شاعری اب رنگوں کی زبان برتے گی، اشعار کینوس پر جلوہ گر ہوں گے۔ مصرعے نئے معنی، نئے مفہوم آشکار کریں گے!
یہ ایک منفرد منصوبے کا تذکرہ ہے، جو ایک بلاصلاحیت فن کار کی تخلیقی اپچ کا عکاس ہے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ شاہد رسام ان دنوں ’’گلزار اینڈ غالب‘‘ نامی منصوبے پر کام کر رہے ہیں، جس کے تحت اشعار غالب اور کلام گلزار کو ’’سررئیل ازم‘‘ کی تکنیک میں کینوس میں سمویا جائے گا۔ اِس میں پینٹنگز اور میورل تو ہوں گے ہی، مجسمے میں تراشے جائیں گے۔ غالب کے لگ بھگ سو اشعار کینوس پر اتارنے کا ارادہ ہے۔ گلزار صاحب کی نظمیں اور مصرعے بھی لگ بھگ اِسی تعداد میں فن پاروں کی صورت اختیار کریں گے۔ اشعار غالب کا انتخاب خود گلزار صاحب کریں گے۔
اور گلزار صاحب کے کلام سے انتخاب کا ذمہ ممتاز ادیب شکیل عادل زادہ کے سر ہے۔ توقع ہے کہ اِن تین افراد کا اشتراک برصغیر میں فن مصوری کو ایک نئی جہت عطا کرے گا۔ منصوبے کا ایک پہلو اور بھی ہے۔ اِس سیریز پر کام کرتے ہوئے ایک ایسا مرحلہ بھی آئے گا، جب گلزار صاحب سازوں پر کلام غالب پڑھیں گے، اور شاہد ’’لائیو‘‘ اُن شبدوں کو مصور کریں گے۔
پاکستان اور ہندوستان کے ساتھ ساتھ مغربی ممالک میں بھی اِن فن پاروں کی ایگزیبیشن ہوں گی۔ پہلی نمایش اِسی برس متوقع ہے۔اِس انوکھے سلسلے کا آغاز کیسے ہوا؟ اِس سوال کے جواب میں شاہد بتاتے ہیں؛ اردو شاعری اور ادب اوائل سے اُن کی توجہ کا محور رہے۔ مشتاق احمد یوسفی، جون ایلیا اور انور مقصود جیسے جویان علم کی صحبت نے شوق مطالعہ کو مہمیز کیا۔ غالب یوں تو کم عمری سے مطالعے میں ہیں، مگر ’’دُرودرشن‘‘ سے نشر ہونے والی غالب سیریز نے اِس قادر الکلام شاعر کے عشق میں مبتلا کر دیا۔ اِس یادگار کھیل کے پیش کار، گلزار سے اُنھیں محبت ہوگئی۔ گیت اُن کے اپنے دل کی آواز معلوم ہونے لگے۔
لگ بھگ تین برس قبل یہ خیال ذہن میں کوندا کہ کیوں کہ کلام غالب کو کینوس پر منتقل کیا جائے۔ کہتے ہیں،’’یوں تو چغتائی، صادقین اور حنیف رامے جیسے آرٹسٹوں نے غالب پر کام کیا، مگر بڑے پیمانے پر کلام غالب کو موضوع نہیں بنایا گیا۔ جب میں نے surrealist پینٹر کے طور پر دیکھا، تو مجھے غالب کے ہاں surrealist امیجری نظر آنی شروع ہوئی۔ دراصل Surrealism ایک بڑی تحریک تھی، جس نے آرٹسٹوں کو انسان کے لاشعور اور خواب کے درمیانی مسائل اور کیفیات سے متعلق کام کرنے کی راہ سجھائی۔ مجھے غالب کے ہاں وہ رنگ نظر آنے لگا۔ اِس پر سوچ بچار کے بعد میں نے گلزار صاحب سے رابطہ کیا۔ اُنھیں میرا خیال بہت پسند آیا۔ مجھے ہندوستان آنے کی دعوت دی۔ گذشتہ برس، دسمبر میں میرا ہندوستان جانا ہوا۔ گلزار صاحب سے ہونے والی نشستوں میں یہ منصوبہ پھیلتا چلا گیا۔ اور پھر اِس نے موجودہ شکل اختیار کی۔‘‘
