جب سے یہ کائنات وجود میں آئی ہے اس پر قدرتی آفات کا نزول ہوتا رہا ہے۔ اس کی ابتدا کب اور کہاں سے ہوئی۔ حتمی تعین اس لیے نہیں ہوسکا کہ اس وقت قمری اور شمسی تقویم کا رواج نہیں پاسکا تھا کیوںکہ کائنات اس وقت اپنی ارتقائی منازل طے کررہی تھی۔ مذہبی کتب و تواریخ کسی واقعے کی نشان دہی کرتی ہیں تو اس طرح کہ یہ وقوعہ طوفان نوح سے قبل یا بعد میں پیش آیا۔ پھر اس کو قبل مسیح سے دو ہزار پانچ قبل بتلایا جاتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کے بعد صحیح تقویم کا پتا چلتا ہے ورنہ زیادہ تر طوفان نوح ہی سے اندازے لگائے گئے۔
طوفان نوح دنیا کی تاریخ کا ایک عظیم اور ناقابل فراموش واقعہ جسے تاریخ انسانی صدیاں گزر جانے کے باوجود فراموش نہیں کرسکی وہ ایک پانی کا سیلاب تھا جو حکم الٰہی کے تحت ایک مخصوص تنور کے ذریعے ابلا اور روئے زمین پر اس تیزی سے پھیلا کہ کسی بھی جاندار کے لئے مفر ممکن نہیں رہا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ کوہ جودی کی چوٹی کو چھونے لگا یہاں تک کہ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی اس سے جالگی۔ آپ علیہ السلام اپنے 70 تا 80 پیروؤں کے ہمراہ سلامتی کے ساتھ وہاں اتر گئے۔ اس میں آپ علیہ السلام کے تین بیٹے سام، حام، یغوث اور ان کی بیویاں بھی شامل تھیں۔ اس طوفان میں حضرت نوح علیہ السلام کی کافرہ بیوی واعلہ اور نافرمان بیٹا کنعان جو کہ ایک بہترین تیراک تھا پیغمبر کی نظروں کے سامنے غرق ہوگئے یہ سیلاب نہیں بلکہ عذاب کی ایک شکل تھی جو نافرمانی اور مشرکانہ عقائد رکھنے والوں کے لیے ایک سزا بنی۔
حضرت نوح علیہ السلام کے خطۂ نبوت میں پوری انسانیت ملیامیٹ ہوگئی تھی اس خطے میں طوفان کے بعد جس آبادی کا وجود ملتا ہے وہ صرف حضرت نوح علیہ السلام ہی کی نسل یا پھر کشتی میں سوار نیک لوگوں کی نسل سے ملتے ہیں بس اسی وقت سے حضرت نوح علیہ السلام کا لقب آدم ثانی پڑگیا۔ اس واقعے کو قرآن نے تفصیل سے بیان کیا ہے ترجمہ ’’یہاں تک ہمارا حکم آپہنچا اور تنور ابلنے لگا ہم نے کہا اس کشتی میں ہر قسم کے جوڑے (نرمادہ) سوار کرالے اور اپنے گھر کے لوگوں کو بھی سوائے ان کے جن پر پہلے بات پڑ چکی ہے اور سب ایمان والوں کو بھی۔ اس کے ساتھ ایمان والے بہت کم تھے۔‘‘ (سورۂ ہود آیت 40)
مفسّرینِ کرام لکھتے ہیں تنور کے ساتھ چشموں اور آسمانوں کو بھی حکم ہوا کہ وہ تیزی سے پانی خارج کرنا شروع کر دیں وہ حکمِ الٰہی کے طابع تھے اپنے فرائض بلا تاخیر ادا کیے زمین کو جل تھل کردیا یہ عمل 7دن تک جاری رہا ایسے میں صرف ایک نوحؑ کی کشتی تیر رہی تھی اور پوری مشرک اور نافرمان قوم اس میں غرق ہو گئی اور ان کا نام لیوا کوئی نہ بچا۔
حضرت لوط ؑ کی قوم معاشرے میں ایک بڑے گھناؤنے فعل میں مبتلا تھی جس کا ذکر قرآن میں اس طرح آیا ہے ’’اور لوط کو ہم نے پیغمبر بنا کر بھیجا پھر یاد کرو جب اس نے اپنی قوم سے کہا کیا تم ایسے بے حیا ہو گئے ہو کہ وہ فحش کام کرتے ہو جو اس سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو حقیقت یہ ہے کہ تم حد سے گذرنے والے لوگ ہو۔ مگر اس کی قوم کا جواب اسکے سوا کچھ نہ تھا کہ نکالو ان لوگوں کو اپنی بستیوں سے (یہ) بڑے پاک باز بنتے ہیں۔‘‘ (سورئہ اعراف آیات 80تا 82)
