ہمارے خوابوں کے اُجڑے تنکے ۔۔۔
مریم مجیدڈار، آزاد کشمیر
آج کی صبح بہت انوکھی ہے، کیوں کہ ایک عرصہ طویل کے بعد میرے من میں تمہیں مخاطب کرنے کی چاہ مسکرائی ہے اور تمہیں کبھی بھی نہ پکارنے کا عہد میں نے کچھ دیر کو یہ کہہ کر بھلا دیا ہے کہ میں تم سے ہم کلام نہیں، خود سے ’خود کلام‘ ہوں! ہاں کیوں کہ بہت وقت پہلے میں نے جان لیا تھا کہ خود کلامی، ہم کلامی کی منزل طے نہیں کر پائے گی۔ سو عہد شکنی ہو کر بھی نہ ہو گی۔
تمہیں خبر ہو، میں ان دنوں اپنے گوشہ محفوظ کی نیند آور اور پُرخمار پناہ سے دور ہوں۔ وہ بلاد مسرت جو مجھے افیون کے مرہون منت ہوئے بغیر بھی میسر ہے، اس کے دروازے عارضی طور پر میرے لیے بند ہیں اور ایک کنکریٹ کی دنیا میں افسردگی میرے سرہانے یوں بیٹھی ہوتی ہے جیسے کسی بستر مرگ پر پڑے شخص کے قریب بیٹھا تیماردار!
سوچتی ہوں، شہروں میں بھی تو موسم بدلتے ہیں، فطرت کے پیراہن مختلف رنگوں میں جلوہ نما ہوتے ہیں، مگر شاید ایک مشینی زندگی میں ان کی حیثیت ثانوی ہو جاتی ہے اسی لیے وہ اپنا دامان رنگ و بو سمیٹے کھلے میدانوں بلند پہاڑوں اور وسیع و عریض چراگاہوں کا رخ کر لیتی ہے جہاں وہ پہلی مرتبہ مبتلائے محبت دوشیزہ کی مانند ہر آن نئے روپ کے ساتھ جلوہ نما ہو کر اٹھلاتی اور گنگناتی پھرتی ہے اور اسے دیکھنے والے ایک جذبہ عظیم کے احترام میں آنکھیں جھکا کر فطرت کی اولین عبادت کا حصہ بن جاتے ہیں۔
پہاڑوں میں آنے والے موسم کے سفیر ہوائیں، پیڑ، پرندے، پھول، گھاس، بھنورے اور بادل ہوتے ہیں، جب کہ شہر میں بدلتی رت لباسوں کے نئے اشتہارات کی محتاج ہوتی ہے۔ رنگ برنگی روشنیوں کے حلقۂ نور میں ’پینا فلیکس‘ پر سجی بے تاثر شکلیں ’’بہار آئی‘‘ کی نوید سنا کر مزید افسردہ کر دیتی ہیں اور میری کوتاہ نصیبی تو دیکھو کہ اس بہار میں فطرت کو خوش آمدید کہنے اپنے یوٹوپیا میں موجود نہیں!
نہ یہاں بھوری سنہری گھاس سے جھانکتی نئی زمردیں پتیاں ہیں، نہ آڑو، سیب، آلوچے اور خوبانی کے نازک ترین شگوفے ہیں۔ شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ اور سنہرے لمبی سونڈ والے بھنورے کا نغمہ جاں فزا بھی سماعت کو نوازنے کے لیے موجود نہیں۔
صبح کے پرندے اور انگور کی بیلوں پر پھوٹنے والے ننھے، ہرے اور چمکیلے پتے بھی بصارت کی حد سے کہیں پرے ہیں۔
یہاں کچھ ہے تو دن رات تعمیر ہوتی عمارتیں ہیں، چھتوں پر رکھی سیاہ، سفید اور نیلی پلاسٹک کی ٹینکیاں ہیں اور وہ زمین جو کنکریٹ میں دفن ہونے سے بچ گئی ہے، اس کے سینے پر کچرے کے رنگ برنگے تمغے سجے نظر آتے ہیں۔
جہازوں، گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور بے ہنگم موسیقی میں پرندوں کی اذانیں گم ہو چکی ہیں اور گھاس نے سیمنٹ سے ہار مان لی ہے۔
جیسے میرے دل نے تمہاری سردمہری اور بے رخی کے سرد پتھر سے اپنی تمام تر زندگی سمیت شکست تسلیم کر لی تھی!
