انتخابی عمل کے بعد اب معاملات حکومت سازی کے مراحل طے کر رہے ہیں۔
جیت کس کا نصیب ہے اور ہار کس کا مقدر، ان سوالات کا جواب سامنے آگیا، اب فضا میں نئے سوالوں کی بازگشت ہے، وزیراعظم کسے بننا ہے، یہ معاملہ تو طے ہو ہی چکا ہے، اب وزیراعلیٰ ہوگا۔۔۔ گورنر کس کو بنانا ہے۔۔۔کون سی وزارت کس کے نام کرنی ہے اور حکومت کی گاڑی کیسے آگے چلانی ہے جیسے معاملات زیربحث ہیں۔ دوسری طرف عوام ہنوز بہتری اور اچھے کی توقعات وابستہ کیے منتظر ہیں کہ آنے والی حکومت کی پالیسیاں کیا ہوں گی۔
کئی سیاسی جماعتیں اور امیدوار انتخابات میں دھاندلی اور بے ایمانی کے الزامات کو موضوع بنائے صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں، ناکامی سے دوچار ہونے والے استعفوں میں پناہ لے رہے ہیں۔ جن میں گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود، پیپلزپارٹی کے نائب چیئرمین اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، پیپلزپارٹی وسطی پنجاب کے صدر منظور وٹو، پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب کے صدر مخدوم شہاب الدین بھی شامل ہیں، ان کے علاوہ اعتزاز احسن نے سینیٹ کی رکنیت اور امریکا میں پاکستان کی سفیر شیری رحمان نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔ ان انتخابات میں رائے دہندگان کا تناسب 53.4 تھا، جو اگرچہ ریکارڈ نہ سہی لیکن خاصا حوصلہ افزا رہا، لیکن ان انتخابات سے نتھی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو خاصی دل چسپی اور اہمیت رکھتی ہیں۔
سمندر پار سے آنے والے!
سمندر پار پاکستانیوں کو ان انتخابات میں ووٹ کا حق تو نہ مل سکا، البتہ اس انتخابات میں بہت سے پاکستانی صرف ووٹ ڈالنے مختلف ممالک سے پاکستان آئے، لیکن انہیں بدانتظامی اور دھاندلی کی شکایات کے باعث شدید مایوسی اور کوفت کا سامنا کرنا پڑا۔ سنگاپور سے ووٹ ڈالنے کے لیے آنے والے پاکستانی طاہر علی کا ووٹ کراچی کے حلقے این اے 256 میں تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان نے پہلی بار ووٹ ڈالنے کا قصد کیا اور اس ہی مقصد کے لیے وہ وطن لوٹے، لیکن 8 گھنٹے تک انتظار کرنے کے باوجود انہیں ووٹ دیے بغیر ہی واپس جانا پڑا۔ انتخابی نظام کے حوالے سے بھی انہیں شدید شکایات ہیں۔ ان کے مطابق وہ یہ سمجھے تھے کہ شاید نظام تبدیل ہو چکا ہے، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔
بیک وقت تین وزرائے اعظم کا پہلا دنگل
2013ء کے عام انتخابات میں پہلی مرتبہ تین سابق وزرائے اعظم راجا پرویز مشرف، نواز شریف اور ظفر اللہ جمالی نے انتخابات میں حصہ لیا۔ یوسف رضا گیلانی انتخاب لڑنے کے لیے نا اہل قرار پائے، جب کہ ان کے تینوں بیٹے بھی شکست سے دوچار ہوئے۔ عبدالقادر گیلانی نے این اے 151، علی موسیٰ نے این اے 148 اور علی حیدر گیلانی نے پی پی 200سے ہار کا مزہ چکھا۔ اس سے قبل 1977ء 1985ء اور 2002ء کے عام انتخابات میں کسی سابق وزیراعظم نے حصہ نہیں لیا تھا۔
’’مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا‘‘
