پچھلے ڈیڑھ سو سال میں سائنس و ٹیکنالوجی کی زبردست ترقی نے کرہ ارض پر انسان کو حقیقی معنوں میں اشرف المخلوقات بنادیا۔ لیکن ترقی کے اس تاریخ ساز سفر میں انسان سے یہ فاش غلطی سرزد ہوئی کہ وہ ان خرابیوں اور غلطیوں کو نظر انداز کرتا چلا گیا جو بطور ضمنی پیداوار (By-product) ساتھ ساتھ جنم لے رہی تھیں۔
کارخانے لگاتے، کھیت بناتے اور بستیاں بساتے ہوئے انسان ماحولیات اور جنگلی حیات کے حقوق سے بے پروا رہا۔ نتیجتاً آج دنیا کا ماحول اتنا آلودہ ہوچکا کہ بعض شہروں میں سانس تک لینا محال ہے۔اسی طرح نت نئی اشیائے خورونوش نے جنم لیا تو انسان اپنی صحت سے غافل ہوگیا۔ اب رنگ برنگ غذائیں غیر فطری طریقوں سے اگائی اور دھڑا دھڑ کھائی جانے لگیں۔ کھانے پینے کے اس جدید طرز نے مگر نئی بیماریوں کو جنم دیا اور انسان کو آرام و سکون سے محروم کردیا۔
یہ اچھوتی بات ہے کہ ایک معمولی ،غیر مرئی وائرس نے بنی نوع انسان کی دیوہیکل اور وسیع و عریض سرگرمیاں روک کر اسے خبردار کیا کہ وہ ترقی و خوشحالی کے سفر میں خرابیوں کو نظر انداز نہ کرے۔ امید ہے کہ اب انسان ہوش میں آکر اندھا دھند بھاگنے سے گریز کرے گا۔ وہ اعتدال پسندی کا دامن تھام لے گا تاکہ نہ صرف کرہ ارض میں ماحول صاف ستھرا رکھے بلکہ اپنی صحت بھی تندرست و توانا بنائے۔ ہر معاملے میں شدت پسندی اچھّی نہیں ہوتی۔
خصوصی شے کی تخلیق
سارس کوو 2 وائرس سے پھیلی وبا نے انسان پر یہ بھی واضح کیا کہ اس کا جسم کوئی معمولی چیز نہیں بلکہ عجائبات و اسرار کی عظیم الشان دنیا ہے۔ وجہ یہ کہ پوری کائنات میں انسان واحد زندہ مخلوق ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے دست قدرت سے بنایا۔ جب رب کریم انسان کو پانی اور مٹی سے بناچکے تو فرشوں سے کہا کہ آدمؒ کو سجدہ کرو۔ ابلیس نے نافرمانی کی تو رب کائنات نے فرمایا ’’تجھے کس چیز نے اس کو سجدہ کرنے سے روکا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا؟‘‘ (سورۃ ص۔ 75)
دور جدید کے مفسرین درج بالا فرمان الٰہی کی تشریح کرتے ہیں کہ اس جملے سے آشکارا ہے، اللہ تعالیٰ نے نہایت اہم اور خصوصی شے تخلیق فرمائی تھی ۔ اللہ پاک نے کسی اور زندہ مخلوق کو اتنی توجہ، چاہت، اپنائیت اور احتیاط سے تخلیق نہیں فرمایا۔
یہ آیت حضرت آدمؓؑ اور ان کی آل اولاد کے اشرف مخلوقات ہونے کا بین ثبوت ہے۔ اب سائنس و ٹیکنالوجی بھی انسانی جسم کے حیرت انگیز اسرار دریافت کرتے ہوئے فرمان الٰہی کی حقانیت و سچائی کا اقرار کررہی ہے۔تعجب خیز بات یہ کہ سائنس دانوں نے خلویاتی سطح پر انسانی جسم کے جو اسرار بیسویں صدی میں آ کر دریافت کیے، اللہ تعالی چودہ سو سال قبل ہی انھیں اپنی کتاب مبین میں بیان فرما چکے۔یہ سچائی جان کر اللہ پاک کو نہ ماننے والوں کی آنکھیں کھل جانی چاہیں۔آئیے سائنس کی کسوٹی پر اس سچائی کا جائزہ لیتے ہیں۔
