Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

مشرقی اور مغربی جرمنی کے تنازعہ پر تیسری عالمی جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی

$
0
0

( قسط نمبر11)

1918 میں جب جنگ عظیم اوّل ختم ہو ئی تو جرمنی کی کل آبادی 64800000 تھی جب کہ اس دوران سالانہ آبادی میں اضافہ 3% رہا۔ جنگ کے بعد جرمنی نے فرانس کے وارسائی محل میں ذلت آمیز معاہدے پر دستخط کئے جس میںجرمنی پر بھاری تاونِ جنگ ، اسلحہ سازی اور بڑی فوج رکھنے سے دست برداری شامل تھی۔

ان وجوہات کے سبب جرمنی کی معیشت اتنی گری کے کہ ایک ڈالر کی قیمت کئی ہزار جرمن مارک ہو گئی ،جرمنی تومعاشی اقتصا دی بحران کا شکار ہوا ہی لیکن جنگ کے معاشی اور اقتصادی منفی اثرات جنگ کے دس گیارہ سال کے اند ر اندر پوری دنیا میں 1930-33 کی عالمی کساد بازاری کی صورت میں نمایاں ہو ئے اور اسی دوران جرمنی میں 1933 میں ایڈولف ہٹلر نے اپنے نازی ازم کے تحت اقتدار اور قوت حاصل کرنا شروع کی اور 1938-39 میں اُس نے بر طانیہ ،فرانس سمیت پورے یورپ کو چیلنج کرتے ہوئے دوسری جنگ عظیم کا آ غاز کر دیا۔ اگرچہ 1942 کے آخر اور 1943 کے آغاز سے جرمنی کی پسپائی شروع ہو گئی تھی لیکن 1944 میں یہ واضح ہو گیا تھا کہ اب جرمنی کی شکست کے دن گنے جا چکے ہیں۔

ہاں البتہ امریکہ ، برطانیہ ،فرانس ، اور سویت یونین سمیت دیگر اتحادیوں کو اگر فکر تھی تو یہ تھی کہ کہیں جرمنی پہلے ایٹمی ہتھیار بنانے میں کامیاب نہ ہو جائے کیونکہ ایسی صورت میں ہٹلر سے کسی قسم کی انسانی ہمدری کی توقع نہیں تھی اور ہٹلر نے چند دنوں میں دنیا کو خاکستر کر دینا تھا یوں 1944 میں اتحادیوں کی کمیٹی جرمنی کے ہتھیار ڈالنے کے نکات بھی طے کر رہی تھی جس میں پہلی جنگ ِعظیم کے بر عکس حکومتی سربراہ کی مرضی کے ساتھ سول سربراہ کے بجائے فوجوں کے ہتھیار ڈالنے کے معاہدے پر جرمن فوج کے کمانڈر کے دستحط لازمی کرانے پر زور دیا گیا۔ 1944 میں اتحادی فوجیں فرانس کے علاقے نارمنڈی کے بیچ شمالی علاقے میں اتریں اور جرمن فوج کو پیچھے دھکیلنا شروع کیا۔

20 اپریل 1945 کو ایڈولف ہٹلر کی پیدائش کا دن تھا اس سے چار روز قبل ہی روسی جنرل مارشل ژاکوف نے مشرق اور شمال سے جرمنی پر گولہ باری شروع کر دی برلن کی لڑائی شروع ہو چکی تھی۔ ہٹلر شہر میں موجود تھا اور جرمن کمانڈر جنرل Gotthard Heinric گوٹھارڈ ہینرک اور جنرل کورٹ ون ٹیپیلسکیرچ تھے۔ جرمنی کی 36 ڈویژنوں پر مشتمل 766750 فوج2224 لڑکا طیارے 9303 توپیں، 45000 افراد پر مشتمل اسپیشل پویس اور ہٹلر کا خصوصی فوجی دستہ جو40000 جانبازوں پر مشتمل تھا برلن کے دفاع کی جنگ لڑا رہے تھے۔ دوسری جانب سویت یونین کے سربراہ اُس وقت اسٹالن تھے۔

سوویت جنرل جیارگے ژاکوف، جنرل کونسٹنٹین روکوسوویسکی اور اوین کونیف 2300000 روسی فوج 200000 پولیش فوج کے ساتھ جرمنی میں داخل ہو کر دارالحکومت برلن کا محاصرہ کرچکے تھے۔ اِن کے پاس 6250 ٹینک 7500 لڑاکا طیارے اور توپ خانہ 41600 توپوں پر مشتمل تھا۔ سویت فوج نے برلن کے محاصرے پر پندرہ لاکھ فوج لگا ئی۔ برلن کی لڑائی16 اپریل سے2 مئی 1945 تک دو ہفتے دو دن جاری رہی۔ اِس جنگ کی ہولناک تباہی کا اندا ہ کیجئے کہ سولہ روزہ جنگ کے اختتام پر نہ صرف 2 مئی 1945 کو ایڈ ولف ہٹلر نے خود کشی کر لی بلکہ جرمن فوج کے ایک لاکھ فوجی ہلاک دو لاکھ20 ہزار سے زیادہ زخمی اور ہتھیار ڈالنے پر 4 لاکھ 80 ہزار جرمن فوجی گرفتار ہو ئے اور برلن شہر کے اندرونی اُس حصّے میں جہاں ہٹلر نے خود کشی کی وہاں مزید 22 ہزار جرمن فوجی اور تقریباً اتنی ہی تعداد میں جرمن سویلین ہلاک ہو ئے۔