بہت سے حلقوں میں سخت مقابلے سے قطعہ نظر بہت شہرہ رہا، جیسے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے مقابلے میں آنے والی ان کی مبینہ بیوی عائشہ احد نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا، لیکن حمزہ شہباز کے ایک لاکھ سات ہزار 707 ووٹوں کے مقابلے میں صرف 339 ووٹ حاصل کیے۔ اس ہی طرح تحریک مساوات کے چیئر پرسن مسرت شاہین نے حلقہ این اے 24 ڈیرہ اسماعیل خان پر مولانا فضل الرحمن کے مقابل انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا۔ البتہ انتخابات کے دوران ہی انہوں نے الزام لگایا کہ خواتین کو اسلحے کے زور پر روکا گیا، اس لیے وہ انتخابات کا بائیکاٹ کر رہی ہیں۔ انہیں فضل الرحمن کے 91ہزار 834 ووٹوں کے مقابلے میں صرف 99 ووٹ حاصل ہوسکے۔ اسی طرح فاٹا سے پہلی خاتون امیدوار بادام زری نے این اے 44 سے صرف 230 ووٹ لیے۔
عمران خان بیک وقت تین نشستیں جیتنے والے واحد امیدوار
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بیک وقت قومی اسمبلی کی چار نشستوں سے انتخاب میں حصہ لیا، جن میں سے تین نشستیں جیتیں، جب کہ ایک میں ناکام ہوئے۔ یوں تو بیک وقت تین نشستوں پر کام یابی کوئی نئی بات نہیں، لیکن رواں انتخابات میں یہ اعزاز صرف عمران خان کے حصے میں آیا۔ انہوں نے این اے 1 پشاور سے اے این پی کے غلام بلور کو ہرایا، راولپنڈی میں این اے 56 سے نواز لیگ کے حنیف عباسی کو ہرایا جو مخالفین کی ضمانتیں ضبط کرانے کا دعویٰ بڑی شدومد سے کرتے رہے تھے۔ حلقہ 71 میانوالی سے انہوں نے عبیداﷲ شادی خیل کو ہرایا۔ البتہ لاہور سے این اے 22 پر وہ اپنے روایتی حریف ایاز صادق پر برتری ثابت نہ کرسکے۔ تین نشستوں سے کام یابی کے بعد انہوں نے پشاور اور میانوالی کی نشست چھوڑنے اور راولپنڈی کی نشست اپنے پاس رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے علاوہ شہباز شریف ایک قومی اور دو صوبائی نشستوں پر کام یاب ہوئے۔ جاوید ہاشمی ملتان اور اسلام آباد، نواز شریف سرگودھا اور لاہور سے بیک وقت کام یاب ہوئے۔
جن کی ’’عزت بچ گئی‘‘
جمعیت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمن، ق لیگ کے چوہدری پرویز الٰہی ، تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی اور نواز لیگ کے چوہدری نثار ان امیدواروں میں سے ہیں، جو اپنی عزت بچانے میں کام یاب رہے۔ انہوں نے بیک وقت ایک سے زاید حلقوں میں امیدوار ہونے سے فائدہ اٹھایا اور ایک نشست اپنے نام کر کے ایوان زیریں تک رسائی حاصل کرلی۔ فضل الرحمن ڈیرہ اسماعیل اور ٹانک کے تین حلقوں سے امیدوار تھے صرف ڈیرہ اسماعیل خان ہی سے سرخ رو ہوسکے۔ سابق قائد حزب اختلاف چوہدری نثار نے بھی قومی اور صوبائی کی دو، دو نشستوں سے حصہ لیا۔ ایک قومی اور ایک صوبائی نشست ان کے ہاتھ آئی۔ شاہ محمود قریشی نے ملتان سے دو اور تھرپارکر کی ایک نشست پر انتخاب لڑا۔ صرف ملتان کی ایک نشست ہی ہاتھ آسکی۔ ق لیگ کے صدر چوہدری پرویز الٰہی گجرات اور چکوال سے لڑے اور صرف گجرات کی آبائی نشست ہی بچا سکے۔
پشاور۔۔۔’’نئے پاکستان‘‘ کی پہلی تجربے گاہ!