ایٹموں کی جادوئی دنیا
ہمارا جسم کئی ہزار کھرب ایٹموں کا مجموعہ ہے۔ایٹم کائنات میں ہر شے کی سب سے چھوٹی اکائی ہے۔یہ اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ صرف ایک سینٹی میٹر میں ’’دس کروڑ ایٹم‘‘ سما جائیں۔ یہ ایٹم پھر مختلف سالمات (ڈی این اے، خامرے، پروٹین، چکنائی، کاربوہائیڈریٹ) بناتے ہیں۔ سالمات سے پھر جین (Gene) اور خلیے بنتے ہیں۔انسانی جسم تیس تا چالیس ٹریلین خلیوں کے ملاپ سے بنا ہے۔ایٹم یونانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں :جسے تقسیم نہ کیا جاسکے۔لیکن اب تحقیق سے سائنس دان جان چکے کہ ایٹم کے مزید چھوٹے حصے ہیں جن کو ’’ذیلی ایٹمی ذرات‘‘ (Subatomic particle)کا نام دیا جاچکا۔ ماہرین اب تک ایسے پچیس ذیلی ایٹمی ذرے دریافت کرچکے۔ خیال ہے کہ مزید ڈیڑھ سو کائنات میں موجود ہیں۔ مگر موجودہ انسان ساختہ آلات انہیں شناخت کرنے سے قاصر ہیں۔
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں چودہ سو سال قبل ہی بتاچکے کہ ایٹم مزید چھوٹے ذرات رکھتا ہے۔ فرمان الٰہی ہے ’’یہ اللہ ہے جو بیجوں اور مرکزے (نیوکلس) کو پھاڑ ڈالتا ہے۔ (سورۃ انعام۔96)۔ مرکزے کو عربی میں ’’نواۃ‘‘ کہتے ہیں۔ اس کی جمع ’’نوی‘‘ ہے جوکہ آیت قرآنی میں درج ہے۔اس میں انسان کو مطلع کیا گویا بتایا گیا کہ ایٹم کے نیوکلس کو پھاڑنا ممکن ہے۔
واضح رہے، انسان اب تک کائنات کا محض 5 فیصد حصہ یا مادہ ہی دیکھ سکا ہے۔ 95 فیصد حصہ انسانی آنکھوں سے اوجھل ہے۔ یہ حصہ ’’سیاہ مادہ‘‘ (Dark Matter) کہلاتا ہے۔ اس حصے کا پتا بس اس کی غیر مرئی قوتوں مثلاً دباؤ ڈالنے کی قوت سے چلتا ہے۔
مثلاً سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کسی ان دیکھی قوت نے کہکشاؤں کو اپنی جگہ تھام رکھا ہے۔ وہ نہ ہوتی تو کہکشائیں خلا میں پاگلوں کی طرح چکر کھانے اور ایک دوسرے سے ٹکرانے لگتیں۔یہ قوت کشش ثقل کے مخالف کی حیثیت رکھتی ہے۔گویا یہ یہ قوت نہ ہوتی تو ہماری کائنات تباہ وبرباد ہو جاتی۔اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اِسی پُراسرار اور غیر مرئی قوت کے متعلق انسان کو یوں آگاہ فرمایا ہے: ’’اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو ایسے ستونوں سے سہارا دیا جنہیں تم دیکھ نہیں سکے۔ وہ پھر تخت پر بیٹھ گیا اور اس نے سورج اور چاند کو قانون کے مطابق رواں دواں کردیا۔ (سورۃ رعد۔ 2)
پانی رے پانی
کائنات میں تنہا ایٹم بہت کم ہیں، وہ عموماً ایک دوسرے سے جڑ جاتے ہیں۔ تب وہ ’’سالمہ‘‘(Molecule) کہلاتے ہیں۔ مختلف ایٹموں کے ملاپ ہی سے تمام مادے (عناصر) وجود میں آئے۔ درحقیقت کوئی بھی ماد ہ ہو یا گیس‘ وہ سالمات ہی سے بنی ہے۔ ان میں انسانی جسم بھی شامل ہے۔ انسانی بدن میں کئی اقسام کے سالمات ملتے ہیں۔ قدرت الٰہی نے مخصوص کام ان کے ذمے لگا رکھے ہیں۔
