عہدہ بڑا ہو تو ذمہ داری بھی بڑی عائد ہوتی ہے۔ ایس ایچ او صرف شہر میں قانون نافذ کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے جبکہ گورنر یا وزیر اعلیٰ پورے صوبے کے تمام نظم و نسق کے ذمہ دار ہوتے ہیں ، یوں عہدہ بڑھنے کے ساتھ ساتھ ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
ایسے افراد جنھیں عہدے کے اختیارات سے زیادہ اور اس سے منسلک ذمہ داریوں سے کم دلچسپی ہوتی ہے ان کے لئے بڑے عہدے بڑی کشش رکھتے ہیں کیونکہ اس سے انھیں من مانی کرنے کا خوب موقع ملتا ہے مگر جو افراد ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے میں درپیش مشکلات کو سمجھتے ہیں وہ ان عہدوں کو بہت سوچ سمجھ کر قبو ل کرتے ہیں کہ آیا وہ ان ذمہ داریوں کو نبھا بھی سکیں گے یا نہیں ۔
وطن عزیز میں جمہوریت کا دور دورہ ہے اور یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ جمہوریت کا تسلسل برقرار رہا اور غیر جمہوری قوتوں کا ایجنڈا ناکام ہو گیا ، تاہم جمہوریت کے ساتھ جڑی بھاری ذمہ داریوں کا احساس کچھ زیادہ نظر نہیں آتا۔ حالانکہ عوام تو نمائندوں کا چنائو اس لئے کرتے ہیں کہ وہ ان کی آواز اقتدار کے ایوانوں تک پہنچائیں مگر منتخب ہونے والے نمائندے عوام کی بات کرنے کی بجائے صرف اپنی بات کرتے ہیں اور ان کی ساری سیاست ذاتی مفادات کے گرد گھومتی ہے اور وہ ایم پی اے یا ایم این اے سے بھی آگے وزیر یا مشیر بننے کے چکر میں پڑے رہتے ہیں تا کہ زیادہ سے زیادہ مفاد حاصل کر سکیں ، صرف اپنے لئے ۔
پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت اس کی واضح مثا ل ہے،عوام نے دیکھا کہ قومی خزانے کو ملک وقوم پر کم اور ذاتی چمک دمک اور مفاد کے لئے زیادہ استعمال کیا گیا اور قرضوں کے بوجھ تلے دبے ملک کو آئی ایم ایف اور عالمی مالیاتی اداروں کے چکر ویو سے نکالنے کی بجائے زیادہ سے زیادہ قرضے حاصل کئے گئے تاکہ وہ بڑے آرام سے اپنا پانچ سالہ دور مکمل کر سکیں حتٰی کہ آئی ایم ایف جیسا ادارہ جس سے قرض لیتے ہوئے ہر ملک سو بار سوچتا ہے پاکستان کو نیا قرض دینے سے قبل سوچ میں پڑ گیا ۔
موجودہ انتخابات میں عوام نے سابقہ حکومت سے بے زاری کا کھل کر اظہار کیا جس کا فائدہ مسلم لیگ ن کو ہوا اور گزشتہ ادوار میں دو مرتبہ آزمائی ہوئی مسلم لیگ ن کو ایک مرتبہ پھر اس توقع کے ساتھ بھاری مینڈیٹ دے دیا گیا ہے کہ اب یہ عوام کے مسائل حل کرنے پر بھرپور توجہ دے گی۔ یوں تو مسائل کا ایک انبار ہے جس نے ملک کو اپنے بوجھ تلے دبایا ہوا ہے مگر چند بڑے مسائل ایسے ہیں جن پر فوری اور بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ بہت سے دیگر مسائل بھی انھی سے جڑے ہوئے ہیں ۔ ان بڑے مسائل میں دہشت گردی ، توانائی کا بحران ، معیشت کی بحالی اور خارجہ معاملات میں عدم توازن شامل ہے۔
توانائی کے بحران نے گزشتہ چھ ،سات سال سے پورے ملک کو اپنے نرغے میں لیا ہوا ہے ، اگر یہ کہا جائے کہ اس بحران کی ذمہ دار مشرف حکومت ہے تو غلط نہ ہو گا ، کیونکہ مشرف دور میں بجلی کی پیدا وار میں ایک یونٹ کا بھی اضافہ نہیں کیا گیا، حالانکہ جنرل مشرف نے اقتدار سنبھالتے ہی جن آٹھ نکات کا سہارا لے کر پوری قوم کو سہانے خواب دکھائے تھے ان میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر بھی شامل تھی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صرف اقتدار ہی جنرل (ر) پرویز مشرف کا مطمع نظر ٹھہرا اور باقی تمام وعدے بھلا دئیے گئے تاہم جب پرویز مشرف کو محسوس ہونے لگا کہ اس کا اقتدار خطرے میں پڑنے والا ہے تو اس نے عوام کو پھر سے بیوقوف بنانے کے لئے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا نعرہ لگا یا مگر تب تک بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا تھا۔
