جعلی نوٹ دے کر سگریٹ خریدنے کی کوشش کرنا جرم ہے مگر اتنا بڑا نہیں کہ اس کی پاداش میں نہتے انسان کی جان ہی لے لی جائے۔ تاہم دنیا کی اکلوتی سپرپاور میں ایسا ہونا ممکن ہے۔
25 مئی کی شام یہی جرم کرنے پر ایک گورے پولیس افسر نے سیاہ فام جارج فلائیڈ کو بڑی بے دردی سے مار ڈالا۔جارج نوجوانی میں چھوٹے موٹے جرم کرتا رہا تھا۔پھر اسے احساس ہوا کہ وہ گناہ کی راہ پر گامزن ہے۔ چناں چہ اپنا آبائی شہر چھوڑ کر نئے شہر، منیاپولس آگیا تاکہ نئی زندگی کا آغاز کرسکے۔ اب وہ اکثر اوقات سیاہ فاموں کو لیکچر دیتا تھا کہ تعلیم و ہنر اپنا کر اپنی قسمت بدلیں اور جرائم سے دور رہیں۔ مگر امریکی قانون نے اسی سیاہ فام مبلغ کی گردن پہ بڑے جابرانہ انداز سے اپنا گھٹنا رکھ دیا جو اپنی کمیونٹی میں مردوزن کو اچھائی و بھلائی کی طرف بلا رہا تھا۔
پولیس افسر ڈیرک چاوین نے مجبور و مقہور جارج کے بدن پر کسی آقا و مالک کی طرح گھٹنا رکھ کر وہ منفی ذہنیت یا سائیکی آشکارا کردی جس سے امریکی سفید فاموں کی اکثریت سوا سو سال گزر جانے کے باوجود چھٹکارا نہیں پاسکی۔یہ کہ وہ آج بھی سیاہ فاموں کو اپنا زرخرید غلام سمجھ کران سے حقارت آمیز اور تعصبانہ سلوک کرتے یہں۔ امریکا کی سفید فام اکثریت منفی ذہنیت سے اس لیے نجات حاصل نہیں کرسکی کہ دور جدید میں بھی امریکی اشرافیہ یا طبقہ ایلیٹ میں شامل بہت سے سفید فام سیاہ فاموں کے لیے تعصب رکھتے اور انہیں دوسرے درجے کا شہری سمجھتے ہیں۔امریکی ایلیٹ طبقے نے 1865ء سے 1968ء کے دوران بادل نخواستہ،دباؤ کی وجہ سے سیاہ فام عوام کو حقوق دیئے ورنہ وہ اس کے حق میں نہیں تھا۔
رحم کھانا یہاں عجوبہ ہے!
امریکا میں چار کروڑ سے زائد سیاہ فام بستے ہیں۔ یہ کل آبادی (تقریباً تیتیس کروڑ) کا 12.8 فیصد حصہ ہیں۔ سیاہ فام کی اکثریت ان افریقی باشندوں کی اولاد ہے جو 1500ء سے 1865ء کے درمیان غلاموں کی حیثیت سے امریکا لائے گئے۔ سفید فام مالکوں کی اکثریت ان غلاموں پر طرح طرح کے ظلم ڈھاتی تھی جنہیں خود انہی کے مورخین نے اپنی کتب میں بیان کیا۔ولیم ایلن (متوفی 1882ء) ایک مشہور پادری تھا جو دوران حیات سرزمین امریکا سے غلامی کی لعنت دور کرنے کے لیے کوششیں کرتا رہا۔ اس نے غلامی کی مخالف تنظیم، امریکن اینٹی سیلیوری سوسائٹی کے سالانہ اجلاس (منعقدہ 1834ء) میں تقریر کرتے ہوئے حاضرین کو بتایا ’’امریکی آقاؤں کی اکثریت اپنے غلاموں پر بے پناہ ظلم کرتی ہے۔ ان پر رحم کھانا یہاں عجوبے کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘
غلامی ایک قدیم چلن ہے مگر یہ مغربی قوتیں ہی ہیںجنہوں نے اُسے منظم و منضبط تجارت اور کاروبار کا روپ دیا۔ پندرہویں صدی میں اسپین، پرتگال، برطانیہ، فرانس، ڈنمارک وغیرہ افریقا اور لاطینی امریکہ کے ممالک پر قبضہ کرنے لگے۔ ان مغربی طاقتوں کے جنگی سرداروں نے مفتوحہ علاقوں میں وسیع و عریض فارم قائم کرلیے۔ فارموں اور بعدازاں کارخانوں میں کام کرنے کی خاطر ہی افریقی مالک سے غلام لائے گئے۔ شروع میں یہ غلام وہ جنگی قیدی ہوتے جو جنگوں میں مغربی افواج کے ہاتھ لگتے تھے۔ بعد میں افریقی شہریوں کی بطور غلام خرید و فروخت ہونے لگی۔ دور حاضر میں مغربی طاقتیں انسانی حقوق جمہوریت اور انسان دوستی کا بہت پرچار کرتی ہیں۔ مگر ماضی میں غلاموں کی ظالمانہ، غیر اخلاقی اور غیر انسانی تجارت کرنا ان کے دامن پر نہایت بدنما داغ کی حیثیت رکھتی ہے۔
