جات کے لیے گورنر کو چیف ایگزیکٹیو کی حیثیت حاصل تھی اور تمام فیصلے کرنا گورنر ہی کی ذمہ داری تھی اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے میں نے اپنی یہ ذمہ داری نہایت ہی احسن طریقہ سے نبھائی اور پھر قبائلی علاقہ جات کے خیبرپختون خوا میں انضمام کی سمری پر دستخط بھی میں نے ہی کیے جو ایک تاریخی فیصلہ تھا اور یہ میرے حصے میں آیا۔
ایکسپریس: آپ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے مرکزی جنرل سیکرٹری رہے ہیں، اس پارٹی نے عروج بھی دیکھا اور زوال بھی، اس کے زوال کی کیا وجوہات ہیں؟
اقبال ظفرجھگڑا: زوال کے باوجود بھی مسلم لیگ(ن) آج بھی ملک کی مضبوط جماعت تسلیم کی جاتی ہے کیوںکہ زوال کی وجوہات جماعتی نہیں بلکہ ملک میں حکومت کی ہیں اور حکومت کے زوال میں قومی اور بین الاقوامی قوتوں کا کردار رہا ہے۔ وقت کے ساتھ مستحکم جمہوریت اور سیاسی بلوغت آنے پر حکومتیں اپنی سمت درست کریں گی۔
ایکسپریس: اس وقت مسلم لیگ(ن) کا سربراہ کون ہے، میاں نواز شریف، شہبازشریف یا پھر مریم نواز؟
اقبال ظفرجھگڑا: سیاسی جماعتوں میں سربراہ سے زیادہ اہمیت قائد کی ہوتی ہے جس کی ضرورت ہر دور میں محسوس کی جاتی ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مسلم لیگ کے قائد میاں نوازشریف ہی ہیں جب کہ موجودہ حالات میں نوازشریف کی ایماء پر ہی جماعت کے سربراہ کی ذمہ داریاں شہبازشریف کو سونپی گئی ہیں جب کہ جہاں تک مریم نواز کا تعلق ہے تو ان کی اپنی حیثیت ہے، وہ نہ صرف یہ کہ وومن ونگ کو سنبھالتی ہیں بلکہ وقتاًفوقتاً انھیں جو بھی ذمہ داریاں دی جاتی ہیں وہ انھیں نبھاتی ہیں۔
ایکسپریس: کیا سابق وزیراعظم محمد نوازشریف کو اسٹیبلشمنٹ کی ہاں میں ہاں نہ ملانے کی سزا مل رہی ہے؟
اقبال ظفرجھگڑا: میاں نوازشریف ملک کے وزیراعظم تھے اور پاکستان کے آئین میں کہیں بھی نہیں لکھا ہوا کہ وزیراعظم، اسٹیبلشمنٹ کی ہاں میں ہاں ملانے کے پابند ہوں گے بلکہ اسٹیبلشمنٹ، وزیراعظم کے فیصلوں پر عمل درآمد کرنے کی پابند ہے، بطور وزیراعظم نوازشریف آئین کی سختی سے پابندی کرتے تھے اور ملک میں حقیقی جمہوریت کے خواہاں تھے۔ تاہم کچھ قوتیں پاکستان کو کم زور کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے میں کام یاب ہوئی ہیں۔
ایکسپریس: کیا واقعی پاکستان تحریک انصاف کو اسٹیبلشمنٹ اقتدار میں لائی ہے، اگر ایسا ہے تو اس سے پہلے بھی تو حکومتیں بنانے اور گرانے میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار رہا ہے، ایسے میں صرف آج کے حکم راں سلیکٹڈ کیوں کہلاتے ہیں، ان سے پہلے والے کیوں نہیں؟
اقبال ظفرجھگڑا: اگرچہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت باقاعدہ انتخابات میں اکثریت لے کر آئی تاہم انتخابات کی شفافیت پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے، تحریک انصاف پر سلیکٹڈ کا دھبا ان کی اپنی ناقص کارکردگی کی وجہ سے لگا ہے۔ حالاںکہ مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں نواز شریف کسی قسم کی رخنہ اندازی کیے بغیر انھیں حکومت کرنے کا پورا موقع فراہم کررہے ہیں۔
ایکسپریس: میاں نوازشریف علاج کے لیے لندن گئے لیکن وہاں بیٹھ ہی گئے ہیں، کیا وہ وطن واپس آئیں گے؟
اقبال ظفرجھگڑا: آپ کے سوال ہی میں جواب واضح ہے، میاں نواز شریف حکومت اور ڈاکٹروں کے مشورے پر ہی علاج کے لیے لندن گئے تھے، اسی دوران کورونا وائرس کی وجہ سے اسپتالوں میں ریگولر امراض کا علاج متاثر ہوا، میاں نوازشریف صحت یاب ہونے کے بعد فوری طور پر وطن واپس آئیں گے۔
ایکسپریس: کیا تمام لیگی دھڑے یکجا ہونے کا کوئی امکان موجود ہے؟
اقبال ظفرجھگڑا: مسلم لیگ(ن) حقیقی مسلم لیگ ہے اور اسے دھڑا نہیں کہا جاسکتا۔ البتہ دیگر دھڑوں کو احساس ہورہا ہے کہ وہ حقیقی مسلم لیگ یعنی (ن) لیگ میں ضم ہوجائیں، قائد مسلم لیگ نواز شریف ہر اس اقدام کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جس میں ملک، قوم اور جماعت کی بہتری ہو۔ اس لیے اگر وسیع تر مفاد میں تمام لیگی دھڑوں کو یکجا ہونا ہو تو میاں نوازشریف اس کا خیرمقدم کریں گے۔
