Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

کیاعورت کی آزادی اور اعتماد نوکری سے مشروط ہے؟ 

$
0
0

اوائل جنوری کی ٹھٹھرتی ہوئی صبح میں لاہور کی مصروف ترین شاہراہ پر لوکل ٹرانسپورٹ کے انتظار میں کھڑے لوگوں میں راقم کا بھی شمار ہوتا تھا۔ بس کے آنے اور اس میں اترنے چڑھنے کا منظر بالکل ویسا ہی تھا جیسے کہ صور اصرافیل پھونک دیا گیا ہو اور ہر شخص نفسا نفسی کے عالم میں بس اسی فکر کا شکار ہوکہ وہ بس میں سوار ہوجائے، باقی سب کی خیر ہے۔

رش کی وجہ سے بس میں سوار اکثریت کوکھڑا ہونا پڑتا۔ اسی دوران نگاہ جب اپنے دائیاں جانب اٹھی تو ایک چہرے کو دیکھ کر دل مٹھی میں بھرگیا، عمر لگ بھگ 35 برس ہوگی، گمان گزرا کہ شادی شدہ ہو مگر پھر آنکھوں کی ویرانی اور چہرے پر چھائی پژمردگی دیکھ کر بخوبی اندازہ ہونے لگا کہ اول الذکر خیال اس صورت درست ثابت نہیں ہوتا۔ جب اس سے سلام دعا کی تو معلوم ہوا کہ وہ پیشے کے اعتبار سے ایک سرکاری ہسپتال میں گزشتہ پندرہ برس سے نرسنگ کے شعبہ سے وابستہ ہے۔ سلسلہ کلام چل نکلا تو اپنا تعارف کرانے کے بعد ان سے سوال کیا کہ عورت کی آزادی اور نوکری کے حوالے سے ان کے کیا خیالات ہیں۔ پہلے پہل تو روایتی انداز میں شبانہ (فرضی نام) نے کہا کہ نوکری سے عورت میں اعتماد پیدا ہوتا ہے۔

معاشی طور پر خود کفیل ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ، لیکن جب ان سے نوکری کی بابت سوال کیا گیا کہ آخر انہیں نوکری کیوں کرنا پڑی تو انہوں نے بتایا کہ وہ پانچ بہنوں میں سب سے بڑی ہیں اور وسائل نہ ہونے کے سبب انہیں چھوٹی عمر سے ہی نوکری کرنا پڑی۔ چھوٹی دو بہنوں کی شادی کرانے کے عد اب تیسری کی باری ہے۔

اس دوران جب ان سے اپنی شادی کے بارے میں سوال کیا گیا تو ایک پھیکی افسردہ مسکراہٹ کے بعد وہ کہنے لگی رشتے تو بہت آتے ہیں مگر بات آگے نہیں چل پائی۔ جب ایسا محسوس ہوا کہ وہ کھل کر بتا نہیں پارہی تو ان سے ادھر ادھر کے سوال کرتے ہوئے یہ بات معلوم ہوئی کہ دراصل لڑکے والوں کی ڈیمانڈ ہوتی ہے کہ لڑکی زیادہ کمانے والی ہو اور گھر بھرکے جہیز بھی لائے۔

شبانہ کہتی ہے کہ عورت کو پیسہ کمانے والی مشین بناکر لے جانے والوں سے بہتر ہے کہ زندگی تنہا گزارلی جائے۔ عورت کے لیے شادی تحفظ اور تقدس کی علامت ہوتی ہے۔ شادی کے بعد عورت اپنے گھر میں حکمرانی کرنا چاہتی ہے۔ یہ کیسا انصاف ہے کہ عورت پہلے دس دس گھنٹے آفس میں کام کرے اور گھر آکر بھی ملازمہ بنی رہے۔ ایک مشرقی عورت کی اولین خوشی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے شوہر کے پیسوں پر اپنا حق استعمال کرتے ہوئے پرسکون زندگی گزارے۔ بھلے وہ بہت زیادہ نہ ہوں مگر اس کی ضروریات زندگی کو پورا کریں۔ یہی ایک عورت کی اصل آزادی ہے۔‘‘

