عورت ایک معمّا، ایک پہیلی، یا انسان! یہ بحث کوئی نئی نہیں ہے۔ ازل سے جاری ہے اور آج بھی اس پر مکالمہ ہورہا ہے، ہوتا رہے گا اور ایسی بحث جو ہر پَل اک نیا موڑ لے لیتی ہے۔ آئیے! دیکھتے ہیں کہ زمانۂ قدیم کی تہذیب اور مذاہب میں عورت کی حیثیت اور مقام کیا تھا۔
٭ یونان:
جسے تاریخ انسانی میں تہذیب، تمدّن، علم اور فن کا منبع سمجھا جاتا ہے، میں عورت کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی۔ یونانیوں کے مطابق عورت ایک ادنٰی مخلوق تھی اور عزت و احترام کے قابل صرف مرد تھا۔ سقراط جیسا فلسفی کہتا تھا: ’’عورت سے زیادہ فتنہ و فساد کی چیز دنیا میں کوئی نہیں، وہ دفلی کا ایک درخت ہے کہ بہ ظاہر بہت خُوب صورت نظر آتا ہے لیکن اگر چڑیا اُس کو کھا لیتی ہے تو وہ مر جاتی ہے۔‘‘ افلاطون مساوات مرد و زن کا محض زبانی دعوے دار تھا۔ عملی زندگی میں اس کا کوئی کردار نہیں رہا۔ شادی صرف اس لیے کی جاتی تھی کہ طاقت ور سپاہی پیدا کیے جاسکیں۔ اسپارٹا میں یہ قانون تھا کہ جسمانی کم زور شوہروں کو اپنی بیویاں کسی نوجوان کو سونپ دینی چاہییں تاکہ طاقت ور سپاہیوں کی تعداد میں اضافہ ہو۔
انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق: ’’ قدیم یونانی تہذیب میں عورت کا مقام اور حیثیت صرف بچے پالنے والی لونڈی کی سی تھی۔ وہ گھر میں قید اور تعلیم سے محروم رکھی جاتی تھیں۔ عورت، گھر اور سامان کی حفاظت پر مامور ایک ملازمہ تھی۔ اس کے اور اس کے شوہر کے غلاموں میں کچھ زیادہ فرق نہیں تھا ۔ وہ اپنی مرضی سے شادی نہیں کر سکتی تھی اور نہ طلاق لے سکتی تھی۔ لیکن اولاد نہ ہو نے کی صورت میں شوہر اسے طلاق دے سکتا تھا۔ مرد اپنی زندگی اور وصیت میں اپنی بیوی کسی کو بھی بہ طور تحفہ دے سکتا تھا۔ عورت کو خود کسی چیز کے فروخت کرنے کا اختیار نہ تھا۔ یونان میں بھی لڑکی کی ولادت باعث ندامت سمجھا جاتا تھا۔
٭ روم:
رومی معاشرے میں بھی عورت حقوق سے محروم اور احترام کے لائق نہیں سمجھی جاتی تھی۔ وہ مردوں کی سنگ دلی اور ظلم کی چکی میں پس رہی تھی۔ اگر مرد کو اپنی بیوی کے کردار پر ذرا سا بھی شک ہوتا تو وہ اسے قانونی طور پر قتل کرنے کا حق رکھتا تھا۔ بابل کی تہذیب کے عروج کے دوران بھی عورت کو خریدا اور بیچا جاتا تھا۔ ضرورت پڑنے پر باپ اپنی بیٹیوں کو فروخت کردیتے تھے۔
٭ یورپ:
انیسویں صدی کے صنعتی انقلاب سے قبل وہاں عورت، مرد کے ظلم و ستم کا شکار تھی۔ کوئی ایسا قانون نہیں تھا جو عورت کو مرد کے ظلم و ستم سے حفاظت فراہم کرتا۔ انگلستان کے قانون کے مطابق شادی کے بعد عورت کی شخصیت مرد کی شخصیت کا ایک جز بن جاتی تھی۔ عورت مرد کے خلاف مقدمہ دائر نہیں کرسکتی تھی۔ مرد چاہتا تو عورت کو وراثت سے محروم کردیتا لیکن بیوی کی جائیداد کا وہ جائز حق دار سمجھا جاتا تھا۔John Stuart Mill اپنی کتاب غلامی نسواں میں رقم طراز ہے: ’’انگلستان کے قدیم قوانین میں مرد کو عورت کا مالک تصوّر کیا جاتا تھا۔