دوسری جانب سوویت فوج کے 81 ہزار سے زیادہ فوجی ہلاک 2 لاکھ 80 ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے۔ جنگ میں سویت یونین کے 1997 ٹینک 917 طیارے اور محتلف قسم کی 2108 توپیں تباہ ہوئیں۔ اگر چہ 2 مئی کو برلن میں جرمن فوجیوں نے ہتھیار ڈال دئیے تھے لیکن با ضابط طور پر 7 مئی کو جرمن کمانڈر اِن چیف جنرل کیٹل نے اتحادی فوجوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی دستاویزات پر دستخط کئے جو انگریزی ،روسی اور جرمن زبانوں میں لکھی گئیں تھیں۔

مغربی اتحادیوں نے فتح کا جشن 8 مئی کو منا یا اس کے تین مہینے بعد جاپان کے شہر ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر امریکہ نے ایٹم بم گرائے اور جاپان نے بھی ہتھیار ڈال دئیے اورپھر25 اکتوبر1945 کو اقوام متحدہ کا ادارہ تشکیل پا یا برلن کے مشرقی حصے سمیت مشرقی جرمنی میں روسی فوجیں موجود تھیںتو مغربی برلن سمیت مغربی جرمنی میں امریکہ ،فرانس اوربر طانیہ کی فو جیں مو جود تھیں اور برلن شہر سمیت شکست خوردہ جرمنی دو حصّوں میں تقسیم ہو چکا تھا اور یہ تلخ حقیقت ہے کہ برلن شہرجہاں جرمن فو جوں کے ہتھیار ڈالنے پر دنیا بھر میں سات کروڑ سے زیادہ انسانوں کی ہلاکت کے بعد دوسری جنگِ عظیم ختم ہو ئی تھی اسی لمحے وہیں سے سرد جنگ کا آغاز ہو گیا تھا۔ دوسری جنگِ عظیم میں سب سے زیادہ روسی ہلا ک ہو ئے تھے جن کی تعداد ایک کروڑ 40 تک بتائی جاتی ہے۔ جب کہ یہ ایک کر وڑ عام شہری بھی ہلاک ہوئے۔

ہلاک ہو نے وا لے جرمن فوجیوں کی تعداد 53 لاکھ 18 ہزار سے زیادہ تھی جب کہ30 لاکھ جرمن شہری بھی لقمہء اجل بن گئے۔ فرانس کے 21 لاکھ فوجی اور 4 لاکھ سویلین اورامریکہ کے 4 لاکھ 46 ہزار فوجی اور 12 ہزار سویلین جبکہ بر طانیہ کے 383700 فوجی اور67 ہزار سویلن دوسری عالمی جنگ میں ہلاک ہوئے۔

جب اقوام متحدہ کی تشکیل اور خصوصاً سیکورٹی کونسل بنی تو سویت یونین کی پوزیشن سرد جنگ میں سیاسی طور پر مغربی اتحاد کے مقا بلے میں کمزور تھی۔ وہ اُس وقت سیکورٹی کو نسل کے پانچ مستقل اور ویٹو رکھنے والے ملکوں میں ایک تھا۔ یعنی اُس کا حصہ صرف 20% تھا۔ پھر جب امریکہ نے جاپان کے خلاف ایٹم بم استعمال کر لیا تھا تو ظاہر ہے کہ اُس وقت امریکہ کے علاوہ دنیا میں کسی اور کے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں تھے مگر جرمنی کے مشرقی حصے پر نہ صرف سویت یونین نے اپنا قبضہ مضبوط کرلیا تھا بلکہ یہاں کیمونزم کے تحت ملک کا نظام استوار کر لیا تھا اور ساتھ ہی ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری پر بھر پو ر توجہ مرکوز کی یہاں تک کہ امریکہ سے ایٹمی راز چرائے گئے۔ 1949 میں سوویت یونین نے ایٹمی دھماکہ بھی کر لیا۔

24 جون 1948 سے 11 مئی 1949 تک سویت یونین نے برلن کی ناکہ بندی کرلی یا یوں کہیں کہ برلن کو محاصرے میں لے لیا جس کو امریکہ ، بر طانیہ اور فرانس نے برلن بلاک کہا۔ سویت یونین نے برلن آنے والے ریلوے اور سڑک کے تمام راستے بند کر دئیے یوں مغربی اتحادی یعنی امریکہ ، بر طانیہ اور فرانس برلن میں رسد نہیں پہنچا سکتے تھے کیوں کہ منقسم برلن کے جو حصے اِن کے قبضے میں تھے وہ چاروں اطراف سے سویت علاقوں میں گھرے ہوئے تھے۔

سوویت یو نین کی جانب اس سے محاصرے کا مقصد اِن مغربی قوتوں کو مجبور کر نا تھا کہ وہ تنگ آکر سویت یونین کو مغربی برلن کو خوراک اور ایندھن کی فراہمی کی اجازت دیں اور اس طرح پورے برلن شہر پر سوویت یو نین کا قبضہ ہو جائے۔ عام حالات میں شائد امریکہ طاقت کے استعمال پر زور دیتا لیکن شائد اُس وقت امریکی سی آئی اے امریکی صدر اور حکو مت کو سوویت یونین کے ایٹمی ہتھیار وں کی تیاری کی اطلاعات دے چکی تھی یوں سوویت یونین کی جانب سے محاصرے کا جواب مغربی اتحاد نے فضائی نقل وحمل یعنی Berlin Airlift کے آغاز سے دیا۔