جب دو مختلف ایٹم باہم جڑ جائیں تو اصطلاح میں وہ ’’مرکب‘‘ (Compound) کہلاتے ہیں۔ پانی اس کی سادہ مثال ہے۔ ہائیڈروجن گیس کے دو اور آکسیجن گیس کا ایک ایٹم ملنے سے پانی وجود میں آیا۔ پانی بظاہر معمولی مرکب ہے۔ مگر جدید سائنس اسے ہی زندگی کا سرچشمہ بلکہ آب حیات قرار دے چکی۔ کائنات کے جس حصے میں پانی مل جائے، سمجھیے وہاں زندگی کا کوئی نہ کوئی نمونہ بھی ضرور موجود ہو گا۔ جدید سائنس نے تو بیسویں صدی میں یہ بات جانی مگر چودہ سو سال قبل قرآن میں اللہ تعالیٰ فرما چکے : ’’کیا کفار نے غور نہیں کیا‘ آسمان اور زمین جڑے ہوئے تھے‘ پھر ہم نے انہیں الگ کر دیا۔ اور ہم نے پانی سے ہر زندہ شے کو بنایا۔ کیا وہ اب بھی ایمان نہیں لائیں گے؟ (سورہ انبیاء۔ 30)
درج بالا آیت مبارکہ دو انتہائی اہم اور حیران کن انکشاف کرتی ہے۔ اول یہ کہ کائنات میں ہر زندہ شے پانی سے بنی ہے اور دوسرا یہ کہ کائنات وجود میں آنے سے قبل ہر شے آپس میں ملی ہوئی تھی۔ اللہ پاک نے اپنی قدرت سے اسے علیحدہ کر دیا۔ جدید سائنس نے یہی بات بیسویں صدی میں آ کر دریافت کی۔ اس نے ہر شے علیحدہ ہونے کے عمل کو ’’بگ بینگ‘‘(Big Bang) کا نام دیا۔ گویا اللہ تعالیٰ نے چودہ سو صدیاں قبل جو سچائی مسلمانوں کو بتا دی تھی‘ غیر مسلم کچھ عرصہ قبل ہی اس سے آگاہ ہوئے۔
قرآن پاک کی حقانیت کا ایک اور زبردست ثبوت ملاحظہ فرمایئے۔ جدید سائنس نے پچھلے چند برس کے دوران تحقیق و تجربات سے جانا ہے کہ کرہ ارض پر پانی خلا سے آیا۔ یعنی جب چار ارب سال پہلے زمین وجود میں آئی تو اس پر پانی نہیں تھا۔ لہٰذا زندگی کا بھی نام و نشان نہ تھا۔ آج سائنس دانوں کی اکثریت کو یقین ہے کہ زمین پر پانی وہ شہاب ثاقب اور دم دار ستارے لائے جن پر برف جمی تھی۔
وہ جب زمین سے ٹکراتے تو برف بادلوں کی صورت میں ڈھل کر کرہ ارض پر گر جاتی۔ حیرت انگیز طور پر اللہ تعالیٰ یہی سچائی قرآن پاک میں آشکارا فرما چکے:’’اور اسی (اللہ تعالیٰ)نے آسمان سے پہاڑوں کی صورت بادل نیچے (زمین پر) بھیجے اور ان سے اولے برسائے۔ وہ (اس پانی کو) جس پر چاہے‘ ڈال دیتا ہے۔ اور جس سے چاہے‘ ہٹا کررکھتا ہے۔‘‘ (سورہ النور ۔43)
زندگی کی پیدایش
درج بالا حقائق سے آشکار ہوچکا کہ زمین پر زندگی کو جنم دینے میں پانی نے نمایاں کردار ادا کیا۔ اس کے بعد سالمات کا نمبر آتا ہے۔ یہ سالمات انیسویں صدی میں سائنس دانوں نے دریافت کیے مگر قرآن میں اللہ تعالیٰ صدیوں قبل ان کی نشان دہی فرما چکے۔ کتاب الٰہی میں ان سالمات کو مٹی یا خاک کہا گیا ہے: ’’اور اس نے انسان کو مٹی سے بنانا شروع کیا۔ پھر اس کی نسل کو حقیر پانی کے نچوڑ سے چلایا۔ پھر اسے درست کیا اور اس میں اپنی کچھ روح پھونک دی۔‘‘ (سورۃ سجدہ۔ 7 تا 9)
