کرسٹینا نے نہایت خوشی خوشی ساتھی خلابازوں کے ساتھ اپنا سامان باندھااور اپنے اسٹیشن کے چیمبر کی صفائی وغیرہ کرنے کے بعد وہ واپسی کے لیے بالکل تیار تھی۔
اپنے گھر، زمین پر واپسی کے لیے ایک نہایت خوش گوار احساس جو دنیا میں رہنے والے ہر انسان، مرد عورت اور بچے کو اپنے گھر کو لوٹتے وقت مسرت دیتا ہے، اور پھر وہتو ایک طویل جدوجہد اور تھکادینے والی زندگی سے واپس ہورہی تھی۔ زمین پرا پنے گھروںمیں گرم اور آرام دہ بستر پر سونے والے ہم لوگ اس خلاء میں معلق زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکتے جس کا کہ احساس ایک خلاباز ہیبخوبی جانتا ہے۔
اس نے اپنی 41 سالہ زندگی کا تقریباً ایک سال خلاء میں بسر کرلیا تھا۔ جمعرات کے دن وہ 9:30(سویرے ) مشرقی وقت کے مطابق سوئیز MS-13پر سوار ہوچکی تھی۔ 5 فروری 2020 ء سے ایکسپیڈیشن۔61 اور 62 کے کمانڈ ر کی تبدیلی ہوچکی ہے اب خلائی اسٹیشن کی کمانڈر روسی خلاباز اَولیِگ اِسکریپوچکا کے ہاتھوں میں آگئی ہے، کیوںکہ اٹالین خلاباز پاری میتانو خلائی اسٹیشن سے کرسٹینا کوچ اور روس کے الیگیذینڈر کے ساتھ ہی زمین پر واپس لوٹے ہیں ان خلابازوں کو خلائی جہاز سوئیز ایم۔ ایس 13 سے الوداع کیا گیا۔ یہ خلاباز مدت سے خلائی اسٹیشن میں قیام پذیر تھے ان کی لینڈنگ مشرقی وقت کے مطابق 3:18 پر قازقستان کے خلائی مرکزDzhezkaza” ” میں ہوئی تھی۔
اب تک خواتین کو صرف خلائی مہمات میں مردوں کے ساتھ شریک کار بنایا جاتا رہا ہے جب کہ انہوں نے خلاء کی سرگرمیوں (EVA) ، میں کسی قسم کا حصہ نہیں لیا تھا۔ سنہ1984 ء سے خاتون خلاباز یوتلانہ کی اولین خلائی چہل سے اب تک 15 خواتین خلائی چہل قدمیاں کرچکی ہیں۔ ان میں سوائے ایک کے تمام خواتین امریکی ہیں۔
اب تک سب سے زیادہ خلاء میں وقت گزارنے والی خاتون کرسٹینا کوَچ بن چکی ہیں جو کہ پورے گیارہ ماہ ISS پر رہائش رکھ چکی ہیں۔2019 ء میں امریکی خاتون خلابازوں کی طرف سے خلاء میں ایک نیا ریکارڈ قائم ہوا ہے جو 18 اکتوبر کو دو خاتون خلابازوں نے تمام عورتوں پر مشتمل عملے کے ساتھ خلاء میں ایک ساتھ خلائی چہل کرکے بنایا تھا بلکہ انہوں نے خلائی سرگرمیاں بھی انجام دے کر خلاء کی تاریخ میں نیا ریکارڈ قائم کردیا ہے۔ ان میں کرسٹینا بھی شامل تھی۔ یہ چہل قدمی اور اس سے متعلق سرگرمی EVA کئی عشروں کی محنت کا نچوڑ ہے۔ اس کے ساتھ ہی کسی خاتون خلاباز کا امریکا کی جانب سے طویل عرصے تک لگاتار خلاء میں رہنے کا ریکارڈ بھی قائم ہوچکا ہے۔ یہ ریکارڈ کرسٹینا کوَچ نے مسلسل خلاء میں 328 دن رہتے ہوئے قائم کیا ہے اور 6 فروری کو وہ اپنے ساتھی خلابازوں کے ہمراہ زمین پر واپسی لوٹ آئی ہیں۔