ہم جنس پرستی ایک ایسا موضوع ہے جو زمانہ قدیم سے آج تک چلا آرہا ہے یونان دنیا کا پہلا اور واحد ملک ہے جس نے اس فعلِ قبیح کی حوصلہ افزائی کی۔ رہی سہی کسر جدید مغرب نے پوری کردی اسے آئینی حیثیت دے کر مکمل تحفظ فراہم کردیا۔ پچھلے سالوں ایک خبر تمام بڑے اخباروں کی زینت بنی کہ مغرب کے ایک ملک میں دو ہم جنس پرستوں نے شادی کرلی ہے۔ گویا ایسا کرکے اس ملک کے حکم رانوں اور عوام نے اﷲ تعالیٰ سے کھلی دشمنی کا اعلان کردیا ہے۔ ایک ملک سیلاب تو دوسرے میں بم دھماکے یہ ان کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
حضرت لوط ؑ کی قوم ہر قسم کی اخلاقی تعلیم سے بے بہرہ تھی کسی میں انہیں ٹوکنے کی جرّأت نہ تھی وہ کسی بھی قسم کی اصلاح کے لیے تیار نہ تھے وہ پاکی کے اُس آخری عنصر کو بھی فضاء سے نکال دینا چاہتے تھے جو ا ن کی گھناؤنی فضا ء میں باقی رہ گیا تھا۔ بس اب وقت آچکا تھا کہ اﷲ تعالیٰ ان کا استحصال کرکے انہیں ان کے انجام تک پہنچا دے اس نے اپنا عذاب اس قوم پر بھیج دیا۔ ارشاد فرمایا ترجمہ ’’سو ہم نے لوط ؑ اور ان کے گھر والوں کو بچا لیا بجز ان کی بیوی کہ جو ان ہی لوگوں میں رہی جو عذاب میں رہ گئے تھے اور ہم نے اُن پر خاص طرح کا مینہ برسایا پس دیکھو تو سہی ان مجرموں کا کیسا انجام رہا۔‘‘ (سورئہ اعراف آیات 84-83) حق تعالیٰ نے اس قوم کا ایک ایک فرد ایک مخصوص (پتھروں کی) بارش سے ختم کردیا۔
قدیم قوم عاد اولیٰ اور سام یہ ایک ہی قوم کے دو نام ہیں یہی قوم جب مصر پہنچی تو عمالقہ کہلائی اس قوم کا زمانہ دو ہزار سال قبلِ مسیح بتایا جاتا ہے ان کا علاقہ احقاف جو حضرِموت کے شمال میں واقع ہے بتایا جاتا ہے اس قوم کے آثار اب بھی یہاں پائے جاتے ہیں ان کا دارالحکومت یمن تھا اور یہ عربی النسل تھے۔
جسمانی اعتبار سے یہ بڑے طاقت ور لوگ تھے اور اقتدار میں بھی رہ چکے تھے لہٰذا ان کی دماغی صلاحیت کا تاریخ نے بھی اعتراف کیا ہے۔ البتہ یورپی مصنفین انہیں مذہبی کم علمی کی بناء پر فرضی کہانی تصوّر کرتے ہیں۔ یہ قوم نقل مکانی کرتے کرتے اسرائیل تک پہنچ گئی۔ مذہبی طور پر یہ بت پرست تھے ان کے خدا بھی وہی تھے جو حضرت نوح ؑ کی امّت کے تھے یعنی ودّ، یغوث، سواع، یعوق نسر۔ حضرت عبّاس ؓ کی روایت کے مطابق ہتار اور صمود بھی ان کے خدا تھے۔ یہ اپنی سرکشی اور نادانی میں حد سے بڑھ گئے تھے تو انہیں میں سے حق تعالیٰ نے حضرت ہودؑ کو ان پر پیغمبر بنا کر بھیجا مگر اس امّت نے بھی دیگر سابق امم اور ملل کی طرح نبوّت اور اس کی تعلیمات کا انکار کیا کہنے لگے تم تو ہماری طرح کے ہی انسان ہو نبی کیسے ہو سکتے ہو؟ آج ہم سے زیادہ شان و شوکت اور جبروت کا مالک کون ہے؟ قرآنِ حکیم نے اس قوم کا ذکر 6 مقامات پر کیا ہے۔