شبانہ کی اس کہانی نے مزید کہانیوں اور اس سوال کے جواب میں سرگرداں کردیا کہ کیا عورت کی آزادی نوکری سے مشروط ہے؟

فاطمہ (فرضی نام) ایک پرائیویٹ سکول میں پڑھاتی ہیں۔ گزشتہ آٹھ برسوں میں ان کی تنخواہ میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک عورت ہونے کے ناطے انہیں ملازمت میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسی صورتحال میں جہاں مہنگائی بڑھ چکی ہے وہاں قلیل تنخواہ میں گھر چلانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ جب ان سے سوال کیا کہ عورت جاب کیوں کرتی ہے تو ان کا جواب تھا مجبوری میں یا شوق سے مگر میرا خیال ہے کہ شوق سے نوکری کرنے والی خواتین 100 میں سے 1 فیصد سے بھی کم ہیں۔ ہم عورتوں کو ہماری مجبوریاں نوکری کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ کسی بھی عورت کا یہ خواب ہوتا ہے کہ وہ اپنے گھر میں عیش کرے۔

اپنی مرضی سے صبح جاگے۔ اپنی پسند کی خریداری کرے اور شام کو تیار ہوکر اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ وقت گزارے۔ میرے نزدیک عورت کا حق ہے کہ اسے گھر پر اس کی ساری ضروریات اور خواہشات کی تکمیل باہم پہنچائی جائے۔ ہاں مگر بلاوجہ پابندیاں عورت کے حق آزادی کو زک پہنچاتی ہیں۔ ایک سوال کے جواب پر فاطمہ کا کہنا تھا کہ جاب کرنے والی خواتین کو لوگ کنفیڈنٹ تصور کرتے ہیں کہ وہ سب کو جواب دینا جانتی ہیں مگر دراصل وہ سخت ماحول میں رہ کر غیر محسوس طریقے سے سخت مزاج اور زبان کی کڑوی ہوجاتی ہیں۔ قدرتی طور پر پائے جانے والے نرم احساسات سے محروم ہوجانا اس کی انتہائی صورت ہوتی ہے جیسے لوگ عموماً ان کے پر اعتماد ہونے سے تعبیر کرتے ہیں۔ میرے نزدیک اگر عورت کو گھر میں اعتماد، محبت اور تحفظ دیا جائے وہ نوکری کرنے والی عورتوں سے زیادہ پر اعتماد شخصیت کی حامل ہوگی۔‘‘

ثریا (فرضی نام) پاکستان کے ایک معروف ادارے میں ویب ڈیزائنر ہیں۔ ایکسپریس سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کم عمری سے ہی فری لانسر کے طور پر کام شروع کرنے کا محرک یہ تھا کہ میں اپنی تعلیم کے اخراجات خود سے اٹھانا چاہتی تھی۔ تعلیم کے ساتھ کام کرنا مشکل ہوتا ہے۔ شروع میں جاب کا شوق تھا مگر رفتہ رفتہ یہ میری ضرورت بن گئی۔ اب میری شادی کو دس برس بیت چکے ہیں۔ میں تین بیٹوں کی ماں ہوں۔

شوہر بھی ایک اچھے ادارے میں جاب کرتے ہیں مگر ان کی تنخواہ میں یا تو بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے ہوسکتے ہیں یا گھر کے۔ اسی لیے میں آٹھ گھنٹے جاب کرنے کے بعد گھر جاکر بھی فری لانسنگ میں کام کرتی ہوں۔ لیکن اس سب میں میرا اپنا آپ کہیں فراموش ہوگیا ہے۔ مجھے یاد بھی نہیں کہ آخری بار میں کب سیلون گئی اور سب سے زیادہ افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ میرے بچے سفر کررہے ہیں۔ ہم دونوں میاں بیوی علیحدہ گھر میں رہتے ہیں۔