خلائی سفر کے دوران خلابازوں کو خلاء کے ماحول کا جائزہ لینے کے لیے اپنے خلائی جہاز یا اسٹیشن سے باہر نکلنا پڑتا ہے، یہ بڑا ہی نازک وقت ہوتا ہے جس میں اپنی حفاظت کے لیے خلابازوں کو مخصوص قسم کا خلائی لباس پہنا لازمی ہوجاتا ہے تاکہ ان کا جسم خلاء کے زبردست دباؤ کو برداشت کرسکے۔ خلاء میں اس طرح باہر نکلنا اسپیس واک یا ’’خلائی چہل قدمی‘‘ کہلاتا ہے۔ انہیں خلاء کے جائزے کے علاوہ اپنے اسٹیشن کی بھی دیکھ بھال کے لیے ایسا کرنا پڑتا ہے۔ خلاء میں کی جانے والی اس طرح کیسرگرمیوں کو ایکسٹر ویکولر ایکٹیویٹی (EVA) کہتے ہیں ناسا کے حکام نے خواتین خلابازوں کی پرفارمینس کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ وہ خلاء میں مردوں کی طرح یکسوئی سے کام کرتی ہیں۔
زمینی مدار میں خلائی گھر (اسٹیشن) ایک عارضی انسانی رہائش گاہ ہوتی ہے۔ بنیاد طور پر یہ ایک مصنوعی سیارچہ (سیٹیلائٹ) ہی ہوتا ہے جو خلاء میں گردش پذیر رہتا ہے۔ اس کا مقصد خلاء میں ایک ایسا پلیٹ فارم یا اڈا تعمیر کرنا ہوتا ہے جہاں خلائی سفر کے دوران مسافر اور خلاء میں کام کرنے والے ورکرز رہ سکیں۔ خلائی اسٹیشن ISS کے باہر نصب بیٹریاں بجلی مہیا کرتی ہیں جو کہ اسٹیشن پر لگے بڑے بڑے سولر پینلوں (Arrays) سے خارج ہونے والی بجلی سے چارج ہوتی رہتی ہیں اور بجلی جمع کرتی ہیں۔ حالیہ کرسٹینا کوچ اور جسیکا میر کا مشن اسی یونٹ کی بیٹریوں کو دست یاب نئی بیٹریوں کی تبدیلی کے لیے کیا گیا جس سے بجلی کی مقدار میں اضافہ ہوگیا ہے۔ خلاء میں زیادہ سے زیادہ رہنے کا مقصد یہ ہے کہ خلاء کی کشش ثقل میں رہنے کا انسان کو عادی بنایا جائے تاکہ طویل خلائی سفر جیسے چاند اور سیّارہ مریخ کی طرف پیش قدمی کو ممکن بنایا جائے اور ان کی صحت کا خیال بہتر طریقے سے رکھا جاسکے۔
خلاء میں کشش ثقل نہ ہونے کے برابر ہے اسی لیے یہاں صنعتی لحاظ سے نئے مادے بنائے جاسکتے ہیں، ایسی دھاتوں کو ملاکر نئی مرکبات بنائے جاسکتے ہیں جوکہ زمین پر کشش ثقل کے باعث یکجا نہیں ہوپاتیں اور میڈیسن کے حوالے سے بھی بیماریوں کے خلاف جان بچانے والی ادویات کو کم خرچ اور موثر طریقے سے بنایا اور ترقی دی جاسکتی ہے۔ ان ہی مقاصد کے لیے خلائی اسٹیشن پر ایک لیب قائم ہے جس میں یورپی خلائی ایجنسی (ESA) کے گیارہ ممالک اور جاپان تعاون کررہے ہیں۔ حالیہ مشن ایکپیڈیشن 61 اور 62 میں اس لیبارٹری کی تحقیق کی بڑی اہمیت ہے جس پر متواتر کئی سالوں سے تحقیقاتی کام کیا جارہا ہے۔
