7 جولائی 2000ء لالۂ صحرائی کی دنیاوی زندگی کا آخری دن تھا، تاہم ادبی دنیا میں ان کے کارہائے نمایاں کی وجہ سے انہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انھوں نے زمانۂ طالب علمی ہی سے ادب سے ایسی دوستی استوار کرلی تھی جو تاحیات اُن کی رفیق رہی۔ اسی دوستی کا نتیجہ تھا کہ وہ مڈل تک مشاہیرِ ادب کا مطالعہ کرچکے تھے۔
وہ اقبالؒ، ظفر علی خان اور اصغر گونڈوی کے کلام کے مداح تھے اور اقبالؒ سے تو انہیں بالخصوص عقیدت تھی، جس کی متعدد وجوہ ہوسکتی ہیں، تاہم انھوں نے اپنے ایک مطبوعہ مضمون ’’کلامِ اقبال کی اثرانگیزی‘‘ (مشمولہ تکبیر شمارہ نمبر17، 20 اپریل 1984ء) میں اپنے زمانۂ طالب علمی کا ایک واقعہ نقل کیا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبالؒ کے ’’تو غنی از ہر دو عالم من فقیر‘‘ والے قطعے پر محمد رمضان عطائی نامی جس شخص نے بطورِ خاص یہ قطعہ اقبال سے اپنے نام کروایا تھا، وہ لالۂ صحرائی کے فارسی کے اُستاد تھے اور انھوں نے اپنے اس مضمون میں یہ واقعہ بہ جزئیات نقل کیا ہے۔
یہ قطعہ پڑھ کر ان کے اُستاد پر جذب کی کیفیت طاری ہوئی اور وہ بے ہوش ہوگئے۔ پھر وہ اقبالؒ سے ملنے گئے اور اس ہدیۂ بے بہا کو اپنے نام کرنے کی درخواست کی۔ اقبال سے نیازمندی کا یہ عالم تھا کہ لالۂ صحرائی نے جو اپنا پہلا مضمون لکھا، وہ ان کی وفات پر تھا، جو روزنامہ احسان میں چھپا مگر اُن کی یہ پہلی تحریر اب ناپید ہے۔
لالۂ صحرائی کی سندی تعلیم میٹرک تھی، تاہم ادبی ذوق و شوق رکھنے کے باعث انھوں نے اسناد سے ماورا ہوکر ادب کی خدمت کی۔ اُن کا زمانہ ترقی پسند تحریک کے عروج کا زمانہ تھا۔ ترقی پسند مصنّفین کے مطالعے اور تحریکِ ادبِ اسلامی سے فکری وابستگی کی بنا پر انھوں نے اسلامی ادب کو پروان چڑھانے کے لیے کام کیا۔
وہ مولانامودودیؒ کی تحریروں سے بے حد متاثر تھے۔ بصیرت، استدلال اور صداقت کی جس قوت کی انھیں تلاش تھی، وہ انھیں مولانا مودودیؒ کے قریب لے گئی اور اُن کی یہی عقیدت تھی جس کی بنا پر انھوں نے نہ صرف جماعتِ اسلامی کے اجتماعات کے احوال قلم بند کیے بلکہ مولانامودودیؒ اور دیگر اکابرینِ تحریکِ اسلامی کے خاکے بھی تحریر کیے ہیں۔ جماعتِ اسلامی سے وابستگی اور فوج کی ملازمت سے سبک دوشی کے لمحے کو انھوں نے ’’وہ ایک لمحہ‘‘ کے عنوان سے رپورتاژ کی صورت میں قلم بند کیا ہے۔ اس طرح وہ صالح ادب کے تصور کے تحت تحریکِ ادب اسلامی کے ایک فعال رکن بن گئے۔