حقائق سے عیاں ہے کہ زندگی کا سب سے چھوٹا روپ’’خلیہ ‘‘بھی حقیقتاً دو بے جان اشیا… پانی اور مٹی کا مجموعہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ پانی اور مٹی کے مجموعے میں زندگی کی لہر کیسے دوڑی؟ اس میں حرکت نے کیونکر جنم لیا۔ یہ سائنس و ٹیکنالوجی کے اہم ترین سوالات میں وہ ایک سوال ہے جس کا جواب تمام تر ترقی کے باوجود انسان نہیں جان سکا۔ گو وہ اس سلسلے میں سینکڑوں نظریات سامنے لاچکا۔
دلچسپ بات یہ کہ سائنس دان ہی ایک دوسرے کے نظریات کو غلط اور ناقابل قبول قرار دے چکے۔سائنس کی عقلی کسوٹی تو یہی کہتی ہے کہ صرف زندہ وجود ہی سے نیا زندہ جنم لے گا۔ ظاہر ہے، حقیقی دنیا میں پانی اور نامیاتی مادے (سالمات) یا مٹی کی مردہ حالت سے کوئی زندہ جنم نہیں لے سکتا۔ یہ یقیناً کسی فوق البشر اور عظیم ترین قوت ہی کا کام ہے کہ اس نے مردہ ملغوبے میں زندگی کی لہر دوڑا دی ۔لیکن ضدی، اناپرست اور مفرور سائنس داں اس زبردست قوت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کیونکہ یوں اللہ تعالیٰ کی حقانیت ثابت ہوجاتی ہے۔
تحقیق و تجربات کے بحر میں غوطے کھانے کے بعد سائنس داں البتہ اس نتیجے پر پہنچ چکے کہ اربوں سال پہلے کسی دریا یا سمندر کے کنارے پانی اور سالمات کا ملغوبہ (گارا) خشک ہوگیا۔ اس سوکھی مٹی میں پھر کسی طریقے سے بجلی کا کوندا لپکا، اسپارک بلند ہوا اور سوکھے گارے میں زندگی کی لہر دوڑ گئی۔ سوال مگر یہی ہے کہ وہ بجلی کا کوندا یا سپارک کہاں سے آیا؟ اس سلسلے میں بعض ماہرین نے آسمانی بجلی کا نام لیا۔
مگر دیگر سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ آسمانی بجلی تو ہر شے جلا کر راکھ کردیتی ہے۔ وہ سپارک اتنا شدید نہیں تھا کہ اس سے تو زندگی جیسی نازک و نفیس شے نے جنم لیا۔ پھر اس وقت آسمانی بجلی کے علاوہ بجلی کی کوئی اور قسم موجود ہی نہیں تھی۔ اسی لیے کہا گیا کہ کسی شہاب ثاقب کے گرنے سے جو بجلی پیدا ہوئی، شاید اس نے ملغوبے میں زندگی دوڑا دی۔ مگر اس نظریے کو بھی تقریباً سبھی سائنس داں مسترد کرچکے۔
عالم اسلام کے اکثر سائنس داں البتہ تسلیم کرتے ہیں کہ پانی و مٹی کے سوکھے گارے میں زندگی کی لہر دوڑانے والے رب العزت ہی ہیں اور کوئی نہیں۔ وجہ یہ کہ جب زندگی جنم لینے کے اس نظریے کا نام و نشان نہیں تھا تب بھی اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں بنی نوع انسان کو اس کی بابت خبر دے رہے تھے۔
قرآن پاک میں آیا ہے :’’اور ہم نے انسان کو سڑے ہوئے گارے کی سوکھی مٹی سے بنایا۔ اسے پھر درست کیا اور اس میں اپنی کچھ روح پھونک دی۔‘‘ (سورہ حجر۔ 26 تا 29) ان آیات میں روح پھونک دینے سے یہی مراد ہے کہ پانی و مٹی کے سوکھے گارے میں اللہ تعالیٰ نے قدرت الٰہی سے اسپارک یا زندگی کی چنگاری پیدا فرمادی۔ اس طرح کرہ ارض پر زندگی کے دور کا آغاز ہوا۔