ایکسپریس: میاں نوازشریف تین مرتبہ ملک کے وزیراعظم رہے، وہ ملک اور عوام کے لیے کیا تبدیلی لائے؟
اقبال ظفرجھگڑا: بے شک میاں نواز شریف تین مرتبہ ملک کے وزیراعظم رہے۔ تاہم ان کا ہر دور ادھورا رہا۔ تاہم اس کے باوجود ان کے ادھورے ادوار میں بھی انہوں نے وہ کام اور کارنامے کیے جو اظہر من الشمس ہیں اور ان کی فہرست بہت طویل ہے لیکن ان میں قابل ذکر کام عوام دوست پالیسیاں مرتب کرنا، مستحکم مالی پروگرام دینا، ملک میں موٹرویز اور ہائی ویز کا جال بچھانا، مستحکم بلدیاتی نظام اور سب سے بڑا کام ایٹمی دھماکا کرتے ہوئے پاکستان کو دنیا کی دسویں اور اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بنانا ہے جس سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔
ایکسپریس: کیا آپ نہیں سمجھتے کہ ملک کو درپیش مسائل کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھنا اور مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے؟
اقبال ظفرجھگڑا: ہمارے قائد میاں نواز شریف اور جماعت کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی بشمول پارلیمانی پارٹی آپ کے سوال سے متفق ہے اور ہماری ہمیشہ ہی یہ کوشش رہی ہے کہ سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر مسائل کا حل ڈھونڈیں۔
ایکسپریس: اگر اٹھارویں آئینی ترمیم کو چھیڑا جاتاہے تو اس کے کیا اثرات دیکھتے ہیں؟
اقبال ظفرجھگڑا: اٹھارویں آئینی ترمیم کو پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر منظور کیا اور یہ ترمیم اس لیے متفقہ طور پر منظور کی گئی کہ صوبوں کو اختیار مل سکیں اور وہ اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ سازی کرسکیں، اگر اس ترمیم کو چھیڑا گیا تو یہ کسی بھی طور ملکی مفاد میں نہ ہوگا اور اس سے کئی مسائل جنم لیں گے۔
ایکسپریس: آپ کی پارٹی صوبہ ہزارہ کے قیام کی حمایت کرتی آئی ہے لیکن اس کا قیام عمل میں نہ لاسکی، کیا رکاوٹیں آپ کی راہ میں حائل رہیں؟
اقبال ظفرجھگڑا: مسلم لیگ(ن) استحکام پاکستان کو بے پناہ اہمیت دیتی ہے اس لیے ہزارہ ہو یا دیگر صوبوں کا قیام، موجودہ حالات میں ہرگز ملکی سلامتی ان کے لیے ضامن نہیں ہوسکتی۔
ایکسپریس: آپ کا تعلق پشاور سے ہے، بطور سینیٹر اور گورنر، آپ نے اپنے شہر پشاور کے لیے کیا بڑے کام کیے؟
اقبال ظفرجھگڑا: بحیثیت سینیٹر اور گورنر میں نے صرف پشاور نہیں بلکہ پورے صوبہ اور ملک کے مفاد میں جو پالیسی اپنائی اس میں میرٹ کو اہمیت دی اور ان میں اہم ترین قبائلی علاقوں کے حوالے سے میرٹ پر عمل درآمد کو یقینی بنایا، بحیثیت گورنر خیبرپختونخوا معمول کے امور کے علاوہ قبائلی علاقہ جات کا انضمام، میں اپنی بڑی کامیابی سمجھتا ہوں جس کی بدولت خیبرپختون خوا میں خصوصاً اور ملک بھر میں عموماً دہشت گردی کا خاتمہ اور امن کا قیام ممکن ہوپایا، اس کے علاوہ فاٹا میں اضافی ترقیاتی پروگرام بھی مرتب کیے اور یوں 119.45 ارب روپے کی لاگت کے منصوبے مرکزی حکومت کو بھیجے تاکہ ان منصوبوں کو بجٹ میں شامل کیا جاسکے جب کہ ساتھ ہی سی پیک کے لیے بھی مزید 12 منصوبے ارسال کیے اور فاٹا یونی ورسٹی میں باقاعدہ طور پر کلاسوں کا اجراء کیا۔
پنجاب میں اس وقت کے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے اپنے ہاتھوں سے کئی خدمت سینٹرز قائم کیے اسی طرز پر میاں شہبازشریف کی معاونت سے ہم نے خیبر میں خدمت سینٹر اور شمالی وزیرستان میں دانش سکول کا قیام کیا جس کے لیے پنجاب حکومت کی جانب سے معاونت کی گئی، پشاور ڈویژن میں گیس سپلائی اور آمدورفت میں سڑکوں کی منظوری نمایاں ہے جب کہ فاٹا میں فنی تعلیم کے فقدان کے باعث وہاں سولہ اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا جہاں مختلف کورسز کے ذریعے 11773 نوجوانوں کو فنی تعلیم دی گئی۔
The post اٹھارھویں آئینی ترمیم کو چھیڑنا ملکی مفاد میں نہیں appeared first on ایکسپریس اردو.