اب تم یہ سوچ رہے ہو گے کہ میں نے اس قدر بے رنگ ماحول میں موجود ہوتے ہوئے بھی آج کی صبح میں ایسا کیا انوکھا پن دیکھ لیا، جو تمہیں یہ حکایت سنانے بیٹھ گئی؟ لو بھئی! اب تمہارے صبر کا مزید امتحان نہ ہوگا۔
آج صبح بالکونی میں چائے پیتے ہوئے میری نگاہ اس گھر پر پڑی جس کی پیشانی پر دھات سے اس کی پہچان لکھی ہے۔ اس گھر کے مکینوں میں ایک عدد بادامی رنگ کا کتا بھی شامل ہے، جو چھت پر بندھے ہونے کے سبب رنجیدہ و کبیدہ خاطر ہو کر منڈیر پہ آ بیٹھنے والی آزاد اور خودمختار چڑیوں پر بھونکتا اور غراتا رہتا ہے اور جب بہت ہی بور ہوجائے، تو منڈیر کے سوراخوں سے مقدور بھر چہرہ باہر نکال کر سڑک پر ٹہلتی آوارہ بلیوں کو خوب خوب کوسنے دیتا ہے مگر آزاد مخلوق قیدی کی زنجیر کی حد جانتی ہے، سو کتے کی بھونک اس کو تھکانے کے سوا کسی کام کی نہیں ہے۔
گھر کے چھوٹے سے ٹیرس میں ایک بھورا گملا رکھا ہوا ہے، جس میں اگی ہوئی بوگن ویلیا کی بیل جس پر اکا دکا پتے نظر آتے ہیں، ایک رسی کے سہارے ٹیرس کی چھت تک رسائی پا چکی ہے اور شاید یہ اس کے پھیلاؤ کی حد مقرر ہے، اسی لیے اس سے آگے بڑھنے کی کوشش پر اسے تراش دیا جاتا ہے۔ گویا شہروں میں فطرت کو بھی ’جامۂ تہذیب‘ میں رہنا پڑتا ہے اور بے ساختگی کی نرم و نازک شاخوں کو ’آداب و تمدن‘ کی تیز دھار قینچی سے کاٹ کر فطرت کو مَن چاہی صورت میں ڈھال لیا جاتا ہے۔
خیر۔۔۔! تو اس منظر میں آج فطرت ایک نئے انداز سے محو کار تھی۔ بھوری چڑیا اور نیم سیاہ چڑا بیل کی گتھی ہوئی شاخوں کے بیچ گھونسلا بنانے میں مگن تھے۔ بہت سی شاخوں پر پُھدک پُھدک کر بالاخر انہیں ایک ایسی شاخ پسند آئی جو اوپر سے باریک شاخوں سے الجھی ہوئی تھی اور بلیوں کی دسترس سے دور، گھر کا آغاز کرنے کے لیے نہایت مناسب تھی۔
میں انہیں دیکھتی رہی اور وہ اپنی ننھی چونچ میں مختلف تنکے، پتیاں اور دھاگے لا لا کر اپنے خوابوں کا محل بناتے رہے۔ ان کی چہکاروں میں ترنگ تھی اور حرکات میں سرخوشی۔۔۔!
ان کا آشیانہ نصف کے قریب تکمیل پا چکا تھا کہ منڈیر سے جھانکتے حاسد اور مجرد کتے کو خبر ہو گئی اور اس نے ہر ممکن حد تک گردن لٹکا کر حسرت و یاس میں ڈوبی غراہٹ کے ساتھ بھونکنا شروع کر دیا۔ آن واحد میں ننھا جوڑا تنکے اور زیر تعمیر آشیانہ چھوڑ کر اڑ گیا اور کتا سرشار سا ہو کر اپنے ٹھکانے پر جا بیٹھا۔ جوں ہی وہ منظر سے غائب ہوا، چڑا اور چڑیا ایک بار پھر نیچے گرے تنکے سمیٹ کر تندہی سے گھونسلا بُننے لگے۔
مجھے اپنی وہ سب کاوشیں یاد آنے لگیں جو آندھی میں آشیاں بنانے کے لیے کی گئی تھیں۔۔۔! یک طرفہ، بے سود کاوشیں۔۔۔!!