انتخابی مہم میں جان ڈالنے والے تحریک انصاف کے راہ نما عمران خان کا نعرہ تھا کہ وہ انتخابات جیت کر ’’نیاپاکستان‘‘ بنائیں گے اور باری باری اقتدار میں آنے والی جماعتوں کی اجارہ داری ختم کر دیں گے، لیکن ان کے امیدوار صرف سرحد میں ہی کام رانی کے جھنڈے گاڑ سکے ہیں ۔ اس حوالے سے سماجی ویب سائٹس اور موبائل پیغامات میں دل چسپ تبصرے کیے گئے، جیسے پشاور میں عموماً عید کا چاند پہلے نظر آجاتا ہے اور وہاں کے باسی باقی ملک سے پہلے عید منالیتے ہیں، اسی تعلق سے تبصرہ کیا گیا کہ عید کی طرح نیا پاکستان بھی پشاور میں پہلے نظر آگیا ہے۔ باقی ملک میں بعد میں نظر آئے گا۔ اس شگفتہ بیانی سے قطعہ نظر درحقیقت پشاور عمران خان کے مجوزہ ’’نئے پاکستان‘‘ کی پہلی تجربے گاہ کی حیثیت رکھتی ہے، جہاں انہیں اپنے منشور کو عملی جامہ پہنا کر اپنے سیاسی مستقبل کا تعین کرنا ہے۔ گوکہ کپتان کو ملک کی مشکل ترین پچ ملی ہے، جہاں عسکریت پسند گروہ خاصے سرگرم ہیں اور امن وامان کی صورت حال ابتر ہے، تاہم ان کی لگن، کارکردگی اور خلوص بتائے گا کہ وہ صوبے کو آیندہ پانچ سال تک کس طرح لے کر چلتے ہیں۔ ساتھ ہی لوگوں کو ان کے اس انقلابی قدم کا بھی انتظار ہے کہ جس میں انہوں نے گورنر ہائوس کو کتب خانوں میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
کراچی میں تحریک انصاف کا اُبھار
تحریک انصاف کی انتخابی مہم کا سار زور پنجاب میں رہا۔ دوسرے نمبر پر خیبر پختون وغیرہ میں مہم چلائی گئی اور ایک آدھ جلسے دیگر مقامات پر بھی کیے گئے۔ البتہ کراچی میں منعقدہ یکم مئی کا جلسہ امن وامان کی صورت حال کی بنا پر منسوخ کردیا گیا۔ انتخابی مہم کے دوران عمران خان صرف ایک بار مختصر دورے پر کراچی آئے، اور کوئی خاطر خواہ انتخابی مہم نہ چلائی گئی۔ اس کے باوجود مبصرین کا بہ ظاہر مشکل نظر آنے والا تجزیہ درست ثابت ہوا اور تحریک انصاف نے کراچی میں8 لاکھ سے زاید ووٹ اپنے نام کیے اور عملاً دوسری بڑی جماعت بن گئی۔ اس سے قبل شہر کی سب سے بڑی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ 12 سے 15 لاکھ ووٹ حاصل کرتی رہی ہے۔ اس کی قریب ترین حریف جماعت اسلامی کے حصے میں محض2 سے 3 لاکھ ووٹ لینے میں کام یابی حاصل کرتی رہی ہے، جس نے اس بار پولنگ کے دوران دھاندلی کے الزامات لگا کر بائیکاٹ کا اعلان کیا۔
شہر کے سیاسی مزاج میں تبدیلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کے امیدوار نے قومی اسمبلی کے حلقہ246 سے، (جہاں متحدہ قومی موومنٹ کا مرکز بھی واقع ہے) 31ہزار 875 ووٹ لیے، جب کہ ماضی میں جماعت اسلامی کے امیدوار بھی یہاں سے 5 ہزار سے زیادہ ووٹ نہیں لے سکے۔ اس ہی طرح نئی کراچی، اورنگی ٹائون اور منگھو پیر کے حلقے 243 سے29 ہزار 876 ووٹ حاصل کیے، جب کہ جماعت اسلامی کو 8 اور پی پی کو 5 ہزار ووٹ ملے۔ خالص اردو بولنے والی آبادی پر مشتمل صوبائی حلقے پی ایس 98 (نئی کراچی) پر تحریک انصاف کو 18 ہزار 948 ووٹ حاصل ہوئے۔ اس کے علاوہ نارتھ ناظم آباد، پاپوش نگر جیسے متحدہ کے مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے این اے245 پر تحریک انصاف کو 54 ہزار 937 اور لیاقت آباد، گلبہار اور ناظم آباد پر مشتمل این اے247 پر 35 ہزار ووٹ حاصل ہوئے۔ اس کے ساتھ پیپلزپارٹی کے گڑھ لیاری میں این اے248 پر تحریک انصاف کے امیدوار نے26 ہزار 348 ووٹ حاصل کیے اور 6 پولنگ اسٹیشنوں ایسے تھے جن پر تحریک انصاف کا امیدوار جیتا۔