24 جون 1948 سے11 مئی 1949 تک امریکہ ،برطانیہ اور دولت ِ مشترکہ کے دوسرے ممالک خصوصاً آسٹریلیا کے سامان بردار بڑے طیاروں نے اِن گیارہ مہینوں کے دوران دولاکھ سے  زیادہ اڑانیں بھریں اور اس دوارن 13 ہزار ٹن غذائی اشیا روزانہ برلن پہنچائیں۔ اس فضائی کارروائی سے سوویت یونین کو خفت اٹھانا پڑی اور اِس نے برلن کا محاصرہ اُٹھا لیا۔ البتہ ان گیارہ مہینوں میں فضائی سپلائی کے دوران 101 جانیں ضائع ہوئیں جن میں40 برطانوی اور 31 امریکی شامل تھے۔ زیادہ تر ہلاکتیں ہوائی جہازوں کے گرنے کی وجہ سے ہو ئیں۔ اس آپریشن کے دوران17 امریکی اور 8 بر طانوی ہوائی جہاز گر کر تباہ ہوئے اور اس پورے عمل پر 224 ملین ڈالر خرچ ہوئے۔

امریکہ نے اس آپریشن کا نام operation Vittles برطانیہ نے Operration Plainfare اور آسٹریلیا نےOperation Pelican رکھا تھا۔ سرد جنگ کے حوالے سے یہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد پہلا بڑا واقعہ تھا جس میں سوویت یونین نے ایک شدید نوعیت کا قدم اٹھایا تھا اور اسکے مقابلے میں امریکہ ،برطانیہ،فرانس نے سیاسی حکمت ِعملی اپنائی تھی جو کا رگر ثابت ہوئی۔

جہاں تک اقوام متحدہ کا تعلق ہے تو یہ پہلا واقعہ تھا کہ سیکورٹی کونسل کے ایک ویٹو پاور ممبر سوویت یونین کے مقابل باقی ویٹو ممبر ان کھڑے ہو گئے تھے اور پھر یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ یہاں  بھی فیصلہ طاقت آزمائی اور سیاسی حکمت کی بنیاد پر ہوا تھا اور جرمنی اور خصوصاً برلن شہر کی تقسیم اور اس پر قبضے کا تنازعہ حل نہیں ہو ا تھا۔ اس عالمی نوعیت کے تنازعہ کے فوراً بعد 4 جو لائی 1949 کو امریکہ ،بیلجیم ، لکسمبر گ، نیدر لینڈ، فرانس کینیڈا، پرتگال، اٹلی، ڈنمارک اور آئس لینڈ نے نیٹوNATO Narth Atlantic Treaty Organisation یعنی  شمالی اقیانوس اتحاد کی تنظیم تشکیل دے دی۔

اس کے تین سال بعد 18 فروری 1952 کو نیٹومیں یونان اور ترکی بھی شامل ہو گئے۔ 1954 میں سوویت یونین نے بھی اس میں شمولیت کے لیے درخوست دی کہ وہ اس میں یورپ کے امن کے لیے شامل ہو نا چاہتا ہے لیکن نیٹو میں شامل اراکین نے اس کی مخالفت کی۔ 9 مئی 1955 کو مغربی جرمنی کو بھی نیٹو میں شامل کر لیا گیا اور ناروئے کے وزیر خارجہ نے اس کو اہم موڑ قرار دیا۔

سرد جنگ کے خاتمے کے بعد 1999 میں تین سابق کیمونسٹ ملک ہنگری، چیک ری پبلک جمہوریہ اور پولینڈ نیٹو میں شامل ہو گئے29 مارچ 2004 کو شمالی اور مشرقی یورپ کے مزید سات ملک اسٹونیا، لٹویا، سلودینیا، سلواکیہ، بلغاریہ، اور رومانیہ بھی نیٹو میں شامل ہو گئے اِن کے علاوہ البانیہ مقدونیہ، جارجیا،اور کرو شیا نیٹو کی رکنیت کے خواہش مند ہیں۔  جب نیٹو تشکیل پائی اور اس میں مغربی جرمنی شامل ہوا تواس کے ردعمل میں سوویت یونین نے اپنے اتحادیوں پر مشتمل 15 جولائی 1955 کو پولینڈ کے دارالحکو مت وارسا  میںوارسا پیکٹ تشکیل دیاجس میں سویت یونین سمیت ،البانیہ، بلغاریہ،چیکو سلواکیہ،مشرقی جرمنی، ہنگری، رومانیہ اور پولینڈ شامل تھے۔

البانیہ نے 1961 میں چین ،روس اختلافات کے باعث اس معاہد سے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔ ستمبر1954 میں SEATO۔ساوتھ ایشیا ٹریٹی آرگنائزیشن تشکیل پائی یہ دفاعی نوعیت کا معاہد تھا اس میں آسٹریلیا ،نیوزی لینڈ، فلپائن، فرانس،برطانیہ ،امریکہ اور پاکستان شامل تھے یہ تنظیم سوویت یونین اور چین کے خلاف تھی اور اس کا خاتمہ 1977 میں ہوا۔