اس تجارت کے دوران ایک کروڑ بیس لاکھ افریقی باشندے غلام بناکر یورپ، امریکا اور لاطینی امریکا لائے گئے۔ یہ غلام سفید فام جاگیرداروں، صنعت کاروں، سرکاری افسروں حتیٰ کہ پادریوں کی چاکری کرتے تھے۔اکثر جگہ انہیں کوئی انسانی حق حاصل نہ تھا۔ ان کو مارنا پیٹنا معمول تھا۔بہت سے مالک افریقی خواتین کی بے حرمتی کردیتے۔ ظلم و ستم سے گھبرا کر کوئی سیاہ فام بھاگ جاتا تو سفید اس کے تعاقب کرکے اسے قتل کردیتے۔ ابراہم لنکن اور دیگر انسان دوست امریکی لیڈروں کی کوششوں سے آخر 1865ء میں غلامی کا خاتمہ ہوا۔ لیکن یہ لیڈر اپنے لاکھوں سفید فام عوام کے دماغوں سے یہ تصّور نہیں کھرچ سکے کہ وہ آقا ہیں اور سیاہ فام غلام! اسی لیے آج بھی احساس برتری اور غرور پر مبنی اس تصّور کے زیر اثر کبھی ڈیرک چاوین مجبور جارج کی گردن دبوچ لیتا ہے تو کبھی سفید فام ہر کالے کو جرائم پیشہ سمجھ کر اسے گولیوں سے مار ڈالتے ہیں۔
23 فروری 2020ء کو ریاست جارجیا میں ایسا ہی اندوہناک واقعہ پیش آیا۔ جارجیا کے علاقے گلائن کاؤنٹی میں 25 سالہ سیاہ فام نوجوان احمدو آربری جاگنگ کررہا تھا کہ اچانک وین میں سوار دو سفید فام اس کا پیچھا کرنے لگے۔ احمدو نے ان سے بچنے کی سرتوڑ کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکا۔ ایک سفید فام نے گولیاں مار کر اسے قتل کردیا۔بعد میں انکشاف ہوا کہ دونوں سفید فام باپ بیٹا تھے۔ ان کا خیال تھا کہ احمدو آربری وہی چور ہے جو پچھلے کچھ عرصے سے ان کے علاقے میں چوریاں کررہا ہے۔ لہٰذا انہوں نے پولیس کو اطلاع دینے کے بجائے احمدو کو مار ہی ڈالا حانکہ وہ چور نہیں تھا۔باپ، گویگوری مائیکل مقامی پولیس میں کام کرچکا تھا۔ اسی لیے مقامی سفید فام انتظامیہ اسے بچانے کی سعی کرنے لگی۔
کہا گیا کہ باپ بیٹے نے غلط فہمی کی بنا پر احمدو پر گولیاں چلادیں۔ لیکن ایک ویڈیو ان کے جرم کی گواہ بن گئی۔ یہ ویڈیو ان کے پڑوسی، ولیم برائن نے اتاری تھی جو ان کے پیچھے پیچھے اپنی گاڑی چلارہا تھا۔ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مسلح باپ بیٹا بڑی سرگرمی سے نہتے احمدو کا تعاقب کررہے ہیں۔ وہ بیچارا ان سے بچنے کے لیے اِدھر اُدھر بھاگ رہا ہے۔ آخر وہ اسے پکڑلیتے ہیں۔ احمدو بندوق چھیننے کی کوشش کرتا اور ناکام رہتا ہے۔ گویگوری مائیکل اس کے پیٹ میں تین گولیاں داغ کر دن دیہاڑے اسے مار ڈالتا ہے۔
اس ویڈیو نے امریکی معاشرے میں سنسنی پھیلا دی۔ جب جارج فلائیڈ کا قتل ہوا تو مظاہرین یہ مطالبہ بھی کرنے لگے کہ احمدو آربری کے قاتل گرفتار کیے جائیں۔ عوامی دباؤ کی وجہ سے آخر 74 دن بعد مجرم باپ بیٹا حراست میں لے لیے گئے۔ ذرا سوچیے، اگر احمدو کی جگہ کوئی سفید فام ہوتا اور سیاہ فام یا مسلمان اس کا پیچھا کرکے اسے قتل کرتے، تو امریکا میں طوفان برپا ہوجاتا۔ میڈیا تب سیاہ فاموں یا مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کی خاطر ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا۔ لیکن اس بار قاتل سفید فام تھے، اس لیے شروع میں نہ صرف امریکی میڈیا خاموش رہا بلکہ سوشل میڈیا میں بھی کوئی ہلچل پیدا نہیں ہوئی۔ اگر ویڈیو سامنے نہ آتی، تو احمدو آربری کا قتل بھی انصاف کی گرفت سے صاف بچ جاتا۔ اب اس کے رنجیدہ و مغموم والدین کو انصاف ملنے کی امید ہے۔
