میڑک میں مطالعہ پاکستان کے استاد محترم نے مغلیہ سلطنت کے زوال کے اسباب پڑھاتے ہوئے ایک جملہ اپنی طرف سے ان اسباب کے اختتامیہ جملے کے طور پر ذہن نشین کرنے کو کہا تھا کہ جس سے پیپر دیکھنے والے پر اچھا تاثر جائے گا اور ہو سکتا ہے وہ اس سوال کے لکھے ہوئے جواب پر نمبر بھی زیادہ عنایت کر دے۔
جملہ کچھ یوں تھا:
“ہر عروج کو زوال ہے اور بے شک زوال کے بعد عروج کا آنا بھی یقینی ہے۔”
بالکل اسی طرح نوع انسانی آج جس زوال کا شکار ہے اس میں باہمی اور انفرادی رویے، انسانی مزاج اور معیشت ہر شے تباہ حالی کے دہانے پر ہے۔
خوف ہر چیز پر حاوی ہے، انسان ہر دوسرے انسان کے وجود سے خوف زدہ ہے۔ میرا یہ پختہ یقین ہے کہ اب زوال کی گہری کھائیوں سے امید کی کرنیں پھوٹنے کو ہیں اور بہت جلد نظامِ کائنات اپنی انسان دوست ڈگر پر واپس آنے کو ہے۔
کورونا کے خلاف لڑی جانے والی اس جنگ میں اللہ رب العزت انسان کو فتح سے ہم کنار کرنے ہی والا ہے۔ البتہ انسانی زندگی میں وبا کے یہ چند ماہ بہت ساری تبدیلیاں رونما کرنے کا باعث بنے ہیں۔ وہ تبدیلیاں جن کے باعث وبا کے بعد اب پہلے سا طرزِزندگی نہیں رہے گا۔ حتٰی کہ وہ لوگ جو پرانے طرززندگی اور اسی پرانی ڈگر پر چلنا چاہیں گے وہ وبا کے بعد کی نئی دنیا میں زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ کر ہار جائیں گے۔
وبا کے ختم ہونے کے بعد سماجی اور مذہبی رویے تیزی سے تبدیل ہوں گے اور یہ مثبت بدلاؤ قبول کرنے کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ نہ ہوگا۔
ٹیکنالوجی اپنا آپ ایک بار پھر منوائے گی اور آپ کو زندگی کے ہر معاملے میں ٹیکنالوجی سے مستفید ہونے کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا۔
دینی اقدار جن میں صفائی اور درست عبادت کے طریقۂ کار شامل ہیں، انہیں اپنانا ہوگا اور بے جا قسم کی توہمات سے کنارہ کشی اختیار کرنا ہی ہوگی۔ وبا کے ان ایام کے دوران جب کہ میں سعودی عرب میں مقیم ہوں کئی دردناک مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے اور جن پر یہ قیامت بیت رہی ہے۔ ان کی زبانی بے شمار انسانی رویوں کا مشاہدہ بھی کیا۔
وبا کے دور میں اس تنہا گزرنے اور محدود ہوجانے والی زندگی سے انسان ہر طرح سے ہی بے زار دکھائی دیا۔
خصوصاً بچوں کے لیے گھر قیدخانے بن گئے، انسان کھلی اور صحت مند فضا میں کھل کے سانس لینے کو بے قرار ہے وہ اپنے پیاروں سے ملنا چاہتا ہے۔ ان کی خوشی اور غمی میں شریک ہونا چاہتا ہے پر افسوس فی الحال ایسا کچھ کرنا اس کے بس سے باہر ہے۔
پوری دنیا کسی فوجی کیمپ کا منظر پیش کرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے جہاں ہر جگہ بیریئر لگا کر پوچھ گچھ کی جارہی ہے۔ گزرنے والوں کو روکا جارہا ہے۔ ان بیریئرز پر شناخت اور صحت جانچنے کے معیار سخت سے سخت کیے جارہے ہیں۔
