کرکٹ ہم پاکستانیوں کے ہر درد کا علاج اور ہر غم کا مداوا ہے، بلکہ ہر مسئلے کا حل ہے۔ ملک میں پورا نظام ہلا کر رکھ دینے والا سیاسی بحران ہو، معیشت کا بیڑا غرق ہورہا ہو، منہگائی نے جان عذاب کر رکھی ہو، بدامنی نے خون خشک کر رکھا ہو۔
کوئی قیامت برپا ہو، اِدھر کرکٹ میچ شروع ہوا اور اُدھر پاکستانی سب بھول بھال کر بال اور بیٹ پر نظریں جماکر بیٹھ گئے، اب لَلّو حجام ہو، بالا مکینک ہو، نورا قصاب ہو، ہم جیسا کپڑے دھونے والی تھاپی سے گلی میں کرکٹ کھیل کر بچپن گزارنے والا کوئی ’’کرکٹر‘‘ ہو یا کوئی آپا حمیدہ جن کا کرکٹ سے تعلق بیٹ کو ہتھیار بناکر بچوں کی پٹائی تک محدود ہو، سب کے سب کوچ اور کپتان بنے تنقید کررہے ہوتے ہیں۔
کرکٹ ہمارے ہاں بڑے بڑے تنازعات کو ایک پَل میں آؤٹ کردیتا ہے، توجہ اِدھر سے اُدھر کردیتا ہے، بڑے سے بڑے صدمے کی وکٹ اُڑا دیتا ہے۔ دو باریش حضرات اپنے اپنے مسلک کو حق ثابت کرنے کے لیے بحث میں مگن ہیں، مباحثہ جھگڑے کی صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔
چہرے غصے سے لال مرچ ہورہے ہیں، آنکھیں انگارہ ہورہی ہیں، منہ سے جھاگ نکل رہا ہے، سرپھٹول ہونے کو ہے، جس کے انتظار میں لوگ جمع ہیں، کہ اچانک کہیں سے ایک منمناتی آواز آتی ہے، ’’ارے اسکور کیا ہوا۔‘‘ اتنا کہنا تھا کہ بات کرکٹ میچ کی طرف گھومی، مجمع چھٹ کر میچ دیکھنے کے لیے روانہ ہوا اور جنگ پر مصر دونوں حضرات ’’سب لوگ ہی دیکھنا چھوڑ گئے، اب جھگڑا بڑھاؤں کس کے لیے‘‘ سوچ کر صلح پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔
کمرے میں سیاست پر مناظرہ چل رہا ہے۔ دونوں فریق ایک دوسرے کے سیاسی راہ نماؤں کے لیے دھرنوں کی زبان استعمال کررہے ہیں، لعنتوں کا باہمی تبادلہ ہورہا ہے، دونوں اپنے اپنے مخالف سیاست داں کے خلاف الزامات کی فہرست مکمل کرچکے ہیں اب گالیاں بھی ختم ہورہی ہیں، اتنے میں پردے کی پیچھے سے آواز آتی ہے، ’’اے سُنو! پاکستان کی ایک اور وکٹ گرگئی۔ ‘‘ یہ سُنتے ہی گفتگو کرکٹ کی طرف مُڑ جاتی ہے۔
لفظ اور لہجہ اب بھی وہی ہے، بس ہدف بدل گیا ہے اب دونوں کا نشانہ قومی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی اور پی سی بی ہیں۔کون نہیں جانتا کہ کھیل لوگوں کو قریب لاتے ہیں۔ اور کرکٹ تو قربت بڑھا کر گھر بھی لے آتا ہے۔