بچے سکول سے آنے کے بعد ملازمہ اور کمپیوٹر کے سپرد رہتے ہیں۔ گو لوگوں کی نظر میں ایک آزاد و خودمختار عورت ہوں مگر دراصل معاشی مجبوریاں اور نوکری میرے پیروں کی زنجیریں ہیں جن سے میں چاہ کر بھی آزاد نہیں ہوسکتی۔‘‘ جب ان سے کسی خواہش کے متعلق پوچھا گیا تو کہنے لگیں ’’بیٹی کی شدید خواہش ہے مگر ہم میاں بیوی اب چوتھا بچہ افورڈ نہیں کرسکتے۔ پھر یہ بھی سوچتی ہوں کہ بیٹی کی تربیت کے لیے وقت کیسے نکال پاؤں گی۔ سو اس خواہش کو دبا دینا ہی بہتر ہے۔‘‘

رمیشہ ایک ادارے میں ریسپشنسٹ کا عہدہ سنبھالے ہوئے ہیں۔ خوش شکل رمیشہ سے نشست کا احوال کچھ یوں ہے ’’میں اس ادارے میں آنے سے قبل ایک آرٹ سکول میں ٹیچر تھی مگر وہاں بہت کام ملتا تھا۔ نوکری کرنا میری مجبوری ہے کیونکہ میں سنگل پیرینٹس چائلڈ ہوں، دو بھائیوں کی شادیاں ہوچکی ہیں مگر اخراجات بہت بڑھ چکے ہیں۔ منگنی کو چھ برس بیت چکے ہیں مگر شادی اس وقت ہی ہوسکتی ہے جب میرا جہیز تیار ہو۔ یہ جاب بھی اسی لیے کررہی ہوں کہ اپنے لیے کچھ بناسکوں۔

رمیشہ سے جب ان کی جاب کی نوعیت اور کانفیڈنس کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے اپنے جذبات کو کچھ اس طرح ظاہر کیا ’’صبح صبح ایک ڈمی کی طرح خود کو سجا کر بیٹھنا مضحکہ خیز لگتا ہے۔ دن بھر مردوں کی نگاہوں میں رہنا، کبھی کبھی الجھن کا شکار کردیتا ہے۔ میرے سسرال والے میری ریسپشنسٹ والی نوکری سے بے خبر ہیں اور اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ بے خبر ہی رہیں۔

اگر بھائی اتنا سپورٹ کرتے تو مجھے گھر سے ہی کیوں نکلنا پڑتا۔ اگر ڈھیٹ ہوکر حالات سے سمجھوتا کرلیا جائے تو یقینا آپ کانفیڈنٹ ہی دکھائی دیتے ہیں۔ شادی کے بعد جاب کرنے کی بابت دریافت کیا تو رمیشہ کہنے لگیں ’’کبھی بھی نہیں میں بہت Struggle کرلی ہے اب بس میری خواہش ہے کہ میرے شوہر کام کریں اور میں گھر پر آرام۔ میرا خواب ہے کہ اپنے بچوں کی اچھی دیکھ بھال کروں اور اپنے شوہر کے لیے سجوں۔ میری والدہ ایک ٹیچر تھیں اور میں جانتی ہوں کہ ہم بہن بھائیوں نے کتنا مشکل وقت گزارا۔ گو کہ وہ مجبور تھیں مگر ہمیں جن لمحوں ان کی ضرورت ہوتی وہ ہمارے لیے روٹی کا بندوبست کرنے میں ہلکان ہورہی ہوتیں۔ میرے خیال میں عورت کی آزادی کو نوکری سے تعبیر کرنا سراسر بے وقوفی ہے‘‘