ذکر کچھ نوازشریف سے حلف لینے والے صدور کا!
نواز شریف 1990ء میں پہلی بار وزیراعظم بنے اور انہوں نے غلام اسحق خان سے حلف لیا۔ جنہوں نے اپنا صدارتی اختیار استعمال کرتے ہوئے 1993ء میں ان کی حکومت برطرف کی تو وہ قانونی چارہ جوئی کے ذریعے بحال ہوگئے، لیکن اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل عبدالوحید کاکڑ کی مداخلت کے بعد دونوں کو مستعفی ہونا پڑا ۔ دوسری بار وزارت عظمیٰ کا ہما 1997ء میں بیٹھا جب انہوں نے صدر فاروق احمد خان لغاری سے حلف لیا، لیکن اس کے بعد جب نواز شریف نے ان کی وہ تلوار چھین لی جس کے ذریعے انہوں نے پچھلی اسمبلی کو چلتا کیا تھا تو انہوں نے استعفے کا راستہ لیا۔ اب نواز شریف متوقع طور پر تیسری بار وزیراعظم بنیں گے تو قصر صدارت کے مکین صدر زرداری ہوں گے۔ نوازشریف پاکستان کے وہ پہلے وزیر اعظم بن جائیں گے جو تین بار اس عہدے پر متمکن ہوا۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور میں بے نظیر اور نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے دور رکھنے کے لیے آئین میں تیسری بار وزیراعظم بننے پر پابندی لگا دی تھی۔ 2008ء کے انتخابات سے قبل ہی بے نظیر کا قتل ہوگیا۔ اس کے بعد صرف نواز شریف ہی اس وقت تک اس ترمیم کے براہ راست متاثر تھے، اور پیپلزپارٹی نے نواز لیگ کی حمایت سے یہ آئینی ترمیم ختم کردی۔
خواتین پر پابندی
رواں انتخابات میں خواتین کے ووٹ کو یقینی بنانے کے لیے کوششیں کی گئیں جس کے نتیجے میں دیر بالا میں خواتین نے پہلی بار ووٹ ڈالنے میں کام یابی حاصل کی۔ میانوالی کے علاقے پائی خیل میں خواتین نے 56 سال بعد ووٹ ڈالا۔ مہمند ایجنسی میں خواتین کے ووٹ ڈالنے کی شرح گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ بتائی گئی، لیکن دیگر علاقوں میں خواتین کو حق رائے دہی سے محروم رکھنے کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان گٹھ جوڑ سامنے آئے۔ مانسہرہ کے حلقے این اے 21 اور پی کے 55، این اے 156 خانیوال اور پی پی 212 میں خواتین کے ووٹ ڈالنے کی ممانعت کردی گئی۔ پشاور کے نواحی علاقوں سے بھی خواتین کو حق رائے دہی سے محروم کرنے کی اطلاعات ملیں۔ این اے 46 نوشہرہ میں خواتین نے عسکریت پسندوں کی دھمکی کے باعث ووٹ ڈالنے سے انکار کر دیا۔ پی کے 24 ڈیرہ اسماعیل خان اور شمالی وزیرستان میں بھی خواتین کو روک دیا گیا۔ میرانشاہ میں مساجد سے خواتین کو ووٹ ڈالنے پر سخت سزا کا انتباہ کیا گیا۔ پی کے 95 کے بعد پی کے93پشاور میں بھی خواتین کو ووٹ سے روکنے کے لیے پیپلزپارٹی، نواز لیگ، تحریک انصاف، جمعیت علمائے اسلام اور اے این پی امیدواروں کے درمیان معاہدے کے نتیجے میں خواتین کو حق رائے دہی سے محروم کردیا گیا۔
سیاسی جماعتوں کے سیکریٹری جنرل ناکام!
