پچاس دن بھی پورے نہیں ہوئے کہ بھارتی دارالحکومت دہلی کے وزیراعلیٰ اروندکیجریوال نے استعفیٰ دیدیا۔
سبب یہ تھاکہ وہ ریاستی اسمبلی میں کرپشن کے خلاف قانون ’جین لوک پال‘ منظورنہیں کراسکے تھے، اس کا انہوں نے اپنی قوم سے وعدہ کیاتھا۔ 70رکنی اسمبلی میں ان کے پاس اپنے28 ووٹ تھے، قانون کی منظوری کے لئے انھیں دیگر جماعتوں کی حمایت بھی درکارتھی لیکن دونوں بڑی جماعتوں کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے حمایت سے انکار کردیا۔ کیجریوال کہہ چکے تھے کہ وہ یہ قانون منظورنہ کراسکے تو استعفیٰ دیدیں گے۔ چنانچہ عام آدمی پارٹی کے سربراہ نے اپنے کئے پر عمل کردکھایا۔
اگر یہ قانون منظور ہو جاتا تو ایک ایسا آزاد ادارہ وجود میں آتا جو سیاستدانوں اور سرکاری افسران کی مبینہ کرپشن کی تحقیقات کر تا۔ تاہم کانگریس اوربی جے پی نے یہ کہہ کر قانون کی حمایت سے انکارکردیا کہ اس بل کو اسمبلی میں پیش کرنے سے پہلے وفاقی حکومت سے منظوری نہیں لی گئی۔ تاہم عام آدمی پارٹی کے سربراہ کیجریوال کا کہنا تھاکہ آئین میں ایسی کوئی بات درج ہی نہیں کہ اسمبلی میں پیش کرنے سے پہلے قانون کا گورنر سے منظورکرانا ضروری ہے۔ کیجریوال کے مطابق شیلاڈکشت نے اپنے دور اقتدار میں تیرہ ایسے مالیاتی بل پاس کرائے جن کی مرکز سے منظوری نہیں لی گئی تھی۔
استعفیٰ کے بعد پارٹی ہیڈکوارٹر کے باہر سینکڑوں حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے اروند کیجریوال نے کہا کہ کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے مل کر ان کی حکومت کی جانب سے مجوزہ قانون منظور کرانے کی کوشش ناکام بنادی ہے جس پر وہ اپنی حکومت چھوڑ رہے ہیں۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ ان کی حکومت نے بھارت کی مشہور کاروباری شخصیت مکیش امبانی کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا جس پر، ان کے بقول ’’انہیں سبق سکھانے کے لیے ’بی جے پی‘ اور ’کانگریس‘ نے اتحاد کرلیا‘‘۔ اب چھ ماہ بعد یہاں دوبارہ انتخابات ہوں گے یعنی مئی میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد۔
اب کیاہوگا؟ کیجریوال کیاکریں گے؟ حکومت چھوڑنے کے بعد کیجریوال کے سامنے ایک طرف کرپشن کے خلاف جاری جنگ کو مزید گرم کرنے کا چیلنج ہوگا تو دوسری طرف عام انتخابات کا بڑا مقابلہ بھی لڑنا ہوگا۔ عام انتخابات میں شرکت اور عام انتخابات کے لئے امیدواروں کی پہلی فہرست کا اعلان کرتے ہوئے عام آدمی پارٹی نے پورے ملک میں ’جھاڑو چلاؤ بے ایمان ہٹاؤ‘ مہم شروع کردی ہے ۔ پہلے مرحلے پر ایک ہفتہ کے اندر 24ریاستوں کے 332حلقوں میں جھاڑو یاتراہوگی۔ یادرہے کہ بھارت کی مجموعی طور پر 28 ریاستیں ہیں۔ یہ ایک تیزرفتارانتخابی مہم کا آغاز ہے، سوال یہ ہے کہ کیا کیجریوال اس تیزرفتار مہم سے من پسند فوائد اٹھاسکیں گے؟