امریکا قومی خلائی ایجنسی ناسا کی دونوں خلاباز خواتین جسیکا اور کرسٹینا آپس میں بہترین دوست بھی ہیں جنہوں نے تاریخ میں پہلی بار سو فی صد خواتین عملے پر مشتمل مشن میں ایک ساتھ یادگاری پر فارم کیا ہے۔ ایک ساتھ خلائی سفر کے خواب دیکھنے، ساتھ جدوجہد کرنے والی یہ دونوں سہیلیوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ وہ خلاء کی تاریخ میں ایک ساتھ کوئی ریکارڈ بھی بنائیں گیں۔ دونوں دوستوں نے ناسا ایک ساتھ جوائن کیا تھا۔ خلابازوں کی کلاس میں انکا نک نیم “Eight Balls” ہے۔ 1 4سالہ کرسٹینا کَوچ الیکٹریکل انجنیئر ہیں جب کہ ان کی ہم عمر جسیکامیر ایک میرین بائیلوجی ڈاکٹر ہیں۔ گرانڈ ریپڈز، مشی گن، امریکا میں 1979 ء میں پیدا ہونے والی کرسٹینا(Christina Hammock Koch) ناسا کے 2013 ء کے گروپ کلاس سے تعلق رکھتی ہے۔ انہوں نے الیکٹریکل انجنیئرنگ اور فزکس میں گریجویٹ کرنے کے بعد نارتھ کیرولینا۔ اسٹیٹ یونیورسٹی سے ’’ماسٹر آف سائنس‘‘بھی الیکٹریکل انجنیئرنگ میں کیا ہے۔
کوچ خلائی اسٹیشن پر14 مارچ 2019 ء کو پہنچی تھیں اور یہ اب تک 43 ویں اورISS کی مرمت و دیکھ بھال کے لیے 22ویں خلائی چہل قدمی تھی جس میں مکمل طور پر خواتین عملہ شامل تھا۔ پہلی تاریخی جڑواں خواتین کی چہل قدمی اپنے شیڈول کے مطابق 5 گھنٹے اور 32 منٹ تک جاری رہی اور ہدف کو پور ا کیا گیا۔ کرسٹینا نے گاڈرڈ(Goddard)خلائی مرکزرہتے ہوئے سائنسی آلات کا استعمال کیا اور کاسمولوجی (کائنات) اور آسٹروفزکس (فلکیاتی طبیعات) کا مطالعہ کیا ہے جب کہ ان کی ساتھی خلاباز جسیکا میر نے ناسا کی صفر کشش ثقل پر انسانی جسم کے اثرات کا مطالعہ کیا ہے اور سخت ماحولیاتی حالات پر جانوروں کی فزیالوجی (جسمانی ساخت) پر کام کرچکی ہیں۔ جسیکا میر 19 ستمبر سے آئی ایس ایس پر ہیں۔ امریکا بھر کے طول وعرض میں اس مشن کو بہت زیادہ سراہا گیا ہے اور اسے خواتین اور لڑکیوں کے لیے ایک تقلیدی مثال سمجھا گیا ہے۔
حالیہ کام یاب مشن پانچ خلائی چہل قدمیوں کے پروگرام تھا اور اُس خلائی مشن کاحصہّ تھا جس کا نام “Expedition” ہے، جس میں چھ بین الاقوامی خلابازوں پر مشتمل ٹیم شامل تھی۔ خلائی اسٹیشن کو وجود میں آئے ہوئے 20 سال مکمل ہوگئے ہیں اور 19 سالوں میں اس پر60 تجربات کیے جاچکے ہیں۔