بل کہ وہ اس کا بادشاہ مانا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ شوہر کے قتل کا اقدام، قانونی اصطلاح میں ادنٰی بغاوت کہلاتا، لیکن اگر عورت اس کا ارتکاب کرے تو اس کی پاداش میں اسے جلا دینے کا حکم تھا۔‘‘رابرٹ بریفالٹ کا کہنا ہے : ’’پانچویں سے دسویں صدی تک یورپ پر گہری تاریکی تاریکی چھائی ہوئی تھی اور یہ اور زیادہ گہری اور بھیانک ہوتی جارہی تھی۔ اس دور کی وحشت زمانۂ قدیم کی وحشت سے کئی گنا زیادہ تھی، کیوں کہ اس کی مثال ایک بڑے تمدن کی لاش کی تھی، جو سڑگئی ہو، اس تمدن کے نشانات مٹ رہے تھے اور اس پر زوال کی مہر لگ چکی تھی۔‘‘
٭ آریائی تہذیب:
آریائی معاشرے میں عورت کی کوئی حیثیت نہیں تھی، سوائے ایک باندی کے۔ شوہر کو یہ اختیار تھا کہ اپنی بیوی یا بیویوں میں سے جس کو بھی چاہے کسی دوسرے بے روزگار شخص کو اس مقصد کے لیے دے کہ وہ اس سے ذریعۂ معاش میں مدد لے۔ اس میں عورت کی رضا مندی شامل نہیں ہوتی تھی۔ عورت کو شوہر کے مال و اسباب پر تصرّف کا کوئی حق نہیں تھا۔ اولاد، شوہر کی ملکیت تسلیم کی جاتی تھی۔ آریاؤں کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ عورت ناپاک ہے اور اُس کی نظرِبَد کا اثر ہوتا ہے اور خاص طور پر اگر کسی بچے پر اُس کی بَد نظر پڑگئی تو بچے پر کوئی نہ کوئی بدبختی ضروری آئے گی۔ اس لیے بچے کو نظربَد سے بچانا ضروری سمجھا جاتا تھا‘ بالخصوص اس بات کا خیال رکھا جاتا تھا کہ کوئی عورت بچے کے پاس نہ آئے تاکہ اس کی شیطانی ناپاکی بچے کے لیے بدبختی کا باعث نہ ہو۔
معروف چینی سیاح ’’ہیون سانگ‘‘ کا کہنا ہے کہ آریا قانون معاشرت میں ازدواجی تعلقات کے لیے کسی رشتے کا بھی استثناء نہیں تھا۔ جن رشتوں سے ازدواجی تعلقات متمدن سماج میں ہمیشہ غیرقانونی رہے ہیں، انہیں ان کی حرمت کا پاس و لحاظ نہ تھا۔ اس شدید شہوانی رجحان کے خلاف ’’مانی‘‘ نے تجرد کی تحریک چلائی تھی اور شادی کو حرام قرار دے دیا تھا۔ پھر مانی کی تحریک کے خلاف ’’مزدک‘‘ نے آواز اٹھائی اور اس نے تمام عورتوں کو سب کے لیے جائز ٹھہرایا۔ اس تحریک کے نتیجے میں وہ سماج جنسی انارکی کے سمندر میں ڈوب گیا تھا۔
٭ قدیم مصر:
قدیم مصری عورت کو تمام حقوق حاصل تھے۔ اسے احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ لیکن پھر اس سے اس کا یہ رتبہ بہ تدریج چھین لیا گیا۔ مصر میں بھی کئی ایسی رسمیں رائج تھیں جو عورت کو نہایت پستی میں دھکیل دینے کے لیے کافی تھیں۔ نکاح کے بعد عورت، ناصرف مرد کی ملکیت قرار پاتی تھی بل کہ شادی کے بعد عورت کا سارا مال بھی مرد کے نام ہوجاتا تھا۔ اولاد پر بھی عورت کا حق بالکل نہیں تھا، وہ مرد کی غلام بن کر رہ جاتی تھی۔ لیکن بعض مفکرین کا کہنا کہ قدیم مصر میں عورت کا سماجی مرتبہ بہت بلند تھا۔ ان کے مطابق نکاح نامہ کی سب سے پہلے ایجاد قدیم مصر میں ہوئی تھی۔
٭ عرب:
عرب سماج تو مکمل تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ عورت کا مقدر ذلت، رسوائی اور اس کی حیثیت ایک سستی جنس جیسی تھی۔ اسے پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کردیا جاتا تھا، اس لیے کہ وہ باپ کے لیے عار تھی۔ مرد کو تمام حقوق حاصل تھے اور عورت صرف غلام اور سامان تجارت تھی۔
٭ قدیم ہندوستان:
انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کے مطابق: ’’ہندوستان میں محکومی ایک بنیادی اصول کی حیثیت رکھتی تھی، ’’منو‘‘ کے مطابق عورت رات دن اپنے سرپرستوں کے تحت حالتِ انحصاری میں ہونی چاہیے۔‘‘ کچھ مفکرین کا کہنا ہے کہ ویدک عہد میں عورت کا سماجی رتبہ کافی بلند تھا۔ عورتوں کو مکمل آزادی حاصل تھی، وہ پورے اختیار کے ساتھ اپنے شوہر کے انتخاب میں حصہ لیتی تھیں۔ جیون ساتھی منتخب کرنے کی اس رسم کو ’’سوئمبر‘‘ کہا جاتا تھا۔ لیکن پھر وہ سماج آخری ویدک دور میں زوال پذیر ہوتا گیا۔ رام شرن شرما کے مطابق: ’’یہ سماج پدری تھا۔ اس لیے لوگوں کی تمنا ہوتی تھی کہ ہر بار بیٹا ہی پیدا ہو۔ لوگ دیوتاؤں سے خاص طور پر التجا کرتے تھے کہ ایسے بہادر بیٹے پیدا ہوں جو جنگیں لڑسکیں۔ رگ وید میں اگرچہ بچوں اور مویشیوں کی افزائش کے لیے جگہ جگہ دعائیں ملتی ہیں‘ مگر کسی ایک جگہ بھی بیٹی کی پیدائش کے لیے دعا نہیں ملتی۔‘‘
ویدک دور کے بعد دھرم شاسترا کے دور میں عورت کی حیثیت نہایت پست تھی۔ کم سنی کی شادی کی حوصلہ افزائی کی گئی اور بیواؤں کی شادی کو نظر انداز کیا جانے لگا۔ لڑکیوں کی پیدائش کو اس حد تک منحوس سمجھا جانے لگا کہ بے شمار والدین نومولود لڑکیوں کو قتل کردیا کرتے تھے۔ بیواؤں کا جیون اجیرن تھا اور ستی کی رسم عام تھی۔ رامائن اور مہابھارت کے عہد میں عورت کی حالت مزید ابتر ہوگئی تھی۔ اسے تمام تر برائیوں کا منبع سمجھا جاتا تھا۔ اس عہد میں ’’منو‘‘ کے قوانین لوگوں کے لیے خدائی احکامات سمجھے جاتے تھے۔ منو کے مطابق عورت کو شودر کا درجہ دیا جاتا تھا۔ ہندو مذہب میں دھرم شاستر کی بنیاد پر کئی سمرتیاں لکھی گئیں، جن میں منوسمرتی سب سے زیادہ مشہور اور اہمیت کی حامل رہی ہے۔ اسی کی بنیاد پر ہندو قانون بنایا گیا ہے۔ منوسمرتی کو ہندو سماج کے معاشرتی و عائلی قوانین کا ماخذ سمجھا جاتا ہے۔منوسمرتی کے مطابق: ’’عورت کو باپ یا بھائی اپنی مرضی سے کسی بھی شخص کے حوالے کردے تو اسے زندگی بھر اس کی تابعدار رہنا چاہیے۔ بیوی کو اپنے شوہر کا آدھا بدن قرار دیا گیا ہے چناں چہ عورت کا اپنا کوئی انفرادی وجود نہیں ہے۔‘‘ ہندو دھرم کی مقدس مذہبی کتب میں بھی عورت کو وہ عزت و احترام نہیں دیا گیا جو مردوں کو حاصل تھا۔ مہابھارت، پران اور رامائن جیسی مقدس کتب میں عورت سے متعلق اچھے خیالات نہیں ملتے۔بنجامن والکر نے اپنی کتاب ’’ہندو ورلڈ‘‘ میں رامائن اور مہابھارت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے: ’’اس زمانے میں یہ عقیدہ عام تھا کہ عورتیں ناپاک اور مکروہ ہیں اور مرد کی روحانی نجات میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ یہی نہیں بل کہ ان میں ساری برائیاں بھری پڑی ہیں۔ جھوٹ، فریب، دھوکا، ہوس پرستی، مکر و فریب اور عقل کی کمی۔ غرض دنیا کی ساری برائیوں کا مجموعہ عورتیں ہیں۔‘‘
مقدس پران کے مطابق: ’’شراب کی تین قسمیں ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ نشہ آور عورت ہے۔ اسی طرح زہر کی سات قسمیں ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ مہلک عورت ہے۔‘‘