افشاں ایک سرکاری ادارے میں گریڈ 17 کی ملازمت کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ نوکری اپنے شوق اور کسی حد تک خود کو مصروف رکھنے کی خاطر کررہی ہیں۔ ’’میں شروع سے ہی سمجھتی تھی کہ عورت کی آزادی یہ ہے کہ وہ گھر میں دب کر نہ بیٹھے اور ماسی بن کر گھر والوں کے کام نہ کرے بلکہ گھر سے باہر نکلے اپنی تعلیم کا استعمال کرے اور کچھ بن کر دکھائے۔ اکلوتی بیٹی تھی تو والدین نے میری ہر خواہش کا احترام کیا۔ رشتے آتے مگر مجھے کچھ بننا تھا سو سب کو ٹھکرا دیا۔ والد اور والدہ کا انتقال ہوجانے کے بعد میں بالکل اکیلی رہ گئی ہوں۔ اب خود کو مصروف رکھنے کا بہترین حل جاب کرنا ہے اور اس کی بدولت مجھے اپنے اخراجات کے لیے کسی سے پیسے بھی نہیں مانگنے پڑتے۔

عمر کی 40 بہاریں دیکھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ زندگی میں آزادی، تحفظ اور اعتماد آپ کے اپنوں کے دم سے ہوتا ہے۔‘‘

مندرجہ بالا سب کہانیاں اس تحقیقی سفر کے دوران ملیں جس کا محرک یہ جاننا تھا کہ کیا عورت کی آزادی اس کے نوکری کرنے اور برابری کے حقوق کے دعوے کرنے میں پنہاں ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی کہانیاں ایسی ملیں جن میں خواتین کی اکثریت معاشی و معاشرتی وجوہات کی بنا پر نوکری کرنے پر مجبور ہیں۔ ان سب واقعات کا عمیق جائزہ لینے کے بعد جو نتائج دکھائی دیتے ہیں وہ اس امر کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ عورت کی آزادی اور حقوق کے علمبرداروں کو اس پہلو پر بھی نگاہ ڈالنی چاہیے کہ آخر یہ کونسا حق ہے کہ عورت دوہری مشقت کرے۔ درحقیقت حقوق نسواں کا نعرہ بلند کرکے ان کا مزید استحصال یوں کیا جاتا ہے کہ خواتین نوکری کے لیے باہر نکلیں اور پھر مردوں کے شانہ بشانہ ہونے کے چکر میں اپنا وہ حق بھی کھودیں۔ جس میں بنیادی طور پر ان کے نان و نفقہ کی ذمہ داری بھی نہ اٹھانی پڑے۔

پوری دنیا میں صرف33خواتین سی ای اوز

عالمی سطح پر خواتین کے لیے بہتر ورک پلیس کے لیے کام کرنے والی غیر منافع بخش کیٹلسٹ Catalyst کی جانب سے سال 2019ء کے اعدادو شمار کے مطابق خواتین مردوں کی نسبت نوکری کرنے میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ دنیا بھر میں نوکری کرنے والی خواتین کی شرح 39.0 فیصد ہے جبکہ 2019ء کے اعدادو شمار کے حساب سے دنیا کے بڑے ممالک میں نوکری کرنے والی خواتین کی شرح امریکہ 46.0 فیصد، یورپی یونین 46.0 فیصد، کینیڈا 47.01 فیصد، جاپان 43.7 جبکہ انڈیا میں 21.8 فیصد ہے۔

اس وقت دنیا کی 500 بڑی کمپنیوں میں صرف 33 خواتین CEO کے عہدے پر فائز ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین کو انتظامی اور اعلیٰ درجے پر پہنچانے کے علمبردار خود خواتین کو اس ضمن میں کیا حیثیت دیتے ہیں۔

The post کیاعورت کی آزادی اور اعتماد نوکری سے مشروط ہے؟  appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>