چین میں عہد حاضر کی سب سے بڑی دفاعی دیوار کی تعمیر محض ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں مکمل ہوئی۔ اس دیوار کی تعمیر کو یقینی بنانے میں گیارہ کروڑ سے زائد رضا کاروں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ تعداد خیبر پختونخواہ، سندھ اور بلوچستان کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ بنتی ہے۔ دیوار چین سے بھی لمبی اس دیوار نے نہ صرف چین کے طول عرض میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکا بلکہ عالمی برادری کو بھی وائرس کے خلاف تیاری کے لیے قیمتی وقت فراہم کیا۔
چین کے شہر ووہان میں گذشتہ سال کے آخری ہفتے میں چند افراد میں نوول کورونا وائرس کی تصدیق نے چینی حکومت اور عالمی ادارہ صحت کو تشویش میں مبتلا کر دیا۔ اس وائرس کی ساخت، اس کے خاندان، اس کے شکار افراد میں ظاہر ہونے والی علامات، اس کے تباہ کن اثرات اور اس کے پھیلاؤ کے طریقۂ کار سمیت بہت سے دیگر موضوعات کے بارے میں آپ نے بہت کچھ سن، دیکھ اور پڑھ رکھا ہوگا۔ ہم بات کریں گے کہ اس وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے ابتدائی دفاعی دیوار کیسے تعمیر ہوئی اور اس دیوار نے کتنے عرصے تک دنیا کو اس وائرس کے تباہ کن اثرات سے محفوظ رکھا۔
چین میں دسمبر کے آخری ہفتے سے لے کر چھبیس جنوری تک کورونا وائرس نمونیا کے صرف دو ہزار مریض تھے۔ اگلے دس دنوں میں مریضوں کی تعداد 25 ہزار ہوگئی اور پھر آنے والے دنوں میں یہ تعداد بڑھتی چلی گئی اور لوگ تیزی سے مرنے لگے۔ تادم تحریر بھی اس وائرس کی کوئی ویکسین موجود نہیں ہے اور اس کی وجہ سے دنیا بھر میں نئے کیسز اور اموات کا سلسلہ جاری ہے۔ لہٰذا جنوری میں چینی حکومت نے اس وائرس کے سامنے دفاعی دیوار تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔
وائرس کے سامنے دفاعی دیوار کی تعمیر
چینی حکومت اور طبی ماہرین وائرس کے مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ ایک نہایت خطرناک وائرس ہے اور ایک شخص سے دوسری شخص میں نہایت تیزی کے ساتھ منتقل ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کے پھیلاؤ کو روکنے کا واحد ممکن طریقہ اس کو محدود کرنا ہے۔
لہٰذا فوری طور پر ووہان کا مکمل اور چین کا جزوی لاک ڈاؤن کر دیا گیا ووہان شہر اور صوبے ہوبے سے کوئی شخص، کوئی گاڑی، کوئی ٹرین یا کوئی بھی ہوائی جہاز باہر نہیں جا سکتا تھا۔ مجبوراً ووہان آنے والوں کو بھی ووہان سے واپس جانے کی اجازت نہ تھی۔
تئیس جنوری کو ووہان کے انسداد وبا کے کمانڈ سینٹر نے نوٹس نمبر 1 جاری کیا جس کے مطابق صبح دس بجے سے ووہان سے ہوائی اور ریلوے سفر کو عارضی طور پر معطل کردیا گیا۔ اسی روز وزارت ٹرانسپورٹ نے فوری طور پر مطلع کیا کہ ملک بھر سے ووہان جانے والی سڑکوں اور آبی گزرگاہوں سے مسافروں کی آمدورفت معطل کردی گئی ہے۔