محسن حسن خان، رینا رائے، شعیب ملک، ثانیہ مرزا، عمران خان، جمائما، وسیم اکرم، شینیرا تھامسن۔ سامنے کی مثالیں ہیں۔ ان مثالوں سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ پاکستانی کھلاڑی باؤنڈری سے پار جاتی بال پکڑ پائیں یا نہ پکڑ پائیں، سرحد پار بیوی پانے میں کبھی ناکام نہیں ہوتے۔ بُکیز اور کرکٹروں کی قربتوں کی ایک الگ کہانی ہے اور اس کہانی کا عنوان ہے، ’’گر جیت گئے تو کیا کہنا، ہارے بھی تو بازی مات نہیں۔ ‘‘
کرکٹ کی عوامی مقبولیت نے اسے ہمارے یہاں سیاست کی ’’پِچ‘‘ بنا دیا ہے۔ اگر کسی نے ورلڈکپ جیت لیا تو وہ چاہتا ہے ملک کا اقتدار طشتری میں رکھ کر اُسے پیش کردیا جائے۔ ہمارے ہاں شاید آل راؤنڈر کا مطلب ’’جیک آف آل ٹریڈز‘‘ لیا گیا ہے، اور ان ٹریڈز میں سیاست سرفہرست ہے۔ کرکٹر کرکٹ میں رہ کر سیاست سیکھتے ہیں، پھر یہ گُر سیاست میں آزماتے ہیں۔ لیکن ان کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سیاست کو بھی کرکٹ سمجھ لیتے ہیں، جیسے اپنے عمران خان، جو کرکٹ میں سیاست کرتے رہے اور سیاست میں ایمپائر کی انگلی اٹھنے کا انتظار۔
کرکٹ کو ’’جینٹلمینز گیم‘‘ کہا جاتا ہے، جس کا آسان ترجمہ ہوا ’’شریفوں کا کھیل۔ ‘‘ تاہم ہر لفظ اور اصطلاح کا ترجمہ کرنا ٹھیک نہیں ہوتا، اب اسی ’’شریفوں کا کھیل‘‘ سے ذہن کرکٹ کے بہ جائے بدعنوانی سے نوٹوں کا اسکور بڑھانے، اپنے بنائے ہوئے ’’کاغذی رن‘‘ بیرون ملک چُھپانے اور ایمپائر سے مل کر مخالف ٹیم کو ہرانے کے گندے کھیل کی طرف چلا جاتا ہے۔
’’جینٹلمینز گیم‘‘ سے آپ اس غلط فہمی میں مت مبتلا ہوجائیے گا کہ گراؤنڈ میں بولر بیٹسمین کو یوں مخاطب کرکے اوور شروع کرتا ہوگا،’’حضور! اجازت ہو تو فدوی آپ کی خدمت میں اوور کی پہلی بال پیش کرے‘‘، فیلڈنگ کرنے والی ٹیم کا کپتان کیچ چھوڑنے والے کھلاڑی سے اس طرح شکوہ کُناں ہوتا ہوگا، ’’اجی آپ نے کیچ چھوڑ دیا، بڑے وہ ہیں آپ‘‘، باؤنس پر بیٹسمین بولر سے اس ردعمل کا مظاہرہ کرتا ہوگا، ’’اوئی اللہ، آپ نے تو ڈرا ہی دیا۔ ‘‘ ارے نہیں بھئی، ایسا کچھ نہیں، کرکٹ کے جینٹلمین ’’اوئے‘‘ کہنے، گالیاں دینے اور لعنت بھیجنے کو اپنی شرافت کے لیے ذرا بھی خطرہ نہیں سمجھتے۔
ارے سب کچھ اپنی جگہ، اتنا تو ہے کہ یہ کھیل ہم پاکستانیوں کو کچھ دنوں کے لیے آپس میں جوڑ دیتا ہے اور ہمیں فکروں سے آزاد کردیتا ہے، اور جوں ہی کسی ٹورنامنٹ کا اختتام ہوتا ہے وہی ہم آپ ہوتے ہیں وہی چھکے مارتی فکریں ہوتی ہیں، وہی باؤنسر پھینکتے آلام۔
The post کرکٹ علاجِ غم ہے appeared first on ایکسپریس اردو.