گلزار صاحب کی جانب سے اِس منصوبے کے اعلان پر ہندوستانی میڈیا کا ردعمل بہت ہی مثبت رہا۔ خاصا چرچا ہوا۔ ٹائمز آف انڈیا، مڈ ڈے، مہاراشٹر ٹائمز، ٹی وی نائن اور این ڈی ٹی وی نے اُن کے انٹرویوز کیے۔غالب پر تو کام کا فیصلہ کر چکے تھے، گلزار کے اشعار کو رنگوں میں ڈھالنے کا خیال کیوں کر آیا؟ اِس بابت کہنا ہے،’’گلزار صاحب شاید برصغیر کے وہ اکلوتے شاعر ہیں، جو گذشتہ پچاس برس سے دونوں ملکوں کے درمیان محبت اور امن کی بات کر رہے ہیں۔ غالب کا اُن جیسا عاشق میں نے نہیں دیکھا۔ اِن ہی عوامل کی وجہ سے یہ خیال تشکیل پایا۔‘‘اُنھوں نے گلزار صاحب کا ایک پورٹریٹ بنایا تھا۔ 45×60 انچ کے اِس پورٹریٹ کو گلزار صاحب نے بہت پسند کیا۔ ’’اُنھوں نے بہت محبت کا اظہار کیا۔ ساتھ ہی کہا، آپ نے اتنا بڑا پورٹریٹ بنایا کہ ہم تو زیربار آگئے۔ ہمارے گھر میں تو ہمارے رہنے کی جگہ نہیں۔ میں نے یہی کہا کہ یہ نذرانۂ عقیدت ہے۔ میری محبت ہے، جسے میں نے پینٹنگ کی صورت پیش کیا۔ ساتھ ہی کہا کہ جناب آپ نے بڑا کمال کیا۔ غالب کو عام آدمی کے دل میں اتار دیا۔ اُنھوں نے جواب دیا؛ بھئی ہم نے کہاں کمال کیا۔ جب کبھی غالب کو پڑھتے ہیں، وہ کچھ عطا کر دیتا ہے، ہم لوگوں میں بانٹے چلے جاتے ہیں۔‘‘
شاہد صاحب ایک نئے زاویے سے غالب کو برتنے کے خواہش مند ہیں۔ ’’میرا راستہ ’سررئیل ازم‘ سے ’رئیل ازم‘ کی طرف ہے۔ اس میں بہت سی چیزیں شامل ہوجاتی ہیں۔ انسان سے انسان کا رشتہ، انسان کا خدا سے رشتہ۔ ناسٹلجیا۔ غالب اور گلزار کے کلام کی surrealist فارم کسی نے پینٹ نہیں کی۔ میں پہلا آدمی ہوں۔ اور خوش نصیب ہوں کہ مجھے گلزار صاحب اور شکیل عادل زادہ جیسے افراد کا ساتھ حاصل ہے۔‘‘
کام کا طریقۂ کار یہ ہے کہ ہر دو تین روز بعد گلزار صاحب سے ٹیلی فون پر بات ہوتی ہے، جسے وہ thought provoking سیشن قرار دیتے ہیں۔ نئی نئی باتیں سامنے آتی ہیں۔ ان ہی مکالموں کے طفیل وہ غالب کے ناسٹلجیا تک پہنچے، اس کے سیاسی نظریات بازیافت کیے، جو جلد اُن کے فن پاروں سے جھلکیں گے۔
گلزار صاحب کی ایک نظم ’’انسان اور چہرے‘‘ پر وہ میورل بنا چکے ہیں۔ اِس فن پارے کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اِس منصوبے کو کس سطح پر لے جانے، کس ڈھنگ سے آگے بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ معروف ہندوستانی اداکارہ، راکھی کا بھی اُنھوں نے حالیہ دنوں میں ایک پورٹریٹ بنایا ہے، جس کو ہندوستان میں بہت پسند کیا گیا۔ادبی ذوق کے حامل شاہد رسام فنون لطیفہ کی اصناف میں تفریق کرنے کے قائل نہیں۔ وہ اُنھیں فن کار کی تخلیقی صلاحیت کا پرتو قرار دیتے ہیں۔ ’’کہیں رنگوں سے شاعری ہوتی ہے۔ کہیں لفظوں سے مصوری ہوتی ہے۔ دراصل یہ اصناف ایک خاص سطح پر مل جاتی ہیں۔ اور اِس کی کئی مثالیں ہیں۔‘‘