ووہان کے لاک ڈاؤن کو کچھ حلقوں کی طرف سے تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا اور اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے تعبیر کیا گیا، لیکن چین کا موقف تھا کہ پہلا حق انسانی جان کی حفاظت اور تحفظ ہے۔ اس کے ساتھ پورے چین میں جزوی لاک ڈاؤن کر دیا گیا۔ یہ ایک نہایت مشکل اور حیران کن کام تھا لیکن ہم اپنی آنکھوں سے اسے ممکن بنتا دیکھ رہے تھے۔
چین بھر میں تمام رہائشی آبادیوں میں جانے والے داخلی راستے بند کردیے گئے۔ صرف ایک یا دو راستے کھلے رکھے گئے۔ ہر راستے پر پانچ سے دس تک رضاکاروں نے ذمہ داریاں سنبھال لیں، آبادی میں آنے والے ہر شخص کا درجۂ حرارت چیک کیا جانے لگا۔ آبادی میں داخل ہونے والوں کا مکمل ڈیٹا، گذشتہ ایک ماہ کے دوران ان کے جانب سے اختیار کئے جانے والے سفر کی تفصیلات، ان کو لاحق امراض سمیت تمام ڈیٹا گھنٹوں کی بنیاد پر مرتب کیا جانے لگا۔
یہ ڈیٹا مختلف تحقیقی اداروں کے ساتھ شیئر کردیا جاتا جہاں سائنسی بنیادوں پر اس کا تجزیہ کیا گیا اور پھر ہم نے مختلف شہروں میں پوری پوری آبادی کو قرنطینہ سینٹر بنتے دیکھا گیا۔ وائرس کے مشکوک شکار افراد کی نقل و حمل کو محدود بنا دیا گیا۔ یہ ایک ایسی دفاعی دیوار تھی، جس نے اس وائرس کے تیزرفتار پھیلاؤ کو فوری طور پر روک دیا۔
وائرس کا راستہ کیسے رکا؟
چین میں رضا کارانہ سرگرمیاں سال کے مختلف حصوں جاری رہتی ہیں۔ چین میں تیرہویں پنج سالہ منصوبے (2016-2020) میں طے شدہ ہدف کے مطابق رضارکاروں کی تعداد ملک کی کُل آبادی کا تیرہ فی صد ہوں گی۔ یہاں رجسٹرڈ رضا کاروں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کا فیصلہ ہوا تو چین کے پاس ناممکن کو ممکن بنانے والے یہ زبردست عزم کے حامل لوگ موجود تھے۔
یہ ایک وقت کا کھانا گھر سے کھا کر آتے تھے اور دوسرے وقت کا کھانا گھر جاکر کھاتے تھے۔ یہ بارش، سردی، رات اور دن کی پروا کیے بغیر اپنے محاذ پر ڈٹ گئے۔ یہ اپنی نیند کرسیوں پر کچھ دیر اونگھ پر پوری کر لیا کرتے تھے۔ یہ مشکوک لوگوں کو شناخت کرتے اور فوری طور پر ایمبولینس طلب کرلیتے۔ یوں محض چند روز میں چین بھر سے کورونا وائرس کے تمام مشکوک لوگ شناخت ہوکر قرنطینہ میں منتقل کر دیے گئے، وائرس پھر بھی پھیلتا رہا لیکن اس کی جو رفتار جنوری کے آخری ہفتے اور فروری میں تھی مارچ کا مہینہ شروع ہوتے ہی تیزی سے نیچے گرنے لگی۔
اگلے مرحلے میں ان لوگوں نے گھر گھر جاکر لوگوں کا درجۂ حرارت چیک کیا اور یوں محض دو سے تین روز میں ان کے پاس کورونا وائرس کا شکار ہونے والوں، ان کے قریبی دوستوں، رشتوں داروں حتیٰ کے جن سے وہ ملے تھے ان کا بھی ڈیٹا موجود تھا۔ یہ ایک بڑی کام یابی تھی جسے ان رضاکاروں نے ممکن بنایا۔
زندگی کا پہیہ رواں دواں
چین کے اکثر حصوں میں وبا کے بدترین دنوں میں بھی زندگی کا پہیہ رواں دواں رہا۔ اس میں بھی ان رضاکاروں نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ یہ بسوں اور سب ویز میں داخل ہونے والوں کا درجۂ حرارت چیک کرتے، ماسک پہننے کو یقینی بناتے اور ان کے ہاتھوں پر سینی ٹائزر لگاتے اور انہیں سواری میں بیٹھنے کی اجازت دے دیتے۔