خلیے کی کہانی
کرہ ارض پر سو سے کچھ زیادہ اقسام کے ایٹم ملتے ہیں۔ لیکن وہ باہم مل کر لاکھوں قسم کے مادے بنا سکتے ہیں۔ ہماری روزمرہ زندگی میں مستعمل کئی اشیاء مثلاً موبائل ‘ ملبوسات‘ جوتے‘ گاڑیاں‘ قلم‘ کاغذ‘ پلنگ اس امر کی نشانیاں ہیں۔ درحقیقت ایٹموں کے مرکبات کی وجہ ہی سے زمین پر رنگ برنگ اور متنوع اشیاء وجود میں آئیں۔
اگر ایٹم مردہ اشیا کے سب سے چھوٹا ذرے ہیں‘ تو خلیہ زندہ اجسام میں یہ مقام رکھتا ہے۔ خلیے کا 70 فیصد حصہ پانی ہے بقیہ 30 فیصد حصہ مختلف سالمات سے بنا ہے۔ ان میں پروٹین‘ نیوکلک تیزاب (ڈی این اے اور آر این اے)‘ کاربوہائڈریٹس‘ چکنائی اور دیگر مادوں کے سالمے شامل ہیں۔ خلیے کی چھوٹی بڑی اقسام ہیں۔ سب سے چھوٹا خلیہ محض0.2مائکرون قطر رکھتا ہے۔ انسانی خلیے کا قطر 20 مائکرون ہے۔ گویا ایک پن کے سرے پر دس ہزار انسانی خلیے جمع ہو سکتے ہیں۔
یہ خلیے ہی ہیں جو قرآن پاک کی صداقت کا ایک اور ثبوت سامنے لے آئے۔ چند عشرے قبل سائنس دانوں نے تحقیق سے دریافت کیا کہ انسانی جسم میں خلیوں کی بعض اقسام کی یادداشت انسان کے مرتے دم تک رہتی ہے۔ مثلاً دماغ کے نیورون خلیوں میں محفوظ شدہ یادیں انسان کبھی نہیں بھولتا۔ اسی طرح ہمارے مدافعتی نظام کے خصوصی خلیے ہر بیماری کی یادداشت اپنے میں محفوظ کرلیتے ہیں۔
گویا ثابت ہوگیا کہ خلویاتی سطح پر بھی انسان میں یادیں رکھنے کا نظام موجود ہے۔ لیکن قرآن پاک میں چودہ سو سال قبل ہی یہ سچائی بیان فرمادی گئی۔ ’’اس دن ان کی زبانیں، ہاتھ اور پاؤں ان کے اعمال کی وجہ سے ان کے خلاف گواہی دیں گے۔‘‘ (سورہ النور۔ 24) ۔گویا یوم آخرت جب حساب کتاب کا وقت آئے گا، تو ہمارے جسمانی اعضا بھی ان کے اچھے یا برے ہونے کے گواہ بنیں گے۔ یہ آیت واضح کرتی ہے کہ ہمیں اپنے جسم کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا چاہیے کہ روز قیامت وہ ہمارے اعمال کی گواہی دے گا۔
ننھیمنے کمپیوٹر
یہ انتہائی حیرت انگیز بات ہے کہ قرآن مجید میں خلیوں سے متعلق وہ حقائق موجود ہیں جو کئی سو سال بعد سائنس دانوں کو رات دن مغز ماری کے بعد معلوم ہوئے۔ مثلاً انہوں نے جانا کہ ہر خلیے میں ڈی این اے سالمہ ننھے سے کمپیوٹر کے مانند ہے۔
اس کمپیوٹر میں تمام جنیاتی معلومات محفوظ ہوتی ہیں۔ جب بچہ رحم مادر میں پرورش پارہا ہو، تو تمام خلیوں کے ڈی این اے کے احکامات پر ہی اس کے اعضا تشکیل پاتے ہیں۔ اس کا رنگ تک انہی کی دین ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہر خلیے کے اندر پائے جانے والے کمپیوٹر یا ’’بلٹ ان کوڈ‘‘ کی طرف یوں اشارہ فرمایا ہے۔ ’’ یہ ہمارا رب ہے جس نے ہر شے کو اس کا آئین (شکل و صورت) دیا اور اسے راہ دکھائی۔‘‘ (سورہ طہ۔ 50)