اس منصوبے کا ایک فلاحی پہلو بھی ہے۔ بہ قول اُن کے،’’فراز کا ایک شعر ہے:
شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنی حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
یہی میرا نظریہ ہے۔ اِس سیریز کی نمایشوں سے ہونے والی آمدنی کا بڑا حصہ سلمان خان کی این جی او Being Human کو جائے گا۔ خود سلمان بھی اِس منصوبے میں شامل ہوں گے۔‘‘
اُن کے نزدیک آرٹ اینڈ کلچر وہ اکلوتا پُل ہے، جو دو ممالک کو قریب لاسکتا ہے۔ ’’فقط آرٹ ہی کے وسیلے افہام و تفہیم کی بات ہوسکتی ہے، کیوں کہ فن کی زبان آفاقی ہوتی ہے۔ اِس میں کوئی تیرا میرا نہیں ہوتا۔‘‘ یقین رکھتے ہیں کہ فنون لطیفہ کا فروغ عدم برداشت کے رویے میں کمی لاسکتا کہ اِس سے دلوں میں گداز پیدا ہوتا ہے۔ اِس ضمن میں ٹائم میگزین کی ایک ریسرچ کا بھی حوالہ دیتے ہیں، جس کے مطابق شاعری، موسیقی اور مصوری بہتر انسان کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ مغرب میں اس تکنیک کو برتا بھی جارہا ہے۔
مستقبل کے منصوبے زیربحث آئے، تو بتانے لگے، اُنھوں نے ’’انسان‘‘ کے زیر عنوان کانسی کا 25 فٹ اونچا مجسمہ تیار کیا ہے، جو آرٹس کونسل، کراچی کے نزدیک نصب ہوگا۔ اِس مجسمے کا وزن پانچ ہزار کلو ہے۔ اس سیریز میں ایک اور مجسمہ بنایا ہے، جو دہلی میں لگایا جائے گا۔
کہانی ایک مصور کی۔۔۔
اِس انوکھے کلاکار کی کہانی جدوجہد سے عبارت ہے، اور اُس قدیم نظریے کو مزید پختہ کرتی ہے کہ محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی، صلاحیت اپنی جگہ بنا لیتی ہے۔
شاہد رسام کی تخلیقی اپج نے اُنھیں دور نوجوانی ہی میں نمایاں کاروں کی صف میں لاکھڑا کیا۔ آج ان کا شمار پاکستان کے اہم مصوروں میں ہوتا ہے۔ بیرون ملک بھی جھنڈے گاڑ چکے ہیں۔
ایک نچلے متوسط گھرانے میں وہ پیدا ہوئے۔ حیدرآباد میں آنکھ کھولی۔ کورنگی میں پروان چڑھے۔ بچپن ہی سے ڈرائنگ سے لگاؤ تھا۔ والدہ حوصلہ افزائی کیا کرتیں، مگر غربت ایسی تھی کہ شاہد ڈرائنگ کی کاپی خریدنے سے خود کو قاصر پاتے۔ کاپی نہ ہونے کے باعث ایک روز ڈرائنگ کے استاد سے کڑی سزا ملی۔ اس واقعے نے باغی بنا دیا۔ بغاوت کے زیراثر لگے بندھے کلیوں کے خلاف ہوگئے۔ اپنا راستہ خود بنانے کی خواہش دہکنے لگی۔ جس زمانے میں صادقین فریئر ہال میں میورل بنایا رہے تھے، گیارہ سالہ شاہد گھنٹوں اُنھیں دیکھا کرتے۔ پھر معروف آرٹسٹ، اقبال مہدی سے ملاقات ہوئی۔ پورٹریٹ بنانا اُن ہی سے سیکھا۔ اگلے پندرہ برس ’’رئیل ازم‘‘ کے میدان میں مصروف رہے۔ نمایشوں میں حصہ لیا۔ ڈائجسٹوں کے لیے اسکیچ بناتے رہے۔ ادیبوں، شاعروں سے رابطہ رہا۔ جون ایلیا نے اُن کے نام کے ساتھ ’’رسام‘‘ کا لاحقہ تجویز کیا تھا۔ عربی زبان کے اِس لفظ کے معنی ہیں، مصور!