اس کے علاوہ مشرق وسطٰی میں سویت یونین کے مفادات کے مقابلے کے لیے اسی نوعیت کی ایک دوسری تنظیم سینٹوCENTO سنڑل ٹرٹیٹی آرگنائزیشن یا بغداد پیکٹ کے نام سے 1955 میں قائم ہو ئی تھی جس میں ایران ،عراق،پاکستان،ترکی اور برطانیہ شامل تھے۔

یہ تنظیم اُس وقت بے اثر ہو گئی جب 14 جولائی 1958 کو عراق میں جنرل عبدالکریم نے انقلاب سے بادشاہ کا تختہ الٹ دیا۔واضح رہے کہ 1949 میں چین میں انقلاب اور کیمونسٹ حکومت کے قیام اور سویت یونین کی جانب سے ایٹمی قوت بن جانے کے بعد صورتحال مغربی بلاک کے لیے تشویشناک ہو گئی تھی۔

جرمنی دوحصوں میں تقسیم تھا اور اقوام متحدہ کی سیکورٹی کو نسل کی ویٹو پاور رکھنے والی طاقتیں دوسری عالمی جنگ کے بعد پھر ایک عالمی تنازعہ پر الجھی ہو ئیں تھیں، البتہ یہ ضرور تھا کہ اب دنیا میں طاقت کا توازن امریکہ اور سوویت یونین جیسی یکساں ایٹمی قوتوں کی وجہ سے بہتر ہو گیا تھا مگر اب بھی جنگ کے کے خدشات کے اعتبار سے میدانِ جنگ جرمنی ہی تھا جہاں ایک جانب مغربی جرمنی میں مغربی اتحادکی صورت میںنیٹو گروپ کے میزائل اور ڈھیروں اسلحہ کے ساتھ فوجیں موجود تھیں تو دوسری جانب مشرقی جرمنی میں یہی صورت سویت یونین کے وارسا پیکٹ کے ممالک کا اسلحہ اور فوجیں تھیں۔ یوں معلوم ہو تا تھا کہ شائد دنیا کی یہ بڑی قوتیں یہ طے کر بیٹھی تھیں کہ اگر تیسری عالمی جنگ ہو تو اس کا میدان بھی جرمنی ہی ہو۔ مشرقی جرمنی میں کیمونسٹ اقتدار اپنی آمرانہ طرز حکومت کے ساتھ مو جود تھا اور سویت یونین کے ساتھ مشرقی جرمنی ایسے معاہدوں میں جکڑی ہو ئی تھیْ

جن سے خلاصی ممکن نہیں تھی اور ایسی ہی صورت مغربی جرمنی کی جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام پر قائم حکومت کی تھی جس نے جنگ میں شکست کے بعد ایسے ہی معاہدے امریکہ ،برطانیہ سے کر رکھے تھے جن میں سے چند اب بھی جرمنی روس سے تعلقات کے لحاظ کار گر ہیں اور جرمنی اب بھی تجارتی اقتصادی معاہدوں کے تناطر میں اِن کا پابند ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اُس وقت مشرقی جرمنی کے مقابلے مغربی جرمنی کے باشندے خود کو زیادہ آزاد خوشحال تھے۔

1945 سے1950 تک پندرہ لاکھ جرمن مشرقی جرمنی سے مغربی جر منی منتقل ہو ئے اور سیاسی پناہ حاصل کی۔ 1961 تک 45 لاکھ جرمن با شند ے مشرقی جرمنی سے فرار ہو کر مغربی جر منی پہنچے اور یہاں سیاسی پناہ حاصل کی۔ یہ تعداد مشرقی جرمنی کی کُل آبادی کا 20% تھی۔ مشرقی مغربی جرمنی پر سویت یونین اور اس کے مقابلے میں امریکہ برطانیہ اور فرانس کی پوزیشن سیاسی اعتبار سے عجیب سی تھی۔ سویت یونین پورے جرمنی اور خصوصاً برلن کے پورے شہر پر قبضے کا عویدار تھا اور اس کے لیے ایک ناکام کوشش و ہ1948-49 میں برلن کے محاصرے کی صورت میں کرچکا تھا اور وہ یہ جانتا تھا کہ سیاسی لحاظ سے اگر مشرقی جرمنی کے باشندے مغربی جرمنی جانے سے نہیں رکتے تو ایک وقت ایسا آئے گاکہ اُسے مشرقی جرمنی سے بھی دستبردار ہو نا پڑے گا۔

جہاں تک تعلق اقوام متحدہ کے چارٹر اور ہیومن راٹس ڈیکلریشن کا تھا تو اخلاقی طور پر ہی سہی، اس کا احترام سوویت یونین پر لازم تھا کیونکہ اقوام متحدہ کا چار ٹر اور ہیومن راٹس ڈیکلریشن سوویت یونین سمیت اِن قوتوں نے مل کرتشکیل دیا تھا اور اِن پر ان کے دستخط بھی تھے اس صورتحال کو برلن کے حوالے سے سویت یونین کے حق میں رکھنے کے لیے برزنیف نے1958 میں مغربی اتحاد کو الٹی میٹم دے دیا کہ وہ چھ مہینوں میں مغربی برلن کو خالی کردیں تاکہ اس شہر کو غیر فوجی علاقہ بنا دیا جا ئے اور چھ ماہ بعد برلن شہر کے راستوں کا کنٹرول مشرقی جرمنی اور سویت یونین حاصل کر لے گا اس پر امریکہ،برطانیہ اور فرانس نے موقف اختیار کیا کہ وہ برلن شہر کا آزادانہ استعمال کو جاری رکھیں گے۔