کچھ دیر بعد کتے نے ایک بار پھر انہیں بھگانے کے لیے اپنی واحد طاقت استعمال کی، مگر اس مرتبہ ننھے معماروں نے اس پر چنداں توجہ نہ کی اور تنکے لانے اور بُننے کا کام جاری رکھا۔ میری چائے ختم ہو چکی تھی، مگر منظر نے وہاں ٹھیرے رہنے پر مجبور کر دیا تھا۔ انہیں کام کرتے ہوئے دیکھنا مجھے سکون عطا کر رہا تھا۔
جذبہ تعمیر و محبت سے سرشار اس ننھی مخلوق کو ایک مرتبہ پھر اپنا کام کرنے سے روک دیا گیا اور اب کے یہ مداخلت ’اشرف المخلوقات‘ کی جانب سے کی گئی تھی۔ گھر کی مالکن جو کسی کام سے وہاں آئی تھی، اس نے ہش ہش کرکے انہیں اڑا دیا اور فرش پر گرے تنکے ایک جھاڑو کی مدد سے سمیٹ کر کچرے کے ڈبے میں پھینک دیے۔ مایوس چڑا اور چڑیا درد انگیز چوں چوں میں اپنی محنت رائیگاں جانے کا احتجاج کرتے رہے اور پھر ایک سمت کو اڑ گئے۔۔۔
انسان۔۔۔! اپنے ٹھکانے میں کسی چڑیا کو بھی شریک کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا اور انسان۔۔۔! جو دیگر مخلوقات کے گھر اور، ماحول کو اپنی ترقی کی ہوس میں دن رات نگلتا چلا جا رہا ہے۔ کچھ دیر پہلے کا سکون ایک ناقابل بیان بوجھل افسردگی میں ڈھل گیا اور میں خالی پیالی لیے واپس جانے کے لیے مڑی اور جانے کس خیال کے تحت میں نے ایک بار پھر پلٹ کر بوگن ویلیا کی بیل پر نظر ڈالی، تو مجھے وہ منظر دکھائی دیا جس نے مجھے اپنا عہد بھلا کر تم سے مخاطب ہونے کے لئے ایک جواز مہیا کر دیا۔
چڑا اور چڑیا پوری جانفشانی سے ایک بار پھر تنکے جوڑنے اور گھونسلا تعمیر کرنے میں جُت چکے تھے۔ ان کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ میں مشکلات کے لیے چیلنج تھا اور چہچہوں میں رکاوٹوں کو پار کرنے کا عزم جھلک رہا تھا۔ پُھر پُھر کی آوازوں کے ساتھ تیزی سے اِدھر اُدھر اڑتے ننھے پنچھیوں نے میرے مغموم دل پر تسلی بھرا ہاتھ رکھ دیا۔ ناامیدی، تھکن اور کھنچے ہوئے اعصاب کسی جادوئی طاقت کے زیر اثر ختم ہونے لگے۔ تھکی ہوئی منتظر آنکھوں میں پہاڑوں سے پلٹ کر آئی ہوئی تازگی کا منظر نرمی سے سما گیا اور کنکریٹ کا جنگل سبزہ زار میں ڈھل گیا۔
ہاں۔۔۔! یہی تو وہ جذبۂ تعمیر ہے جو ہم انسانوں میں عنقا ہو چلا ہے۔ ہمیں زنجیر سے بندھے کتے کی غراہٹ اس قدر بوکھلا دیتی ہے کہ ہم خوش گمانی کے تنکوں کو آگ میں جھونک کر فرار ہو جاتے ہیں۔ کسی کی سرد مہری کی ’ہش ہش‘ ہمارے حوصلوں کو پست اور جذبات کو منجمد کر دیتی ہے کہ دوسری مرتبہ ہم ان شاخوں کا خواب دیکھنے سے بھی گھبراتے ہیں چہ جائے کہ آشیاں کی بنیاد رکھنے کا حوصلہ مجتمع کیا جا سکے۔
کسی رشتے میں در آئی تلخی کی بے سود غراہٹ کو محبت کے میٹھے چیچہے میں بدلنے کا ظرف ہی کہاں ہے ہمارا۔۔۔! نہ کسی زخم خوردہ، مبتلائے غم کی دستکوں پر در دل وا کرنے کی ہمت ہم خود میں پاتے ہیں اور نہ ہی اپنے زخم عیاں کرنے کی بہادری ہماری صفت ہے۔ ہمارے خوابوں کے اُجڑے تنکے ہمارے لیے بے کار ہیں کہ انہیں پھر سے آشیاں کا حصہ بنانا ہماری انا کے خلاف ہے، ہم تمام عمر اپنے ملبے کا ماتم تو کر لیں گے، لیکن اس ملبے سے نئی تعمیر اٹھانے کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔
تو یار من۔۔۔! بھلا ’اشرف المخلوقات‘ کون ٹھیرا۔۔۔؟ ہم۔۔۔! بااختیار انسان یا یہ فطرت پر قائم پرندے۔۔۔؟
سوال چھوٹا ہے، مگر آسان نہیں کہ ہمارا تفاخر ہمیں ایک کم تر پرندے کو بہتر تسلیم کرنے سے ہمیشہ روکے گا۔ لیکن فطرت کو اس مصیبت سے کوئی غرض نہیں ہے، سو وہ خاموشی اور یک سوئی سے اپنا کام کیے جاتی ہے۔
کبھی سیمنٹ کی دیوار میں اُگے پودے کی صورت، کبھی ایسفالٹ کی سڑک کے بیچ اُگے تنہا ڈینڈلائن کی مانند اور کبھی اَن تھک، ہار تسلیم نہ کرنے والی چڑیوں کی طرح۔۔۔!