ان کی نافرمانی کی پاداش میں اﷲ تعالیٰ نے اپنا عذاب ان پر بھیجا۔ ارشادِباری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ ’’پھر ہم نے بھیجی ان پر بڑے زور کی آندھی جو کئی دن چلی یہ مصیبت کے دن تھے تاکہ انہیں اپنی زندگی میں عذاب کا مزہ چکھائیں اور آخرت میں تو پوری رسوائی ہے اور انہیں کوئی مدد نہیں ملے گی۔‘‘ (سورۂ حم السجدہ آیت 15) یہ قوم ہوا کے عذاب سے ہلاک ہوئی جو ان پر سات دن تک چلتی رہی۔ پھر زمین پر کوئی ایک فرد اس قوم کا نام لیوا نہیں بچ سکا۔
حضرت ہود ؑ کے ساتھ جو لوگ عذاب سے بچ گئے تھے وہ حضرت صالح ؑ کے وقت میں قومِ ثمود کے نام سے مشہور ہوئے۔ انہیں عاد ثانی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ الحجر کے مقام پر آباد تھے جو مدینہ اور تبوک کے درمیان واقع ہے یہاں ایک ریلوے اسٹیشن بھی ہے جو مدائنِ صالح کے نام سے مشہور ہے آج کل اس علاقے کو فج الناقہ بھی کہا جاتا ہے۔ ماہرینِ آثارِقدیمہ کا کہنا ہے کہ یہ بڑی طاقت ور قوم تھی جو پہاڑوں کو تراش کر اپنے گھر بنایا کرتی تھی اس وقت اس مقام کی آبادی 4 سے 5 لاکھ کے لگ بھگ تھی اس قوم کے آثار اب بھی اس علاقے میں پائے جاتے ہیں۔ قرآن حکیم کی 9 سورتوں میں تقریباً 50 مقامات پر انکا ذکر موجود ہے۔
مذہبی اعتبار سے انکا بھی کوئی مذہب نہیں تھا یہ بھی مشرکانہ عقائد رکھتے تھے اور کئی خداؤں کی تعظیم ان کا مسلک تھا ان کی ان بداعمالیوں کی بناء پر اﷲ نے حضرت صالح ؑ کو ان پر مبعوث کیا۔ آپ کی تبلیغ سے صرف چند غریب افراد ایمان لائے باقی تمام امرا و رؤسا شرک پر ڈٹے رہے اور ان سے معجزہ طلب کرتے رہے آخر کار آپ نے اپنے رب سے دعا کی اور ان کے لیے معجزہ طلب کیا۔ چناںچہ اونٹنی والا مشہورومعروف معجزہ آپ کو عطا کیا گیا جس کا ذکر اس طرح سے آیا ہے۔ ترجمہ ’’یہ اونٹنی تمھارے لیے ایک معجزہ ہے لہٰذا اس کو چھوڑ دو کہ خدا کی زمین پر چرتی پھرے اس کو کسی بُرے ارادے سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ ایک دردناک عذاب تم کو آپکڑے گا۔‘‘ (سورۂ اعراف آیت 72)
مگر وہ سرکش قوم اتنے واضح معجزے کے باوجود ایمان نہ لائی اور وہ اونٹنی کو مارنے کے منصوبے بناتے رہے۔ آخر ایک دن اس کی کونچیں کاٹ ڈالیں اس کا۔ بچّہ پہاڑی پر چیختا ہوا بھاگا اور غائب ہوگیا۔ اور بھلا پھر اﷲ سے سچّی بات کس کی ہوسکتی ہے۔ چناںچہ وہ دردناک عذاب آکر رہا جس کے بارے میں حضرت صالح ؑ انہیں تنبیہ کررہے تھے۔ ترجمہ ’’اور جن لوگوں نے ظلم کیا تھا ان کا یہ حال ہوا کہ ایک روز کی کڑک نے نے انہیں آلیا جب صبح ہوئی تو سب اپنے گھروں میں منہ کے بل اوندھے پڑے تھے گویا ان گھروں میں کبھی بَسے ہی نہ تھے تو سنو ثمود نے اپنے پروردگار کی ناشکری کی اور ہاں سن رکھو ثمود کے لئے محرومی ہوئی ہے۔‘‘ (سورۂ ہود آیات 66تا 68) اب اس قوم کا ایک فرد بھی اس دنیا کے کسی بھی خطّے میں موجود نہیں ہے۔ آپ کی تبلیغ سے صرف 120افراد ایما ن لائے جو آپ کے ساتھ رہے۔
حضرت شعیب ؑ کی قوم کو اصحابِ مدین اور اصحاب الایکہ بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا ذکر قرآن حکیم میں 4 سورتوں میں آیا ہے۔ الحجر 78، الشعراء 176، ص 13اور ق آیت 14مدین انکے مذہبی شہر کا بھی نام ہے اور قبیلے کا نام بھی۔ اس کا پرانا نام حیسون جابر ہے اسی مقا م پر اصحابِ سبت کا واقعہ پیش آیا۔ ایکہ کا نیا نام تبوک ہے جو یاقوت نے محجم البلدان میں لکھا ہے۔
