غزل
مرے دکھ درد ہر اک آنکھ سے اوجھل پڑے تھے
شکر صد شکر کہ بس روح پہ ہی بل پڑے تھے
کسی مقصد سے ترے پاس نہیں آئے ہیں
کہیں جانا ہی تھا سو تیری طرف چل پڑے تھے
ایک میں ہی نہیں شب چھت پہ بسر کرتا تھا
چاند کے پیچھے کئی اور بھی پاگل پڑے تھے
کیسا نظارا تھا کہساروں کی شہزادی کا
بام پر وہ کھڑی تھی فرش پہ بادل پڑے تھے
جلد بازوں نے بچھڑنے میں بڑی عجلت کی
ایک اک مسئلے کے ورنہ کئی حل پڑے تھے
عجز کے اشک بہاتے ہوئے شب سو گیا میں
صبح اٹھا تو مرے کام مکمل پڑے تھے
دھیان تیاری کا آیا ہی نہیں ہم کو عقیل
سفرِ عشق تھا بے رختِ سفر چل پڑے تھے
(عقیل شاہ۔راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
گونجتی لہجے کی ملہار نے سرشار کیا
دائرہ کھینچتی پرکار نے سرشارکیا
ایک بے دام کو انمول بنا ڈالا ہے
دیر تک چشم ِ خریدار نے سرشارکیا
کہاں ممکن تھا ٹھہرنا مگر اس کے با وصف
دمِ رخصت ترے اصرار نے سرشارکیا
خواب ہی خواب دکھائے گئے جن لوگوں کو
کب انہیں دیدۂ بیدار نے سرشار کیا
آبلے پھوٹ کے بہتے رہے پاؤں کے مگر
تیز ہوتی ہوئی رفتار نے سرشار کیا
کسی کم ظرف کے چشمے سے نہیں گھونٹ بھرا
پیاس میں بھی دلِ خود دار نے سرشار کیا
مر گیا بانٹتا سامانِ مسرت جاذبؔ
کھیل کے مرکزی کردار نے سرشار کیا
(اکرم جاذب۔ منڈی بہائُ الدین)
۔۔۔
غزل
آنکھیں کبھی دیکھیں نہ وہ چہرہ نظر آیا
اے راحتِ جاں اور تجھے کیا نظر آیا
تصویر بنائی تھی خیالوں میں کسی کی
آیا مجھے جب ہوش تو تجھ سا نظر آیا
نکلے تھے کبھی دل میں لیے وصل کی حسرت
خوش اتنے تھے پتھر نہ ہی راستہ نظر آیا
کرنا پڑا جب عشق کا مذہب مجھے معلوم
کعبہ نہ حرم، اور نہ کلیسا نظر آیا
جاتے ہوئے کچھ کہہ تو رہے تھے وہ نیازی
لہجے میں مجھے اس کا سراپا نظر آیا
( نیاز احمد نیازی۔ گلگت)
۔۔۔
’’ہر مقام منزل ہے!‘‘
زندگی کے رستے میں
ایسا موڑ آیا ہے
ہر قدم نہاں جس میں
درد، آبلہ پائی!
اس طویل رستے میں
دھوپ ہی برستی ہے
اور قرار پانے کو
چھاؤں بھی نہیں ملتی
دور تک مسافت میں
پیڑ جو بھی آتے ہیں
سب خزاں رسیدہ ہیں
آسماں کے دامن میں
ابرِناامیدی ہے
بے کنار صحرا ہے
حد کوئی نہ منزل ہے
پھر بھی دل کی ضد ہے کہ
سانس کی لکیروں کا
آخری نشاں جب تک
گھس کے مٹ نہیں جاتا
اس اجاڑ رستے میں
ہر مقام منزل ہے!
(طارق محمود خالد۔ سیال شریف سرگودھا)
۔۔۔
غزل
کیا کہا ہجر کی راتوں کی سحر ہوتی ہے؟
میں بھی دیکھوں گا بتا مجھ کو کدھر ہوتی ہے
دن گزرتا ہے مگر سچ ہے تری یادوں کی
جاگتی آنکھوں میں ہر رات بسر ہوتی ہے
ایک لمحے کو جدا تک نہیں ہو پاتا ہوں
میں جدھر جاؤں تری یاد ادھر ہوتی ہے
جو مرے ساتھ محبت کا سبق پڑھتی تھی
اب تو کالج بھی نہیں جاتی ہے ،گھر ہوتی ہے
شہر کا شہر اداسی میں گھرا رہتا ہے
لوگ کہتے ہیں نہیں ہوتی، مگر ہوتی ہے!