حیرت انگیز بات یہ کہ انسان ہو یا کوئی حیوان مثلاً وہیل، ہاتھی، کتا یا بندر… سب زندوں کے خلیوں کی کیمیائی ترکیب ایک جیسی ہے۔ خاص طور پر ان کے ڈی این اے پانی اور مطلوبہ سالمات ہی سے بنتے ہیں۔ اس کے باوجود انسان کے ڈی این اے سے انسان ہی جنم لے گا جبکہ وہیل، ہاتھی یا بندر کے خلیوں سے انہی کے بچے جنم لیں گے۔ خلویاتی سطح پر اتنی حیران کن اور زبردست کارفرمائی صرف ایک طاقت ہی دکھا سکتی ہے اور وہی اللہ تعالیٰ ہیں۔ رب کائنات نے اپنی کتاب میں یہ کارفرمائی یوں بیان فرمائی ہے ’’ اور وہ تمام مخلوق (تخلیق کرنے کے طریقوں) کو جانتا ہے۔‘‘ (سورۃ یٰسین۔ 79)
جنہیں وہ نہیں جانتے
خلیہ بھی ایٹموں سے بنے سالمات یا مرکبات کا مجموعہ ہے جو مردہ ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان سالمات میں زندگی کی لہر کیسے دوڑی؟ حرکت نے کیونکر جنم لیا جو زندہ ہونے کی نشانی ہے؟ جیسا کہ بتایا گیا،یہ وہ سربستہ راز ہے جو سائنس تمام تر ترقی کے باوجود اب تک دریافت نہیں کر سکی۔ البتہ بیسویں صدی میں پہنچ کر ماہرین کو یہ ضرور معلوم ہو گیا کہ پانی اور مرکبات کے ملنے سے کیمیائی عمل پیدا ہوئے اور انہی کی بدولت زندگی نے جنم لیا۔
حیرت انگیز بات یہ کہ اللہ تعالیٰ چودہ صدیاں قبل یہی سچائی بیان کر چکے: ’’پاک ہے وہ جس نے ان سب چیزوں کے جوڑے بنائے جنہیں زمین اگاتی ہے‘ اور ان چیزوںکے بھی جنہیں وہ نہیں جانتے۔‘‘(سورہ یٰسین ۔36)
خون کے بے حساب خلیے
ایٹموں کے مانند خلیوں کی دنیا بھی بہت متنوع‘ رنگ برنگی اور قدرت الٰہی کا حیران کن معجزہ ہے۔ اسی میں صرف ایک خیلے والے جاندار ملتے ہیں تو وہیل اور ہاتھی جیسے دیوہیکل حیوان بھی جو کئی کروڑ کھرب خلیوں کا مجموعہ ہیں۔ پھر خلیوں کی بھی سیکڑوں اقسام ہیں۔ مثلاً انسانی جسم میں ’’200‘‘ اقسام کے خلیے ملتے ہیں۔
ہر قسم اپنا مخصوص کام انجام دیتی ہے۔ بعض خلیے تنہا اپنی ذمے داری نبھاتے ہیں۔ لیکن ان کی اکثریت ’’بافتوں‘‘ (tissues) میں ڈھل جاتی ہے۔ پھر مختلف بافتیں مل کر ’’غدہ‘‘(gland) تشکیل دیتی ہیں۔ پھر انسانی جسم کے تمام غدودمل کر ہمیں زندہ رکھتے اور بھاگ دوڑ کرنے میں مد دیتے ہیں۔
انسان جسم میں خون کے خلیے سب سے زیادہ ہیں۔ حقیقتاً کل خلیوں کی ’’80 فیصد‘‘ تعداد انہی خون کے خلیوں پر مشتمل ہے۔ گویا ہمارے بدن میں 24سے 25ٹریلین خلیے خون کے ہیں۔ دماغ کے خلیوں کی تعداد تقریباً پونے دو سو ارب ہے۔ ان خلیوں کی دو بڑی اقسام ہیں۔ اول ’’نیورون خلیے‘‘ جن کی تعداد85سے 90 ارب کے مابین ہوتی ہے۔ دماغ میں نیورون ہی برقی احکامات کی ترسیل کرتے ہیں۔ دوم ’’گلیل خلیے‘‘ جن کی تعداد 85 ارب کے لگ بھگ ہے۔ یہ نیورون خلیوں کو کام انجام دیتے ہوئے مدد دیتے ہیں۔