انتخابات میں بڑی سیاسی جماعتوں کے جنرل سیکریٹری فتح یاب نہ ہوسکے۔ غیر حتمی نتائج کے مطابق پی پی کے راجا پرویز 51، اقبال ظفر جھگڑا 3، جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ 126 اور این اے 149 ملتان سے ناکام رہے۔ اے این پی کے احسان وائیں اور ق لیگ کے مشاہد حسین نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔
انتخابی مہم پر لاگت
پاکستان کی انتخابی مہم کے دوران الیکشن کمیشن کی جانب سے امیدواروں کو اخراجات کی مد میں پابند کیا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کا امیدوار 15 لاکھ، جب کہ صوبائی اسمبلی کا ہر امیدوار 10لاکھ روپے سے زیادہ خرچ نہیں کرسکتا، لیکن مجموعی طور پر عام انتخابات میں انتخابی مہم پر خرچ کی جانے والی رقم کے حوالے سے برطانوی ذرایع ابلاغ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اتنی رقم سے پاکستان جیسے اسکول میں 35 ہزار اسکول بنائے جا سکتے تھے، کیوں کہ پاکستان اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک بن چکا ہے۔ انتخابی اشتہارات پر اتنا پیسہ خرچ کیا گیا جن سے 35 ہزار اسکول بنائے جا سکتے تھے۔ انتخابی مہم میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواروں نے اپنی اشتہاری مہموں کو ایسے دور افتادہ علاقوں تک بھی پہنچانے کی کوشش کی جہاں صحت یا تعلیم کی بنیادی سہولتیں دست یاب نہیں۔
بائیکاٹ کے باوجود فتح
چترال کے حلقے این اے 32 میں آل پاکستان مسلم لیگ کے امیدوار افتخار الدین کے 29772ووٹ لے کر سرخرو ٹھہرے۔ افتخار الدین پرویز مشرف کے کورننگ امیدوار تھے، جنہوں نے پرویز مشرف کے کاغذات نام زدگی مسترد ہونے پر پارٹی کی جانب سے بائیکاٹ کا اعلان ماننے سے انکار کر دیا، جب کہ پی کے 90 میں ان ہی کی جماعت کے حاجی غلام محمد نے کام یابی حاصل کی۔
11 پی پی امیدواروں کی ہیٹ ٹرک
سندھ اسمبلی کے گیارہ پی پی امیدوار مسلسل تیسری بار رکن منتخب ہوئے۔ جن میں جام مہتاب ڈہر، طارق مسعود آرائیں، غلام قادر چانڈیو، قائم علی شاہ، سید علی مردان شاہ، نعیم کھرل۔ عزیز جتوئی، مخدوم جمیل الزماں، ڈاکٹر سکندر مندہرو، محمد نواز چانڈیو شامل ہیں۔ چھے ایسے ارکان ہیں جو 1988ء سے ناقابل شکست ہیں۔ ان میں نثار کھوڑو، میر نادر مگسی، منظور وسان، میر حیات تالپور، خورشید شاہ، نوید قمر اور امین فہیم شامل ہیں۔
ذرایع ابلاغ کا کردار
یوں تو گذشتہ انتخابات میں بھی ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا موجود تھا، لیکن اس بار ہر دو سطح پر عام انتخابات میں ان کا کردار نہ صرف ابھرکر سامنے آیا اور مختلف جماعتوں نے نہ صرف اس کے ذریعے اپنے پیغام کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایا، بلکہ مخالفین پر تنقید کی بھی کوئی کسر نہ رکھ چھوڑی۔ سماجی روابط کی ویب سائٹس کی ڈور تو عوام کے ہاتھ میں تھی لیکن برقی ذرایع ابلاغ نے انتخابات کے حوالے سے اپنی خصوصی نشریات کے وقت بہت زیادہ غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا، بالخصوص جانب داری اور نتائج کے حوالے سے جلد بازی سے صحافت کے بنیادی اصول پامال ہوئے۔
سو فی صد سے زیادہ ووٹ!