انہوں نے  فیصلہ کیا کہ سوویت یونین کی مغربی جرمنی کے خلاف جارحیت کا ملکر جواب دیا جائے گا۔ مئی 1959 میں چاروں ملکوں کے وزرا خارجہ کے تین اجلاس ہو ئے مگر وہ کسی معاہد پر نہ پہنچ سکے لیکن اِن اجلاسوں کی وجہ سے روسی وزیراعظم خروشف اور امریکی صدر آئزن ہاور نے اس بات کو تسلیم کر لیا کہ ہتھیاروں پر کنٹرول کے ساتھ کسی بھی مسئلے کا حل طاقت کی بجائے بات چیت سے کیا جائے پھر 1959 میں خروشیف نے کچھ دن امریکی صدر کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ میں گذارے اور بات چیت سے خروشیف کو اندازہ ہوا کہ برلن کے مسئلے پر امریکہ کے ساتھ ڈیل ممکن ہے اور وہ اس مسئلے پر بات چیت کرنے پر راضی ہو گئے۔

بعد میں طے ہوا کہ 1960 میں پیرس سمٹ میں اس مسئلے کا کوئی حل تلاش کر لیا جائے گا۔ مگر یکم مئی1960 کو سوویت یونین نے پاکستان میں پشاور بڈابیر کے مقا م پر امریکہ کے فوجی اڈے سے اڑنے والے امریکی جاسوسی جہاز U2 کو روسی علاقے میں زمین سے فضا میں مارنے والے SA2 گائڈڈ میزائل سے گر ا دیا اور اس کے پائیلٹFrancis Gary فرانسس گرے کو گرفتار کر لیا۔ (واضح رہے کہ پاکستان سے یوٹو امریکی جاسوسی طیارے جو انتہا ئی بلندی پر اڑتے تھے وہ روس کے علاقے میں کیمرے سے روس کی فوجی اوردیگر اہم تنصیبات کی تصاویر لیتے تھے) جب سویت یو نین نے یہ جہاز مار گرایا تواور پائیلٹ کو زندہ گر فتار کرلیا جس نے جاسوی کا اعتراف بھی کر لیا۔

تواس پر امریکہ کو عالمی سطح پر خفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اب خروشیف نے پاکستان کو بھی دھمکی دی کے روس نے پشاور کے گرد سرخ دائرہ لگا دیا ہے تو دوسری جانب آئزن ہاور سے شدید ناراضی کے ساتھ احتجاج کیا اور پیر س اجلاس میں شرکت سے انکار کردیا اور یوں پیرس کا یہ اہم اجلاس منسوخ کر دیا گیا۔اس کے بعد جان ایف کینڈی امریکہ کے صدر ہو گئے پیرس اجلاس کی منسوخی کے ایک ماہ تین دن بعد 4 جون 1961 کو ویا نا اجلاس میں صدر کینڈی اور خروشیف کے درمیان تناوء میں بہت اضافہ ہوا۔ سوویت یونین نے برلن شہر کو کنڑول میں لینے کی ڈید لائن 31 دسمبر1961 جاری کردی تھی اور سوویت یونین کی جانب سے دیوار ِبرلن تعمیر کر نے کا منصوبہ واضح ہو گیا تھا۔ جس کوخروشیف نے اس دوران خفیہ رکھ کر پہلے ہی کروڑوں ٹن مٹیریل اور 32000 ہزار انجئینرو دیگر عملہ اورچودہ ہزار فوجی جمع کر کے تیار کرلیا تھا تاکہ نہایت تیز رفتاری کے ساتھ 156 کلو میٹر طویل دیوارِبرلن کی تعمیر ہو سکے۔

ویانا اجلاس کے بعد جب صدر کینیڈی نے بحران بڑھتا دیکھا تو واشنگٹن میں ABC ٹی وی اور ریڈیو پر خطاب کرتے ہو ئے کہا کہ امریکہ جنگ نہیں چا ہتا وہ تاریخی اعتبار سے مشرقی یورپ پر روس کے تحفظات کوتسلیم کر تا ہے اور اس لیے سوویت یونین سے ہم دوبارہ بات چیت شروع کر نا چا ہتے ہیں۔ لیکن اسی تقریر میں صدر جان ایف کینیڈی نے اعلان کیا کہ وہ کانگریس سے کہیں گے کہ وہ اسلحہ و ہتھیاروں اور فوج کے لیے مزید 3.25 ارب ڈالر دیں تاکہ فوج میں مزید چھ ڈویژن اور میرین میں دو دویژن کا اضافہ کیا جا سکے۔ اُنہوں نے خلائی تحقیق کے لیے بھی مزید رقم مانگتے ہو ئے کہا کہ اس سے دفاعی نظام کو مزید بہتر کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا آج امریکہ کی فوج کی تعداد 875000 ہے جس کو 1000000 کرنا ہے اسی طرح متحرک نیوی میں 29000 اور فضائیہ میں 6300 کا اضافہ کر نا ہے ،امریکی صدر جان ایف کینڈی کے ٹی وی ریڈیو خطاب کے وقت سویت وزیر اعظم خروشیف بلیک سی کے قریب سوچی کے تفریحی مقام پرتھے۔