پچھلے سال شروع ہونے والا یہ 61 واں تجرباتی مشن تھا جسے ایکسپیڈیشن 61 کا نام دیا گیا اور اب ایکس۔ 62 مشن شروع جاری ہے۔ اس میں چہل قدمیوں اور خلائی سرگرمیوں کے ساتھ لیب میں سائنسی تجربات کیے جارہے ہیں۔ اس ٹیم میں اب جیسکا کے علاوہ ناسا کے خلاباز اینڈیو مورگن، روس انٹر کاسموس اَولیِگ اِسکریپوچکا(Oleg Skripochka) شامل ہیں جو کہ اب اس تجرباتی مشن ایکس۔ 62 کے کمانڈر بن چکے ہیں۔ خلائی اسٹیشن پر ExP-62 کے حوالے سے جو سائنسی تجربات کیے جارہے ہیں ان میں پرواز سے پہلے اور پرواز کے بعد صفر کشش ثقل پر بائیولوجیکل صحت کے اثرات کا جائزہ، خون دماغ پر کیسا ردعمل رکھتا ہے، کینسر تھراپی (علاج)، انسانی وجود کے بنیادی مادے DNA کی سیکوئنس اور خلائی زراعت اور روبوٹکس ٹیکنالوجی پر تحقیقات وغیرہ شامل ہیں۔ اس مشن میں کینیڈ ا کے روبوٹکس بازو Canadarm2 نے بھی خدمات انجام دیں۔
کرسٹینا کوچ نے ایکسپیڈیشن 59-60 کے ساتھ یہ مشن14 مارچ کو جوائن کیا تھا جس کے عملے میں خاتون نِک ہیوج (Nick Hugue) اور روسی خلانورد الیکسی (Alexy Ovchinin) زمینی کے مدار میں محو گردش تھے۔ ایکسپیڈیشن۔62 کی سرکاری طور پر شروعات اسی وقت ہوئی جب ان کے ساتھی خلاباز ان سے جدا ہوئے تھے۔ اب خلائی اسٹیشن پر تین خلاباز بدستو رہائش پذیر ہیں جب کہ ان خلابازوں کی زمین پر واپسی اپریل 2020 ء تک متوقع ہے۔
کرسٹینا نے خلاء میں رہتے ہوئے کسی اکیلی خاتون کا سب سے طویلریکارڈ بنایا ہے۔ اب تک خلاء میں سب سے زیادہ مجموعی وقت گزارنے والی امریکا ہی کی خاتون پیگی وٹسن ہیں جنہوں نیسب سے زیادہ 665 دن خلاء میں رہ کر نمبر ون پوزیشن حاصل کی۔ دوسرے نمبر پر امریکی خلاباز جیمز ولیمز (534)اور اسکاٹ (520) تیسری پوزیشن پر آگئے ہیں۔ اس طرح کوچ بھی اسکاٹ کیلی کے بعد دوسری دنیا کی سب سے زیادہ خلاء میں زندگی گزارنے والی امریکی خلاباز بن چکی ہیں۔
خلائی اسٹیشن آئی ایس ایس پر رہتے ہوئے کرسٹینا نے اپنے قیام کے دوران 6 خلائی چہل قدمیوں میں حصّہ لیا جن میں 42 گھنٹے، 15 منٹ صرف ہوئے تھے جب کہ 15 اور 20 جنوری 2020 ء کو دوبارہ اسی سلسلے کے ایک اور آپریشن کیا گیا ہے۔ یہ مہمات پچھلے سال 2019 ء میں شروع ہوئی تھیں۔ کسی اکیلی خاتون کا خلاء میں لگاتار یہ طویل ترین سفر ہے جو کہ 5 فروری کو 328 دنوں کے اختتام پذیر ہوا۔ کرسٹینا کوچ نے خلائی اسٹیشن میں رہتے ہوئے زمینی مدار کے 5,248 چکر لگائے اور 139 ملین میل کی مسافت طے کی ہے جب کہ خلائی اسٹیشن زمین کے مدار میں ایک چکر 90 منٹ میں پورا کرتا ہے، جہاں 16 مرتبہ سورج کے طلوع و غروب کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔
کرسٹینا کے زمینی مداری چکروں (5248 ) کا مجموعی فاصلہ چاند پر 291 چکروں (ٹرپس) کے مساوی بنتا ہے، یعنی چاند پر پہنچنا اور پھر واپس لوٹنا۔ دو درجن سے زائد سوئیز خلائی کارگو جہازوں کی رسد (سپلائی) امریکا، جاپان و روس کی جانب سے بھجوائی گئی خاتون خلاباز کا سب سے لمبا ریکارڈ اب تک کسی اکیلے مرد خلاباز کے340 دنوں کے ریکارڈ سے محض 12 دن کی دوری پر تھا۔ مرد خلاباز کا یہ دورانیہ امریکی خلاباز کیلی اسکاٹ کے ذریعے 2015-16 میں قائم کیا گیا تھا۔ اس طرح کرسٹینا اب امریکی خلابازوں میں ساتویں پوزیشن پر آگئی ہے اور دنیا کے خلابازوں کی رینکنگ میں ان کا نمبر 50 واں ہوچکا ہے۔
مشن کے دوران انہوں نے 210 سے زائد تحقیقاتی کاموں میں ہاتھ بٹایا جو کہ ناسا کے ’’آرتھیمس مشن‘‘ پروگرام کے تحت کیے جارہے ہیں جن کا مقصد چاند پر انسانوں کو دوبارہ بھیجنا اور واپس لانا، مریخ پر زندگی کی تلاش اور انسانی وجود کے عمل دخل کے اہداف کا حصول ہے۔ انسانی جسم کا بے وزنی اور تاب کاری (ریڈی ایشن) اور دباؤ (اسٹریس) میں ردِعمل اور طویل عرصے کی خلائی پروازوں میں وہ خود کو کیسے ایڈجسٹ کرتا ہے؟، بے وزنی میں متاثرہونے والی ہڈیاں، ریڑھ کی ہڈی اور پٹھوں میں کمی اور ان کے ٹوٹنے کا مشاہدہ ان اہداف میں شامل ہے، کیوںکہ لمبے عرصے میں انسانی ریڑھ کی ہڈی کی طاقت متاثر ہوتی ہے اور پٹھوں میں تنزلی ہوجاتی ہے اور ریڑھ کی ہڈی کے ٹوٹنے کا احتمال رہتا ہے، اسے ورزشی مشینوں کے ذریعے قائم رکھا جاتا ہے۔
خوابوں سے گزر کر حقیقت کو پالینے تک کرسٹینا کوچ کی اسپرٹ قابل تحسینرہی ہے۔ انہوں نے گیارہ ماہ تک ایک ایسی تنگ جگہ پر گزارے ہیں جہاں اٹھنے بیٹھنے، سونے، جاگنے کے معمول ہماری روزمرہ زندگی سے یکسر مختلف ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود کوچ کے عزم و حوصلے میں ذرا کمی نہیں آئی بلکہ مزید پالینے کی جستجو موجود ہے۔ ان کا شوق اور جنون بجائے نیچے آنے کے مزید بڑھ گیا ہے۔
خلاء میں رہتے ہوئے ان کی کیا سوچ رہی تھی اور اب واپس گھر پہنچنے کے بعد وہ اَن دنوں کو کیسے یاد کر رہی ہیں اور اب اپنے مستقبل کے بارے میں ان کی سوچ کیا ہے؟ زمین پر واپسی پر اس باہمت خاتون کو کچھ زیادہ پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔ طویل عرصے خلاء میں رہائش کے بعد خلابازوں کو کشش ثقل کے زبردست دباؤ کا سامنا ہوتا ہے اور ان کو اپنا وزن کئی گنا بھاری لگتا ہے، جب کہ کوچ کے بقول مجھے زمین پر دوبارہ معمول پر آنے میں زیادہ دقت کا سامنا نہیں ہورہا ہے۔ وہ اپنے آپ کو زمینی کشش ثقل سے ہم آہنگ کررہی ہیں۔ وہ اپنی فیملی کے ساتھ بہت خوش ہیں اور پالتو کتے LBD کے ساتھ کھیلتی ہیں۔