ہمارا 65 فیصد جسم آکسیجن گیس، 18 فیصد کاربن، 10 فیصد ہائڈروجن گیس، 3 فیصد نائٹروجن گیس اور سلفر وغیرہ سے بنا ہے۔ آکسیجن اور ہائڈروجن گیسیں مل کر پانی بناتی ہیں۔ اسی لیے ہمارا 75 فیصد جسم پانی کے سالمات سے بنا ہے۔ یہی وجہ ہے، ہمارے جسم میں پانی ہر وقت رہنا چاہیے تاکہ ہم زندہ رہ سکیں۔دلچسپ بات یہ کہ اگرچہ ہمارا جسم تیس تا چالیس ٹریلین خلیوں پر مشتمل ہے لیکن ہمارے بدن میں جراثیم کی تعدد ان سے کہیں زیادہ ہے۔
جی ہاں، انسانی جسم میں 100 ٹریلین جراثیم پائے جاتے ہیں۔ ان کی بیشتر تعداد ہماری آنتوں میں ملتی ہے۔ جلد، ناک، حلق میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ’’انسانی جراثیم‘‘ کہلائے جانے والے یہ یک خلوی نامیے ہمیں تندرست رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جراثیم بظاہر انسان دشمن سمجھے جاتے ہیں مگر ان کی تخلیق میں بھی اللہ پاک کی حکمت ہے۔ اسی لیے فرمان الٰہی ہے: ’’ہم نے ہر شے کو سوچ سمجھ کر (اور خاص کام انجام دینے کی خاطر) بنایا ہے۔‘‘ (سورہ القمر۔ 54)
ایک سالمے کے اسرار
انسانی خلیوں کے ڈی این اے سالمات میں ہماری جینیاتی خصوصیات محفوظ ہوتی ہیں۔ مثلاً ہماری آنکھوں اور بالوں کا رنگ کیسے ہوگا، گردوں اور جگر نے کیسے کام کرنا ہے۔ یہ مختلف احکامات ڈی این اے کے مختلف حصوں میں محفوظ ہوتے ہیں جنہیں ’’جین‘‘ کہا جاتا ہے۔
ایک انسانی خلیے کے ڈی این اے کو رسی کی شکل دی جائے تو وہ 6 فٹ (دو میٹر) لمبی نکلے گی۔ گویا تمام انسانی خلیوں کے ڈی این اے سے ایک رسی بن جائے تو وہ اتنی لمبی ہوگی کہ اس سے سورج اور زمین کے درمیانی فاصلے کو ’’ستر‘‘ بار لپیٹا جاسکتا ہے۔اس بات سے اندازہ لگا لیجیے کہ ہمارے بدن کا محض ایک سالمہ(ڈی این اے)کیسے زبردست اسرار رکھتا ہے۔
ہمارے بدن میں بیشتر خلیے مرجاتے ہیں۔ ان کی جگہ پھر نئے لیتے ہیں۔ تاہم دماغی خلیے، نیورون موت کو گلے نہیں لگاتے، وہ ساری عمر انسان کے ساتھ رہتے ہیں۔ خون کے خلیے 120 دن زندہ رہتے ہیں۔ اس طرح جلد کے خلیے چند ہفتوں بعد چل بستے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے، روزانہ انسانی جسم کے 70 تا 80 ارب خلیے چل بستے ہیں۔ مگر گھبرائیے مت، ان کی جگہ نئے خلیے لے لیتے ہیں۔
اگر کسی خلیے میں خرابی پیدا ہوجائے یا چھوت اسے جاچمٹے تو وہ ایک قدرتی طریق کار ’’اپوپٹوسیس‘‘ (Apoptosis )کے ذریعے خودکشی کرلیتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اس کی خرابی دیگر تندرست خلیوں کو متاثر نہ کرسکے۔ لیکن کسی وجہ سے وہ خودکشی نہ کرسکے تو کینسر کا نشانہ بن جاتا ہے۔
منہ کا شاہکار نظام
ہمارے بدن میں دماغ، دل، جگر اور گردے اہم اعضا ہیں۔ انہی میں منہ بھی شامل ہے۔یہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ تقریباً ہر بیرونی شے اسی کے راستے ہمارے جسم میں داخل ہوتی ہے۔ ہم اسی کے راستے اپنا ایندھن ‘ کھانا کھاتے ہیں۔ منہ بظاہر عام سا جسمانی حصہ ہے مگر حقیقتاً یہ بھی قدرت الٰہی کا چھوٹا سا شاہکار ہے۔کئی چھوٹے بڑے جزو مثلاً دانت ‘زبان ‘ لعاب دہن‘ مختلف جھلیاں‘ ٹانسلز‘ قوہ وغیرہ رکھتاہے۔ منہ کے ان حصوں میں سے ہر حصہ اپنی جگہ دنگ کردینے والی کئی خصوصیات رکھتے ہیں۔
