عورت، جو دوران تعلیم اپنے پسندیدہ مضامین سے لے کر زندگی کے ہم سفر تک چنتے وقت، اپنے والدین کی سمت دیکھتی ہے۔۔۔ کبھی اپنی خواہش بھی ظاہر کرتی ہے، تو اس پر والدین کی رضامندی مل جائے تو جی اٹھتی ہے، ان کے انکار پر بجھ سی جاتی ہے۔
عورت، جو ڈاکٹر بن کر گول روٹی پکانے میں مگن ہے۔ تعلیمی میدان میں جتنی بھی اچھی ہو، اس کو ہانڈی روٹی پاس ہونے کی فکر ہمیشہ رہتی ہے۔ وہ عورت جو اکثر اپنے حقوق سے آگاہ ہی نہیں، تو ان کا اظہار کیسے کرے؟
وہ عورت جسے مار کھا کر بھی یہ جملہ سننے کو ملتا ہے ’’ایسا کیا کیا تھا کہ سامنے والے نے تھپڑ ہی مار دیا؟‘‘
یا پھر ’’ایک تھپڑ ہی تو مارا ہے ، ایک دھکا دینے سے تمہارا کیا بگاڑ گیا بھئی۔۔۔؟‘‘
یہاں فقط خاندان کی بات ہو رہی ہے۔ معاشرے میں عورت کا کیا مقام ہے ہم جانتے ہیں۔ ووٹ دینے سے لے کر جائیداد میں حصہ دینے تک، عورت کی کہیں حمایت نہیں کی جاتی۔ کبھی کوئی ایک آدھ آواز اٹھتی تو اٹھ جاتی ہے۔
ایسے حالات میں جب آپ خود کو بے حد اکیلا، کمزور اور تنہا محسوس کرتے ہیں اور سامنے صنفِ مخالف مضبوط اور طاقت وَر لگتی ہے تو اندر خون اترتا ہے، طبیعت میں غصہ بھرا جاتا ہے اور پھر ایک روز جب موقع ملتا ہے، تو لاوا اُبل پڑتا ہے۔ غصہ باہر آتا ہے اور جیسے، جہاں اور جتنا موقع مل سکے اتر جاتا ہے۔ یہ غصہ گھر میں بھی اتر جاتا ہے، سڑک پر چلتے ہوئے بھی اور کسی ’مارچ‘ کے ذریعے بھی۔
کیا خیال ہے آپ کا، کیا دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ اور مشکل کام کھانا گرم کرنا ہے؟
آپ کو کیا لگتا ہے کہ عورت کسی محفل میں بیٹھنے کے آداب سے آگاہ نہیں ہے؟
کیا آپ سوچتے ہیں کہ عورت محبت کرنا، شادی کرنا اور بچوں کی پیدائش اور پرورش سے لگاؤ نہیں رکھتی؟
لیکن پھر بھی وہ جب بغاوت پر اترتی ہے، تو کہتی ہے کہ ’’جاؤ، نہیں بیٹھوں گی ویسے جیسے تم چاہتے ہو!‘‘
’’ہاں ہوں طلاق یافتہ۔۔۔! تو مر جاؤں کیا۔۔۔؟‘‘
گول روٹی کی خواہش پوری کرتے کرتے، کھانے میں نمک، مرچ کم یا زیادہ ہو جانے پر ہاتھ کٹوا کر تو باغی ہی ہونا ہے۔۔۔
تب وہ کہتی ہے ’’جاؤ۔۔۔! اپنا کھانا خود گرم کرو۔۔۔!‘‘
ہمارے ہاں بچوں کی عصمت دری اور تشدد کے خلاف بھی آواز اٹھائی جاتی ہے۔ تعلیم پر بات کی جاتی ہے۔ مرد واحد کفیل کیوں؟ کا نعرہ بھی لگتا ہے، مگر انہیں ’پھیلانے‘ اور عام کرنے میں وہ مزہ کہاں، جو ان باغی نعروں کے ’سماجی ذرایع اِبلاغ (سوشل میڈیا) میں اِدھر سے اُدھر تک سرائیت کرنے میں ہے۔
یہاں صحیح غلط کچھ نہیں، یہاں غصہ ہے، بغاوت ہے، انتقام ہے اور سب سے خطرناک شے یعنی نفرت ہے۔۔۔! یہ سب جذبے عقل اور سمجھ کو کھا جاتے ہیں، پھر ہمیں سارا جہاں ہی اپنا دشمن لگنے لگتا ہے اور ان سب سے بغاوت کرنا ہی واحد حل سوجھتا ہے!