جدوجہد کے ساتھ تعلیمی سفر جاری رہا۔ 95ء میں جامعہ کراچی سے جیولوجی اور 98ء میں اردو میں ایم اے کیا۔ 99ء میں برٹش کونسل کی اسکالر شپ پر لندن چلے گئے۔ سینٹ مارٹن اسکول آف آرٹس سے اس فن کی باقاعدہ تربیت حاصل کی۔ وہیں ایک بیلے ڈانسر کو دیکھ کر “Oldest Profession Prostitution” کے موضوع پر مقالہ لکھنے کا خیال آیا۔ یہی مقالہ ’’رئیل ازم‘‘ سے ’’سررئیل ازم‘‘ کی جانب لے گیا۔
نمایشوں کا سلسلہ 1991-92 میں جامعہ کراچی میں ہونے والی سولو ایگزیبیشن سے شروع ہوا۔ جن 30 نمایشوں میں حصہ لیا، اُن میں سے 17 انفرادی تھیں۔ 2011 میں واشنگٹن ڈی سی میں، پاکستانی سفارت خانہ میں، اُن کے فن پاروں کی یادگار نمایش ہوئی۔ ٹورنٹو کے اُس پروگرام کا تذکرہ لازم ہے، جہاں مشہور آکسٹرا، کاؤنٹر پوائنٹ کی دھنوں پر انھوں نے ’’لائیو‘‘ پینٹنگ کرکے خوب داد بٹوری۔ وہ فن پارہ پچاس ہزار ڈالر میں نیلام ہوا۔ رقم زلزلہ زدگان کے لیے وقف کر دی گئی۔ برطانیہ، دبئی، اٹلی، فرانس، بیلجیم، اسکاٹ لینڈ اور انڈیا میں ہونے والی نمایشوں میں بھی شرکت کی۔ کمرشل بنیادوں پر خاصا کام کیا۔ ملکی اور بین الاقوامی اداروں کے لیے فن پارے تخلیق کیے۔
یونیورسٹی آف بوسٹن، یونیورسٹی آف ٹورنٹو، یونیورسٹی آف آرٹس، لندن اور یو اے ای یونیورسٹی العین میں وہ لیکچرز دیتے رہے ہیں۔ گذشتہ برس ممبئی کے جے جے اسکول آف آرٹس میں لیکچر دینا ایک یادگار تجربہ رہا۔
91ء میں شاہد رسام نے جامعہ کراچی کی جانب سے بہترین آرٹسٹ ایوارڈ وصول کیا۔ 94ء میں قائد اعظم پورٹریٹ فرسٹ پرائز اُن کے حصے میں آیا۔ 95ء میں قائد اعظم اکیڈمی ایوارڈ اور اگلے برس قائد اعظم یوتھ ایوارڈ اپنے نام کیا۔ 2000 میں یو اے ای یونیورسٹی العین سے سال کے بہترین فن کار کا اعزاز پایا۔
مجسمہ سازی بھی شناخت کا مضبوط حوالہ ہے۔ اُن کے دو پیس ’’گھومتا دُرویش‘‘ اور ’’رقص زنجیر‘‘ کو شایقین فن نے بہت سراہا۔
2011 میں اُن کے فن پاروں پر مشتمل کتاب “Worshiper and Sinner” شایع ہوئی۔ کراچی کے علاوہ ٹورنٹو میں بھی اُن کا اسٹوڈیو ہے۔