(شاہد ریاض۔ ڈیرہ غازی خان)
۔۔۔
غزل
رحمان کی جانب سے عطا آتی رہی ہے
ہر ایک عبادت کی جزا آتی رہی ہے
ہم نے ہی چراغوں کی حفاظت ہے بہت کی
ورنہ یہ بجھانے کو ہوا آتی رہی ہے
صحرا میں مجھے اور سنائی نہ دیا کچھ
بس عشق نہ کرنے کی صدا آتی رہی ہے
ٹالا ہے ہمیشہ ہی اسے نام علی سے
سر پہ جو کوئی میرے بلا آتی رہی ہے
اس شہر میں جب میرا کوئی اپنا نہیں ہے
کس سمت سے پھر مجھ کو دعا آتی رہی ہے
شہباز یہ اب درد بتا دیتی ہیں آنکھیں
پہلے تو چھپانے کی ادا آتی رہی ہے
(شہباز ماہی۔ اوکاڑہ)
۔۔۔
غزل
پرانا قافیہ لیکن نئی ردیف کے ساتھ
مقابلہ نہیں میرا کسی حلیف کے ساتھ
طلب اچھوتے کھلونے بھی نفس کرتا ہے
بہل بھی جاتا ہے بازیچۂ کثیف کے ساتھ
وہ میری جیت کا اعلان اپنے منہ سے کرے
سلوک ایسا کروں کیوں نہ میں حریف کے ساتھ
میں رند وہ ہوں جو اپنے خلاف چلتا ہے
ستم ظریفی ہی ہوگی ستم ظریف کے ساتھ
میں کیا معانی نکالوں گا اس کی رمزوں کے
اٹھا جھکا ہے جو سر جنبشِ خفیف کے ساتھ
میں کیوں اٹھاؤں گا طارق ربیع کے نخرے
گزار لیتا ہوں اچھی میں جب خریف کے ساتھ
(طارق محمود۔فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
دور سے بیٹھے ہوئے بوسے عبارت کرنا
اس کی عادت ہے نگاہوں سے اشارت کرنا
جس جگہ جاؤں میں بس تم ہی نظر آؤ مجھے
آج مجھ کو بھی عطا حسنِ بصارت کرنا
وہ جہاں پر بھی گیا مہک اٹھے شام و سحر
پھول کا کام ہے خوشبو کی تجارت کرنا
ایسے دھتکار نہیں یار چلا جاؤں گا
میرا مقصد تھا فقط ایک زیارت کرنا
آج کل کوئی کسی سے بھی نہیں خوش ہوتا
سب کا شیوہ ہے یہاں پر تو حقارت کرنا
لفظ اینٹوں کی طرح چن کے غزل لکھتا ہوں
اتنا آساں بھی نہیں ان کو عمارت کرنا
(وقاص احمد۔ ملتان)
۔۔۔
غزل
حافظے سے ایک پرچھائیں مٹانی پڑ گئی
تیرگی میں آخری لو بھی بجھانی پڑ گئی
یوں گزاری جا رہی تھی عمر لیکن ایک دن
لاش کمرے سے مجھے اپنی اٹھانی پڑ گئی
شورِ دنیا سے اگرچہ تنگ تھا، لیکن مجھے
خرمنِ زندان میں کھڑکی بنانی پڑ گئی
دامنِ امید بھی ایسا شکستہ ہو گیا
خوش گمانی کی نئی چادر سِلانی پڑ گئی
ایک تو عمرِ رواں کو اس قدر جلدی رہی
طفلی و پیری کے اندر ہی جوانی پڑ گئی
ہم تمہارے پاس آنے کا گماں پالے رہے
اور باقیؔ وسوسوں میں زندگانی پڑ گئی
(وجاہت باقی۔ اسلام آباد)
۔۔۔
غزل
پھول جیسے چمن میں رہے
یوں تیری انجمن میں رہے
ان کو لوگوں نے چاہا بہت
جو بھی شہرِ سخن میں رہے
چوٹ دل پر کچھ ایسی لگے
نام تیرا چبھن میں رہے
تم کبھی پھول بن کے ملو
تاکہ خوشبو بدن میں رہے
مفلسی کی انہیں کیا خبر
عیش سے جو زمن میں رہے
جھوم اٹھوں تجھے دیکھ کر
نشہ وہ بانکپن میں رہے
شعر عارفؔ تم ایسے کہو
گونج جن کی سخن میں رہے
(محمد حسین عارف۔ جھنگ)
۔۔۔
غزل
بھلا کے رنجشیں میں اتنا کام کرتا چلوں
کہ جاتے جاتے بھی اس کو سلام کرتا چلوں
قدم قدم پہ تجھے میں دھیا ن میں رکھوں
میں اپنا زادِ سفر تیرے نام کرتا چلوں
وہ بے وفا رہے اپنی جفا پہ آمادہ
کہ میں وفاؤں کا اونچا مقام کرتا چلوں
کبھی تو آئے یا نہ آئے تیری مرضی ہے
میں گھر سجانے کا تو اہتمام کرتا چلوں
مٹا کے اپنی عداوت ،یہ رنج و غم اختر
محبتوں کا میں رائج نظام کرتا چلوں
(محمد اختر سعید۔جھنگ)
۔۔۔
’’یاد‘‘
میری صبحوں میں میری شاموں میں
میرے دِن اور میری راتوں میں
میرے خوابوں اور خیالوں میں
میری ہچکی میں میری آہوں میں
اِک یاد مسلسل رہتی ہے!
اِک یاد مسلسل رہتی ہے!
میں کھوجتی ہوں جب یادوں میں
اُسے اس کی میٹھی باتوں میں
خاموشی شور مچاتی ہے
میرے دِل کو بہت سلگاتی ہے
خاموشی کی اِس گَرد میں بھی
اِک یاد مسلسل رہتی ہے!
پھر یادوں کے اِن سایوں میں
دِن میرے سب ڈھل جاتے ہیں
جب رات بہت ہوجاتی ہے
یادوں کے گہرے سمندر میں
دِل میرا ڈوبنے لگتا ہے
اور نم آنکھیں ہوجاتی ہیں
چاہت کے زرد جزیرے پر
اِک یاد مسلسل رہتی ہے!
(مناہل فیصل۔ کراچی)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچۂ سخن‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی
The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.