اُنہوں نے امریکی نمائندے John Jay Mccly جان جوئے مکلے سے کہا کہ صدر کینیڈی کی جانب سے فوج میں اضافہ جنگ کی دھمکی ہے اگر چہ صدر کینڈی اپنی تقریر میںمشرقی یورپ کے تاریخی پس منظر میں سوویت یونین کے تحفظا ت کو تسلیم کر تے ہو ئے یہ اشار ہ دے چکے تھے کہ مشرقی برلن اور مغربی برلن کے درمیان اگر سوویت یونین نے دیوار تعمیر کی تو وہ اس کوجنگ کی وجہ نہیں بنا ئیں گے۔

یوں 13 اگست 1961 کو سوویت اور مشرقی جرمنی کے فوجیوں نے مشرقی سرحد کو 156 کلو میٹر لمبائی میں خاردار تارکی باڑ لگا کر بند کر دیا 17 اگست سے 156 کلو میٹر لمبی 3.6 میٹر اُونچی دیوار کی تعمیر کا کام نہایت تیز رفتاری سے شروع ہو گیااور30 اگست کو مشرقی جرمنی اور سویت یونین نے مغربی برلن اور مغربی جرمنی سے مشرقی برلن اورمشرقی جرمنی میں داخلہ بند کر دیا حالانکہ 1945 میں جنگ عظیم دوئم کے فوراً جب برلن میں ہٹلر اور نازی ازم کو شکست ہو ئی تھی تو اِ ن چار طاقتوں یعنی سوویت یونین ،امریکہ ،بر طانیہ اور فرانس کے درمیان کانفرنس میں طے پایا تھا کہ اتحادی فوجیں آزادی کے ساتھ برلن کے ہر علاقے میں آجا سکیں گی۔

30 اگست 1961 کے بعد سویت یونین کی مشرقی برلن اور مشرقی جرمنی میں مو جودگی اور دوسری جانب امریکہ برطانیہ اور فرانس کی مغربی برلن اور مغربی جرمنی میں مو جودگی اُ س وقت اسٹینڈ آف پوزیشن میں آگئی جب امریکی صدر کینیڈی نے فوری رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے 14000 فوجی 216 جدید لڑاکا طیارے F84 اور F86 ائر فورس طیارے یورپ روانہ کر دیئے۔ 22 اکتوبر1961 کو دیوار برلن کی تعمیر شروع کر نے کے دو ماہ بعد یو ایس چیف آف مشن ویسٹ جرمنی E Allan Lighter ای ایلن لائٹر کی کارکو مغربی برلن سے مشرقی برلن جاتے ہو ئے چیک پوائنٹ پر روک لیا گیا۔

سابق امریکی جنرل Lucius D. Clay لُوسیوس ڈی کلے جو برلن میں صدر کینڈی کے مشیر تھے اُنہوں نے چاہا کہ اس کا جواب دیا جائے اور بریگیڈئر جنرل ٖFrederick.O.Hartel فیڈرک اوہارٹل ٹینکوں کے ساتھ راستے کی رکاوٹ کو بلڈوز کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ اُنہوں نے امریکی سفیر Albert Hemsing البرٹ ہیمسنگ کو ’جو برلن مشن کے ممبر بھی تھے‘ پیغام بھیجا کہ وہ مغربی برلن سے مشرقی برلن جانے کے راستے میں کھڑی کی جانے والی رکاوٹوں کو ہٹانے کا حکم دیں۔ غالباً اس دوران ہیمسنگ کی صدر کینیڈی سے بات چیت ہو ئی ہوگی اور پھر ہیمسنگ اپنی سرکاری گاڑ ی میں پو رے پروٹوکول یعنی محا فظوں کے ساتھ اُس مقام پر پہنچے جہاں سویت یونین اور مشرقی جرمنی کے ٹینک او ر فوجیں اور امریکہ ،بر طانیہ اور فرانس کی فوجیں اور ٹینک آمنے سامنے کھڑے تھے۔

جب امریکی سفارت کار البرٹ ہیمسنگ داخلے کے پوا ئنٹ پر پہنچے تو سوویت اور مشرقی جرمنی کے فوجیوں نے اُن سے پاس پورٹ طلب کیا اور پھر بات چیت کے لیے صرف اُن کی کار کومشرقی برلن میں داخل ہو نے دیا اور باقی محا فظوں کو واپس جا نا پڑا۔ دوسرے روز بر طانوی سفیر کو بھی روک دیا گیا 27 اکتوبر1961 کو جب ہیمسنگ کو واپس کیا گیا تو صورتحال بہت ہی بحرانی ہوگئی اور تیسری عالمی جنگ کے آغاز کا شدید خطرہ پید ا ہو گیا۔ اب سوویت یونین نے بالکل واضح کر دیا تھا کہ وہ مشرقی برلن سمیت مشرقی جرمنی پر اپنا مکمل قبضہ رکھے گا اور امریکہ ،بر طانیہ اور فرانس کا داخلہ یہاں بند کر دیا گیا ہے۔ اب پوری دنیا میں سیاسی حدت اور فشار اپنی انتہائی بلندیوں پر تھا۔