بجلی کی پیداوار میں اضافہ نہ کرنا مشرف حکومت کی ایک بہت بڑی غلطی تھی اور 2007ء میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ بڑی شدت کے ساتھ شروع ہو چکی تھی جس کا خمیازہ جنرل(ر) پرویز مشرف کی پروردہ مسلم لیگ ق کو الیکشن میں شکست کی صورت میں بھگتنا پڑا، جب پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو انھوں نے ججز کی بحالی کے ساتھ ساتھ عوام سے یہ بھی وعدہ کیا کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر بہت جلد قابو پا لیا جائے گا ، مگر وقت گزرنے کے ساتھ سابق حکومت کا یہ وعدہ وقت کی دھول میں اپنی اہمیت کھوتا چلا گیا اور پورے پانچ سال تک اقتدار میں رہنے کے باوجود پیپلز پارٹی کی حکومت اپنے اس وعدہ کو پایۂ تکمیل تک نہ پہنچا سکی۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ملک کے 18کروڑ عوام توانائی کے بحران کی وجہ سے شدید مشکلات سے دوچار تھے مگر تب وزراء کے ماتھے پر کبھی پسینہ تک دیکھنے میں نہیں آیا اور وہ شدید گرمی میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے بھی سوٹ میں ملبوس نظر آتے جو ائیر کنڈیشنڈ کی موجودگی کے بناء نہیں پہنا جا سکتا۔ الیکشن مہم کے دوران تمام پارٹیوں نے توانائی کے بحران کو ختم کرنے کا نعرہ اپنی ترجیحات میں شامل رکھا، کیونکہ یہ ایسامسئلہ ہے جس سے ہر طبقہ متاثر ہو رہا ہے ، مسلم لیگ ن کی خوش قسمتی ہے کہ عوام نے انھیں اپنے مسائل کے حل کے لئے چنا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بجلی کی پیداوار دس ہزارمیگا واٹ اورطلب پندرہ ہزار میگا واٹ ہے ، جون، جولائی میں بجلی کی پیداوار تیرہ ہزا ر میگاواٹ ہو جاتی ہے جبکہ طلب ساڑھے سترہ ہزار میگاواٹ ہو جاتی ہے گویا پانچ سے چھ ہزار میگا واٹ کا فرق ہر حال میں برقرار رہتا ہے اور اگر کسی پیداواری یونٹ میں کوئی خرابی (جو گرمیوں میں اکثر ہو تی ہے) ہو جائے تو پھر صورتحال زیادہ گمبھیر ہو جاتی ہے۔
شہروں میں بارہ سے چودہ گھنٹے اور دیہاتوں میں اٹھارہ گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ گزشتہ حکومت نے بھاشا ڈیم اور ایسے ہی دیگر منصوبے شروع کرنے کے وعدے تو بہت کئے حتٰی کہ بھاشا ڈیم کا افتتاح بھی کر دیا گیا اور کہا گیا کہ یہ منصوبہ پانچ سال میں مکمل ہو جائے گا ، مگر افسوس بھاشا ڈیم پر کام افتتاح سے آگے نہ بڑھ سکا ، اگرا س منصوبے پر سنجیدگی سے کام شروع کر دیا جاتا تو سابق حکومت کے دو ر میں نہ سہی بعد میں مکمل ہو جاتا جس سے ملک کو ساڑھے چار ہزار میگاواٹ سستی بجلی میسر آجاتی ۔ اب یہ مسئلہ مسلم لیگ ن کی حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہو گا،عوام کو ناصرف بجلی فراہم کرنا ہو گی بلکہ سستی بجلی فراہم کرنا ہوگی کیونکہ پاکستانی عوام کی ایک بہت بڑی تعداد غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، اس لئے عوام کو سستی بجلی فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ یہ ہر آدمی کی پہنچ میں رہے۔
رہی بات متمول طبقے کی تو انھیں اب بھی نہیں پتہ کہ ملک میں کتنے گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے کیونکہ ان کے گھروں میں لگے ہوئے خود کار جنریٹر انھیں ہمہ وقت بجلی فراہم کرتے رہتے ہیں۔ میڈیا پر بجلی کی لوڈشیڈنگ کا شور سن کر وہ مختلف بیانات کے ذریعے اپنی پریشانی کا اظہا ر کرتے رہتے ہیں تاکہ عوام کو یہ تاثر دیا جا سکے کہ وہ ان کے مسائل سے آگا ہ ہیں ۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کو سب سے پہلے تو لوڈ شیڈنگ کے شیڈول کا اعلان کرنا چاہیے تا کہ عوام اپنے معمولات کو اس کے مطابق ایڈجسٹ کر سکیں، اس کے بعد بجلی چوری اور اس میں معاونت کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کرنی چاہیے، اس سے یقیناًلوڈ شیڈنگ میں کمی ہو گی ۔ اس کے ساتھ ساتھ بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لئے چھوٹے منصوبوں پر فوری عمل شروع کیا جائے جس کے لئے جون میں بجٹ مختص کیا جائے، اگر ضروری ہو تو ترقیاتی بجٹ کم کر کے رقم بجلی کے منصوبوں پر خرچ کی جائے، سابقہ جاری منصوبوں کی پیداواری گنجائش بڑھائی جائے، اہم بات یہ کہ عوام اس سلسلے میں زیادہ انتظار نہیں کر سکتے اس لئے ضروری ہے فوری طور پر بجلی کی کمپنیوں کی ادائیگیوں کو بہتر کیا جائے تاکہ لوڈ شیڈنگ میں جس حد تک ممکن ہے فوری کمی ہو سکے۔