ایک انٹرویو میں لالۂ صحرائی نے اپنے جن پسندیدہ مصنّفین اور شعرا کا ذکر کیا ہے، ان میں میر، غالب، انشاء، شیفتہ، اکبر الٰہ آبادی، حالی، شبلی، سیدسلیمان ندوی، اقبالؒ ، ظفر علی خان، محمد علی جوہر، اصغر گونڈوی، ابوالکلام آزاد، غلام رسول مہر، صلاح الدین احمد، عبدالمجید سالک، امتیاز علی تاج، آل احمد سرور، مولانامودودیؒ، یلدرم، حسن عسکری، کرشن چندر، احمد ندیم قاسمی، غلام عباس، سعادت حسن منٹو، فرحت اللہ بیگ، عظیم بیگ چغتائی، پطرس بخاری، خضر تمیمی، حسین میر کاشمیری، مشفق خواجہ، مشتاق احمد یوسفی، آغا شاعر قزلباش، تاجور نجیب آبادی، حامد علی خان، حامد اللہ افسر، شاد عظیم آبادی، فانی بدایوانی، مجید امجد، اخترشیرانی، احسان دانش، فراق گورکھ پوری اور ضمیر جعفری وغیرہ شامل ہیں۔
لالۂ صحرائی نے متعدد اصناف پر طبع آزمائی کی، جن میں انشائیہ، ڈراما، افسانہ، سفرنامہ، رپورتاژ، طنزومزاح، تراجم، مضمون نویسی، تبصرے، نعت گوئی اورنظم نگاری شامل ہیں۔ ادبی گروہ بندیوں سے بالاتر ہوکر دیکھا جائے تو ان کا ادبی سرمایہ لائق تحسین ہے۔ اُن کی بیش تر تحریریں زیورِ طباعت سے آراستہ نہیں ہوسکیں اور اس عدم اشاعت کی وجہ ان کا درویشانہ اور استغنا پر مبنی رویہ ہے۔
وہ نمودونمائش سے ماورا ہوکر تاحیات ادب کی خدمت میں مصروف رہے۔ ان کی غیرمطبوعہ تحریروں کو مرتب کیا جائے تو ان کے صحیح ادبی مقام و مرتبے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ مضمون نویسی میں انھوں نے سیاسی، شخصی، تاثراتی، ملی، تحقیقی اور طنزومزاح پر مبنی مضامین لکھے ہیں۔ وہ تمام عمر نثر میں اظہارِ خیال کرتے رہے، لیکن عمر کے آخری حصے میں نعت گوئی کی جانب مائل ہوئے اور پھر اس صنف میں آورد کی انتہا تک پہنچ گئے۔نعت گوئی میں جناب عاصی کرنالی سے اصلاح لیتے رہے تا آنکہ وہ نظم نگاری کی جانب بھی مائل ہوگئے۔ اس ضمن میں انھوں نے ملک و ملت کی اہم شخصیات اور واقعات کو نظم کے سانچے میں ڈھالا۔ انھوں نے قومی و ملکی موضوعات اور جہاد پر نظمیں لکھنے کے ساتھ ساتھ ذاتی تاثرات پر مبنی نظمیں بھی تحریر کی ہیں۔ نظم نگاری میں انھوں نے مروجہ ہیئتوں کی پابندی کرنے کے ساتھ آزاد نظم کو بھی وسیلۂ اظہار بنایا۔ نظم نگاری میں ان کا کارنامہ غزوات رحمۃ للعالمین (1997ء) ہے، جس پر انھیں صدارتی ایوارڈ ملا۔ یہ کتاب 200صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کارنامے کے پسِ پشت کارفرما شخصیات کا ذکر یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے۔
عاصی کرنالی اپنے دوست کرم حیدری کے ہمراہ مولانا ظفرعلی خان کی وفات سے تین ماہ قبل ان سے ملنے مری گئے۔ حیدری صاحب نے ظفر علی خان سے عاصی صاحب کی شاعری کا ذکر کیا اورنمونۂ کلام بھی سنوایا تو انھوں نے عاصی صاحب سے اول تا آخر غزوات منظوم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تاہم عاصی صاحب اتنا بڑا کام خود کرنے سے قاصر رہے بعد میں انھوں نے یہ خدمت لالۂ صحرائی کو سونپ دی۔ اس سے قبل اردوشاعری کی روایت میں منظوم غزوات، مثنویوں اور جنگ ناموں کی صورت میں اجمالاً بیان ہوئے ہیں اور ان میں بیش تر کا بنیادی موضوع واقعۂ کربلا ہے۔