مثال کے طور پر دانتوں کو لیجیے۔ ان کی بیرونی سفید تہہ ’’اینمل‘‘ کہلاتی ہے۔ یہ انسانی جسم کا سب سے سخت حصہ ہے جسے کیلشیم اور فاسفیٹ مل کر بناتے ہیں۔ اسی اینمل کی بدولت ہم اپنے دانتوں سے انتہائی سخت چیزیں بھی توڑ ڈالتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہمارے منہ کے پٹھوں کو اتنی زیادہ قوت بخشی ہے کہ ہم دانتوں سے کسی شے پر ’’200 پونڈ‘‘ کا دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ مگر یہ عمل ہمیں وقتاً فوقتاً ہی کرنا چاہیے کہ اس سے دانتوں نقصان پہنچتا ہے۔
اینمل کے باعث ہی ہمارے دانت کئی سو سال تک محفوظ رہ سکتے ہیں۔ ہمارے منہ میں بستے جراثیم دانتوں کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ جب ہم میٹھی یا چٹ پٹی خوراک کھائیں تو جراثیم انہیں مزے سے کھا کر تیزاب بناتے ہیں۔ یہ تیزاب اگر زیادہ بنے تو اینمل کو کھوکھلا کرکے ہمارے دانت خراب کردیتا ہے۔ اسی لیے میٹھی اور چٹ پٹی اشیا کم ہی کھائیے۔ یاد رہے، ہمارے منہ میں ’’تین سو‘‘ سے زائد اقسام کے جراثیم ملتے ہیں۔
دانت :قانون کے مددگار
ماہرین دنداںکہتے ہیں کہ برش کرتے ہوئے دانتوں پر دباؤ مت ڈالیے۔ اگر پانی کا محض ایک قطرہ بھی پتھر پر گرتا رہے تو اس میں سوراخ کردیتا ہے۔ لہٰذا دباؤ ڈال کر برش کرنے سے اینمل کو نقصان پہنچتا ہے۔ چونکہ اینمل میں خلیے نہیں پائے جاتے لہٰذا یہ ایک دفعہ خراب ہوجائے تو پھر نیا جنم نہیں لے پاتا۔ لہٰذا اینمل کی حفاظت کیجیے تاکہ بڑھاپے تک اپنے دانتوں سے فائدہ اٹھاتے رہیں۔
دانتوں کی ایک خاصیت یہ ہے کہ ان کا ڈیزائن یا ہئیت ہر انسان میں مختلف ہوتی ہے۔ گویا فنگر پرنٹس یا نشان انگشت کی طرح ہر انسان دانتوں کا بھی مختلف سیٹ رکھتا ہے۔ اسی لیے پولیس اور سراغ رساں کسی قاتل یا مقتول کو پہنچاننے کے لیے دانتوں سے بھی مدد لیتے ہیں۔
دانتوں کو معمولی عضو جسم مت سمجھیے۔ جدید طب نے دریافت کیا ہے کہ دانت خراب ہونے سے انسان امراض قلب، ذیابیطس اور ہڈیاں بھربھری ہوجانے جیسی بیماریوں میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ لہٰذا ہر کھانے کے بعد کم از کم تین منٹ ضرور دانت صاف کیجیے۔ یہ سنت نبویؐ بھی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو اکثر ہر نماز سے قبل دوران وضو مسواک بھی فرماتے تھے۔ (مسند احمد)۔ حدیث نبویﷺ ہے ’’چار چیزیں پیغمبروں کی میراث ہیں: حیا کرنا، خوشبو لگانا، مسواک اور شادی کرنا۔‘‘ (ترمذی۔ مسند احمد)
The post انسانی جسم : قدرت الہی کا عظیم الشان معجزہ appeared first on ایکسپریس اردو.