ملک کا دوسرا بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے جس نے گزشتہ تیرہ سال سے ملک میں اپنے پنجے گاڑھے ہوئے ہیں۔ میں اب تک 49ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں ، پیپلز پارٹی کی حکومت سے یہ توقع تھی وہ اس مسئلے کا حل نکالے گی مگر وہ اس میں بری طرح ناکام ہوئی اور اس کے پانچ سالہ دور اقتدار میں 5152 افراد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے اور 5678 شہری بری طرح زخمی ہوئے جبکہ ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کی تعداد تین ہزار سے زائد ہے۔ حکومتی ایماء پر فوج نے ان دہشت گردوں کے خلاف آپریشن بھی کیا اور کافی حد تک کامیابی بھی حاصل کی مگر مسئلے کا حل نہ نکل سکا ، اس مسئلے کا اہم پہلو یہ ہے کہ جن لوگوں کو دہشت گرد قراردیا گیا ہے وہ بھی پاکستانی ہیں ان کی لڑائی کی اصل وجہ افغانستان جنگ میں پاکستان کا کردار ہے، اگر ان سے مذاکرات کئے جاتے تو یقیناً اس مسئلے کا حل نکل آتا ، مسلم لیگ ن نے طالبان اور ان کے حمایتیوں سے مذاکرات کا عندیہ دیا ہے جو خوش آئند ہے ، دوسری طرف خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کو عوامی مینڈیٹ ملا ہے، طالبان سے مذاکرات ان کے بھی منشور کا حصہ ہے ، گویا دہشت گردی کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے حالات کافی سازگار ہیں اب یہ مسلم لیگ ن کی حکومت پر ہے کہ وہ اس سلسلے میں کیا لائحہ عمل طے کرتی ہے۔
الیکشن مہم کے دوران معیشت کی بحالی مسلم لیگ ن کانعرہ رہا ہے، مگر یہ کوئی اتنا آسان کام نہیں ہو گا کیونکہ سابق حکومت نے آئی ایم ایف اور دیگر اداروں سے قرض پر قرض لے کر بجٹ خسارہ اتنا بڑھا دیا ہے کہ موجودہ حکومت کو اس بحران سے نمٹنے کے لئے طویل المدت حکمت عملی طے کرنا ہو گی، پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنے سے قبل بیرونی قرضہ 40بلین ڈالر تھا جو پانچ سال میں بڑھ کر 60بلین ڈالر ہو گیا اگر اس معاملے کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو 2015ء تک بیرونی قرضہ بڑھ کر 75بلین ڈالر ہو جائے گا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستانی حکومت کو ملک چلانے کے لئے قرضہ لینا پڑے گا اور پھر قرضہ دینے والے اداروں کی کڑی شرائط پر عمل بھی کرنا ہو گا۔ پاکستانی عوام کو مسلم لیگ ن کی حکومت سے توقع ہے کہ وہ غیر ملکی قرضوں پر کم سے کم انحصار کرتے ہوئے ملکی معیشت کی بحالی کے لئے اقدامات کرے گی۔
خارجہ تعلقات میں توازن پاکستان کا بہت اہم مسئلہ ہے۔ پاکستانی قوم کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان برابری کی سطح پر امریکا اور دیگر ممالک سے تعلقات قائم رکھے ، خاص طور پر افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی ، پاکستانی علاقوں پر ڈرون حملے اور ہمسایہ ممالک سے تعلقات کا لائحہ عمل فوری طورپر طے کیا جانا چاہیے۔ میاں محمد نواز شریف بھارت اور دیگر ہمسایہ ممالک سے بہتر تعلقات کی خواہش کا اظہار پہلے ہی کر چکے ہیں اور بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ کی طرف سے بھارت کے خیر سگالی دورے کی دعوت بھی قبول کر چکے ہیں ۔ پاکستانی علاقوں پر امریکی ڈرون حملوں کا مسئلہ ایسا ہے کہ جو ملک کی خودمختاری کے لئے چیلنج ہے اس حوالے سے امریکا سے فوری مذاکرات ہونے چاہئیں، اسی طرح افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی کے لئے لائحہ عمل طے کرنا چاہیے اور ملک و قوم کے مفاد میں فیصلہ کرنا چاہیے۔
عوامی مینڈیٹ کے ساتھ مسلم لیگ ن کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے جس کا انھیں احساس ہونا چاہیے اور بڑے مسائل کے ساتھ ساتھ دیگر چھوٹے مسائل جیسے قومی اداروں کی بحالی ، سستے انصاف کی فراہمی ، تھانہ کچہری کلچر کا خاتمہ ، بھی حل کرنا ہوں گے، ورنہ جمہوریت بہترین انتقام ہے اور انھیں پانچ سال بعد پھر عوام کی عدالت میں جانا ہے۔