یہ بڑے بڑے شاپنگ مال سے لے کر چھوٹے سے جنرل اسٹور کے باہر بھی لوگوں کا درجۂ حرارت چیک کرتے، لوگوں کو اس حوالے آگاہی فراہم کرتے رہے۔ چھوٹے دکان داروں کو کہا گیا کہ وہ اپنے پاس آنے والے ہر گاہک کا درجۂ حرارت خود چیک کریں اور اس کا اندراج ایک فارم پر کریں۔ اس کے بعد گاہکوں کے درمیان مناسب فاصلے کو یقینی بنانا بھی دکان دار کی ذمہ داری قرار پایا۔ یوں نہ تو اشیائے ضروریہ کی قلت پید ا ہوئی نہ ہی قیمتیں بڑھیں۔
تفریحی مقامات، شاپنگ مالز اور فیکٹریوں میں
آبادیوں اور کمیونٹیز کو مکمل محفوظ بنانے کے بعد سب سے اہم کام پارکوں، شاپنگ مالز اور فیکٹریوں میں معمولات کی بحالی تھی۔ اس کام میں بھی چین کی ریاستی مشینری کے ساتھ ساتھ رضاکاروں کی ایک بڑی تعداد نے اہم کردار ادا کیا۔
انہوں نے نہ صرف پارکوں کے داخلی دروازوں پر ذمے داری سنبھالی پارک میں داخلے کے وقت بھی درجۂ حرارت کی چیکنگ کو یقینی بنایا گیا، بلکہ پارکوں کے اندر تمام جھولوں اور ورزش کی مشینوں کے گرد حفاظتی باڑ لگا دی گئی۔ اس دوران حکومت بھی اپنے انتظامات کو موثر بناتی چلی گئی۔ عام تھرمامیٹرز کی جگہ تھرمل اسکینر آگئے۔ عوامی مقامات، بسوں اور سب ویز میں سپرے کیے گئے۔ مرحلہ وار فیکٹریوں میں کام شروع کردیا گیا۔
آنے والے وقت کی تیاری
پانچ مارچ کو چینی نوجوان رضا کاروں کا دن منایا جاتا ہے۔ چینی صدر مملکت شی چن پھنگ نے چینی کمیونسٹ پارٹی کی اٹھارھویں کانگریس کے بعد مختلف مواقع پر اس امید کا اظہار کیا کہ تمام رضا کار، فلاحی تنظیمیں اور اس شعبے سے وابستہ افراد نئے عہد کے تقاضوں کے مطابق اپنا کردار ادا کریں گے۔
چین میں زیادہ سے زیادہ افراد بطور رضاکار اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق اس وقت تک چین میں رضاکار تنظیموں کی تعداد پانچ لاکھ اسی ہزار سے زائد ہے جب کہ رجسٹرڈ رضاکاروں کی تعداد گیارہ کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔
اس وقت چین کے مختلف علاقوں میں کورونا وائرس نمونیا کی وبا کے خلاف جدوجہد کے دوران ہر جگہ رضاکار نظر آر ہے ہیں۔ وہ طبی عملے کے ساتھ مریضوں کی مدد کررہے ہیں، امدادی سامان کی منتقلی اور تقسیم میں مصروف ہیں یا رہائشی کمیونٹی میں عام شہریوں کو اشیائے ضروریہ کی فراہمی کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ چین کے صدر شی جن پھنگ کی بے مثال قیادت، چینی کمیونسٹ پارٹی کی راہ نمائی اور چینی قوم کے عزم کی وجہ سے ہی ممکن ہوا کہ چین میں معمولات زندگی 98 فی صد سے زائد بحال ہوچکے ہیں۔ ووہان میں لاک ڈاؤن ختم ہو چکا ہے۔
پاکستان میں اس وقت بھی وائرس کا پھیلاؤ بڑھ رہا ہے۔ یقیناً حکومت کی جانب سے مثبت اقدامات اختیار کیے گئے ہیں۔ ریاستی انتظامیہ تن تنہا اس وائرس کا راستہ نہیں روک سکتی، لوگوں کو ضروریات زندگی فراہم نہیں کرسکتی۔ ہماری معیشت اس وبا کے مالی دباؤ کا سامنا کرنے سے بھی قاصر ہے۔ ہمیں چین کے کامیاب تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے معمولات زندگی کی بحالی کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔
The post عہد حاضر کی سب سے بڑی دفاعی دیوار appeared first on ایکسپریس اردو.