جنوبی پنجاب میں سیاحت کے وہ تمام لوازمات موجود ہیں جو کسی بھی خِطے کی سیاحت کو پنپنے میں مدد دیتے ہیں۔ یہاں موجود صحرا، میدانی علاقے ، پہاڑ، تاریخی و ثقافتی ورثہ، ہل اسٹیشن، عجائب گھر، مقبرے، دریائی بند اور جھیلیں اس خطے کی سیاحتی شناخت اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
اگر ٹھنڈے پہاڑی علاقے یا ہِل اسٹیشن کی بات کی جائے تو ضلع ڈیرہ غازی خان کا علاقہ ”فورٹ منرو” اور ضلع راجن پور کا علاقہ ”ماڑی” پورے جنوبی پنجاب میں اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں، بلکہ اگر میں یوں کہوں کہ ڈیرہ جات کا پورا خطہ ہی بہت منفرد ہے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔
یہاں ایک طرف آپ کو سرسبز میدان اور لہلہاتے کھیت ملیں گے تو دوسری جانب کوہِ سلیمان کے خوبصورت پہاڑ۔ ایک جانب ٹھاٹھیں مارتا دریائے سندھ بہتا ہے تو دوسری جانب کوہِ سلیمان کے نالے یہاں کا حسن بڑھاتے ہیں۔ غرض یہ علاقہ جنوبی پنجاب کی سیاحت میں ریڑھ کی ہڈی ثابت ہو سکتا ہے۔
بات کریں اگر یہاں کے سب سے مشہور مقام فورٹ منرو کی تو بہت سے احباب اسے جنوبی پنجاب کا مری بھی کہتے ہیں، لیکن مجھے اس سے اختلاف ہے۔ ہر شہر اور ہر علاقے کی اپنی الگ خصوصیات ہوتی ہیں، جیسے کے اس خطے کی بھی ہیں۔ کوئی کسی جیسا یا اس کا متبادل نہیں ہوا کرتا۔ فورٹ منرو بھی مری سے مختلف ہے۔ اور اگر اس کو جدید خطوط پر ڈیویلپ کیا جائے تو قوی امکان ہے کہ یہ مستقبل کا ایک مشہور ہل اسٹیشن ہو گا۔
برصغیر پر انگریز سامراج کے قبضے کے بعد انگریزوں نے بہت سے مقامات کو دریافت کر کے انہیں ڈیویلپ کیا اور اپنی رہائش کا انتظام کیا۔ انگریز چوںکہ سرد علاقوں سے آئے تھے لہٰذا یہاں کی گرمی ان کی برداشت سے باہر تھی سو انہوں نے برصغیر کے طول و عرض میں ٹھنڈی جگہیں تلاش کیں جو کہ زیادہ تر پہاڑوں پر تھیں۔ اس کے بعد وہاں تک راستے نکالے گئے اور سڑکیں لے جائی گئیں۔ ان جگہوں پر انتظامیہ کے دفاتر، رہائش کے لیے گھر، تفریح گاہیں، کھیل کے میدان، بیمار فوجیوں کے لیے سینی ٹوریم، لانڈریز اور دیگر دوسرے لوازمات کا انتظام کیا گیا۔ مقامیوں کو ملازم بھرتی کر کے وہیں سرونٹ کوارٹرز الاٹ کیے گئے جس سے مقامی لوگوں کو روزگار ملا اور ان علاقوں کی ترقی کا ایک نیا سفر شروع ہوا۔
انگریزوں کے بسائے ان ہل اسٹیشنز میں سری نگر، مری، اوٹی، زیارت، لہہ، ایبٹ آباد، پہلگام، سکیسر، شیلانگ، مسوری، نتھیا گلی اور فورٹ منرو شامل ہیں۔
فورٹ منرو جسے بلوچی زبان میں ”تْمن لغاری” بھی کہا جاتا ہے ضلع ڈیرہ غازی خان کے انتہائی مغربی کونے میں بلوچستان و پنجاب کے سنگم پر واقع ہے۔ سطحِ سمندر سے 6470 فیٹ (1970 میٹر) بلند یہ مقام انیسویں صدی کے اواخر میں انگریز فوجی آفیسر سر رابرٹ گرووز سنڈیمن نے دریافت کیا تھا اور اس کا نام اس وقت کے ڈیرہ جات ڈویژن کے کمشنر، کرنل اے اے منرو کے نام پر رکھا گیا تھا۔
لغاری قبیلے کے خانہ بدوشوں کی جنت ، فورٹ منرو ملتان سے 185 کلو میٹر اور ڈیرہ غازی خان سے قریباً 85 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
یہاں میں جنرل سنڈیمن کا تعارف کروانا ضروری سمجھتا ہوں۔ 1835 میں جنرل رابرٹ ٹرنبل سنڈیمن کے گھر آنکھ کھولنے والے اس افسر نے ڈیرہ جات اور بلوچستان کی تاریخ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ 1866 میں جب ان کو ڈیرہ غازی خان کا ضلعی افسر تعینات کیا گیا تو آپ نے پہلی بار قبائیلیوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے ان پر اپنی شخصیت کی دھاک بٹھا دی۔