ان کے کچن میں خلاء سے لائے ہوئے کھانے جن میں سالسا اور چپس شامل ہیں وافر مقدار میں رکھے ہیں، جو کہ انہیں خلاء میں کھانے کے لیے دیے جاتے تھے اور ان میں سے چپس تو ان کا پسندیدہ کھانا رہا ہے۔ جانسن خلائی مرکز پر اخباری رپورٹروں کو بیان دیتے ہوئے کرسٹینا نے اپنے جذبات کی کھل کر ترجمانی کر ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنے آپ کو واقعی ایک خوش قسمت عورت سمجھتی ہوں جسے زمین پر لینڈنگ کے وقت لوگوں کی ایک بڑی تعداد خوش آمدید کہنے کے لیے موجود تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ میرے توازن کو عادی ہونے میں تھوڑا ہی وقت لگا ہے جب کہ ابھی اپنے پٹھوں میں کچھ زخم محسوس کررہی ہوں مجھے اپنے سر کو تھام کر محنت کرنا پڑتی ہے۔ مجموعی طور پر یہ بہت آسان منتقلی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ خلائی اسٹیشن سے زمین پر آنے کے دو منٹ بعد ہی انہوں نے بہت سارے لوگوں کے چہرے کوئی سال کے بعد ایک ساتھ ایک جگہ دیکھے ہیں، تو وہ لمحات نہایت دل چسپ تھے۔ تب ان سے بات چیت اور بھی لطف انگیز رہی۔ ہم زمین پر زندگی کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو معمولی سمجھتے ہیں حقیقت میں وہ بڑی اہمیت کی حامل ہیں اور یہی وہ خاص چیزیں ہیں جن کے لیے مجھے اپنے گھرواپس لوٹنا ہی تھا۔ انہوں نے اپنے چھوٹے سے براؤن کتّے سے ملنے کے بارے میں کہا کہ یہ یقین سے کہنا مشکل ہے کہ ہم دونوں میں کون زیادہ جوش سے ایک دوسرے سے ملا۔ سونے کے بارے میں وہ کہتی ہیں کہ خلاء کی نیند میں میں نے آج تک کا سب سے زیادہ سکون پایا ہے۔ خلاء نہ زیادہ گرم ہے نہ زیادہ سرد ہے۔ نہ سوتے وقت کروٹ لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ خلائی بستر (بیگ) میں اپنے آپ کو بس تیرتا ہوا محسوس کرتی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسی کوئی شے نہ تھی جسے خوش گوار کہا جاسکے۔ اسٹیشن کی ’’لیب‘‘کی مہک یا وزرش کی جگہ (جم)، وہ ایسا چھوٹا مکان ہے جس میں چھ افراد بمشکل سماسکتے ہیں۔ یہاں خوشبو والے صابن، لوشنز، سب کا ہی استعمال ممنوع ہوتا ہے کیوںکہ یہ کیمیکل سے بنے ہیں جو ہمارے اسٹیشن کی فضاء (ہوا) کو صاف رکھنے والے نظام کو نقصان پہنچاسکتے ہیں، جن پر ہماری زندگی کا دارومدار ہوتا ہے۔ یہاں آگ کا خیال بھی بُرا ہے، اسی لییوہاں موم بتیاں بھی نہیں ہوتیں۔ اس جگہ کی انوکھی بو ہے جسے خوشبو کہہ سکتے ہیں جب ہم اسٹیشن کی کھڑکی کھولتے ہیں تو وہاں ایک مخصوص بو کی موجودگی ظاہر ہوتی ہے۔ میرے خیالمیں یہ زنگ آلود دھات جیسی مہک ہے۔ یہ بو آنے والے کئی سالوں تک میری یادوں کو تازہ کرتی رہے گی۔ میرے نزدیک اچھی خوشبو کی تعریف ہے کہ جیسے تازہ کٹی گھاس، ہوا میں نمکین پانی، ناریل، لیونڈر (خوشبو دار جھاڑی) اور موم بتیاں۔ یہ بہت آسان تشکیل نو ہونا چاہیے۔