ہمارے حوصلے بڑھانے کو فطرت کے یہ ننھے اشارے ہی بہت ہیں، مگر یہ بھی سچ ہے کہ ہماری کوتاہ بینی ہماری توجہ کی راہ میں ایک عظیم رکاوٹ ہوتی ہے اور فطرت کی جانب سے دیے گئے بہت سے دلاسے اور اسباق پرے پھسل جاتے ہیں۔
میرا دل بہار میں جنم لینے والے خودرو گل لالہ کی مانند کھل اٹھا اور تمہاری من موہنی من چاہی اور دل کش صورت پرتو گل سے جھانکنے لگی۔
اور جب تم خود ہی مقابل آن بیٹھے، تو پھر مخاطب کرنے میں کیسی جھجک۔۔۔؟ اگرچہ خودکلامی ہی سہی، مگر تمہارے احساس کے روبرو ہونے کا تصور ہی اس قدر روح فزا ہے کہ کنکریٹ کے ڈھانچوں پر سیب کے مدہوش مہک والے شگوفے کھل اٹھتے ہیں اور دل بے اختیار پکار اٹھتا ہے “یار من! آمد بہار مبارک۔۔۔!
۔۔۔
ہم ایسے ہی ہیں۔۔۔!
خانہ پُری
ر۔ ط۔ م
آپ نے صرف پڑھا ہی ہوگا کہ ’سوچنے والوں کی دنیا، دنیا والوں کی سوچ سے الگ ہوتی ہے۔‘ لیکن محسوس شاید ہی کیا ہو۔۔۔ کیوں کہ یہاں غالب اکثریت ’دنیا والی‘ ہے۔ جو اپنے حال میں مست ہیں، جو صرف اپنے آگے سے آگے بڑھنے پر ہی یقین رکھتے ہیں اور ایسا کر کے اپنی زندگی کو بالکل ’شانت‘ رکھنے میں کام یاب بھی ہو جاتے ہیں۔
ان کے دکھ اور تکالیف بس وہی ہوتی ہیں، جو ان کے ہاں کی ’دیوار‘ پھاند کر اور دہلیز لانگ کے آجائیں۔۔۔ ورنہ وہ ناک پر بیٹھی ہوئی مکھی کی طرح سب کچھ ایسے اڑا دیتے ہیں، جیسے راہ میں پڑے ہوئے کنکر کو بے دھیانی میں زور سے ٹھوکر لگتی ہے، اور پتا بھی نہیں چلتا کہ وہ کہاں جا کر پڑا ہے۔
ہمیں بصد احترام یہ اعتراف ہے کہ ہم کوئی ’نارمل‘ یا ’مگن‘ انسان ہرگز نہیں۔۔۔! ہم کبھی اس دنیا اور اس کے مزاجوں اور رواجوں کے آدمی تھے ہی نہیں اور نہ ہی شاید کبھی ہو سکیں گے۔۔۔ ہمیں دو جمع دو چار کا قاعدہ ہی نہیں آتا۔۔۔ ہم سب کا سوچتے ہیں، اس لیے بہت چاہ کر بھی ’پیٹ‘ سے ذرا کم ہی سوچ پاتے ہیں، نتیجتاً اکثر ’خسارے‘ کے سودے کرتے ہیں۔۔۔ ضمیر کی سوچ وبچار میں پڑ کر ہم سکہ رائج الوقت ’ناکام‘ گنے جاتے ہیں۔ ہم کچھ خریدنے جائیں، تو دکان دار کا سوچنے لگتے ہیں، اور اگر کبھی تقدیر کے ہاتھوں کچھ بیچنے والے بنے ہوں، تو سامنے موجود گاہک کا ’درد‘ ہمارے اندر اترتا ہے۔۔۔