میلادنامے، معراج نامے، شمائل نامے بھی لکھے گئے، تاہم ان میں بھی غزوات پر خامہ فرسائی ناپید ہے۔ نظیر اکبرآبادی کے کلیات میں ’’جنگ خیبر‘‘ کے نام سے ایک نظم ملتی ہے۔ 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد مسلمانوں میں تحریکِ بیداری کے تحت سرسید کی فرمائش پر حالی نے مسدسِ مدوجزرِ اسلام لکھی۔ تاہم حالی نے بھی غزوات کا ذکر اجمالاً کیا ہے۔ حالی کے بعد حفیظ جالندھری وہ واحد شاعر ہیں جنھوں نے اسلامی تاریخ کو شاہنامۂ اسلام کی صورت میں منظوم کیا لیکن انھوں نے بھی بڑے غزوات کی حد تک خامہ فرسائی کی اور چھوٹے غزوات کو نظرانداز کردیا۔ مثال کے طور پر غزوۂ احد اور غزوۂ خندق کے درمیان پیش آنے والے غزوۂ بنوقریظہ کا ذکر نہیں کیا۔
غزوۂ احد کے بعد یہودیوں کی ریشہ دوانیاں اس حد تک بڑھ گئیں تھیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دس دن کے اندر مدینہ سے نکل جانے کا حکم دے دیا لیکن وہ اپنے قلعوں میں محصور ہوکر مسلمانوں کے خلاف جنگ آزما ہوگئے۔ مسلمانوں نے قلعوں کا محاصر کیا اور بالآخر فتح یاب ہوئے۔
حفیظ نے یہودیوں کی ریشہ دوانیاں تو بیان کی ہیں اور حواشی میں پورا واقعہ بھی بیان کیا ہے لیکن اس غزوے کو نظم نہیں کیا۔ تاہم لالۂ صحرائی نے دورِ نبویؐ کے کل 23غزوات کو بہ عنوانات غزواتِ رحمۃ للعالمینؐ کے نام سے نظم کیا ہے۔ انھوں نے غزوات کی واقعہ نگاری کے ساتھ ساتھ ان کا پس منظر اور نتائج بھی تفصیل سے نظم کیے ہیں۔ اس سلسلے میں قابلِ غور بات یہ ہے کہ انھوں نے صرف انھیں مستند واقعات کو نظم کیا ہے جن پر سیرت و مغازی کی کتب میں اتفاق ہے۔ انھوں نے واقعات کی تحقیقی صداقت کا خیال رکھا ہے لیکن کتاب کے آخر میں حوالوں یا کتابیات کا اہتمام نہیں کیا۔ اگر وہ اس جانب توجہ کرتے تو تحقیقی اعتبار سے اُن کی اس کتاب کا مرتبہ بہت بلند ہوجاتا۔
لالۂ صحرائی کے نعتیہ مجموعے بارانِ نعت کی پشت پر زیرترتیب کتب میں ’’زمینِ حجاز‘‘ کے عنوان سے ایک سفرنامے کا ذکر بھی ہے تاہم وہ اسے مکمل صورت میں شائع نہیں کروا سکے۔ اس سفرنامے کا ایک حصہ قومی ڈائجسٹ نومبر1979ء کے شمارے میں ’’سائے ہیبت کے، پھوار رحمت کی‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ ترجمہ نگاری کے ضمن میں اُن کی تحریریں لائق مطالعہ ہیں لیکن وہ بھی بدقسمتی سے تاحال طباعت سے آراستہ نہیں ہوسکیں۔ مشہور جرمن صحافی لیو پولڈویلس مسلمان ہوکر محمد اسد کے نام سے جانے گئے؛ لالۂ صحرائی نے ان کی مشہور کتاب The Road to Mecca کے چار ابواب کا ترجمہ کیا جن میں سے دو ترجمے ’’منزل کے قریب‘‘ اور ’’اے خنک شہرے‘‘ دو مختلف رسائل میں شائع ہوئے اور ’’پہلا وہ گھر خدا کا‘‘ اور ’’بازگشت‘‘ تاحال غیرمطبوعہ ہیں۔