انتخابات میں ملک بھر کے مختلف حلقوں کے بہت سے پولنگ اسٹیشن پر درج ووٹروں سے زیادہ ووٹ پڑے۔ انتخابی عمل کو مانیٹر کرنے والے ادارے فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فیفن) کے مطابق ملک بھر کے 38 حلقوں میں سو فی صد سے زاید ووٹ پڑے ۔ جن میں سے 18پر نواز لیگ، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی 5،5 اور متحدہ کے 3 امیدواروں کے علاوہ فنکشنل لیگ، ق لیگ، نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ایک، ایک امیدواروں سمیت ایک آزاد امیدوار کام یاب ہوا۔ جب کہ ایک نشست کا نتیجہ نہیں آسکا۔جن حلقوں کے پولنگ اسٹیشنوں پر مبینہ طور پر سو فی صد سے زاید ووٹ پڑنے کا کہا گیا، ان کی تفصیل اور کام یاب امیدواروں کی تفصیلات کچھ یوں ہے۔
خیبرپختون:
حلقہ امیدوار
5 پرویز خٹک (تحریک انصاف)
6 سراج محمد خان (تحریک انصاف)
13 اسد قیصر (تحریک انصاف)
24 فضل الرحمان (جمعیت علمائے اسلام)
پنجاب:
71 عمران خان( تحریک انصاف)
74 ڈاکٹر محمد افضل خان( آزاد)
94 چوہدری اسد الرحمنِ( نواز لیگ)
98 میاں طارق محمود( نواز لیگ)
101 جسٹس ریٹائرڈ افتخار احمد چییمہ( نواز لیگ)
105 چوہدری پرویز الٰہی( ق لیگ)
115 میاں محمد رشید( نواز لیگ)
122 سردار ایاز صادق( نواز لیگ)
124 شیخ روحیل اصغر( نواز لیگ)
126 شفقت محمود( تحریک انصاف)
127 وحید عالم خان( نواز لیگ)
128 محمد افضل کھوکھر( نواز لیگ)
130 سہیل شوکت بٹ( نواز لیگ)
140 رشید احمد خان( نواز لیگ)
142 رانا محمد حیات خان( نواز لیگ)
143 ندیم عباس ربیرا( نواز لیگ)
147 محمد معین وٹی( نواز لیگ)
148 ملک عبدالغفار ڈوگر( نواز لیگ)
151 سکندر حیات خان بوسن( نواز لیگ)
168 ساجد مہدی( نواز لیگ)
175 ڈاکٹر حفیظ الرحمن خان درشک( نواز لیگ)
193 شیخ فیاض الدین( نواز لیگ)
195 مخدوم سید مصطفیٰ محمود( پیپلزپارٹی)
سندھ:
198 نعمان اسلام شیخ( پیپلزپارٹی)
200 علی گوہر خان مہر( پیپلزپارٹی)
211 رئیس غلام مرتضیٰ خان جتوئی( نیشنل پیپلزپارٹی )
217 سید کاظم علی شاہ( فنکشنل لیگ)
218 مخدوم امین فہیم( پیپلزپارٹی )
226 پیر شفقت حسین شاہ جیلانی( پیپلزپارٹی)
229 دوبارہ پولنگ
242 محبوب عالم( متحدہ قومی موومنٹ)
256 اقبال علی خان( متحدہ موومنٹ)
257 ساجد احمد( متحدہ موومنٹ)
بلوچستان:
262 محمود خان اچکزئی( پشتونخوا ملی عوامی پارٹی)
جو برج اُلٹ گئے!