جب کیجری وال دہلی میں انتخابی مہم چلارہے تھے تو ان کی انتخابی حکمت عملی مسحورکن تھی۔ انھوں نے غیرروایتی مہم چلائی۔ درست پالیسی، صحیح تشہیر اور بہترین انتخابی نظم و ضبط۔ اس کے زیادہ تر امیدوار سچ مچ کے عام آدمی تھے۔ کوئی حلوائی ،کوئی سافٹ ویئر انجینئر، کوئی چھوٹا بڑا تاجر، زیادہ تر نوجوان۔
عام آدمی پارٹی کو سب سے زیادہ حمایت متوسط طبقے سے ملی۔ ان میں زیادہ ترسرکاری ملازم ، چھوٹے تاجر، ڈاکٹر، ٹیچر، وکیل اور صحافی تھے۔ یہ طبقہ بدعنوانی اور مہنگائی کی وجہ سے بہت زیادہ پریشان تھا، یہ سرکاری محکموں سے ناراض ، بجلی کے بلوں سے تنگ آیا ہوا تھا، پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے پریشان، ہسپتالوں اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں کے بارے میں بھی شدید شاکی تھا۔ عام آدمی پارٹی کو کنٹریکٹ پر کام کرنے والے ملازموں کی بھی بھرپور حمایت ملی کیونکہ وہ بہت عرصہ سے مستقل ہونے کا مطالبہ کررہے تھے ، عام آدمی پارٹی پہلی جماعت تھی جس نے انھیں مستقل کرنے کا وعدہ کیا۔ یادرہے کہ صفائی کرنے والا عملہ، ٹیچرز، مزدور، ڈرائیور، میٹرو میں کام کرنے والے ملازمین زیادہ تر ٹھیکے پر ہی کام کرتے ہیں، یہ سب دہلی میں ایک بڑی آبادی شمار ہوتے ہیں۔ پارٹی کو این جی او، سماجی کارکنوں کی بھی بھرپور حمایت ملی، ان میں ہر مکتبہ فکر والے لوگ تھے۔
عام آدمی پارٹی نے نظریات کے بجائے مسائل کی بنیادپر انتخابی مہم چلائی ، فائدہ یہ ہوا کہ جو تنظیم جن طبقوں میں کام کرر ہی تھی، وہاں اس پارٹی کی تشہیر خود بخود ہوگئی۔ دہلی کی زیادہ تر این جی اوز جھگی جھونپڑیوں میں کام کرتی ہیں۔ ان غیر سرکاری تنظیموں نے عام آدمی پارٹی کی خوب تشہیر کی۔ جھگی جھونپڑی میں اب تک کانگریس کا دبدبہ رہاتھا، اور وہ جھگیوں میں انتخاب سے پہلے پیسے اور شراب بانٹتی تھی اور لوگوں کے ووٹ پاتی تھی۔ لیکن پہلی بار عام آدمی پارٹی کے کارکنوں نے رضاکار تنظیموں کے ذریعے جھگیوں میں براہ راست ووٹروں سے رابطہ کیا، انہیں گھر دینے کا وعدہ کیا، ٹھیکے پر کام سے نجات دلانے کی بات کا یقین دلایا۔ یوں یہ طبقہ عام آدمی پارٹی کی بھیڑ میں شامل ہوگیا۔ یوںعام آدمی کی وجہ سے عام آدمی کامیابی ہوگئی۔
انچاس روزہ اقتدار کے دوران دہلی کے وزیرِاعلیٰ اپنے عوامی طرزِ حکمرانی اور بدعنوانی جیسے معاملات پر سخت موقف کے باعث مرکزی حکومت اور دیگر ریاستی اداروں کے ساتھ مستقل حالت جنگ میں رہے۔ انھوں نے کئی اہم تبدیلیوں کو متعارف کرایا۔ وزارت اعلیٰ کا حلف لینے کے لئے بذریعہ میٹرو ٹرین پہنچ کر انھوں نے عوام کوباور کرایا کہ اس مرتبہ ایک عام آدمی ریاست کا وزیراعلیٰ بن رہاہے۔ ان کی گاڑی جب سڑک پر چلتی تھی، کوئی پہچان ہی نہیں سکتاتھا کہ وزیراعلیٰ گزررہاہے۔ ان کی ویگن کو کئی مرتبہ سرخ سگنل ہونے کی وجہ سے ٹریفک میں پھنسا ہوا دیکھا گیا۔ انھوں نے یا ان کے کسی وزیر نے سرکاری بنگلہ نہ لے کر سیاست میں ایک نئی روایت قائم کی ۔ انھوں نے سیکورٹی لی نہ ہی ان کے کسی وزیرنے۔ کرپشن کے خلاف ہیلپ لائن شروع کرکے انھوں نے کرپٹ بیورکریٹس کی نیندیں حرام کردیں اور عوام میں بلاکااعتماد پیدا کیا۔ سب سے بڑھ کر دہلی پولیس کے رویے کے خلاف دھرنے کے موقع پر انھوں نے رات سڑک پر گزاری ۔ سڑک پر سونے والے شاید وہ ملک کے پہلے وزیراعلیٰ بن گئے۔
بھارتی تجزیہ نگاروں کے مطابق کیجریوال کا طرزعمل ملک کے باقی سیاست دانوں کے لئے باعث پریشانی تھا کہ کہیں عوام ان سے جُر نہ جائیں۔ شایدیہی وجہ ہے کہ ان کے استعفے پر ملک کی دونوں بڑی پارٹیوں نے راحت کا سانس لیاہے۔ بی جے پی کے رہنما ارون جیٹلی کاکہناہے کہ ایک بھیانک خواب ختم ہوگیا۔ یادرہے کہ بی جے پی گزشتہ ریاستی انتخابات میں کانگریس کی بری کارکردگی کے سبب دہلی میں اپنی جیت کے بارے میں یقین کی کیفیت میں مبتلاتھی لیکن عام آدمی پارٹی نے اس کے سارے خواب بکھیر دئیے۔ ارون جیٹلی سچ کہتے ہیں کیونکہ عام آدمی پارٹی ان کے لئے بھیانک خواب ہی تھی البتہ ان کا یہ کہناقبل ازوقت ہے کہ یہ بھیانک خواب ختم ہوگیا ہے۔ ہوسکتاہے کہ اگلے عام انتخابات میں بھی عام آدمی پارٹی بی جے پی کے لئے بھیانک خواب ہی ثابت ہو،کیونکہ بی جے پی اس بارپھر یقین سے ہے کہ وہ مئی میں وہ کانگریس کو شکست دے کر مسنداقتدارسنبھال لے گی۔ تاہم تجزیہ کاروں نے پیش گوئی کر رکھی ہے کہ اپنے پہلے ہی انتخاب میں حیران کن کامیابی حاصل کرنے والی ’عام آدمی پارٹی‘ عام انتخابات میں بھارت میں کئی دہائیوں سے سرگرم مرکزی اور علاقائی سیاسی جماعتوں کے لیے ایک بڑا خطرہ ثابت ہوسکتی ہے۔
پانچ ریاستوں کے انتخابات اگلے عام انتخابات کی ایک جھلک محسوس ہوئے تھے۔ بھارتی عوام کے بارے میں بھی خیال کیاجاتاہے کہ وہ ووٹ دینے گھر سے باہر نہیں نکلتے، اگر نکلتے ہیں تو ذات پات کی سوچ کے ساتھ پولنگ بوتھ تک آتے ہیں یا پھر علاقائیت کے دائروں میں قید رہتے ہیں۔ تاہم ان ریاستوں کے انتخابی نتائج بتاتے ہیں کہ اب عوام نے صحیح معنوں میں اپنی جمہوری قدروں کو سمجھ لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پانچ ریاستوں کے ان انتخابات میں ریکارڈ ووٹنگ ہوئی۔ پارلیمانی تاریخ میں پہلی بارایسا ہوا کہ سبھی ریاستوں میں زیادہ تر موجودہ ایم ایل اے وزیر ہار گئے۔ حقیقت میں یہ ناراضی ہے ان امیدواروں سے، جو صرف وعدوں کے سہارے سیاسی زندگی جیتے تھے لیکن اس بار عوام نے انھیں دھکے دے کر نکال باہر کیا۔کرپشن کے خلاف بے مثال مہم کے دوران انا ہزارے مسلسل کہتے رہے کہ کھوئی ہوئی سیاسی شان حاصل کرنی ہے، تو سیاست سے مجرمانہ کی ذہنیت رکھنے والے لوگوں کو باہر نکالنا ہوگا۔ انتخابی نتائج نے ظاہرکیاکہ لوگوں کو اناہزارے کا مشورہ مانا۔ مدھیہ پردیش اسمبلی، راجستھان، دہلی اور چھتیس گڑھ اسمبلی میں ایسے تمام امیدوار ہار گئے جن کے خلاف جرائم پر مبنی سنگین مقدمات درج ہیں۔ ان انتخابات میں اقربا پروری کو بھی نقصان پہنچا۔ کئی لیڈروں کے بیٹے اور بیٹیاں الیکشن ہار گئے۔
زیادہ بڑے پیمانے پر لوگوں کا ووٹنگ کے عمل میں حصہ لینا، وزیروں اور ارکان اسمبلی کو شکست فاش سے دوچارکرنا، ایسے افراد کو اسمبلی میں بھیجنا جو تعلیم یافتہ ہوں اور جرائم پیشہ نہ ہوں، علاقائیت، لسانیت سمیت دیگرتعصبات سے بالا ترہوکرووٹ دینا، یہ سب اشارے ایک بڑی پائیدار تبدیلی ہی کا مظہرہوتے ہیں۔ اب وزیراعلیٰ کیجریوال کو کرپشن کے خلاف قانون سازی کرنے سے روکاگیا، اس سے کرپشن سے تنگ بھارتی عوام مزید غضبناک ہوں گے۔بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق امکان ہے کہ بدعنوانی جیسے مسئلے پر حکومت سے علیحدگی اختیار کرنے والے کجریوال کے اس اقدام سے ان کی عوامی حمایت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
انچاس دنوں میں عام آدمی پارٹی نے عوام کومشکلات سے نجات دلانے کے لئے اقدامات کئے تو دونوں بڑی جماعتیں تڑپ اٹھیں۔ بجلی کے نرخوں میں پچاس فیصد کمی،دہلی کے شہریوں کوماہانہ 20 ہزار لیٹرپینے کے صاف پانی کی مفت فراہمی، وی آئی پی کلچر کا مکمل خاتمہ، بے گھر افراد کے لئے رات کے قیام کی سہولت فراہم کرنا،ایسے تمام اقدامات پر عوام خوش ہوئے لیکن دونوں بڑی جماعتیں تلملاتی رہیں۔ ابھی کیجریوال نے دہلی کے تمام اسکولوں کے انفراسٹرکچر کوٹھیک کرنا تھا، فوری انصاف کی خاطر 47 نئی عدالتیں قائم کرناتھیں، اگرایسا ہوجاتاہے تو کوئی اس تبدیلی کا تصوربھی نہیں کر سکتا تھا جو محض چندماہ میں وقوع پذیرہوجاتی۔
اگرچہ دونوں بڑی جماعتیں عوام کو باورکرانے کی کوشش کررہی ہیں کہ عام آدمی پارٹی دہلی میں حکومت چلانہیں سکی اور گھبرا کے بھاگ اٹھی۔تاہم حال ہی میں سامنے آنے والے رائے عامہ کے جائزے ثابت کرتے ہیں کہ کیجریوال کی حمایت میں اضافہ ہورہاہے۔ مثلاً ہندوستان ٹائمز کے جائزے میں پوچھے گئے مختلف سوالات کے جواب میں لوگوں کی اکثریت نے کیجریوال کے استعفیٰ کو درست اقدام قراردیا۔ 52فیصد لوگوں کے خیال میں کیجریوال کے اس اقدام کی وجہ سے انھیں عام انتخابات میں خوب فائدہ ملے گا۔56فیصد کا کہناتھا کہ کیجریوال کے استعفیٰ کی وجہ سے عام آدمی پارٹی دہلی کے اگلے ریاستی انتخابات میں زیادہ تعدادمیں سیٹیں جیت سکے گی۔76فیصد لوگوں کا خیال تھا کہ اگلے ریاستی انتخابات میں دہلی میں عام آدمی پارٹی کے علاوہ کسی جماعت کی حکومت قائم ہوگئی تو وہ کیجریوال حکومت کے اقدامات کو واپس لے سکتی ہے۔ کیجریوال حکومت کی ریٹنگ کے ضمن میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں 57فیصد لوگوں نے اسے ’اچھی‘ قراردیا۔ رائے عامہ کاجائزہ لینے والے ایک دوسرے ادارے C-Fore کے مطابق دہلی کے59فیصد لوگ کیجریوال کے استعفیٰ پر مایوس ہوئے لیکن 58فیصد کا خیال ہے کہ عام آدمی پارٹی اگلے ریاستی انتخابات میں پہلے سے زیادہ سیٹیں لے کر حکومت سازی کرے گی۔یہ جائزے بخوبی ظاہر کرتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں بھارت کے سیاسی منظرنامے میں عام آدمی پارٹی کہاں کھڑی ہوگی۔
45 سالہ کیجریوال سمجھتے ہیں کہ تبدیلی ہمیشہ چھوٹے چھوٹے کاموں سے آتی ہے، وہ سابق سرکاری ملازم ہیں،بد عنوانی کے خلاف جدوجہد اور سماجی خدمات کے اعتراف کے طورپر2006ء میں ’رومن میگسیسے انعام‘ ملا، انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت کرتے ہوئے ’پریورتن‘(تبدیلی) کے نام سے ایک تحریک چلائی۔ اس منفرد تحریک کے ذریعے انکم ٹیکس کی ادائیگی، بجلی اور راشن جیسے معاملات میںعام لوگوں کی مدد کرتے تھے،ایک فاؤنڈیشن بھی قائم کی۔’رومن میگسیسے انعام‘ کے ضمن میں جو انعامی رقم ملی ، اسے بھی فاؤنڈیشن میں لگادیا۔ انھوں نے ’رائٹ ٹو انفارمیشن‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے کرپشن کے خلاف غیرمعمولی جدوجہد کی۔دو برس قبل کرپشن کے خلاف ایک سخت قانون بنانے کی غرض سے’بھارت ہے کرپشن کے خلاف‘ کے نام سے ایک گروپ بھی تشکیل دیا تھا۔اس جرم کی پاداش میں کیجریوال کو جیل بھی دیکھناپڑی۔ انا ہزارے نے اسی گروپ کے پلیٹ فارم سے غیر معینہ مدت کی بھوک ہڑتال شروع کی تھی۔
اس مہم نے محض چندگھنٹوں میں پورے بھارت کو اپنی پشت پر کھڑا کرلیاتھا۔ کانگریس اور بی جے پی اس مہم کو غیرمعمولی طورپر مقبول دیکھ کر پریشان ہوگئی تھیں۔کیجریوال اور ان کے بعض ساتھیوں نے گزشتہ برس 2اکتوبر کو، بھارتی قوم کے باپو مہاتما گاندھی کے یوم پیدائش کے موقع پر ’عام آدمی پارٹی‘ قائم کئی۔ اس کے بانیوں میں انا ہزارے شامل نہیں تھے۔ انّا ہزارے کا خیال تھا کہ گندی سیاست میں شامل ہونے کے بجائے پاک صاف احتجاج ہی کرنا چاہئے۔ انتخابات سے پہلے ہی انا ہزارے نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ کیجریوال ان کا نام استعمال کریں گے نہ ہی تصویر۔ انھیں جو کچھ بھی کرنا ہے وہ اپنے بل بوتے پر کریں۔قیام کے بعد عام آدمی پارٹی اس اندازمیں میدان سیاست میں متحرک ہوئی کہ بھارتی تجزیہ نگاروں نے اسی وقت خبردار کردیاتھا کہ نئی سیاسی جماعت پہلے سے موجود بڑی پارٹیوں کانگریس اور بی جے پی کے لیے خطرہ بنے گی۔ پھروہی ہواجس کا دونوں بڑی جماعتوں کو ڈرتھا، انتہائی کم بجٹ سے انتخابی مہم چلاکرکیجریوال کی پارٹی نے دہلی کی 70 ریاستی سیٹوں میں سے 28 سیٹیں جیتیں۔