مختلف مذاہب میں عورت کی حیثیت
٭ یہودیت:
یہودی روایات کے مطابق عورت ناپاک وجود ہے اور اس کائنات میں مصیبت اسی کے سبب ہے۔ ان کے نزدیک مرد نیک سرشت اور حُسن کردار کا حامل اور عورت بدطینت اور مکاّر ہے، کیوں کہ اس نے آدم کو بہلا پھسلا کر پھل کھانے پر آمادہ کیا جس سے خدا نے منع کیا تھا۔ یہودی شریعت میں مرد کا اختیار اور عورت کی محکومیت نمایاں ہے۔ عورت باپ کی رضامندی کے بغیر خدا کو راضی کرنے کے لیے بھی کوئی منّت اور نذر نہیں مانگ سکتی۔ عورت کو دوسری شادی کا بھی حق حاصل نہیں تھا۔ عورت وصیت، گواہی اور وراثت جیسے حقوق سے بھی محروم تھی۔ یہودی قانون کے مطابق مرد وارث کی موجودی میں عورت وراثت سے محروم ہوجاتی تھی۔
٭ عیسائیت:
عیسائی مذہب کا بنیادی خیال یہ تھا کہ عورت گناہ کی ماں اور بدی کی جڑ ہے اور جہنم کا دروازہ ہے۔ ’’ترتولیان‘‘ جو مسیحیت کے اولین پیشواؤں میں سے تھا، کا کہنا تھا: ’’ وہ شیطان کے آنے کا دروازہ ہے، وہ شجر ممنوع کی طرف لے جانے والی، خدا کے قانون کو توڑنے والی اور خدا کی تصویر مرد کو غارت کرنے والی ہے۔‘‘ ’’کرائی سوسسٹم‘‘ جو عظیم مسیحی امام شمار کیا جاتا ہے، کا کہنا ہے: ’’عورت، ایک ناگزیر برائی، ایک پیدائشی وسوسہ، ایک مرغوب آفت، ایک خانگی خطرہ، ایک غارت گر د ل ربائی اور ایک آراستہ مصیبت ہے۔‘‘ مسیحیت میں تجرد اور صنفی تعلقات سے کنارہ کشی ہی اصل کمال سمجھا جاتا ہے ۔ مسیحی شریعت میں ہر چیز کا مالک مرد تھا۔ طلاق اور خلع کی اجازت نہ تھی۔ مسیحی دنیا کے ملکی قوانین اس بارے میں سخت تھے گویا مسیحی مذہب نے عورت کی تحقیر اور اسے پابندیوں میں جکڑے رکھنے کی پوری کو شش کی۔ مسیحی دنیا میں عورت کی زندگی ایک بے بس مخلوق اور مرد کے ہاتھ میں کھلونے کے سوا کچھ نہیں تھی۔
٭ بدھ مت:
بدھ مذہب جسے جدید مذہب میں شمار کیا جاتا ہے، نے بھی عورتوں کو نجس ہی قرار دیا۔ اس کا ثبوت ہمیں گوتم بدھ کی تعلیمات میں ملتا ہے۔ گوتم بدھ نے اپنے ماننے والوں سے کہا تھا کہ اگر تم نجات پانا چاہتے ہو تو تمہیں اپنی عورتوں سے تعلق قطع کرنا چاہیے اور سب سے پہلے خود انہوں نے اپنی عورتوں سے رشتہ توڑ لیا تھا۔ بدھ مت کے نزدیک عورت سے تعلق رکھنے والا کبھی نروان حاصل نہیں کرسکتا۔
٭ جین مت:
جین مت کے نزدیک عورت خیر سے عاری اور تمام برائیوں اور منکرات کی اصل جڑ ہے۔ اس لیے یہ مذہب مردوں کو اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ وہ عورت کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات استوار نہ کریں۔ نہ عورت کی جانب دیکھیں، نہ اس سے گفت گو کریں۔ جین مت میں اگرچہ ہندو مت کے برعکس عورتوں کو مذہبی حقوق حاصل ہیں، لیکن وہ عورتوں اور مردوں کو راہبانہ زندگی کی ترغیب دیتا ہے۔ جین مت بھی بیوہ کو دوسری شادی کی اجازت نہیں دیتا۔
٭ اسلام:
مختلف تہذیبوں، اقوام اور مذاہب میں عورتوں کے مقام و مرتبے کے جائزے سے یہ علم ہوتا ہے کہ عورت ظلم، جبر، ذلت، حقارت، بدسلوکی، تنگ نظری اور جہالت کا شکار تھی۔ لیکن جب اسلام کا سورج طلوع ہوا تو عورت کی زندگی منور ہوگئی۔ اسلام دین فطرت اور عورت کو بہ حیثیت انسان تمام فطری اور جائز حقوق عطا کرتا ہے۔اسلام نے مرد اور عورت کے درمیان فرق و امتیاز کو ختم کر کے انھیں یک ساں عزت، احترام اور وقار سے ہم کنار کرنے کا جو قدم اٹھایا وہ اتنا انقلاب آفریں تھا کہ اس کے نتیجے میں فکرونظر کی دنیا ہی بدل گئی۔ رسول اکرم ﷺ کی بعثت کے بعد خواتین نے ایک نئی تاریخ رقم کی جس کی مثال پہلے کبھی موجود نہ تھی اور آج کے نام نہاد ترقی یافتہ دور میں بھی ناپید ہے۔ اسلام، خواتین کے حقوق کا پاس دار ہے۔ قرآن و احادیث میں مردوں کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ وہ عورتوں کے معاملے میں عفو و درگزر اور نرم خوئی سے کام لیں۔ ان کی جذباتیت کو ملحوظ رکھیں۔ ان کی حساس طبیعت اور نفاست کا خیال رکھیں۔ ان سے اچھا سلوک کریں اور ان کے حق میں بہترین ثابت ہوں۔ اگر وہ غلطیوں کی مرتکب بھی ہوں تو انہیں نرمی سے سمجھایا جائے۔
قرآن حکیم میں اﷲ تعالٰی مردوں کو عورتوں کے ساتھ اچھے برتاؤ کا حکم دیتا ہے مفہوم:
’’عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں (تب بھی ان سے نباہ کرو) ہوسکتا ہے کہ جس کو تم ناپسند کرتے ہو‘ اس میں اﷲ تعالیٰ خیرکثیر فرما دے۔‘‘
رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فر مایا: ’’ ایمان کے اعتبار سے کامل ترین شخص وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں اور تم میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو اپنی عورتوں کے ساتھ سلوک کر نے والے ہوں۔‘‘
اسلام نے خواتین کو کسی بھی صورت میں بے یار و مددگار نہیں چھوڑا۔ اگرچہ عورت پر معاشی بوجھ نہیں ڈالا گیا لیکن اسے معاشی سرگرمیوں کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ وہ اپنی عفت کی حفاظت اور گھریلو ذمے داریوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے معاشرے میں ایک فعال اور سرگرم کردار ادا کرسکتی ہے۔ صحابیات تجارت، زراعت، گلہ بانی، دست کاری کے شعبے سے وابستہ تھیں اور اپنی آمدن شوہر و بچوں کے علاوہ عوامی فلاح کے امور میں صرف کیا کرتی تھیں۔ صحابیات کی غزوات میں شرکت ، بیماروں اور زخمیوں کی خدمت و تیمارداری کا بھی احادیث میں ذکر ملتا ہے۔ اسلام نے عورت کو ایک مکمل قانونی اور اخلاقی تشخص عطا کیا پھر اس کے دائرہ عمل اور میدان کار کا تعین بھی کیا۔
پہلی بار عورت کو باپ اور شوہر کے ورثے میں حق دار قرار دیا گیا۔ اسلام کی رُو سے عورت کا ایک علاحدہ وجود اور اس کے قانونی حقوق ہیں۔ عورت کی اپنی ذاتی ملکیت ہوسکتی ہے اور وہ اپنی اس ملکیت میں تصرف کا کامل اختیار رکھتی ہے۔ انسانی حقوق کے اعتبار سے مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ اسلام عورت کو ایک محترم اور معتبر وجود مانتا اور کوئی امتیاز نہیں برتتا۔ لیکن عورت کی طبعی فطرت اور اس کی عفت و عصمت کے تحفظ کو پیش نظر رکھتے ہوئے چند حدود کے پاس و لحاظ کو لازم ضرور قرار دیتا ہے۔
(اس مضمون کی تیاری میں urdu research journalسے استفادہ کیا گیا ہے)
The post عورت ایک مُعمّا، ایک پہیلی یا انسان۔۔۔۔؟ appeared first on ایکسپریس اردو.