جیسے کھیل کے میدان سے ایک سرخرو اور دوسرا ناکام لوٹتا ہے، ایسے ہی انتخابات میں بھی بازی ایک ہی امیدوار کے نام رہتی ہے ، جب کہ دوسرے کو ناکامی کا مزہ چکھنا پڑتا ہے، لیکن یہ صورت حال اس وقت بہت زیادہ اہم ہوجاتی ہے جب بازی کسی بڑے امیدوار کے ہاتھ سے نکل کر دوسرے امیدوار کے حق میں چلی جائے۔ انتخابی اصطلاح میں اسے ’’برج الٹنے‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
جن بڑے ناموں کو شکست کا مزہ چکھنا پڑا ان میں سرفہرست سابق وزیر اعظم راجا پرویز اشرف، سابق وزیر اطلاعات قمر الزماں کائرہ، فردوس عاشق اعوان، احمد مختار، اے این پی کے قائد اسفندیار ولی اور وزیر ریلوے غلام احمد بلور ، جب کہ نواز لیگ کے مہتاب عباسی، حنیف عباسی، شکیل اعوان اور ق لیگ چھوڑ کر نواز لیگ میں جانے والی ماروی میمن اور امیر مقام بھی شکست سے دوچار ہوئے۔ اس کے علاوہ چوہدری نثار کو بھی ایک نشست پر شکست ہوئی۔ فردوس عاشق اور امیر مقام وہ امیدوار تھے کہ جنہیں دونوں نشستوں سے شکست کی ہزیمت اٹھانا پڑی۔
جمشید دستی کا اعزاز
بہ حیثیت آزاد امیدوار 2 نشستیں جیتنے والے دوسرے امیدوارشیخ رشید کے بعد پی پی کے سابق رکن جمشید دستی پارلیمانی تاریخ میں دوسرے رکن بن گئے ہیں جنہوں نے آزاد حیثیت میں دو جگہوں سے کام یابی حاصل کی۔ جعلی ڈگری سے شہرت پانے والے جمشید دستی نے انتخابات سے قبل پیپلزپارٹی سے علیحدگی اختیار کرلی تھی اور دو حلقوں این اے 177 اور 178 سے انتخاب میں فتح حاصل کی۔
اس سے قبل 2002ء میں متعدد بار وفاقی وزارتوں میں جگہ پانے والے شیخ رشید نے ن لیگ کی طرف سے ٹکٹ نہ ملنے پر پنڈی کے حلقوں 55 اور 56 سے آزاد حیثیت میں کام یابی حاصل کی تھی، لیکن ناقدین کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں نواز شریف کا نام استعمال کیا اور کہا کہ وہ جیت کر دونوں نشستیں ان کے قدموں میں ڈال دیں گے۔ عملاً ایسا نہ ہوسکا اور وہ اس زمانے میں عروج پانے والی ق لیگ سے جا ملے۔ اس کے بعد 2008ء میں انہیں ق لیگ کے امیدوار کی حیثیت سے شکست سے دوچار ہونا پڑا اور اس کے بعد کے ضمنی انتخاب میں بھی انہیں نواز لیگ کے سامنے کام یابی نصیب نہ ہوئی۔ رواں انتخابات میں انہوں نے اپنی جماعت عوامی مسلم لیگ کے سہارے کام یابی سمیٹی جس میں انہیں تحریک انصاف کا تعاون حاصل رہا۔