وبا کے اس دور میں سب سے اہم انسانی رویہ یہ دیکھنے کو ملا کہ پہلے جو لوگ سر کے درد اور ذرا سی چھینک پر بھی شور مچانے لگتے تھے۔ اب اپنی ہر بیماری پوشیدہ رکھنے میں عافیت محسوس کر رہے ہیں۔ بے شمار ایسی تکلیفیں جن پر پہلے فوراً اسپتال کا رخ کیا جاتا تھا اب انہیں گھر میں ہی وقت دے کر ختم ہونے کا انتظار کیا جارہا ہے۔ دعاؤں پر انحصار یا پھر اپنے طور پر علاج کے لیے ٹوٹکوں کے استعمال کو ترجیح دی جارہی ہے۔
وبا کے یہ ایام سب سے زیادہ امراض قلب میں مبتلا مریضوں، ذیابیطس یا بلند اور کم تر فشار خون میں مبتلا مریضوں اور ان کے گھر والوں کے لیے پریشانی کا سبب بنے رہے۔
پوری دنیا کی طرح یہاں سعودی عرب میں بھی کوئی طبی ایمرجنسی سروس فعال ہی نہیں کی گئی کہ وہ گاؤں یا شہری محلوں کی حد تک کورونا کے علاوہ دیگر امراض میں مبتلا انسانوں کو طبی سہولیات مہیا کرتی۔
اسی طرح ایک اور طبقہ جسے میں نے خوراک کی کمی کا شکار افراد سے بھی زیادہ پریشان دیکھا وہ اسموکرز کا ہے، تمباکو نوشی میں مبتلا ہر شخص کو اس وقت شدید چڑچڑا پایا جب انہیں سگریٹ فروش بقالوں (کریانہ اسٹور) پر یا تو سگریٹ میسر نہ آئے یا پھر اپنی مطلوبہ برانڈ نہ مل پائی، یہاں تک کے ایسے لوگ جھنجھلاہٹ میں گھروں میں بھی لڑائی جھگڑے کرتے رہے اور بات کا اظہار میرے ایک اسموکر دوست نے اپنی زبانی بھی کیا کہ آج اگر اسے سگریٹ نہ ملا تو یقیناً ابا سے میری لڑائی ہوجائے گی۔
کسی محلے یا گلی کے ایک فرد کا کورونا ٹیسٹ مثبت آنے پر جو ذہنی اذیت اس گلی یا محلے کے باقی افراد کو سہنی پڑی میں اس سے بھی بہ خوبی آگاہ ہوں کہ یہ حالت خود میرے گھر والوں پر گزری جب ان کے دروازے کے باہر تالا لگا کر انہیں گھر کے اندر محصور کر دیا گیا۔
پھر اس مریض کے گھر والوں کے کورونا ٹیسٹ اور ان پر عائد کی جانے والی سماجی پابندیاں کرب کی طویل داستان اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔
بچوں نے وبا کے خوف سے گھر پر بند ہو کر رہنے کے معاملے پہ شروع میں بہت زیادہ مزاحمت کی لیکن آہستہ آہستہ وہ اس روٹین کو تسلیم کرنے لگے، اس کے باوجود وہ خود کو کسی جیل کا قیدی ہی تصور کرتے ہیں۔
ہاتھ دھونے اور ذاتی صفائی کے معاملے میں ایک مثبت تبدیلی یہاں بھی جگہ جگہ مشاہدے میں آرہی ہے۔ میرے ذاتی مشاہدہ میں ایک ایسی مریضہ بھی آئی کہ جس کے دل کی دھڑکن 110 سے 115 تک جا پہنچی ہے۔ اس کا جسم کانپ رہا ہے اور وہ یہ فیصلہ نہیں لے پا رہی کہ کس ڈاکٹر کے پاس اور کیسے جائیں اگر ایمبولینس کو گھر بلائیں تو لوگ کیا کہیں گے کہ کون سی ایمرجینسی ہو گئی ہے؟ اوپر سے یہ بھی ڈر کہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ کہیں کورونا کی وبا نے تو نہیں آگھیرا۔
ایک اور اہم سماجی رویے کورونا کی وبا میں مبتلا مریض کے گھر والوں کا دیکھا گیا، جو ہر طرح سے شدت پسندانہ رہا وہ اس بات کو مشکل سے ہی تسلیم کر تے ہیں کہ ان کے کسی اپنے کو یہ مرض لاحق ہو چکا ہے، حتٰی کہ میڈیکل رپورٹس کے ذریعے ہونے والی تصدیق کی صورت میں بھی انہیں یہ جھوٹ ہی معلوم ہوتا رہا۔ ان میں سے بے شمار افراد اہل محلہ سے اس بات پر ناراض بھی دکھائی دیے کہ ان کے مریض کی شکایت آپ میں سے ہی کسی نے کی ہوگی۔اس وبا میں مبتلا مریضوں کو مجرموں کی طرح چھپتے اور میڈیکل ٹیم سے فرار ہوتے بھی دیکھا گیا، گویا وہ علاج کے لیے نہیں بلکہ اسے کسی قیدخانے میں ڈالنے کے لیے لے جانے آئے ہوں۔
میں خود چوںکہ نیشنل واٹر کمپنی کے ساتھ منسلک ہوں تو گھر یا محلے سے باہر جانے کی حکومتی استثناء مجھے بھی حاصل ہے اور یقیناً یہ استثناء بے شمار خطروں اور خدشات سے بھی جڑا ہوتا ہے کہ جہاں بچاؤ کی بڑی صورت ہی یہ بتائی جا رہی ہو کہ آپ گھر پر رہیں اور سماجی رابطے مکمل طور پر منقطع کردیں۔ وہاں روزانہ کی بنیاد پر مختلف جگہوں پر جانا احتیاط کرتے ہوئے لوگوں سے بات کرنا لین دین کے معاملات بھی کرنا یقیناً اپنے اندر کئی خطرات بھی لیے ہوئے لیکن میرا یہ ماننا ہے کہ اس وبا کے دوران رویوں میں اترتے زوال کو بہترین وقت میں ہمیں تبدیل کرنا ہوگا اور اللہ ہمیں یہ موقع ضرور دے گا، انشاء اللہ۔
آپ بھی آنے والے وقت کی تبدیلیوں کو بروقت اپنانے کے لیے خود کو ذہنی اور قلبی طور پر تیار رکھیں۔
انشاء اللہ یہ وبا ختم ہوگی اور آپ کی آئندہ نسل بے شمار نئے رویوں کو اپنائے گی تو ایسے وقت میں اس کی راہ نمائی کریں، اس نئے طرز زندگی کو بہترین بنانے میں ان کی معاونت کرنے کے لیے خود کو تیار رکھیں۔
دنیا میں پہلے کئی عذاب اترے، جنگ و جدل نے بستیوں کے نقشے بدلے وباؤں نے اپنا قہر ڈھایا، اس کے باوجود زندگی رواں دواں رہی اب بھی ایسا ہی ہونے والا۔
معاملات کروٹ ضرور بدلیں گے پر جاری و ساری رہیں گے،
اور جب تک اس کائنات میں ذی روح کا وجود باقی ہے۔ ایسے بے شمار حادثات رونما ہوتے رہیں گے اور زندگی اپنے رنگ بدلتی ہوئی آگے بڑھتی جائے گی۔
حالات مشکل ہوتے ہیں کہ جن میں جینے کے اسباب تک محدود ہوجاتے ہیں، لیکن کیا ہر خزاں کے بعد ٹُنڈمُنڈ پیڑوں کی ننگی شاخوں پر پھر سے شگوفے نہیں پھوٹتے؟ کیا ان پر نئے پھول پتے ان کے ویران ہوئے جسموں کو نکھار نہیں بخشتے؟
ایسے میں اب خزاں کا موسم بیت جانے کو اور انشاء اللہ بہار آپ کی دہلیز سے جسموں کی ویرانی کو دور کرنے کے لیے بس داخل ہونے ہی والی۔
اللہ رب العزت اس کائنات میں بسنے والے انسانوں پر چرند پرند، حیوانات اور نباتات پر اپنا فضل عطا فرمائے۔ آمین
The post اس جنگ میں انسان جیتنے والا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.