1871 کی مٹھن کوٹ کانفرنس میں ان کو پنجاب اور سندھ کی صوبائی حکومتوں کی طرف سے کوہِ سلیمان کے مَری، بُگٹی اور مزاری قبیلوں کے بارے سیاسی فیصلوں کا حق دے دیا گیا جس سے ان علاقوں اور وہاں کے لوگوں پر آپ کا کنٹرول اور مضبوط ہو گیا۔جنرل سنڈیمن ہی کے ذریعے انگریز حکومت نے خان آف قلات سے مذاکرات کیے اور بلوچ قبائل کے سرداروں کی مالی معاونت بھی کی۔ یہ اپنی وفات تک بلوچستان کے گورنر جنرل کے ایجنٹ رہے اور انہوں نے شورش زدہ بلوچستان کو انگریز سامراج کے اندر ایک پر امن علاقہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ سر رابرٹ سنڈیمن نے 1892 میں لسبیلہ کے شہر بیلہ میں وفات پائی۔ بلوچستان کے شہر ژوب کا پرانا نام آپ ہی کے نام پر فورٹ سنڈیمن رکھا گیا تھا۔
جنوبی پنجاب کے اکلوتے ہل اسٹیشن تک رسائی کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے۔ اس مقام تک پہنچنے کے کئی راستے ہیں۔ سب سے سیدھا اور خوب صورت راستہ تو ملتان یا راجن پور سے ڈیرہ غازی خان، سخی سرور اور فورٹ منرو ہے، جب کہ بلوچستان میں ژوب اور کوئٹہ سے آنے والے پہلے لورالائی اور پھر میختر اور رکھنی سے ہو کر فورٹ منرو پہنچ سکتے ہیں۔
میرے نزدیک فورٹ منرو کا سب سے خوب صورت مقام دماس جھیل ہے۔ یہاں پاکستان ٹوارزم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے خوب صورت سے موٹیل کے عقب میں فورٹ منرو کی سب سے بڑی اور خوب صورت جھیل ’’دماس‘‘ اپنی دل کشی اور حُسن کے جلوے بکھیر رہی ہے۔ یہ جھیل یہاں واقع تین جھیلوں میں سب سے بڑی ہے۔ نقشے پر ایک ”انسانی گُردے” کی سی شکل میں نظر آنے والی یہ جھیل سردیوں میں سکڑ جاتی ہے جب کہ برسات اور گرمیوں کے دنوں میں اس کا جوبن دیکھنے والا ہوتا ہے۔ بقیہ دو جھیلوں کا نام تریموں اور لال خان جھیل ہے۔
فورٹ منرو میں ہی ایک پہاڑ کے اوپر ایک قلعے کے آثار ہیں جس کو لوگ قلعہ فورٹ منرو ہی کہتے ہیں۔ یہ پہاڑی کے اوپر ڈپٹی کمشنر ہاؤس کے ساتھ واقع ہے۔ پیلے رنگ میں رنگی اس کی ایک برجی آج بھی جیسے تیسے اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔
اسی ہل ٹاپ پر ایک اور اہم مقام ”گورا قبرستان” ہے۔برصغیر پر قبضے کے بعد اپنے تسلط کو مضبوط کرنے کے لیے، تاجِ برطانیہ نے اس خطے کے طول و عرض میں اپنے نمائندے، فوجی اور انجنیئر بھیجے جنہوں نے مرتے دم تک ان علاقوں میں رہائش رکھی۔ ان انگریز نمائندوں نے مختلف علاقوں میں پُختہ سڑکیں، نت نئی عمارتیں ، دفاتر، اور مکانات تعمیر کیے اور برسوں ان علاقوں میں خدمات سر انجام دیں۔ ان میں سے بہت سے افسروں اور ان کے خاندان کے دیگر افراد نے اسی دھرتی پر اپنی جان دی اور ان کا مدفن بھی یہیں بننا ٹھرا۔ بہت سے شہروں جن میں لاہور، کراچی، ایبٹ آباد، خانپور اور فورٹ منرو شامل ہیں، میں گورا قبرستان وجود میں آئے جو آج بھی قائم ہیں۔چھوٹی سی چار دیواری کے اندر واقع فورٹ منرو کے گورا قبرستان میں لگ بھگ پانچ قبریں ہیں جو جنگلے میں بند ہیں۔
نہ جانے کیا وجہ ہوئی ہو گی کہ قبروں کو بھی قید کرنا پڑ گیا۔ اب بھی ان جنگلوں کے اندر سے سفید کُتبے بہ آسانی پڑھے جا سکتے ہیں۔ ایک قبر جنوبی افریقہ کے مسٹر ایچ سمتھ کی ہے جو30 سال کی عمر میں فورٹ منرو کے کسی مقام پر نہاتے ہوئے ڈوب گئے تھے۔
اس قبرستان کی بائیں دیوار کے ساتھ ڈپٹی کمشنر ہاؤس (جو منرو لاج بھی کہلاتا ہے) واقع ہے۔ اور اس کے پہلو میں سو سال سے بھی قدیم ایک عمارت تنہا کھڑی ہے جس کے ماتھے پر جلی حروف میں ”دفتر عدالت پولیٹیکل اسسٹنٹ” لکھا ہے۔ اسی کے قریب ایک بورڈ پر Proposed PA Museum لکھا ہے۔ شاید کہ مستقبل میں یہاں کوئی اچھا میوزیم بن جائے۔اسی عمارت کے پیچھے اور قلعے کے ساتھ وہ پوائنٹ واقع ہے جہاں مختلف قومی دنوں پر پاکستانی پرچم لہرایا جاتا ہے اور ایک پتھر کے مانومنٹ پر ”پاکستان زندہ باد” اور بلوچ سرداروں کے نام لکھے ہیں۔اسی پہاڑی کے گرد ایک پکی اور خوب صورت سڑک بَل کھاتی ہوئے گزرتی ہے جو آپ کو فورٹ منرو کے دیگر مقامات تک لے کر جاتی ہے۔
فورٹ منرو سے چند ہی کلومیٹر دور “اناری” نام کی جگہ ہے جہاں آپ بادلوں سے اٹھکھیلیاں کرسکتے ہیں، یہاں آپ بادلوں سے اُوپر اور بادل نیچے ہوتے ہیں۔
کھانے کی بات کریں تو یہاں کی سب سے مشہور سوغات مٹن سجی ہے۔ اس بلوچی سجی کے لیے لوگ خاص طور پر یہاں آتے ہیں۔ اس کے علاوہ کھانوں کا حال کوئی بہت اچھا نہیں ہے۔ البتہ یہاں پر ضروریات زندگی بہت مناسب داموں پر دستیاب ہیں۔ اکثر لوگ اپنے کھانے کا سامان ساتھ لاتے ہیں۔
یہاں اب کئی نئے ہوٹل اور لاجز بھی کھل رہے ہیں۔اس علاقے کے لوگوں کی مہمان نوازی کا کوئی جواب نہیں۔ بلوچ اور سرائیکی تو ویسے بھی اپنی مہمان نواز طبیعت کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ یہ آپ کو فری چائے بھی پیش کریں گے اور راستہ بتانے بھی آپ کے ساتھ آخر تک آئیں گے۔ سردیوں میں یہاں مری، چترال، سوات اور دیگر شمالی علاقہ جات کی طرح برفباری ہوتی ہے۔ فورٹ منرو میں بلوچوں کے مُختلف قبائل آباد ہیں جن میں علیانی، احمدانی، بجرانی، شاہوانی، ہندیانی وغیرہ شامل ہیں اور یہ تمام قبائل لغاری قبیلے کو اپنا سردار تسلیم کرتے ہیں۔
فورٹ منرو سے کچھ آگے جائیں تو کوہِ سلیمان کے بیچ واقع بلوچستان کے ضلعے بارکھان کا شہر رکھنی آتا ہے جہاں کے بازار ایرانی و افغانی سامان سے بھرے ہوئے ہیں۔ یہاں ہر طرف چہل پہل ہے۔
ہر سال جنوبی پنجاب کی گرمی کے ستائے ہزاروں سیاح یہاں آتے ہیں جب کہ ملتان، ڈیرہ غازی خان، مظفر گڑھ اور دیگر قریبی علاقوں کے لوگ تو ہفتہ وار یہاں کا چکر لگاتے ہیں۔ یہاں کی مقامی سیاحتی تنظیموں (جن میں وسیب ایکسپلوررز سر فہرست ہے) کی محنت اور کوہِ سلیمان کے نت نئے علاقوں کی کھوج کی بدولت اب تو لاہور، کراچی اور پختونخواہ کے سیاح بھی یہاں کا رخ کرتے ہیں۔
یہاں زیادہ تر گلہ بان اور خانہ بدوش رہتے ہیں۔ وہ افراد جنہوں نے یہاں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ آس پاس کے بڑے شہروں سے تعلق رکھتے ہیں۔ پنجاب حکومت نے 2015 میں اس علاقے کی تعمیر و ترقی کے لیے بڑی گرانٹ منظور کی تھی جس میں ایک چیئر لفٹ کا منصوبہ بھی شامل تھا جو ابھی تک شروع نہیں ہوسکا۔ اگر یہاں کھانے پینے کے مناسب انتظام کے ساتھ ساتھ عوام کی تفریح کے لیے ایسے ہی چند پراجیکٹ لگا دیے جائیں تو یہ خطہ مہینوں نہیں دنوں میں ترقی کی منازل طے کرے گا۔
جو شوقین حضرات ٹھنڈے موسم کے ساتھ ساتھ سکون، خاموشی، تنہائی، سادگی، اور ایک کپ چائے کا مزہ لینا چاہتے ہیں وہ یہاں ضرور آئیں۔ بلکہ یہاں کے پہاڑوں اور اڑتے بادلوں کے سامنے بیٹھ کہ کتاب پڑھنے کا جو مزہ ہے وہ بیان سے باہر ہے۔
تو کب جا رہے ہیں پھر آپ جنوبی پنجاب کے مَری؟
The post فورٹ منرو؛ جنوبی پنجاب کا مَری appeared first on ایکسپریس اردو.