عوام کی بے پروائیوں اور انتظامیہ کی غفلتوں کے سبب خدشات کے عین مطابق ’کورونا‘ ملک بھر میں بری طرح پنجے گاڑ چکا ہے۔۔۔
’’کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے!‘‘ کے نعرے سے اب ایسا معلوم ہونے لگا ہے کہ اب ہم نے یہ طے کر لیا ہے کہ کورونا سے یہ ’جنگ‘ ہم گھروں سے باہر نکل کر لڑیں گے۔۔۔ اور اس دو دو ہاتھ کرنے میں فتح وشکست تو بعد کی بات ہوتی ہے، البتہ جانی نقصان کا سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے اور اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ وبا کے باعث روزانہ ہلاکتوں کی تعداد اب 10، 20 سے بڑھ کر 100 سے زائد ہو چکی ہے۔۔۔
بغیر ماسک کے گھروں سے نکل کر تمام احتیاطی تدابیر کو پس پشت ڈالنے والوں نے گھروں میں بند ہو کر محفوظ رہنے کی کوشش کرنے والوں کی زندگی کو سنگین خطرات سے دوچار کر دیا ہے، کیوں کہ ہمارے ہر دوسرے گھر میں بزرگ اور بیمار افراد موجود ہیں، جن میں شوگر، بلڈ پریشر، دمہ اور دل کے مختلف عوارض وغیرہ کے مریض شامل ہیں۔۔۔ جنہیں وقتاً فوقتاً طبی امداد اور معمول کے معائنے کے لیے شہر کے مختلف اسپتالوں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔۔۔
ملک میں ناکافی طبی سہولتوں کے باعث پہلے ہی صورت حال غیر تسلی بخش تھی، اب اس وبا نے معاملہ بہت گمبھیر کر دیا ہے، شہر کے مختلف اسپتالوں میں جگہ ختم ہو چکی ہے۔۔۔ شاید یہی وجہ ہے کہ شرح اموات میں بھی اچھا خاصا اضافہ ہو چکا ہے۔۔۔ بروز اتوار روزنامہ ایکسپریس میں شایع ہونے والی خصوصی رپورٹ میں یہ اضافہ 30 سے 40 فی صد بتایا گیا ہے۔۔۔
ایک طرف لوگوں کو اسپتال میں جگہ نہیں مل رہی، وہیں بہت سے لوگ ازخود بھی اپنے مریض اسپتال لے جانے سے خوف زدہ ہیں۔۔۔ مسلسل جاری غیر یقینی کی صورت حال میں انہیں ڈر ہے کہ مریض کو ’زبردستی‘ کورونا سے متاثرہ قرار دے کر ان سے ’چھین‘ لیا جائے گا۔۔۔ کیوں کہ اسپتالوں سے ایسی شکایات کا سلسلہ مسلسل جاری ہے، جن کی تصدیق یا اصل صورت حال بتانے کی طرف کسی بھی ذمہ دار کی توجہ نہیں۔۔۔۔!
اس بدترین ماحول میں آج بھی ہمارے ہاں ایک ایسا طبقہ موجود ہے، جو خم ٹھونک کر ’کورونا‘ کو کسی طور وبا یا خطرہ ماننے کو تیار نہیں ہے۔۔۔ ظاہر ہے، حکام بالا کو تو فرصت ہی نہیں ہے کہ وہ عوام کو قائل کرے یا اس حوالے سے ان کے تحفطات کا جواب دینے کا سوچے۔۔۔ اس لیے اب صورت حال اس خطرناک نہج کو پہنچ چکی ہے، جس کا خدشہ ہم گذشتہ کئی دنوں سے انہی صفحات پر مستقل کر رہے تھے۔
کراچی میں شرح اموت میں اضافے سے ہمیں 2015ء کا جون یاد آرہا ہے، جب سخت گرمی نے شہر میں اسپتال کے اسپتال بھر دیے تھے اور چند دنوں میں ڈیڑھ ہزار سے زائد جانیں تلف ہوئی تھیں۔۔۔ یہ طبی اموات کسی بھی طرح ’قتل‘ سے تو کم نہ تھیں۔۔۔ لیکن کس کو فکر ہے صاحب۔۔۔! اس سانحے کے بعد کراچی میں طبی سہولتوں کے لیے کوئی قدم نہ اٹھا کر یہ بتا دیا گیا ہے کہ شہریوں کی جان کی اہمیت کس قدر ہے۔۔۔ رہی بات ’کورونا‘ سے نجات کے لیے خصوصی دعاؤں اور عبادات کی، تو اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ جب لوگ اسپتال بھر جانے کے باوجود بھی ’کورونا‘ کوخطرہ نہیں سمجھ رہے تو پھر کیسی توبہ اور کیسی دعا صاحب۔۔۔ اب تو روزانہ رات دس بجے اذانیں دینے کا سلسلہ بھی موقوف ہو چکا ہے۔
اب اس پر مزید اور کیا لکھا جائے۔۔۔ خدا جانے ہم اب کون سے طوفان کا انتظار کر رہے ہیں۔۔۔ کب ہم یک سو ہو کر اس مہلک وبا کے حوالے سے کوئی موثر حکمت عملی ترتیب دیں گے۔۔۔ اب اور کیا حجت تمام ہونا باقی ہے۔۔۔؟ کیا یوں ہی ہمارے وزیر سکون سے بیٹھ کر اندازے لگاتے رہیں گے کہ فلاں مہینا کورونا کے حوالے سے خطرناک ہوگا اور فلاں تاریخ تک متاثرین اتنے لاکھ ہو جائیں گے۔۔۔ اور لوگ ایسے ہی بے بسی میں مرتے رہیں گے۔۔۔؟؟
rizwan.tahir@express.com.pk
The post ہماری بے احتیاطیوں نے گھروں میں محفوظ لوگوں کی زندگی کوبھی داؤ پر لگا دیا! appeared first on ایکسپریس اردو.