کوئی رکشا، ٹیکسی کریں تو بھی یہی کیفیت ہوتی ہے۔۔۔ اور تو اور راہ چلتے بھی تو ہم اپنے لیے ’درد‘ تراشتے رہتے ہیں۔۔۔ راستے میں کہیں تازہ پھول اور گجرے سجائے اس گُل فروش کی فکر پریشان کرتی ہے کہ رات گہری ہو رہی ہے اور اس کے ہاتھ میں ابھی گجرے بے شمار ہیں۔۔۔ یہ تمام اگر اس رات نہ بک سکے، تو کل تک تو یہ کلیاں مرجھا کر بے کار ہو جائیں گی اور اس چھوٹی سی پونجی والے کا کتنا زیادہ نقصان ہو جائے گا۔۔۔ کبھی گلیوں میں کچرا چننے والے معصوم وجود بے کل کرتے ہیں تو کہیں کاندھے پر لادے ہوئے تازے پاپڑ والے کی صدا ہمیں چین نہیں لینے دیتی کہ شام ڈھل چکی ہے، اور آج اس کے تھیلے میں تہ در تہ جمع ہوئے بہت سے پاپڑ بچ جائیں گے اور وہ سارے دن کی مشقت کے بعد بھی خسارہ لے کر گھر جائے گا۔۔۔
ہماری انہی باتوں کے سبب سماج کے کچھ ’بے درد‘ اور ’ستم ظریف‘ ہمیں بہت آسانی سے ’اذیت پسند‘ کہہ کر چلتے بنتے ہیں۔ وہ کیسے جان سکتے ہیں روح کے یہ زخم۔۔۔ ہر لمحے برپا رہنے والا جذبوں کا یہ ماتم اور احساس کا گریہ۔۔۔ اور سب سے بڑھ ہمارے اس کیفیت کے ساتھ لکھے گئے لفظوں کا دکھ۔۔۔ ایسے میں ہم اگر اپنے لفظوں پر اپنی تخلیق اور ’اولاد‘ کے موافق ’اپنا‘ ہونے کا ’اجارہ‘ کرتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ انہیں کم ازکم ہمارے نام سے منسوب تو رہنے دیا جائے، تو یہ ہمارا حق ہے۔ ہمارا یہ ’حق‘ بہت سوں کو ’غیر علمی‘ اور ’خود پسندی‘ لگنے لگتا ہے، جب کہ کوئی بھی ہمارے لکھے ہوئے کو بغیر نام یا اپنے نام سے کہیں بھی نقل کر ڈالے، تو یہ عمل وہ ’غیر علمی‘ نہیں کہتے، کہ یہ بھی تو ’چوری‘ ہے۔ ایسے میں وہ جان ہی نہیں سکتے کہ بہت سے لفظ ہم کس تپسیا سے لکھتے ہیں اور لکھے گئے احساس کے دل میں اترتے سمے لہو سے کشید کیا ہوا پانی نگاہ کو کتنی دیر تک دھندلائے رکھتا ہے۔۔۔!
ذرا بتائیے، آپ کی آنکھیں کتنے دن میں چَھلکتی ہیں۔۔۔؟ چَھلکنا تو چھوڑیے، کیا کبھی نم بھی ہوئیں۔۔۔؟ دوسری طرف ہم اگر کبھی بہ مشکل خود کو شانت کر کے ’بے حسوں‘ کی اداکاری کرتے ہوئے خود کو بہلانے میں کام یاب ہوتے ہیں اور ذرا مطمئن ہوئے جا رہے ہوتے ہیں کہ راستے کا کوئی ایک بہت چھوٹا سا منظر، جو ساری دنیا کے لیے شاید معمول کا واقعہ ہو، ہماری پرسکون طبیعت میں کہرام برپا کر جاتا ہے۔۔۔
The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.