نہانے دھونے اور کپڑیبدلنے کے بارے میں کرسٹینا نے بتایا کہ خلاء میں نہانے کے لیے ایک تولیے کو دوبارہ ہائیڈریٹ کیا جاتا ہے جس میں صابن نہیں ہوتا۔ ہم اس تولیے کو ایک ہفتے میں دو دن استعمال کرتے ہیں، یعنی دو شاور، دو تولیے۔ اسی تولیے میں خود کو خشک کرتے ہیں اور یہ ایک ہفتے چلتا ہے۔ وہاں بنا شیمپو کے ہی بالوں کو دھونا ہوتا ہے، پانی جلد سے ٹکراتا ہے اور وہیں بیٹھ رہتا ہے۔ انگلیوں پر پانی کے بہنے کا احساس بھلانا پڑتا ہے جوکہ ہماری اصل زندگی میں عام ہوتا ہے۔ یہاں اسٹیشن پر کپڑے ہم اس وقت تک پہنتے ہیں جب تک کہ انہیں پھینک دینے کی ضرورت نہ پڑجائے۔
انڈرویئر دو دن، پتلون ایک ماہ تک، ہم ان استعمال شدہ چیزوں کو اسٹیشن سے منسلک کوڑے دان کی نذر کردیتے ہیں جو کہ کارگو گاڑی پر بندھا رہتا ہے اور نئی رسد کی آمد پر ڈسپوز کیا جاتا ہے۔ میں وہاں سوچتی تھی کہ مجھے گھر واپس جاکر دوبارہ سے کپڑوں کے انتخاب کی الجھن کا سامنا کرنا پڑے گا جو کہ خلاء میں نہایت محدود رہا ہے۔ میں نے اسٹیشن پر ان لمحات کا انتظار بے چینی سے کیا ہے جیسے کہ، اپنے چہرے پر چلنے والی آندھی کی ہوا، بارش کا احساس، اپنے پیروں پر ساحلی ریت کا لمس اور سمندر پر سرفنگ کرتے ہوئیآنے والی آوازیں (خلاء میں ریڈیو فریکوئنسی کی مدد کے بغیر آوازیں نہیں سنی جاسکتیں) اب گیارہ ماہ بعد میں اپنے اصل گرم شاور میں نہانے اور انگلیوں پر پانی کے بہنے کے لمبس کی پھر سے منتظر تھی۔
اپنے ریکارڈ کے بارے میں کوچ کہتی ہیں کہ میرے لیے یہ بہت بڑا اعزاز ہے۔ خواب دیکھنے والوں کے لیے کرسٹینا کوچ کا پیغام ہے کہ ’’آپ جو بھی خواب دیکھتے ہیں، ان کی پیروی کریں! اپنے آپ سے سچّے اور مخلص بنیں، اپنی پسند اور زندگی کے بارے میں بات کریں جس کا کہ آپ تصور کرتے ہیں!‘‘
فروری میں نارتھ روپ کا ’’سائی جینئس‘‘ کارگو طیارہ لاؤنچ کیا جارہا ہے جس سے خلائی اسٹیشن میں سامان کی ترسیل ہوسکے گی۔ اب مورگن اور میر دونوں اپنے آپ کو اس نئے مشن کے لیے تیار کررہے ہیں جس میں اسٹیشن اور ان کے لیے رسد پہنچنے والی ہے۔ اس کے کارگو میں کئی ٹن وزنی سائنسی تجرباتی آلات اور پرزے اور عملے کے لیے سپلائی رکھی گئی ہے جس کی مالیت کا اندازہ8,000 ہزار پاؤنڈ ہے۔
The post کیسا گزرا خلاء میں وقت! appeared first on ایکسپریس اردو.