ابراہم لنکن نے امریکا میں عدل و انصاف اور مساوات پر مبنی نظام قائم کرنے کی بھرپور کوششیں کی تھیں مگر سفید فام سپرمیسی پر یقین رکھنے والے ایک شخص نے انہیں مار ڈالا۔ لنکن کے بعد جلد ہی سفید فام امریکا میں طبقہ ایلیٹ بن بیٹھے اور قومی وسائل پر قبضہ کرلیا۔ انہوں نے پھر عوام پر ظالمانہ اور نامنصفانہ نظام ٹھونس دیا جو مختلف طریقوں سے ان کا استحصال کرتا ہے۔اس کی ایک نمایاں مثال پیش ہے۔
امریکا کے حالیہ احتجاجی مظاہروں کے دوران کئی شہروں میں سیاہ فام باشندوں نے مشہور کمپنیوں کے ریٹیل اسٹور لوٹ لیے۔ ان اسٹوروں میں لاکھوں کروڑوں روپے مالیت کی اشیا برائے فروخت رکھی جاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سیاہ فام نوجوانوں نے مشہور برینڈ بیچنے والے اسٹوروں کو کیوں نشانہ بنایا؟ وجہ یہ کہ وہ سیاہ فاموں پر ہونے والے ظلم و ستم کی ایک واضح نشانی ہیں اور اس کا تعلق امریکا کے جیل خانہ جات سے ہے۔
پرزن انڈسٹریل کمپلیکس
امریکا میں حکمران ایلیٹ طبقے نے پولیس فورس کو طاقتور بنا رکھا ہے تاکہ وہ اس کے مفادات کی حفاظت کرسکے۔ گویا عوام نہیں طبقہ ایلیٹ کے مفاد کو تحفظ دینا امریکی پولیس کی بنیادی ذمہ داری ہے ۔اور اس فورس میں سفید فاموں کی کثرت ہے جن میں سے اکثر نسل پرست اور متعصب ہیں۔1971ء میں ایلیٹ طبقے سے تعلق رکھنے والے صدر رچرڈنکسن نے ’’منشیات کے خلاف جنگ‘‘ کا آغاز کیا۔ اس جنگ کی آڑ ہی میں امریکی اشرافیہ سیاہ فاموں کو دوبارہ اپنا غلام بنانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہوگئی۔ وہ اس طرح کہ پولیس ہر سال ہزارہا سیاہ فاموں کو کسی نہ کسی جرم میں گرفتار کرنے لگی۔ ایک وقت ایسا آیا کہ امریکی جیلوں میں مقید ’’50 فیصد‘‘ قیدی سیاہ فام تھے۔ ان کی پکڑ دھکڑ خاص مقصد پانے کی خاطر انجام پائی۔وہ مقصد سستی افرادی قوت مہیا کرنا تھا۔
دراصل امریکی جیلوں میں قیدیوں سے مختلف کام کرائے جاتے ہیں۔ بدلے میں انہیں بہت کم معاوضہ ملتا ہے۔ مثال کے طور پر آج امریکا میں فی گھنٹہ کم سے کم اجرت 7.25 ڈالر ہے۔ مگر جیلوں میں قید مجرم فی گھنٹہ صرف 3 ڈالر معاوضہ پاتے ہیں۔ چناں چہ امریکی پولیس معمولی باتوں پر بھی سیاہ فام نوجوانوں کو قید کرنے لگی۔ مدعا یہی تھا کہ بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں اور کارپوریشنوں کو سستی افرادی قوت مل جائے۔ آج امریکا کی 500 بڑی (فارچون)کمپنیوں میں سے اکثر کی مصنوعات براہ راست سے ناراست طور پہ جیلوں میں بند قیدی ہی تیار کرتے ہیں۔ یوں امریکی طبقہ ایلیٹ نے قیدیوں خصوصاً سیاہ فام باشندوں کے استحصال کا نیا طریق کار ڈھونڈ نکالا۔ ماہرین اس طریق واردات کو ’’پرزن انڈسٹریل کمپلیکس ‘‘(Prison–industrial complex) کا نام دے چکے۔