لالۂ صحرائی نے روس کے اعلیٰ سرکاری وفد کے رکن وکٹرکراچنکو Victor Kravchenko کی کتاب I Choose Freedom کا تین جلدوں میں ترجمہ ’’بیڑیوں کو سلام‘‘ کے عنوان سے کیا۔ کتاب کے مصنف نے اشتراکی نظام سے بے زاری کا اظہار کیا ہے اور بالآخر اس نے امریکہ کی شہریت اختیار کرلی۔ اس کتاب میں اس نے اشتراکی نظام کا اصل چہرہ بے نقاب کیا ہے۔ لالۂ صحرائی کی یہ کاوش بھی کُلّی طور پر طبع نہیں ہوسکی۔ اس ترجمے کے صرف چند ابواب مختلف رسائل میں شائع ہوئے۔
لالۂ صحرائی نے جو افسانوی تراجم کیے، اُن میں فلاہردی کا ’’پہلی اُڑان‘‘، ٹالسٹائی کے دو افسانوں ’’بہن‘‘ اور ’’دوگززمین‘‘، الفریڈ ہیلر کا ’’صابن کی ٹکیہ‘‘ اورموپساں کے افسانے کا ترجمہ ’’انقلابی‘‘ کے عنوان سے کیا۔ اُن کے غیرمطبوعہ تراجم میں اے ڈبلیو وہین کے All Quite on the Western Front کا ترجمہ ’’خموش محاذ‘‘ کے عنوان سے موجود ہے۔ یہ ناول جرمن زبان سے انگریزی زبان میں ترجمہ ہوا اور لالۂ صحرائی نے اسے انگریزی سے اردو میں منتقل کیا۔
اس ناول کا موضوع جنگ ہے۔ اس ترجمے کا مسودہ نہایت ضعیف حالت میں ہے۔ سکے کی پنسل سے ترجمہ کرنے کے بعد قلم سے روشنائی کی مدد سے تصحیح بھی کی گئی ہے۔ ناول کے کل بارہ ابواب ہیں اور اُن کے ماقبل مذکورہ تراجم کی روایت کی طرح یہاں بھی عنوانات قائم کرکے ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے ایان سٹیفنز کے سفرنامے Horned Moon کے تیسرے حصے ’’کشمیر‘‘ میں شامل پندرھویں باب Road to Hunza کا ترجمہ ’’ماہِ نو‘‘ کے عنوان سے کیا۔ ’’سوئے اسلام جو ہم بادلِ دیوانہ چلے‘‘ ازڈاکٹرعبدالکریم جرمانوس اور ’’اسلام میں تصویرسازی کیوں ممنوع ہے‘‘ از مریم جمیلہ بھی لالۂ صحرائی کے غیرمبطوعہ تراجم میں شامل ہیں۔
لالۂ صحرائی کے فنی سفر سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک ہمہ جہت ادیب تھے۔ انھیں قدرتِ بیان اور طرزِ اجتہاد کی خدادادصلاحیتیں عطا ہوئیں تھیں۔ وہ خوش نویس اور طبعاً نفیس مزاج انسان تھے۔ اُن کے مسودات اُن کی نفاستِ طبع کے آئینہ دار ہیں۔ وہ اپنی جو تحریریں چھپوانے کی غرض سے لکھتے تھے، اُن میں کاتب کے لیے ہدایات بھی درج کرتے تھے تاکہ اُن کا منتہائے مقصود بہ طریقِ احسن قاری کے روبہ رو آسکے۔ اُن کے غیرمطبوعہ مسودات میں سے اکثر ایسے اشارات پر مبنی ہیں۔ حسنِ بیان، حسنِ سیرت اور استغنائے مزاج کا یہ مظہر ادبی تنقید کی ستم ظریفیوں کا شکار رہا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ادبی گروہ بندیوں سے بالاتر ہوکر فن کاروں کے علمی و ادبی سرمائے کو پرکھنے کی طرح ڈالیں تاکہ اُن کا صحیح مقام و مرتبہ متعین ہوسکے:
قافلہ عمر کا ہے پا بہ رکاب
زیست کا کیا ہے اعتبار افسوس
(شاہ نصیر دہلوی)
The post لالہ صحرائی۔۔۔ایک ہمہ جہت ادیب appeared first on ایکسپریس اردو.