یہ وہی جرمنی کی سر زمین تھی جہاں سولہ سال پہلے سوویت یونین اور اس کے بعد امریکہ ، بر طانیہ اور فرانس فاتح کی حیثیت سے داخل ہو ئے تھے پھر 1948-49 میں سوویت یونین کے محاصرے کو بہت خوبی سے امریکہ ،بر طانیہ اور فرانس نے ناکام کیا تھا مگر اب فوجیں آمنے سامنے تھیں اور اِن کے درمیان چند میٹر کا فاصلہ تھا۔ نکیٹا برزنیف نے فیصلہ کن مو قف اختیار کیا تھا اوراس میں کسی قدر لچک صدر کینڈی نے اُس وقت دکھائی تھی جب انہوں ویا نا کانفرنس کے بعد ٹی وی ،ریڈیو پر تقریر کرتے ہو ئے کہا تھا کہ وہ مشرقی یورپ پر سوویت یونین کے تحفظات کو تاریخی پس منظر میں تسلیم کر تے ہیں۔

اُس وقت ہی برز نیف صدر کینڈ ی کے عزام اور پالیسی کے اعتبار سے ٹھیک اندازہ کر چکے تھے اور اُن کو اِس سے پہلے پشاور سے اڑنے والے U2 جاسوسی طیارے کو مار گرا نے اور پیرس کا نفرنس میں شرکت سے انکاراور پھر پیرس کانفرنس کی منسوخی سے بھی برزنیف کو سیاسی تقویت ملی تھی۔

اور پھر 27 اکتوبر 1961 کو جب صورتحال انتہائی تشویشناک اور بحرانی ہو گئی تھی تو صدر جان ایف کینڈی نے بیان دیا کہ اگرچہ دیوار کوئی بہتر حل نہیں لیکن ہم جنگ نہیں چاہتے اس کے بعد دیوار برلن کے اس پوائنٹ سے فوجوں کو پیچھے ہٹنا تھا اور اب سوال یہ تھا کہ کون پہلے پیچھے ہٹے۔ اس پر غالباً مشرقی جرمنی میں مو جود فوجی کمانڈ کی وزیر اعظم برزنیف سے با ت ہو ئی ہوگی اور جب اُنہیں کامیابی مل گئی تھی تو پھر اتنی سے بات پر وہ کیو ں اڑتے۔ پہلے پانچ میٹر روسی ٹینک اور فو جیں پیچھے ہٹیں اور پھر مغربی اتحادی ٹینک اور فوجیں پیچھے ہٹیں اور اس طرح دیوارِ برلن کی حیثیت کو تسلیم کر لیا گیا۔ دنیا میں یوں تو کئی دیواریں ہیں اور حالیہ بر سوں بیسیوں ملک ایسے ہیں جو اپنے ہمسایہ ملکوں سے تحفظات رکھتے ہو ئے سرحدوں پر سینکڑوں ہزاروں کلومیٹر دیواریں تعمیر کر وا چکے ہیں۔

1961 تک جب اس دیوار کی تعمیر شروع نہیں ہو ئی تھی اُس وقت تک تقریباً45 لاکھ افراد مشرقی جرمنی میں کیمونسٹ آمریت سے فرار ہو کر مغربی جرمنی میں سیاسی پناہ حاصل کرتے رہے اور پھر اس کی تعمیر کے بعد 1989 تک5000 جرمن باشندوں نے مشرقی جرمنی سے فرار ہو نے کی کوشش کی اور 200 افراد ایسی کو ششوں میں ہلا ک ہو ئے۔

بظاہر مشرقی اور مغربی جرمنی کے اس مسئلے اور سیاسی بحرانوں سے پاکستان کا کوئی تعلق نظر نہیں آتا مگر یہ حقیقت ہے کہ دیوار برلن کی تعمیر بھی پاکستان کی وجہ سے ہوئی اور دیوارِ برلن مسمار بھی پاکستان کی وجہ سے ہو ئی۔ 1959 میں جینوامیں امریکی صدر کے ساتھ خروشیف بات چیت میں اس پر آمادہ ہو گئے تھے کہ اسلحے میں کمی کے ساتھ برلن کے مسئلے پر بھی 1960میں ہونے والے پیرس اجلاس میں معاملات طے کر لیئے جائیں گے یوں خروشیف مذاکرات میں شرکت کی مجبوراً حامی بھر کرسیاسی طور پر پھنس گئے تھے کیونکہ 1945 میں جرمنی کی فتح کے بعد سوویت یونین،امریکہ ،بر طانیہ اور فرانس چار طاقتی برلن مشن میں طے تھا کہ چاروں قوتوں کے فوجی آزادانہ مشرقی اور مغربی برلن سمیت جرمنی کے دونوں حصّوں میں آجا سکیں گے۔

اس طرح کے آزادانہ ماحول میں مشرقی جر منی کے عوام کو کیسے مغربی جرمنی آنے سے روکا جاسکتا تھا۔ آخر کو یہ ہو نا تھا کہ سوویت یونین یا تو مشرقی جر منی سے دستبردار ہو جاتا یا اگر مشرقی جرمنی میں رہتا تو بھی وہ بے اثر ہو تا۔ لیکن یکم مئی 1960کو پشاور کے قریب بڈا بیر کے امریکی فوجی ہوائی اڈے سے اڑنے والے یو ٹو جاسوسی جہاز کو جب سوویت یونین نے مار گرایا تو اُسے پیرس سمیٹ سے بائیکاٹ کا جواز مل گیااور پھر خروشف نے زیادہ سخت رویہ اختیار کر کے دیوار برلن تعمیر کردی۔ 1961 سے9 نومبر1989 تک دیوار ِبرلن سے چھلا نگیں لگانے والوں میں سے بہت کم ہی مشرقی جرمنی سے مغربی جرمنی پہنچے۔