دنیا کی اکلوتی سپرپاور میں قائم اس پرزن انڈسٹریل کمپلیکس کی وسعت کا اندازہ یوں لگائیے کہ امریکی جیلوں میں آج بائیس لاکھ قیدی بند ہیں۔ ان میں سے اکثر ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اشیاء تیار کرتے ہیں۔عالمی آبادی میں امریکی باشندے صرف ’’4 فیصد‘‘ ہیں۔ لیکن بین الاقوامی سطح پر کل قیدیوں میں سے ’’22 فیصد‘‘ امریکی جیل خانوں میں مقید ہیں۔ یہ تلخ سچائی آشکارا کرتی ہے کہ لالچی اور ہوس ناک امریکی ایلیٹ طبقہ ان کی اسیری کو کاروبار کا روپ دے چکا۔ وہ قیدیوں کی مجبوری و بے بسی سے فائدہ اٹھا کر ان سے کام کراتا اور بدلے میں معمولی اضافہ دیتا ہے۔ یوں اسے نہایت سستی افرادی قوت مل گئی جو کمپنیوں کا منافع بڑھانے میں مدد دیتی ہے۔
زیادہ سے زیادہ پیسا کمانے کی خاطر انسانوں کا استحصال امریکی سرمایہ داری کا وصف خاص بن چکا۔ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ امریکی جیلیں سیاہ فام نوجوان کے لیے جرائم کی درس گاہیں ثابت ہوتی ہیں ۔وہاں سفید فام انتظامیہ انہیں جرائم پیشہ بنانے کی خاطر ہر حربے اپناتی ہے۔ چناں چہ وہ آزادی پاکر پھر جرم کرتے اور واپس جیل پہنچ جاتے ہیں۔ یوں جیلوں میں ان کا آنا جانا لگا رہتا ہے اور پرزن انڈسٹریل کمپلیکس کو مسلسل سستی لیبر دستیاب رہتی ہے۔
حقائق سے عیاں ہے،امریکی ایلیٹ طبقے اور پولیس کا بھی مفاد اسی میں ہے کہ سیاہ فام باشندوں کو دانستہ جرائم میں لت پت رکھا جائے تاکہ نہ صرف انھیں سستی افرادی قوت میّسر آئے بلکہ ان کی امریکی معاشرے پر گرفت بھی مضبوط رہے۔اس طرح وہ اپنے اقتدار کو دوام بخش دینا چاہتا ہے۔مگر دنیائے مغرب میں ایلیٹ طبقوں کے خلاف حالیہ احتجاجی مظاہروں سے یہ بات آشکارا ہو چکی کہ وہاں اب سفید فام بھی اپنے حکمرانوں سے نالاں ہیں۔اسی لیے امریکا میں خصوصاً سفید فام نوجوانوں اور طلبہ وطالبات نے سیاہ فاموں کے شانہ بشانہ مارچوں،مظاہروں اور جلوسوں میں حصہ لیا۔یہ نئی تبدیلی مستقبل میں مغربی حکومتوں اور معاشروں پر ایلیٹ طبقوں کی گرفت کمزور کر سکتی ہے۔کم از کم وہ مجبور ہوں گے کہ عوام کو زیادہ سہولتیں اور مراعات عطا کر دیں تاکہ وہ مطمئن ہو جائیں۔دوسری صورت میں عوامی احتجاج تحریک بن کر ان کا بوریا بستر گول کر دے گا۔
بھارتیوں کا دوغلاپن
بھارت میں کئی سیاست دانوں،فلمی ستاروں ،دانشوروں وغیرہ نے ٹویٹ کر کے امریکی سیاہ فام باشندوں سے اظہار یک جہتی کیا۔یہ اچھا فعل ہے۔سوال مگر یہ کہ جب بھارتی پولیس مذہبی تعصب سے مسلمانوں اور نسلی عصبیت کے باعث دلتوں پہ خوفناک ظلم ڈھاتی ہے،تو ان بھارتی سیلیبرٹیز کا ضمیر اور دلیری کہاں جا چھتی ہے؟بھارتی پولیس بھی اپنے حکمران ایلیٹ طبقے کے مفادات کی نگہبان بن چکی۔دہلی کے حالیہ مسلم کش فسادات میں پولیس نے مسلمان لڑکوں کو گھیر کر بے دردری سے مارا پیٹا اور انھیں ’’وندے ماترم‘‘پڑھنے پہ مجبور کیا تھا۔بعد کو ان میں سے ایک لڑکا،محمد فیضان تشدد کی وجہ سے شہید ہوگیا۔بھارت میں مگر پولیس کی کھلی دہشت گردی کے خلاف رتّی برابر احتجاج نہیں ہوا۔کشمیر میں سیکورٹی فورسسزکے مظالم پر بھی اکثریتی ہندو فرقے کے افراد کی خاموشی سنگین جرم کے مترادف ہے۔
The post ظلم کی چکی میں پستے امریکی سیاہ فام appeared first on ایکسپریس اردو.