غزل
اپنے ہی گھر کے دروبام سے جھگڑا کر کے
میں نکل آیا ہوں کمرے کو اکیلا کر کے
جاؤ تم خواب کنارے پہ لگاؤ خیمے
میں بھی آتا ہوں ذرا شام کو چلتا کر کے
پہلے پہلے یہاں جنگل تھا ،گھنیرا جنگل
کاٹنے والوں نے چھوڑا اسے رستہ کر کے
وہ شب و روز، مہ و سال، وہ بکھرے لمحے
آپ کہیے تو اٹھا لاتا ہوں یکجا کر کے
ہم فقیروں کے لیے شاہ و گدا ایک سے ہیں
بات کرنا بھی تو لہجہ ذرا دھیما کر کے
عشق منصوبہ بنا کر نہیں ہوتا ہر گز
شعر لکھا نہیں جاتا ہے ارادہ کر کے
(نذر حُسین ناز۔چکوال)
۔۔۔
غزل
تیرا خدا درست ،مرا نادرست ہے
باتیں درست ہیں نہ عقیدہ درست ہے
کیسے بیاں ہو حق کہ یہ ماضی پرست لوگ
مل کر کہیں گے کیا تو اکیلا درست ہے؟
میں تیرے ساتھ ساتھ رہوں گا اور اس طرح
جیسے بدن کے ساتھ یہ سایہ درست ہے
جس شعر میں عوامی رویوں پہ بات ہو
وہ شعر لاجواب ہے مصرع درست ہے
منہ پر تو اختلاف روا رکھتے ہیں بزرگ
خلوت میں سوچتے ہیں کہ بچہ درست ہے
ناراض ہو تو اوربھی آتا ہے اس پہ پیار
اور آج کل تو اس کا رویہ درست ہے
(احسن منیر۔ شور کوٹ)
۔۔۔
غزل
نمود ِ صبحِ منور میں جان پڑ گئی ہے
کھلی وہ آنکھ تو منظر میں جان پڑ گئی ہے
ہمارا دل بھی دھڑکنے پہ ہو گیا مائل
تمہارے چھونے سے پتھر میں جان پڑ گئی ہے
وہ در کھلا تو گلی میں ہجوم بڑھنے لگا
کمک پہنچتے ہی لشکر میں جان پڑ گئی ہے
بحسبِ چشم سبھی نے وہ حسن جذب کیا
فنا ہوئے کئی،اکثر میں جان پڑ گئی ہے
خدا کے ہونے کی اتنی دلیل بھی ہے بہت
کہ ایک خاک کے پیکر میں جان پڑ گئی ہے
(نثار محمود تاثیر۔میانوالی)
۔۔۔
غزل
درد مہکا ہوا کچنار پہ میرے جیسا
اک پرندہ نہیں اشجار پہ میرے جیسا
ایک تصویر لگانی ہی پڑی صحرا کی
رنگ آیا تبھی دیوار پہ میرے جیسا
اک تغیر کے سبب اُترا ہے یہ گہرا جمود
ورنہ طاری تھا جو گھر بار پہ میرے جیسا
آج ہر ایک زیاں خیز زباں پر اترا
واقعہ کل جو تھا اخبار پہ میرے جیسا
جس نے مقتل کے اصولوں سے بغاوت کی ہو
حق وہ رکھتا ہی نہیں دار پہ میرے جیسا
ہو رہی ہے کوئی تشکیلِ خَد و خال یہاں
ایک چہرہ تو بنا گار پہ میرے جیسا
(آصف انجم۔ رحیم یار خان)
۔۔۔
غزل
ظلمت کدے سے خود کو ذرا مستفید کر
دو چار شعر پچھلی غزل کے مزید کر
صحرا کے میوزیم میں جو رکھا گیا گلاب
لایا تھا ایک برگ ِہوا سے خریدکر
تیرے معاملے میں ہوں شدت پسند، عشق
مجھ سے معاملات بھی اتنے شدید کر
ظلمت میں تیر یوں نہ چلا رات کے سفیر!