اب سچی حقیقت یہ ہے کہ بغاوت اس کا حل بالکل بھی نہیں ہے۔ نفرت کی وہ آگ جو اندر سلگ رہی ہے، بغاوت، غصے یا سامنے والے کا منہ نوچ لینے سے کم نہیں ہوگی۔ ہوش میں آنا ہی ہوگا، جوش تو زندگی گزارنے کے لیے لازم ہے۔
’سیمون دی بووا‘ نے نے اپنی کتاب ’دوسری صنف‘ میں عورت کی پیدایش سے لے کر زندگی کے ہر مرحلے پر اس کے ساتھ ہونے والے واقعات کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ جس میں ایک عورت کی زندگی، اس کی سوچ، نفسیات اور جسمانی ساخت پر بات کی گئی ہے۔ یہ کتاب 1949ء میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب اپنی نوعیت کی دل چسپ اور مختلف کتاب ہے۔ اس کا لب لباب یہ ہے کہ عورتوں کو سب سے پہلے ایک الگ صنف کی حیثیت سے تسلیم کیا جائے اور عورتیں اپنی اس الگ شناخت پر فخر کریں۔ مرد سے اپنا تقابل کرنا چھوڑ دیں۔ دنیا میں پورے آب و تاب سے چمکیں، لیکن ایک عورت کی حیثیت سے آپ کو مردانہ چلن یا حلیہ اپنانے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں۔
آپ کو اپنے اندر لگی ہوئی محرومی یا جبر کی اس آگ کو خود کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے آہستہ آہستہ لفظ ’متاثرہ‘ کو اپنے نام کے ساتھ استعمال کرنا بند کیجیے۔ عورت ہونا قابل فخر ہے، خود کو آئینے میں دیکھیں اور اپنے اندر موجود رنگوں ، محبت، جذبوں اور اداؤں پر مرمٹیں۔ وہ خواب جو آپ کے پورے نہ ہو سکے، کوشش کیجیے کہ آپ کی بیٹی کے وہ خواب ادھورے نہ رہیں۔ جس دکھ نے آپ کو چین نہیں لینے دیا، جان لگا دیجیے کہ آپ کی چھوٹی بہن پر کبھی کوئی ایسا پَل نہ آئے۔ اسی طرح اپنے آس پاس موجود خواتین کی مدد کیجیے۔ اپنی ماں، بہن، بیٹی، ساس، نند، جٹھانی، دیورانی اور سہیلیوں کو ترقی کی منازل طے کرنے میں مدد کیجیے۔
وہ جو سارے حق آپ سے چھین لہے گئے ہیں، انہیں پانے کی جستجو کیجیے، لیکن مسکراہٹ کے ساتھ۔۔۔ ایک عورت کی طرح۔۔۔ نزاکت کے سنگ۔۔۔ شائستہ اور پروقار انداز سے۔۔۔ دراصل عورت اس دنیا میں مرد کے مدمقابل کھڑے ہونے نہیں آئی، وہ تو اس دنیا میں وہ کام سر انجام دینے آئی ہے، جو کام مرد کرنے سے قاصر ہیں۔
اب بات کر لیتے ہیں دوسری طرف کی، وہ مرد و زن جو بغاوت پر اترے ہوئے ان چند چہروں کو مسخ کرنے کی دوڑ میں شامل ہوگئے ہیں۔ جنہیں لگتا ہے کہ دنیا کی ہر برائی اور خرابی کی وجہ سال کے فقط چند دن سڑکوں پر نکل کر دل کی بھڑاس نکالنے کی کوشش کرنے والی یہ خواتین ہی ہیں۔
’’ہماری بچیاں انہیں دیکھ کر خراب ہو رہی ہیں۔۔۔!۔‘‘ یہ جملہ دراصل آپ کی ہی تربیت پر سوال اٹھاتا ہے، جو بچے ہر وقت آپ کے ساتھ، آپ کے پاس ہیں وہ ایک دن کسی کو دیکھ کر یا کسی کو سن کر کیونکر بگڑ سکتے ہیں؟
بات تو یہ ہے کہ جن مسائل پر آپ کو کوئی ’حقوقِ نسواں‘ کی کارکن بات کرتی نظر نہیں آتی ، ان مسائل کی نشان دہی کیجیے۔ ہر معاشرے میں شدت پسند افراد موجود ہیں۔ ہر مرد ظالم نہیں، ہر عورت مظلوم یا ’متاثرہ‘ نہیں۔
مختصر یہ کہ اس معاشرے مین برداشت کی بہت شدید کمی ہے۔ ہم اپنی بات منوانے کے واسطے باغی ہو جاتے ہیں۔ بے ادب ہو جاتے ہیں۔ یہ مہذب معاشرے کی پہچان نہیں۔ ہم ، یہاں ہم سے مراد خواتین ہیں، ایک مہذب معاشرہ چاہتی ہیں، جہان سانس لیا جا سکے، جہان زندگی جی جا سکے۔ تو ایسا کیسے ممکن ہے کہ ہم مہذب معاشرے کی تمنا کرتے کرتے خود ہی غیر مہذب ہو جائیں۔ احتجاج ضرور کیجیے، سوال بھی ضرور اٹھائیے، اپنے حق کے لیے لڑ بھی جائیے، مگر تہذیب میں رہتے ہوئے۔ محبت، امن اور نزاکت کو ساتھ رکھتے ہوئے۔
The post ’’جاؤ، نہیں بیٹھوں گی ویسے جیسے تم چاہتے ہو ۔۔۔!‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.