اس قوم میں مذہب کے علاوہ سماجی اور معاشرتی برائیاں بھی تھیں۔ مثلاً یہ بڑی شاہراہوں پر بیٹھ کر لوٹ مار اور ڈکیتیاں وغیرہ کیا کرتے تھے اور دوسری بڑی برائی ان میں یہ تھی کہ جب کسی سے کوئی چیز لیتے تو پوری لیا کرتے تھے اور جب دینے کا وقت آتا تو ناپ تول میں کمی کردیا کرتے تھے۔ ان برائیوں کو ختم کرنے کی خاطر اﷲ نے حضرت شعیب ؑ کو پیغمبر بنا کر ان پر مبعوث کیا ارشاد فرمایا ترجمہ ’’اور ہم نے مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا۔ انہوں نے کہا اے میری قوم! تم اﷲ کی عبادت کرو اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں تمہارے پاس تمھارے رب کی جانب سے واضح دلیل آچکی پس تم ناپ تول پورا کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کرکے نہ دیا کرو۔‘‘ (الاعراف آیت 85) ایک حدیث میں آیا ہے کہ ’’جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے تو اس پر قحط سالی، سخت محنت اور حکمرانوں کا سخت ظلم مسلّط کردیا جاتا ہے۔‘‘ (ابنِ ماجہ حدیث نمبر 19۔40) یہ حدیث آج کے تاجران کے لیے بھی خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔
حضرت شعیب ؑ کی تبلیغ کے باوجود یہ قوم ان برائیوں سے باز نہ آئی اور کہنے لگی ترجمہ ’’اے شعیب! تیری اکثر باتیں تو ہماری سمجھ میں نہیں آتیں اور ہم تجھے اپنے اندر کم زور پاتے ہیں۔ اگر تیرے قبیلے کا خیال نہ ہوتا تو ہم تجھے سنگسار کردیتے اور ہم تجھے کوئی حیثیت والی ہستی نہیں سمجھتے۔‘‘ (سورئہ ہود آیت 91)
قوم کے ایسے ہی بے ہودہ جواب پر غضبِ الٰہی جوش میں آتا ہے اور پھر وہ انہیں کہیں کا نہیں چھوڑتا اور عذاب الٰہی ان کا مقدّر بن جاتا ہے۔ فرمایا ترجمہ ’’پس ان کو زلزلہ نے آپکڑا سو وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔‘‘ (سورئہ اعراف آیت91) اس طرح وہ پوری قوم صفحہ ہستی سے نیست و نابود ہوگئی۔ عذاب کا سبب ان مذکورہ قوم پر یہ بتایا جاتا ہے کہ ان پر انھی میں سے پیغمبر مبعوث ہوئے۔ انہوں نے حق کا پیغام بلا کم و کاست امّت تک پہنچایا مگر ان کی قوم نے ان کی تعلیمات پر کوئی توجہ نہ دی اور وہ شرک پر ڈٹے رہے۔ شرک ایک ایسا مذموم فعل ہے جو اﷲ تعالیٰ کو سب سے زیادہ نا پسند ہے، کیوںکہ یہ اﷲ کی چوکھٹ سے غیر کی چوکھٹ پر لے جاتا ہے پھر پیغمبروں کی تکذیب اور ایذارسانیاں جیسے امور پر امّت پر اجتماعی عذاب نازل کرکے انہیں صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے۔ صرف ہمارے پیا رے نبیﷺ کو یہ امتیاز و اعزاز حاصل ہے کہ آپ ﷺ کی امت پر اجتماعی عذاب نازل نہ ہوگا کیوںکہ اس دین کو قیامت تک باقی رہنا ہے۔
تمام امم اور ملل کے لیے آپﷺ پر ایما ن لانا شرط ہے۔ مسلم امّہ تمام دنیا پر محیط ہے یہی وجہ معلوم ہوتی ہے کہ آپ ﷺ کی امت پر اجتماعی عذاب اس لیے نازل نہیں ہوگا کہ اس میں تمام کفّار و مشرکین کی ہلاکت کا اندیشہ موجود ہ ہے۔
The post قدرتی آفات اور عذاب appeared first on ایکسپریس اردو.