جگنو کو مجھ سے پہلے تُو اپنا مرید کر
اِن وسوسوں کو یوں نہ بھٹکنے دے آس پاس
ایمان ہے خدا پہ تو تھوڑی امیدکر
مجنوں کو کوئی دوسری لیلیٰ سے اب ملا
اِس داستانِ عشق کو تھوڑا جدید کر
وحشت زبان کاٹ لے جب شور کی فہد
خاموشیوں کے منہ پہ طمانچے رسید کر
(سردار فہد،ایبٹ آباد)
۔۔۔
غزل
ایک مہیب خموشی جس میں یادوں کی پروائی تھی
رات بہت سنّاٹا تھا اور رات بہت تنہائی تھی
دھیمی دھیمی خنکی میں کچھ تیز ہوا کے جھونکے تھے
اور کسی احساس نے دل کے اندر آگ لگائی تھی
اک ہلکا سا شور جو میرے کانوں سے ٹکرایا تھا
اک ہلکی سی ٹیس جو میرے سینے میں در آئی تھی
یار نکل تصویر سے باہر اور گلے میں بانہیں ڈال
اک تصویر سرِ منظر اور ذہن میں ایک دہائی تھی
نام ترا لیتے تیرے عشّاق جو مرنے آئے تھے
دیکھ کے تیور موت بھی یکدم سہمی تھی گھبرائی تھی
ناموروں کی دنیا میں بھی میرا نام نمایاں تھا
میں نے عشق کمایا تھا اور میری نیک کمائی تھی
(افتخار حیدر۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
ریگ زاروں میں دَر نہیں ہو گا
سائیں رستوں میں گھر نہیں ہو گا
دشت میں آبلے روایت ہیں
کوئی مرہم اثر نہیں ہو گا
اپنی خوشبو کو خود جنم دینا
عطر دانی میں زر نہیں ہو گا
کیا خبر تھی کہ ایک دن اپنے
ساتھ دستِ ہنر نہیں ہو گا
ہم مقفل کریں گے ہر روزن
روشنی کا گزر نہیں ہو گا
خود سے مل کر گلے نبھا لینا
دور تک ہم سفر نہیں ہو گا
(سارہ خان۔ راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
ہماری آنکھ میں پانی نہیں ہے
یہ صحرائی ہے بارانی نہیں ہے
یہاں جینا ذرا دشوار ہو گا
یہاں مرنے کی آسانی نہیں ہے
اگر اس کا کوئی ثانی نہیں ہے
تو پھر یہ کم پریشانی نہیں ہے
ہمیں آرام آتا بھی تو کیسے
ہماری چوٹ جسمانی نہیں ہے
نہیں ممکن مرا آباد ہونا
کہ ویرانی سی ویرانی نہیں ہے
تجھے سن کر پریشانی تو ہو گی
مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے
ہماری خاک کو وہ خاک سمجھے
عزیز اس نے اگر چھانی نہیں ہے
(ارشد عزیز۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
رات گئے کتنی آوازیں آتی ہیں
رونے والوں کی آوازیں آتی ہیں
اپنے دل پر کان دھروں تو سنتی ہوں
سب بھولی بسری آوازیں آتی ہیں
روشن دان کھلا رکھتی ہوں کمرے کا
صبح پرندوں کی آوازیں آتی ہیں
جب تتلی پھولوں کو گیت سناتی ہے
کان میں رس بھرتی آوازیں آتی ہیں
روشنیوں کے پیچھے اک تاریکی ہے
لہجوں سے مرتی آوازیں آتی ہیں
کون یہاں ڈوبا، جو پار نہیں اترا
پانی سے گہری آوازیں آتی ہیں
کیا کیا لوگ یہاں پر جاناں تھے آباد
مٹی سے کیسی آوازیں آتی ہیں
(جاناں ملک۔ راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
خرد تو ویسے ہی الجھی رہی سوالوں میں
رموز عشق کو رکھا گیا دھمالوں میں
ہماری خانہ خرابی میں رنگ بھر دے گا
ہمارا بیٹھنا اٹھنا خراب حالوں میں
تمہارے ساتھ کسی اور کو نہیں سوچا
بڑے خیال سے رکھا تمہیں خیالوں میں
جہاں بھی لوگ محبت کا ذکر چھیڑیں گے
ہمارا نام ضرور آئے گا حوالوں میں
علاج اس کا محبت ہے اور وہ لڑکی
فضول دوڑتی پھرتی ہے اسپتالوں میں
(شبیر احمد حمید۔ راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
کنارے پر کھڑے لوگوں کا دکھ بنتا نہیں ہے
اگر ان ڈوبنے والوں کا دکھ بنتا نہیں ہے
مصور ہوں سو تصویریں بنانا جانتا ہوں
مگر مجھ سے مرے بچوں کا دکھ بنتا نہیں ہے
نہیں سجتے بھنور بنتے ہوئے گالوں پہ آنسو
کسی بھی طور ان آنکھوں کا دکھ بنتا نہیں ہے
فقط اک شعر میں چودہ برس کیسے سمائیں
اب اتنا کم تو ان برسوں کا دکھ بنتا نہیں ہے
کہو ناں مرنے والے کو بہت پیسے ملیں گے
کہو ناں وردیوں والوں کا دکھ بنتا نہیں ہے
کہیں پر بھی تمہارے نقش پا باقی نہیں ہیں
بتاؤ کیا مرے رستوں کا دکھ بنتا نہیں ہے
بچھڑتے وقت ہم دونوں بہت خوش تھے نظامت
بچھڑ جانے پہ ہم دونوں کا دکھ بنتا نہیں ہے
(نظامت حسین ۔آزاد کشمیر)
۔۔۔
غزل
ایسے میں کرے کون طر ف داری ہماری
مشہور ہے لوگوں میں گنہگاری ہماری
ہم مانگ نہ لیں دن میں اندھیرے کی وضاحت
منہگی نہ پڑے آپ کو بیداری ہماری
وہ بول رہی ہو تو کوئی سُر نہیں لگتا
پاتی ہی نہیں داد صدا کاری ہماری
اب کون سمیٹے گا ہماری یہ کتابیں
ترسے گی کسی لمس کو الماری ہماری
دیمک کی طرح دونوں جڑیں کاٹ رہے ہیں
یہ کار ِ جہاں اور یہ بے کاری ہماری
پک جائیں اگر پھل تو شجر پر نہیں رہتے
بے وجہ نہیں آپ سے بے زاری ہماری
فی الحال تو آنکھوں میں خزاں اتری ہے ان کی
نیندیں بھی اڑا دے گی نمو داری ہماری
(تیمور ذوالفقار۔ مری)
The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.