پھر1979-80 میں جب سابق سوویت یونین نے افغانستان فوجیں داخل کر دیں تو اُس وقت سوویت جارحیت کے خلا ف افغا نستان کے مجاہدین نے مزاحمت شروع کی تو پوری دنیا کا یہ خیال تھا کہ سوویت یونین کسی ملک میں داخل ہو کر واپس نہیں جاتا۔ مگر افغان مجاہدین نے پاکستان کی واضح مدد سے سویت یونین کی افواج کو آخر نہ صرف افغانستان سے نکلنے پر مجبور کر دیا بلکہ سوویت یونین کے سربراہ گارباچوف نے گلاسنس اور پریسٹرئیکا کے عنوانات سے اصلاحات کرتے ہوئے مشرقی اور مرکزی یورپ اور سنٹرل ایشیا میں اپنی مقبوضات کو آزاد کر دیا اور ساتھ ہی اپنے ہاں کیمونزم کو رخصت کرتے ہی وراسا پیکٹ کو توڑ دیا اور یوں مشرقی اور مرکزی یورپ کے تمام اشتراکی ممالک بھی آزاد ہو گئے۔

یہاں سے بھی سوویت یونین کی فوجیں رخصت ہو گئیں۔ یہ صورتحال 1989 کے آخر میں مشرقی اور مرکزی یورپ میں انقلابی لہر کی صورت میں رونما ہو ئی تو مشرقی جرمنی میں چند ہفتوں کی بد امنی کے بعد 9 نومبر1989 کو جب یہ اعلان ہوا کہ مشرقی جرمنی کے شہری مغربی برلن اور مغربی جرمنی آزادانہ جا سکتے ہیں تو مشرقی جرمنی سے جرمن با شندوں کی بڑی تعداد رکا وٹوں کو عبور کر تی مغربی برلن پہنچی جہاں مغربی برلن کے ہزاروں لاکھوں باشندوں نے اُن کا والہانہ استقبال کیا اور ہفتے کے اندر اندر جرمنوںکے اُس پُر جوش اژدھام نے دیوارِ برلن کو کئی ایک مقامات سے توڑ دیا۔ اس کے بعد یہی عوام بلڈوزر اور دیگر آلات لے کر پہنچ گئے اورپوری156 کلو میٹر دیوار کو گرانا شروع کر دیا۔

پھرGerman reunification ہوئی اور 3 اکتوبر 1990 کو مشرقی اور مغربی جرمنی دوبارہ ایک ہو گئے۔1945 سے1961 تک جب دیوارِبرلن تعمیر نہیں ہو ئی تھی تو یہاں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کو نسل کی بنیادی اور مرکزی قوتیں آپس میں پنجہ آزمائی کرتی رہیں اور تاریخی طور پر عالمی سیاست کا جبر یہاں کے عوام برداشت کر تے رہے اور پھر اس جبر کو دیوار برلن تعمیر کر کے مزید مستحکم کر دیا گیا۔

دیوارِ برلن کے ٹوٹتے ہی سرد جنگ کے خاتمے کا علان ہوا تو ترقی پزیر اور پسماندہ ملکوں کے کروڑوں اربو ں مظلوم یہ سمجھے کہ اب قوموں کو تقسیم کر نے والی تمام طاقتیں اور دیواریں مسمار ہو جائیں گی۔ شمالی اور جنوبی کوریا ،فلسطین یوروشلم ،قبرض اورشمالی قبرص،آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر بھی دوبارہ ایک ہو جائیں گے لیکن تاریخ کا جبر دیکھیںکہ دیوار برلن کے مسمار ہو نے کے بعد انسانی تاریخ میں ملکوں کے درمیان قوموں کو تقسیم کر نے ، ملکوں کے حصے بخرے کرکے اُن پر قبضہ کر نے کے لیے مزید اور زیادہ مضبو ط بلند اور طویل دیواریں بنانے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ دیوارِبرلن کے گرانے کے 21 سال بعد Israli west Bank barrer اسرائیلی مغربی کنارے کی708 کلو میٹر طویل دیوار کی تعمیر شروع ہو ئی جو اب440 کلومیٹر تک تعمیر ہو چکی ہے۔

اقوام متحدہ بھی مو جود ہے اس کی سیکورٹی کو نسل کے ویٹو پاور بھی ہے ،یہاں صر ف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ عراق کی قدیم بابل و نینوا تہذیب میں بھی بخت نصر بہت طاقتور بادشاہ تھا جس کے دور میں ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی کر لی تھی کہ معلق باغات لگا دیئے تھے تو جب بخت نصر نے غرور و تکبر کی حد کرد ی تھی تو ایک غیبی ہاتھ نے اُس کے عظیم محل کی دیوار پر لکھ دیا تھا کہ تیرا زوال لکھ دیا گیا ہے اور آج ،،نوشتہ ِ دیوار ،،کا یہ محاورہ دنیا کی تقریباً ہر زبان میں استعمال ہو تا ہے اور اُن زبانوں تو بہت عام ہے جو اقوام متحد ہ کی با ضابط دفتری یا سرکاری زبانیں ہیں۔

(جاری ہے)

The post مشرقی اور مغربی جرمنی کے تنازعہ پر تیسری عالمی جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles