جس سماج میں ’لاک ڈاؤن‘ ڈھنگ سے نہ ہو سکا ہو، وہاں ہم نے یہ امید کیسے لگا لی تھی کہ ’لاک ڈاؤن‘ میں نرمی کے بعد حفاظتی تدابیر پر اچھی طرح عمل درآمد ہو سکے گا۔۔۔؟
یہ تو بہت بنیادی سا سوال ہے۔ ان چیزوں کا تعلق ایک طرف عوامی ذمہ داری سے ہوتا ہے، تو دوسری طرف حکومتی ساکھ اور اس پر عوامی بھروسے سے بھی ہے، اس کا مظاہرہ ہم تقریباً گذشتہ دو ماہ سے ’لاک ڈاؤن‘ کے حوالے سے مسلسل دیکھ رہے ہیں۔۔۔
عالمی وبا قرار دی جانے والا ’کورونا‘ وائرس ہمارے ملک میں داخل ہوا، تو بہ جائے اتحاد کے ہم نے دیکھا کہ پہلے دن سے ہی اجتماعیت تارتار ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارے باہمی اختلافات اور تنازعات بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔۔۔ ایسے میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں بھی ایک دوسرے سے متفق نہ ہو سکیں، الا یہ کہ وہ اس موقع پر عوام کی شکایات پر مرکوز ہوتیں اور انہیں اچھی طرح اعتماد میں لے کر اپنے فیصلے کرتیں اور پھر اس پر عمل کرنے کے لیے قائل کرتیں۔۔۔
’کورونا‘ کے حوالے سے مسلسل ہی مشکوک صورت حال اور ایسی اطلاعات اور شکایات سامنے آرہی ہیں، جس پر رائے عامہ میں انتشار اور بے چینی پھیلنا فطری ہے۔ یہاں تو اب ڈاکٹروں کی ’پریس کانفرنسوں‘ کو بھی شک وشبے کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا ہے، لوگ مختلف سوالات کرنے لگے ہیں، جیسا کہ یہی کہ عوام کو ’کورونا‘ سے ڈرانے والے معالجین آخر خود ’اغل بغل‘ ہو کر کیوں بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔؟ انہوں نے خود ’سماجی فاصلہ‘ کیوں ملحوظ نہ رکھا؟
حالات کے ستائے ہوئے عوام نوحہ کناں ہیں کہ اِن کے مریضوں کو زبردستی ’کورونا‘ کا شکار قرار دے دیا گیا ہے۔۔۔ لواحقین براہ راست اسپتالوں اور طبی عملے پر ’ہمارا مریض مار دیا‘ جیسے سنگین الزامات بھی لگانے لگے ہیں۔۔۔ متوفیوں کی میتیں حوالے نہ کرنے پر پس ماندگان مشتعل ہو رہے ہیں۔۔۔ ملک بھر سے ایسی تکلیف دہ اطلاعات برابر سامنے آرہی ہیں، جس سے سراسیمگی پھیل رہی ہے، کہ ہم اپنے بزرگوں اور مریضوں کو طبی امداد کے لیے اسپتال لے کر جائیں، تو وہاں نہ جانے اِن کے ساتھ کیا سلوک ہو۔۔۔ وہ اس کے بعد کی صورت حال کا تصور کر کے ہی دہل جاتے ہیں۔ متعلقہ حکام کی جانب سے اس حوالے سے تاحال کسی قسم کی کوئی تحقیقات یا لب کشائی کی بھی زحمت نہیں کی گئی۔ ضرورت اس امر کی ہے فوراً سے پیش تر اس حوالے سے آزادانہ اور کھلی گفتگو کی جائے، ساتھ ہی عوام کی داد رسی کے لیے کوئی مددگار مرکز قائم کیا جائے، جہاں ایسے مسائل کو حل کیا جا سکے۔
’لاک ڈاؤن‘ میں نرمی کے نام پر بازار کھولنے کی اجازت کے حوالے سے پہلے بارہا یہ بات سامنے آتی رہی کہ باری باری ہفتے میں دو، دو دن مختلف قسم کی دکانیں کھولنے کی اجازت دی جائے گی، جس سے لوگوں کی ضرورت پوری ہونے کے ساتھ ساتھ بازاروں میں بھیڑ کے مسئلے سے بھی محفوظ رہا جا سکے گا۔۔۔ لیکن پھر ایک دم ہی سارا بازار کھول دیا گیا۔۔۔ جس میں شاذونادر ہی سماجی فاصلے کا خیال رکھا گیا، اس قانون کی ’خلاف ورزی کے نام پر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور تاجروں کی دھینگا مشتی شروع ہوئی، کئی مارکیٹیں سیل کی گئیں۔ سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ مسئلے کا حل ہے۔۔۔؟ سماجی فاصلے کا خیال تو شاید ہی کسی جگہ رکھا جا رہا ہو، کہاں تک دکانیں سیل کی جائیں گی۔ ایسے میں کراچی کے چھوٹے بڑے تاجر اور مختلف تنظیمیں در در کی سیاسی جماعتوں کے چکر لگا رہے ہیں، کہیں وہ دیرینہ سیاسی جماعت کے سامنے ’پرانے‘ وقت کو یاد کرتے ہیں اور کہیں وہ موجود حکمراں جماعتوں کی چیرہ دستیوں پر غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔۔۔
دوسری بات یہ کہ ہفتے میں چار دن فجر تا شام پانج بجے کھلنے والے بازار کا ’کم وقت‘ اپنے آپ ہی لوگوں کے جم غفیر کا سبب بن رہا ہے، بالخصوص کراچی جیسے گنجان آباد شہر میں ’سماجی فاصلے‘ کی اصطلاح بھی بہتیری جگہوں پر خود ’شرمندہ‘ ہو جاتی ہے۔۔۔ کہنے کو کسی نے یہ شگوفہ چھوڑا ہے، لیکن بات کچھ ایسی غلط بھی نہیں ہے کہ اگر ’کراچی والے‘ چھے فٹ کا ’سماجی فاصلہ‘ رکھنے لگے، تو شاید لوگ حیدرآباد تک پھیل جائیں گے۔۔۔! خیر، کم وقت کو لوگوں کے رش کا سبب بتانے والے اول وقت میں دکانیں بند رہنے کی غفلت کو بھی تو نظرانداز نہیں کر سکتے، جب لوگ ہی گیارہ اور بارہ بجے کے بعد دکانوں کا رخ کریں گے، تو پھر کاہے ایک دوسرے سے فاصلہ رکھ سکیں گے۔۔۔؟
بازاروں میں ٹوٹ پڑنے والی خلقت دیکھ کر یہ کہنا بالکل بھی درست نہیں ہے کہ ’نہیں لگتا کہ یہ لوگ فاقہ کشی پر مجبور تھے۔۔۔!‘ بھئی، بھوکوں مرنے والے لوگ اور ہیں اور اس وبا میں ’عید‘ کی خریداری کرنے والوں کا جہاں بالکل ہی دوسرا ہے۔۔۔ ایسا کہنا ہی نہایت غلط اور غیر مناسب معلوم ہوتا ہے۔
لاک ڈاؤن میں بتدریج نرمی کرتے ہوئے اندرون ملک پروازیں کھل چکی ہیں اور اب ریلوے کھلنے کی بازگشت ہے اور شاید ٹرانسپورٹ بھی کھل جائے گی۔۔۔ گلیوں اور بازاروں میں ’سماجی فاصلے‘ کی دھجیاں اڑنے کے بعد ٹرانسپورٹ میں اس کی توقع رکھنا دیوانے کا خواب ہوگا۔۔۔ بالخصوص کراچی کی وہ ناکافی اور کھٹارا بسیں جس کے اندر مسافروں کو ٹھونس ٹھونس کر لے جایا جاتا ہے، اور بس کے پائیدان سے لے کر اس کی چھت تک لوگ حقیقتاً ’ٹنگے‘ ہوئے ہوتے ہیں، اس میں سماجی فاصلے کا ’تماشا‘ بھی شاید ہم بہت جلد دیکھ لیں گے۔
عالمی سطح پر ’کورونا‘ کے حوالے سے ایسی آوازیں سنی جا رہی ہیں کہ نہ جانے کورونا جائے گا بھی یا نہیں اب ساری دنیا ہمیشہ کے لیے نقاب پوش بن کر پھرے گی، کوئی کسی کو چھوتے ہوئے بھی ڈرے گا۔۔۔ گلے نہ مل سکے گا۔۔۔ مصافحہ کرنا ترک رہے گا اور۔۔۔۔ عملاً سب ایک دوسرے سے پرے پرے ہوجائیں گے۔۔۔
پہلے ہمیں یہ کہا جاتا رہا کہ ’’کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے‘‘ اور اب صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ ’’کورونا کے ساتھ ہی زندگی گزارنا ہے‘‘ یعنی باہر نکلیں تو مستقل ماسک پہنے رہیں، سارا سارا دن ماسک پہنے رہنے سے کان تک دُکھ جاتے ہیں۔۔۔ یہی نہیں ’فاصلے‘ رکھ کر میل جول کرنا کس قدر اور کب تک ممکن رہے گا۔۔۔ خوشی، غمی کے مواقع پر بھی طرح طرح کی پابندیاں ہیں۔ بات پھر وہیں آجاتی ہے کہ یہ صورت حال جتنا بھی طویل رہتی ہے، ہمیں ہر صورت یک سو ہو کر ہر قسم کی شکایات اور مسائل کو حل کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہے، تبھی ہم ’کورونا‘ کے ساتھ زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں گے، بصورت دیگر ناامیدی، خوف اور مایوسی کی پرچھائیاں یوں ہی دور تک پھیلتی چلی جائیں گی۔۔۔
’وائرس‘ صابن سے دھل سکتا ہے مگر ویکسین نہیں؟
بہت سے صاحب الرائے افراد کی جانب سے ’سماجی ذرایع اِبلاغ‘ (سوشل میڈیا) پر یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ ’کورونا‘ کیسا وائرس ہے جو عام صابن سے دھل جاتا ہے، مگر اس کی ویکسین نہیں بن سکتی۔۔۔؟ یہ پڑھ کر تھوڑی دیر کے لیے تو دماغ چکرا سا جاتا ہے کہ اس کا کیا جواب دیا جائے۔۔۔ یہ تو ایسے ہی ہے کہ ایک چیونٹی ہاتھی کے پورے بدن پر گھومتی رہے اسے کچھ نہیں ہوتا، لیکن اگر ہاتھی کی سونڈ میں گھس جائے تو ہاتھی کی موت واقع ہو سکتی ہے۔۔۔! جی بالکل، یہ ایسی ہی بات ہے کہ آپ سرخ مرچوں کو ہاتھ لگا کر کہیں کہ اس سے تو کچھ بھی نہیں ہوتا اور اسی کو دلیل بنا کر اسے اپنی زبان پر رکھیں یا اپنی آنکھوں میں جھونک دیں۔ جیسے لال بیگ کو حشرات الارض میں اتنا سخت جان بتایا جاتا ہے کہ ’ایٹمی حملے‘ تک میں وہ خود کو بچا سکتا ہے، لیکن اس رینگنے والے کیڑے کی جان کو آپ کتنی آسانی سے کچل سکتے ہیں، یہ آپ بخوبی جانتے ہیں۔ تو وائرس کے حوالے سے بھی ہم یہ استدلال نہیں کر سکتے کہ یہ صابن سے دھل سکتا ہے، تو خطرناک کیسے ہوسکتا ہے یا اس کی ویکسین نہیں بن سکتی، ہر چیز کو ایک پیمانے پر نہیں پرکھا جا سکتا۔
وبا کے دنوں میں ’فرقہ واریت!
کورونا کیا کم تھا کہ کراچی میں گذشتہ دنوں ’فرقہ واریت‘ کا جن بھی بوتل سے باہر آنے لگا، بلکہ یوں کہا جانا چاہیے کہ حکام کی نااہلی اور ناعاقبت اندیشی کے سبب باہر نکلا۔۔۔ دانستہ یا غیر دانستہ حکومت سندھ کی جانب سے حساس مذہبی صورت حال پر ٹھیک طرح سے کام نہیں کیا گیا، نتیجتاً مختلف مسالک کے لوگ آمنے سامنے آگئے۔۔۔ کہاں سارا دیش ایک وبا کی ہول ناکیوں میں جکڑا ہوا ہے، اور کہاں شہر پر فرقہ واریت کی نئی افتاد آنے لگی۔۔۔ اس پر طرہ کہ کوئی اس صورت حال پر مرہم رکھنے والا اور آگ بجھانے والا بھی دکھائی نہیں دیتا۔۔۔ سماجی ذرایع اِبلاغ کے بے لگام ذریعہ ایسے موقع پر بہت کاری وار کیا کرتا ہے اور کوئی بھی چنگاری خدانخواستہ کسی آگ کا ذریعہ بن سکتی ہے۔۔۔ اور دونوں طرف کے لوگوں کو ہوش کے ناخن لینے کے لیے قائل کرنے والے متحرک دکھائی نہیں دیتے۔۔۔ جذباتیت کے بہ جائے تدبر اور عقل کی بات کرنے پر راضی کرسکے۔۔۔ شہر کو آگ لگتی ہے تو لگا کرے ان کی بلا سے!
ایندھن سستا کرنے کا نقصان۔۔۔!
کورونا کی وبا کی وجہ سے پیدا ہونے والی مندی کے سبب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہونے کے بعد بہ ظاہر عوام کو اس کا فائدہ پہنچانے کے لیے حکومت نے بھی دو بار تیل کے نرخ کم کیے۔۔۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس کمی سے واقعی عوام کو کوئی فائدہ ہوتا ہے؟ جب بھی عالمی منڈی کے کم نرخ کو جواز بنا کر حکومت ایندھن سستا کرتی ہے، تو کسی چیز کی قیمت نہیں گھٹتی، آمدورفت سے لے کر روزمرہ کی چیزوں کی ترسیل میں لاگت کم ہونے کے باوجود نرخ کم نہیں ہوتے، لیکن الٹا جب کچھ ماہ بعد جب پیٹرول دوبارہ اپنے سابقہ نرخ پر واپس آئے گا تو ’مہنگائی‘ کے نام پر کرائے سے لے کر روزمرہ کی چیزوں تک کے اخراجات ضرور بڑھ جائیں گے۔۔۔۔! یہ ہوتا ہے مہنگا ایندھن سستا کرنے کا اصل نقصان۔۔۔! اس لیے زیادہ بہتر یہ ہوتا ہے کہ ایسے موقع پر حکومت پیٹرول سستا کرنے کے بہ جائے یہ رقم اپنے پاس جمع رکھے اور پھر جب عالمی منڈی میں ایندھن مہنگا ہونے لگے تو پھر اس جمع شدہ رقم کو اپنے عوام کے لیے اس کی قیمت تادیر مستحکم رکھنے میں کام میں لے۔ اس طریقے سے شاید زیادہ بہتر طریقے سے عوام کی تلافی ممکن ہے، بہ جائے اس طرح قیمت کم کرنے کے۔
The post اب ہمیں ’کورونا‘ کے ساتھ زندگی گزارنی ہے۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.