بہت سے لوگوں کا کہنا تھا کہ رواں سال زیادہ خوش آئند نہیں ہوگا جو کہ اب درست بھی ثابت ہو رہا ہے۔ دراصل اس سال کے پہلے ہی مہینے ایران اور امریکا کے تعلقات بگڑنے لگے اور پوری ہی دنیا کو جنگ کے شدید خدشات لاحق ہو گئے، چلیے وہ معاملہ تو نمٹا، لیکن اب کورونا کی آمد کے بارے میں دنیا کو خبر ہوئی تو کوئی ایسا شخص نہ بچا کہ جو اس سے متاثر نہ ہوا ہو یا اس وبا کے باعث پریشان نہ ہوا ہو۔ سارے کام فاصلوں سے کیے جانے لگے، لوگ خریداری کے لیے بھی اس جانب مرکوز ہوئے۔ چاہنے یا نہ چاہنے کے باوجود گھر سے کام کرنے کی طرف توجہ مرکوز کرنا پڑی۔
اسی طرح ہماری کلاسیں بھی ’آن لائن‘ ہونے لگیں، ظاہر ہے ہمیں اگر اس وبا کو شکست دینی ہے تو اٹھتے بیٹھتے فاصلہ اختیار کرنا ہوگا، نہ صرف یہ بلکہ غیر ضروری کاموں کے لیے باہر جانے سے بھی گریز کرنا ہوگا۔ ایسی صورتِ حال کے پیشِِِِ نظر آن لائن کلاسوں کا نیا تجربہ کیا گیا۔ نیا اس لیے کہ یہ پاکستان میں پہلی دفعہ آزمایا گیا ہے۔
’قرنطینہ‘ کے دوران سب سے پہلی چیز جو میں نے سیکھی وہ یہ ہے کہ انسان کی عام فطرت ہے کہ جب تک اس پر وہ حالات مسلط نہیں ہوتے، جن کا دوسرے مقابلہ کر رہے ہوتے ہیں، وہ سمجھ نہیں سکتا کہ اس حال میں ہونا کتنی مشکل بات ہے۔
اس کے علاوہ میں نے سیکھا کہ انٹرنیٹ ہمارا کتنا بڑا استاد ہے۔ انٹرنیٹ لامحدود ہے اور بہترین علم کا ذریعہ بھی ہے، ہمیں اس کا اچھا استعمال کرنا چاہیے۔ جہاں تک بات ہے آن لائن کلاسوں کے تجربے کی ، تو میرا خیال ہے کہ ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں ایک منفی اور دوسرا مثبت۔ آن لائن کلاسوں نے جہاں ہم سب کا وہ وقت بچایا جو یونیورسٹی آنے جانے میں لگ جاتا تھا، تو اس کے بر عکس اس کا عادی ہو جانے میں کافی وقت بھی لگ گیا۔ میرے خیال میں ا گر سب لوگ وقت کی پابندی کرتے اور کلاسیں یونیورسٹی کے نظام الاوقات کے مطابق ہوتیں، تو کسی کے لیے کچھ مشکل نہ ہوتا۔ اکثر ایسا ہوا کہ آدھے دن تک کلاسیں ہی چلتی رہیں اور باقی دن بھی کم پڑگیا اور ہمارے اسائنمنٹس مکمل نہ ہو سکے۔
اس وبا کے دوران بہت سے کاروبار بند ہوگئے، لیکن ہمیں فری لانسنگ کے بارے میں معلومات حاصل ہوئی کہ آنے والے وقتوں میں اس کا بھرپور استعمال درکار ہے ، پھر نہ کوئی ملازم ٹریفک جام ہونے کا بہانہ کر سکے گا اور نہ ہی کوئی طالب علم کاپی گھر بھول جانے کا۔ اس کے علاوہ ہماری نظر سے اور بھی اہم باتیں گزریں۔ فلاحی ادارے اور ڈاکٹرز سپاہیوں کی طرح اس وبا سے لڑنے کے لیے سامنے آئے اور نیو کلیئر پاور ہونا نہ امریکا کو محفوظ رکھ سکا۔
نہ برطانیہ کو اور نہ ہی ہمیں۔ اس بات کا بھی شدت سے احساس ہوا کہ ہمارا تعلیمی اور طبی نظام کئی عرصے سے منجمد ہے اور اس میں کتنی بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگوں میں صبر اور برداشت نہ ہونے کے برابر دکھائی دیا۔ تعلیمی اداروں میں تعلیم برائے نام ہے، جب کہ شعور بالکل بھی نہیں دیا جاتا ہے، ورنہ ایک دن کے لیے لاک ڈاؤن میں ڈھیل دینے سے بازاروں میں رونق نہ دکھائی دیتی، لیکن دکانوں کے باہر انتظار میں کھڑی عورتوں کی لمبی قطاروں کی ہیں، یہ ہمیں بتاتی ہیں کہ یہ حماقت کرنے والا بے چارہ غریب طبقہ نہ تھا، جس پر ہمتعلیم اور شعور نہ ہونے کا قیاس کرسکتے ، یہ وہ طبقہ تھا جو کہ پڑھا لکھا جانا جاتا ہے۔ کورونا کا شکار ہونے والے مریضوں کی غمگین داستانیں سن کر افسوس ہوا کہ ان مشکل حالات میں بھی اسپتالوں میں بے ایمانی رائج ہے۔
کورونا کے اثرات سے معمول کی طرف آنے میں شاید کافی وقت لگ جائے۔ اس کے معاشی نتائج بہت برے ہوں گے۔ مالکان اور نجی تعلیمی اداروں والے بہت فائدے میں رہے، لیکن غریب اور دہاڑی دار مزدور روند دیے گئے۔ آنے والا وقت بہت مشکلات لائے گا، بہت سے لوگ نوکریوں سے نکال دیے جائیں گے، زکوۃ دینے والوں کی تعداد کم اور لینے والوں کی تعداد بڑھ جائے گی۔ نجی جامعات کا ان سب حالات میں بھی فیسوں میں اضافہ کرنا اچھی علامت نہیںہے، بہت سے طلبا تعلیم چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے، کیوں کہ ہر چیز سے بڑھ کر تعلیم ہمارے معاشرے میں ’کاروبار‘ ہے۔ امید ہے کہ پاکستان آنے والے وقتوں کا سامنا کرلے گا اور بخیریت ان مشکل حالات سے نکل آئے گا۔
The post فاصلوں کی وبا نے ٹیکنالوجی سے قریب کردیا appeared first on ایکسپریس اردو.